hakim-saeed-jaisay-log-by-javed-chaudhry.gif

جاوید چودھری کا ایک اور خوبصورت کالم
 

عاطف بٹ

محفلین
حکیم صاحب واقعی ایک بہت شاندار شخصیت کے مالک تھے۔ نسلِ نو کی تربیت کا بیڑا اٹھا کر اور علم کے چراغ جلانے کے لئے اپنی زندگی وقف کر کے انہوں نے بلاشبہ ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا جس کے لئے یہ قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
حکیم محمد سعید سے میرا بھی پہلا تعارف نونہال ہی کے واسطے سے تھا۔ ہمارے گھر بچوں کے دیگر رسالوں کے ساتھ ساتھ نونہال بھی آیا کرتا تھا۔ اب بھی بہت سے میگزین پڑے ہیں۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیئے!
:(
 

سید زبیر

محفلین
حکیم سعید ایک ایسے عظیم انسان تھے کہ جنہینں دیکھ کر زندگی حسین لگتی ہے ،زندگی سے پیار ہو جاتا ہے ۔آپ چاہیں نو نہال میں انہیں دیکھیں یا مطب میں سراپا شفقت ۔ سراپا محبت ۔ ۔ ۔نفرت کا سایہ تو قریب بھی نہ تھا اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے (آمین)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ویسے آج مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے کہ آج کےے دن اتنی بڑی شخصیت کو ہم سے چھین لیا گیا تھا اور ہماے میڈیا نے اُس کے بارے میں ایک چھوٹی سی خبر چلانا بھی کیا اپنی توہین سمجھا؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
hakim-saeed-jaisay-log-by-javed-chaudhry.gif

جاوید چودھری کا ایک اور خوبصورت کالم

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑے مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
(علامہ اقبال)

ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام تیرا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
(احمد فراز)
 
آج بھی میں نونہال اور ہمدرد صحت بہت شوق سے پڑھتی ہوں
میں سمجھا محسن نقوی کا دیوان پڑھ رہی ہیں آجکل۔۔:rolleyes:
ویسے آج کے نونہال اور 1980 اور 1990 کے نونہال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
آج بھی میں جب بازار سے کوئی طبی چیز لینے جاؤں تو میں ہمدرد کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ میں جب ہمدرد والوں کی کوئی چیز خریدتا ہوں تو مجھے عجب سا سکون ملتا ہے
آپ میری سائٹ سے ہمدرد کی تمام کتب اور پرانے رسائل مفت اٹھائیں ڈبل سکون ملے گا۔۔:bighug:
ویسے مجھے آج کسی بھی ٹی وی چینل پہ کچھ خاص سننے کو نہیں ملا حکیم صاحب کے بارے میں جبکہ سیف اور کرینہ کی شادی کی خبر تو کئی دفعہ سُن چکا ہوں۔
بلال بھائی ایسا ہی ہے۔ مجھے تو کل لیاقت علی خان کی کوئی نیوز دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہاں بھٹو کی برسی پر میڈیا ایک ہفتے پہلے سے راگ الاپنا شروع کردے گا۔۔:)
میں بھی نونہال ہوں
میں سمجھا کہ آپ کے نونہال ہوں گے۔۔۔:eek:
 
بلال بھائی ایسا ہی ہے۔ مجھے تو کل لیاقت علی خان کی کوئی نیوز دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہاں بھٹو کی برسی پر میڈیا ایک ہفتے پہلے سے راگ الاپنا شروع کردے گا۔۔:)
جاوید چودھری نے اپنے پروگرام میں ذکر کیا تھا۔
آپ میری سائٹ سے ہمدرد کی تمام کتب اور پرانے رسائل مفت اٹھائیں ڈبل سکون ملے گا۔۔:bighug:
بہت مہربانی۔شکریہ نوازش
آپکی سائٹ پر حکیم محمد سعید کی کتابیں بھی ہیں؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں سمجھا محسن نقوی کا دیوان پڑھ رہی ہیں آجکل۔۔:rolleyes:
ویسے آج کے نونہال اور 1980 اور 1990 کے نونہال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

