امیرالاسلام ہاشمی حیا گرتی ہوئی دیوار تھی، کل شب جہاں میں تھا

امیرالاسلام ہاشمی

حیا گرتی ہوئی دیوار تھی، کل شب جہاں میں تھا
نظر اُٹھنا بہت دشوار تھی، کل شب جہاں میں تھا

جنہیں ساڑھی میں آنا تھا وہ پتلونوں میں آئیں تھیں
تمیز مرد و زن دشوار تھی کل شب جہاں میں تھا

نظر کے کوفتے رخ کے پراٹھے وصل کے شربت
مکمل دعوت دیدار تھی کل شب جہاں میں تھا

زلیخائیں بضد تھیں ایک یوسف کے لیے یارو
بڑی ہی گرمیِ بازار تھی کل شب جہاں میں تھا

پلس سیون کا چشمہ فٹ کیے تھے دیدہ ور سارے
نظر اپنی بھی نمبر دار تھی کل شب جہاں میں تھا

تھرکنے ناچنے ٹھمکے لگانے کے تھے سب ماہر
ثقافت بر سرِ پیکار تھی کل شب جہاں میں تھا

ڈھکے تھے جسم نازک کے جو حصے ان کے اندر بھی
بلا کی حسرتِ اظہار تھی، کل شب جہاں میں تھا


جنابِ شیخ بھی پیاسے نظر آتے تھے شدت سے
طہارت بر سرِ پیکار تھی، کل شب جہاں میں تھا

کسی فرہاد کو حاجت نہ تھی تیشہ اُٹھانے کی
ہر اِک شیریں بیاں تلوار تھی کل شب جہاں میں تھا
 
Top