پیش لفظ بر طبعِ اوّل
(از مولانا عبدالماجد دریا بادی)
[align=justify:a5a8a59a34]
دیباچہ ، تعارف ، پیش لفظ کی فرمائش کچھ نئی نہیں ، آئے دن ہوتی ہی رہتی اور تعمیل بھی کبھی طوعاً کبھی کرہاً ، کبھی بادلِ ناخواستہ کرنی ہی پڑتی ہے ۔ حیاتِ قائدِ ملت کے پیش لفظ کی جب فرمائش ہوئی تو دل نے اپنے اندر کوئی امنگ اور شوق محسوس نہ کیا ، بلکہ یہ خیال گذرا کہ یہ بھی انھی رسمی فرمائشوں کی قسم کی کوئی چیز ہوگی ، مگر خیر نام تو بہادر مسلمان کا درمیان میں آگیا ہے اس لئے لکھ دینا تو کچھ نہ کچھ بہرحال ہے ---------- مسودہ آیا اور اس خیال کے ماتحت فرصت کے انتظار میں کئی دن یونہی پڑا رہا ۔ آج کھولا تو اپنی آنکھیں بھی کُھلیں ، بدگمانی دُور اور گرانئ طبع کافُور ہوئی ۔ خیال کو اپنی غلطی محسوس ہوئی ۔ شوق و نشاط کی مدد سے کتاب ایک نشست میں کہنا چاہئیے کہ شروع سے آخر تک پڑھ ڈالی۔[/align:a5a8a59a34]
(جاری ۔ ۔ ۔ )