آپ میری سائٹ سے ہمدرد کی تمام کتب اور پرانے رسائل مفت اٹھائیں ڈبل سکون ملے گا۔۔:bighug:

بلال بھائی ایسا ہی ہے۔ مجھے تو کل لیاقت علی خان کی کوئی نیوز دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہاں بھٹو کی برسی پر میڈیا ایک ہفتے پہلے سے راگ الاپنا شروع کردے گا۔۔

سو فیصد متفق:)

میں سمجھا کہ آپ کے نونہال ہوں گے۔۔۔ :eek:
 

وجی

لائبریرین

حکیم محمد سعید۔ تصویر بشکریہ ہمدرد فاونڈیشن
یہ سترہ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کی ایک صبح کا ماجرہ ہے، جب سپیدہ سحر پوری طرح نمودار بھی نہیں ہوا تھا۔ حکیم محمد سعید اپنی سفید گاڑی میں اپنے آرام باغ میں واقع اپنے مطب پہنچے۔ گاڑی سے اترے اوراپنی ٹوپی اپنے ایک معاون کے ہاتھ میں دی اور مطب کی طرف بڑھنے لگے ۔
اسی دوران نیم اندھیرے میں آتشیں ہتھیاروں نے شعلے اُگلے اور کئی گولیاں حکیم سعید کے جسم میں پیوست ہوگئیں۔ پھر دنیا نے یہ دلخراش منظر بھی دیکھاکہ لاکھوں لوگوں کا علاج کرنے والے مسیحا کی لاش ایک گھنٹے تک سڑک پر پڑی رہی۔
پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج، سماجی کارکن اور مصنف حکیم محمد سعید نے نو جنوری انیس سو بیس کو دہلی میں آنکھ کھولی۔ دو برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ بچپن شرارتوں میں بیتا پھر اظہارِ ذہانت شروع ہوا۔
لکنت سے زبان لڑکھڑاتی تھی تو اپنی قوتِ ارادی اور مسلسل مشق سے اپنی ہکلاہٹ پر قابو پایا۔ زمانے کا شعور ہوا تھا تو سر میں کئی پہاڑ سر کرنے کا سودا سمایا۔ طب و حکمت میں قدم رکھتے ہوئے اپنے بھائی کیساتھ ملکر اپنے والد کے قائم کردہ ادارے ہمدرد کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔
پھر یوں ہوا کہ ہمدرد کا نام تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں پھیلتا چلا گیا۔ سعید پہلے صحافی بننا چاہتے تھے لیکن خاندانی کام کو آگے بڑھانے کے لئے اس سے وابستہ ہوئے۔
پاکستان بننے تک ہمدرد ایشیا میں طبی ادویہ کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا تھا۔
تقسیم کے بعد جب انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت شروع ہوئی تو سعید نے تمام کاروبار، عیش وآرام اور دولت چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیااور نو جنوری انیس سو اڑتالیس کو کراچی آگئے۔
شہزادہ سدارتھ کی طرح وہ سب کچھ خیرباد کہہ کر جب کراچی آئے تو دہلی میں پیکارڈ کار پر سفر کرنے والے محمد سعید نے اپنے ساتھ لائی ہوئی روح افزا اور گرائپ واٹر کی شیشیاں بیچنے کے لئے شہر کا چپہ چپہ چھان مارا، یہاں تک کہ ان کے جوتوں میں سوراخ ہوگئے۔
پچاس روپے مہینہ پر ایک دکان اور ساڑھے بارہ روپے ماہانہ پر فرنیچر کرائے پر لے کراپنے کام کا آغاز کیا۔ پھر ناظم آباد میں المجید سینٹر کی بنیاد ڈالی جس نے ہمدرد فاونڈیشن کی راہ ہموار کی اور حکیم محمد سعید نے اس ادارے کو بھی خدمتِ کے لیے باقاعدہ وقف کردیا۔ طبِ یونانی کا فروغ اور اسے درست مقام دلوانا حکیم محمد سعید کی زندگی کا اہم مشن رہا۔
گورنر سندھ بننے کے بعد بھی پاکستان بھر میں اپنے مریضوں کو باقاعدہ دیکھتے اور ان کا مفت علاج کرتے رہے۔ اسی طرح ضیاالحق کے دور میں وہ وزیر بننے کے بعد بھی کراچی ، لاہور، سکھر اور پشاور میں مطب کرتے رہے۔ سرکاری گاڑی نہیں لی اور نہ ہی رہائش یہاں تک کہ وہ غیر ملکی زرِ مبادلہ جو انہیں سرکاری خرچ کے لئے ملا تھا وہ بھی قومی خزانے کو واپس کردیا۔
