سکینہ اسٹیج پرتھی اور میں شامیانےمیں۔ جدھر دیکھو عورتیں ہی عورتیں تھیں اور میں اپنے کو بے جگہ محسوس کررہا تھا۔
" تفسیر جی"۔ کسی نے کہا۔
میں نے آواز کی جانب نگاہ کی۔
" آداب عرض ہے"۔
میری ایک ہم عمر عورت مجھ سے مخاطب تھی ۔
" آداب "۔ میں نے سر کو ہلاتے ہوئے کہا۔
میرا نام ساجدہ ہے اور میں“ راوا “ کےاسپتال میں کام کرتی ہوں۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں۔
میں نے اپنا ہاتھ ملانے کےلئے بڑھایا۔ لیکن اسکا ہاتھ آگےنہ بڑھا۔ میں نےاپنا ہاتھ شرمندگی سےگرادیا۔
"بُرا نا مانیں - اگر میں آپ کو پاکستان سے باہر ملتی تو نہ صرف آپ سے ہاتھ ملاتی بلکہ گلےلگ جاتی ، آپ میرے ہیرو ہیں۔ آپ ہی کی وجہ ہے کہ میں نیویارک کے بجائے یہاں پریکٹس کر رہی ہوں۔
مجھ کوحیرت میں دیکھ کر وہ ہنسی۔ " میں آپ کو اس لئے جانتی ہوں کہ دو سال پہلےنیویارک میں نے, آپکی کتاب ' پختون کی بیٹی ' پڑھی تھی۔اس کے پچھلےصفحہ پر آپکی تصویر تھی۔ میں اس کتاب کو پڑھ کر بہت روئی تھی۔ اوراُسی دن میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میڈیکل کالج ختم کرنے کے بعد میں پاکستان میں پریکٹس کروں گی اور اپنی بہنوں کی خدمت کروں گی"۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسے موقع پر کیا کہا جاتاہے۔ پہلی بار زندگی میں میرے ساتھ یہ ہورہا تھا۔ میں خاموش رہا۔
" میں نے آپ کی کوئی دوسری کتاب نہیں دیکھی۔ کیا آپ اب بھی لکھتے ہیں؟