مجاز خانہ بدوش

حسان خان

لائبریرین
بستی سے تھوڑی دور چٹانوں کے درمیاں
ٹھہرا ہوا ہے خانہ بدوشوں کا کارواں
ان کی کہیں زمین نہ ان کا کہیں مکاں
پھرتے ہیں یونہی شام و سحر زیرِ آسماں
دھوپ اور ابر و باد کے مارے ہوئے غریب
یہ لوگ وہ ہیں جن کو غلامی نہیں نصیب
اس کارواں میں طفل بھی ہیں نوجواں بھی ہیں
بوڑھے بھی ہیں مریض بھی ہیں ناتواں بھی ہیں
میلے پھٹے لباس میں کچھ دیویاں بھی ہیں
سب زندگی سے تنگ بھی ہیں سرگراں بھی ہیں
بیزار زندگی سے ہیں پیر و جواں سبھی
الطافِ شہریار کے ہیں نوحہ خواں سبھی
ماتھے پہ سخت کوشیِ پیہم کی داستاں
آنکھوں میں حزن و یاس کی گھنگھور بدلیاں
چہروں پہ تازیانۂ افلاس کے نشاں
ہر ہر ادا سے بھوک کی بیتابیاں عیاں
پیسہ اگر ملے تو حمیّت بھی بیچ دیں
روٹی کا آسرا ہو تو عزت بھی بیچ دیں
اٹھے ہیں جس کی گود سے آذر وہ قوم ہے
توڑے ہیں جس نے چرخ سے اختر وہ قوم ہے
پلٹے ہیں جس نے دہر کے دفتر وہ قوم ہے
پیدا کیے ہیں جس نے پیمبر وہ قوم ہے
اب کیوں شریکِ حلقۂ نوعِ بشر نہیں
انساں ہی تو ہیں یہ کوئی جانور نہیں
آخر زمانہ ان کو ستائے گا کب تلک؟
کب سے جلا رہا ہے جلائے گا کب تلک؟
کب سے مٹا رہا ہے مٹائے گا کب تلک؟
ان کے لہو کو جوش نہ آئے گا کب تلک؟
مایوسیوں کی تہ میں جنوں خیزیاں بھی ہیں
افلاس کی سرشت میں خونریزیاں بھی ہیں
(اسرار الحق مجاز)
۱۹۳۵ء
 

طارق شاہ

محفلین
حسان خان صاحب!
مجاز صاحب کی اس پُراثر، اوراحساسات کو چُھوتی نظم کے انتخاب اور پیشکش پر
بہت سی داد قبول کیجئے۔

تشکّر شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں
 
Top