محترمہ فاطمہ جناح نے چودہ اگست انیس سو اٹھاون میں ہمدرد کے طبی کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا جس سے ہزاروں معالج فارغ ہوکر لوگوں کا علاج کررہے ہیں۔حکیم محمد سعید نے طب اور ادویہ سازی کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا۔
حکیم محمد سعید بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور بچے بھی ان کے دیوانے ٹھہرے۔ یہاں تک کہ پشاور کا ایک بچہ والدین کی ڈانٹ پر گھر سے یہ کہہ کر نکل آیا کہ میں کراچی میں حکیم سعید کے پاس جارہا ہوں۔ قولِ سعید ہے کہ بچوں کو عظیم بنادو، پاکستان خود بخود بڑا بن جائے گا۔
انہوں نے بچوں کی تربیت کے لئے رسالہ ہمدرد نونہال جاری کیا اور بزمِ نونہال کے ہزاروں پروگرامز کے ذریعے ان کی اصلاح اور تربیت کا سامان کیا۔ ساتھ ہی ہمدرد نونہال ادب کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں کتابیں شائع کیں ۔ سچی ڈائری کے عنوان سے بچوں کے لئے کتابیں شائع کرکے اپنی زندگی کے دن رات بیان کردئے۔
گزرتے وقت کے ساتھ ہی حکیم محمد سعید کے دل میں علم و حکمت کے فروغ کی تڑپ بڑھتی رہی اوروہ جنون میں بدل گئی-
کراچی میں مدینتہ الحکمت نامی منصوبہ بھی اسی دیوانگی کا نتیجہ ہے جہاں آج بیت الحکمت کے نام سے ایک بہت بڑی لائبریری، یونیورسٹی ، کالجز، اسکول اور دیگر اہم ادارے قائم ہیں۔ سائنس و ثقافت اورعلم و حکمت کا یہ شہر آج بھی اس شخص کی یاد دلاتا ہے جس کے عزم وعمل نے ریگستان کو ایک علمی نخلستان میں بدل دیا۔
بزمِ ہمدرد نونہال، ہمدر د شوریٰ، شامِ ہمدرد اور ہمدرد نونہال اسمبلی جیسے ماہانہ پروگراموں میں ممتاز عالموں ، علمائے سائنس ، ادیبوں اور دانشوروں کو مدعو کرکے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کے فکری نظریات کو عام آدمی تک بھی پہنچایا۔
حکیم محمد سعید نے دنیا بھر کا سفر کیا اور لاتعداد اہل علم کو اپنا دوست بنایا ۔ وہ ہرسال دنیا بھر میں تقریباً دس ہزار افراد کو عیدین اورنئے سال کے کارڈ بھجوایا کرتے تھے۔ جواہر لعل نہرو، سرمحمد ظفراللہ خان،ایان اسٹیفن، شاہ حسین، جوزف نیدھم، ڈاکٹر اکبر ایس احمد، سید حسن نصر، فاطمہ جناح اور دیگر ہزاروں شخصیات ان کے مداحوں میں شامل تھے۔
ممتاز قلمکار ستار طاہر ، حکیم محمد سعید کی زندگی پر تحریر کردہ اپنی ایک کتاب میں ان کی آخری خواہش اس طرح بیان کرتے ہیں۔
میں ایسے حال میں فرشتہ موت کا استقبال کرنا چاہتا ہوں کہ میری نگاہوں کے سامنے ہمدرد اسکول اور الفرقان میں پانچ ہزار بچے تعلیم پارہے ہوں۔ ہمدرد یونیورسٹی امتیازات کے ساتھ ہزار ہا نوجوانوں کو انسانِ کامل بنارہی ہو۔ اور یہ جوان دنیا بھر میں پھیل کر آوازِ حق بلند کرنے کی تیار ی کیلئے کمر بستہ ہوں۔
حکیم محمد سعید کی خوش قسمتی کہ ان کی یہ خواہش ان کی زندگی میں پوری ہوئی لیکن ان کے قاتل آج بھی آزاد ہیں۔
بشکریہ:ڈان
حسیب نذیر گِل صاحب آپ نے بہت خوب لکھا ہے
حکیم سعید صاحب کے بارے میں کہیں میں نے پڑھا تھا کہ وہ سفید شیروانی کا استعمال اسلیئے کرتے تھے کہ اس سفید رنگ پر داغ صاف نظر آجاتا ہے
اور اگر ان پر کوئی داغ ہے تو وہ اسکو چھپانا نہیں چاہینگے بلکہ اسکو صاف کرینگے
 
