غالب حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

ماہی احمد

لائبریرین
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں
چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پُو چھتا ہوں کہ “ جاؤں کدھر کو مَیں“
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو مَیں
ہے کیا، جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہُوں تمھاری کمر کو مَیں
لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ ’یہ بے ننگ و نام ہے‘
یہ جانتا اگر، تو لُٹاتا نہ گھر کو مَیں
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پُوجتا ہوں اس بُتِ بیداد گر کو مَیں
پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو مَیں
اپنے پہ کر رہا ہُوں قیاس اہلِ دہر کا
سمجھا ہوں دل پذیر متاعِ ہُنر کو میں
غالبؔ خدا کرے کہ سوارِ سمندرِ ناز
دیکھوں علی بہادرِ عالی گُہر کو میں
 
آخری تدوین:
لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ ’یہ بے ننگ و نام ہے‘
یہ جانتا اگر، تو لُٹاتا نہ گھر کو مَیں
کیا ہی کہنے
کلام غالب کی یہ خصوصیت ہے جتنی بار بھی پڑھیں ایک نئی تازگی کا احساس ہوتا ہے اور یہ ہی خصوصیت غالب کو معاصرین میں ممتاز کرتی ہے مختصر یہ کہوں گا کہ غالب کے کلام میں ہمہ گیری ہے جو زماں و مکاں کی پابندیوں سے ماورا ہے
شراکت کا شکریہ :)
شاد و آباد رہیں
 

ماہی احمد

لائبریرین
لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ ’یہ بے ننگ و نام ہے‘
یہ جانتا اگر، تو لُٹاتا نہ گھر کو مَیں
کیا ہی کہنے
کلام غالب کی یہ خصوصیت ہے جتنی بار بھی پڑھیں ایک نئی تازگی کا احساس ہوتا ہے اور یہ ہی خصوصیت غالب کو معاصرین میں ممتاز کرتی ہے مختصر یہ کہوں گا کہ غالب کے کلام میں ہمہ گیری ہے جو زماں و مکاں کی پابندیوں سے ماورا ہے
شراکت کا شکریہ :)
شاد و آباد رہیں
جزاک اللہ :)
 
Top