یہ میں نے نہیں لکھا بلکہ ڈان سے مضمون لیا ہے نیچے ربط بھی دیا ہے۔
حکیم سعید صاحب کے بارے میں کہیں میں نے پڑھا تھا کہ وہ سفید شیروانی کا استعمال اسلیئے کرتے تھے کہ اس سفید رنگ پر داغ صاف نظر آجاتا ہے
اور اگر ان پر کوئی داغ ہے تو وہ اسکو چھپانا نہیں چاہینگے بلکہ اسکو صاف کرینگے
زبردست کیا لاجواب شخصیت تھی انکی
 

وجی

لائبریرین
یہ میں نے نہیں لکھا بلکہ ڈان سے مضمون لیا ہے نیچے ربط بھی دیا ہے۔
زبردست کیا لاجواب شخصیت تھی انکی
چلیں ہم یوں کہ دیتے ہیں بہت شکریہ یہاں پوسٹ کرنے کا
آپ جیسے پڑھنے والوں اور پوسٹ کرنے والوں کی وجہ سے ہم بھی کچھ اچھی چیزیں پڑھ لیتے ہیں
شکریہ
 
شہید پاکستان حکیم محمد سعید از عدنان اشرف ایڈوکیٹ
17 اکتوبر شہید اور سعید پاکستان حکیم محمد سعید کا یومِ شہادت ہے۔
حکیم صاحب 1948 میں تمام تر خاندانی اور سیاسی مخالفتوں کے سب کچھ چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان آئے۔ آرام باغ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہمدرد فائونڈیشن کا کام شروع کیا، جس مکان کو اپنا مسکن بنایا تھا، مرتے دم تک اسی میں مقیم رہے۔ نصف صدی میں جو کچھ کمایا، خلقِ خدا پر خرچ کردیا۔ اپنے نام کوئی اثاثہ نہیں رکھا۔ نصف کروڑ کے قریب مریضوں کا طبی معائنہ کیا، کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔ 12 روپے سے ادارے کی بنیاد رکھی، بیوی کا زیور بیچ کر اس کی ترقی و ترویج کی اور اسے وقف برائے پاکستان کردیا۔ حکیم صاحب ایک درویش صفت انسان، سچّے مسلمان، حافظِ قرآن اور پکے پاکستانی تھے۔ دنیاوی شہرت سے لاتعلق اور بے نیاز کثیر الجہات اور جامع الکمالات شخصیت کے مالک تھے۔ طب اور تعلیم ان کے بنیادی ہدف تھے۔
انصاف کے شعبے سے متعلق بھی انھوں نے کلیہ قانون کے علاوہ کامرس اور اکنامکس کے شعبے رکھے ہیں۔ ہمدرد ایگری کلچر اور انڈسٹریل سٹی بھی قائم کی ہے۔ نصف صدی سے زیادہ پر محیط اپنی عملی اور جہدِ مسلسل پر مبنی زندگی میں دو سو سے زاید تصانیف تحریر کیں۔ ریسرچ پیپرز اور بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کی۔ شام ہمدرد کے ذریعے پاکستان میں فکری انقلاب برپا کیا۔ ہمدرد رسائل و جراید کے ذریعے فکر و عمل کی دعوت دی۔ اردو زبان کی ترقی و ترویج اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے انتھک محنت کی۔
ہمدرد فائونڈیشن شاید پاکستان کا واحد ادارہ ہے جہاں ادارے کے سربراہ سے لے کر چپڑاسی تک تمام خط و کتابت، دفتری اور انتظامی امور اردو میں سرانجام دیتے ہیں۔ جہاں دوست، جواناں امروز، ہمدرد مجلسِ شوریٰ، بزمِ ہمدرد نونہال کے ذریعے ادنیٰ و اعلیٰ پاکستانیوں میں فکری انقلاب کی داغ بیل ڈالی۔ حکیم صاحب نے جن اداروں کی بنیاد ڈالی تھی وہ ان کے فکری ترجمانی کے فرائض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے علم کے جو بھی پودے لگائے تھے وہ اب تناور درخت بن کر تعمیر و ترقی کی راہ میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ حکیم سعید صحت و تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔
کتابیں اور کتب خانے ان کی شناخت تھیں۔ مدینۃ الحکمت میں سب سے پہلے بیت الحکمت لائبریری تیار کرائی گئی جو پاکستان کی بڑی جدید اور سائنٹیفک لائبریری ہے۔ بدقسمتی سے برقی میڈیا ملک میں غیر ملکی تہذیب کا سیلاب لے آیا ہے۔ علم کے بجائے معلومات اور انگریزی زبان کے ذریعے معاشی ترقی کے مواقع تو ضرور میسر آگئے ہیں لیکن اس نے ہماری تہذیبی اور لسانی جڑوں کو دیمک زدہ کردیا ہے۔ مطالعے کی ضرورت اور شوق غیر ضروری سمجھے جانے لگے ہیں۔ مشرقی اقدار اور علوم دونوں سے ناتا ختم ہوتا جارہا ہے، جو فکر سعید کی نفی ہے۔ حکیم صاحب تو جہاز کے سفر سے لے کر ٹرانزٹ لائونج تک کتاب و قلم سے تعلق جوڑے رکھتے تھے۔ ہر وقت حصولِ علم، ترسیلِ علم اور غوروفکر میں مشغول رہا کرتے تھے۔
مدینۃ الحکمت کا خیال بھی ان کے دل میں اس وقت آیا تھا جب وہ حرم شریف میں بیٹھے اس کے اطراف پر غور کررہے تھے۔ پہاڑوں میں گِھرے بیت اﷲ اور جس جگہ آج مدینۃ الحکمت قائم ہے، اس میں حکیم صاحب کو جغرافیائی مماثلت نظر آئی، لہٰذا انھوں نے وہاں پر ہمدرد یونیورسٹی کے قیام کا ارادہ کرلیا۔ حکیم سعید نباضِ ملت اور مشرقی و اسلامی علوم پر ماہرانہ نظر رکھنے والے حافظِ قرآن، انسانیت دوست، شفیق مسیحا، محقق، دانشور، تاریخ دان، ماہرِ تعلیم، مصنف، مدبر، مدیر، مؤلف و مصنف اور اعلیٰ پائے کے منتظم تھے۔
ملک و ملت کا درد ان کے جگر میں سمایا ہوا تھا۔ اس مردِ حق نے یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھرپور کوششیں کیں اور یتیم و لاوارث بچّوں کے لیے ’’یہ بچّہ میرا ہے‘‘ کے نام سے ایک تحریک شروع کی اور ایسے لاوارث و یتیم بچوں کو صاحبِ حیثیت، صاحبِ کردار اور انسانیت کا جذبہ رکھنے والے افراد کی آغوش میں دے کر ان کا مستقبل محفوظ بنانے کی عملی کوششیں کیں اور باقاعدہ چھان بین اور قانونی معاہدات اور قدغن عاید کرنے کے بعد ان بچوں کو قانونی تحفظ کے بعد خواہش مند افراد کے سپرد کیا گیا۔ ان کے ادارے میں اہل طلبا کو اسکالر شپ دینے کے علاوہ یتیم اور بیوائوں کی امداد کا مربوط نظام بھی قائم ہے۔ حکیم صاحب اپنی گورنری کے دور میں بھی مریضوں کو اسی طرح دیکھتے رہے۔ آخری مریض کو دیکھے بغیر نہیں جاتے تھے۔
ہر خط کا جواب خود تحریر کرتے تھے۔ بچوں کے ساتھ اسٹول پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ ان میں ہر دل عزیز تھے۔ جب انھیں گورنر بنایا گیا اور اس کی اطلاع دینے کے لیے ان کے گھر فون کیا گیا تو وہ سورہے تھے، حکام کو بتایا گیا کہ حکیم صاحب سورہے ہیں، صبح تہجد میں اٹھیں گے، اس سے قبل بات ممکن نہیں ہے۔ ان کے تعلیم سے لگائو کا یہ حال تھا کہ اپنی گورنری کے مختصر ترین دور میں 4 یونیورسٹیز کی منظوری دی۔ حکیم محمد سعید پاکستان میں کراچی اور دنیا میں پاکستان کی شناخت و فخر سمجھے جاتے تھے۔
ادنیٰ و اعلیٰ سے ایک رویہ تھا، انھیں ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز جیسے تمغوں سے بھی نوازا گیا لیکن ان تمغوں نے ان کی نہیں بلکہ حکیم صاحب کی شخصیت نے انھیں توقیر و افتخار بخشا۔ ایسی شخصیات ہی اپنے شعبوں کی حرمت قائم کرتی ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ان کا کوئی ہمسر دور دور تک دِکھائی نہیں دیتا لیکن اہلِ وطن ان کی خدمات کو صحیح طور پر سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ 17 اکتوبر کو شہید، سعید اور محسن و مسیحا حکیم محمد سعید کی 14 ویں برسی کا دن تھا جو انتہائی خاموشی یا فراموشی سے گزر گیا۔ اس دن تمام ٹی وی چینلز پر مذاکروں، مظاہروں، احتجاجوں میں سیاسی، سماجی، مذہبی شخصیات اور اکابرین 14 سالہ ملالہ کے تعلیمی عزم و ارادے پر تو خوب خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے بلکہ زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔
مذاکرے، بحثیں، نغمے اور عوامی ٹیلی فون کالز کے تانتے بندھے رہے۔ لیکن عظیم قومی مفکر، تعلیم دان اور محسن حکیم سعید سے متعلق کسی نے عقیدت و خلوص کے دو جملے بھی ادا نہیں کیے۔ ان کی تعلیمی و لسانی خدمات کے حوالے سے کوئی یاد تازہ نہیں کی گئی۔ ادارے نے البتہ حکیم سعید یادگاری خطبے کا انعقاد ضرور کیا جس میں عطا الحق قاسمی اور سینیٹر حسیب احمد نے شرکت کی اور مرحوم کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا۔ خدا جانے ہم محسن شناس کب ہوں گے؟ ایک ایسا شخص جو 6 گھنٹے سوتا، دو وقت کا کھانا کھاتا تھا اور فجر کے بعد سے انسانیت کی فلاح و مسیحائی میں لگ جاتا تھا کسی صلے، ستایش اور آسایش کی تمنّا نہ رکھتا تھا، ایسے شخص کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔ پاکستانی قوم کی بدنصیبی ہے اگر وہ زندہ رہتے تو قوم کے لیے اور بہت کچھ کرجاتے۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
 
Top