حکومت کی اجازت کے بغیر نیٹو حملوں کا ازخود جواب نہیں دے سکتے۔ ائیر چیف

محسن حجازی

محفلین
حکومتی احکامات کے پابند ہیں ، نیٹوکی طرف سے سرحدی خلاف ورزیوں پر فضائیہ خود کارروائی نہیں کرسکتی، ایئرچیف

لاہور(نمائندہ جنگ) ایئرچیف مارشل تنویر احمد نے کہا ہے کہ نیٹو فورسز کی طرف سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر پاک فضائیہ از خود کوئی کارروائی نہیں کرسکتی، ہم حکومتی پالیسیوں اور احکامات کے پابند ہیں، وہ گزشتہ روز پاک فضائیہ کے کالج آف ایجوکیشن کی افتتاحی تقریب کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے، ایئر چیف مارشل تنویر احمد نے کہا کہ فضائی حدود کی خلاف ورزی کے معاملات سفارتی کوششوں سے حل ہونے چاہئیں جس کیلئے حکومت کوشش کررہی ہے اور امید ہے کہ جلد معاملات درست ہوجائینگے۔انہوں نے کہاکہ حکومت کی اجازت سے قبائلی علاقوں میں کردار ادا کریں گے، انہوں نے مزید کہا کہ سرحدی خلاف ورزی پر جوابی کارروائی کے لئے ہم حکومتی پالیسیوں کے پابند ہے۔ تاہم سرحدی حدود کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے مبالغہ آرائی بھی بہت ہورہی ہے۔اس بارے میں صورتحال پر تحمل اور نتائج پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا حکومت نے سفارتی سطح پر بتانا ہے کہ ان حملوں کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں بھٹکے ہوئے لوگ راہ راست پر آ جائیں اور حالات بہتر ہو جائیں۔

اصل خبر

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
یہ مارشل لا بھی فوج حکومتوں سے پوچھ کر لگاتی ہے؟
بھٹو کو پھانسی بھی حکومت سے پوچھ کر دی گئی تھی؟
نواز حکومت کا خاتمہ بھی حکومت سے پوچھ کر کیا گیا تھا؟
کیا دشمن حدود میں گھس آئے تو آپ پہلے اوپر فون ملاتے رہیں گے اتنی دیر میں چاہے سب تہس نہس ہو جائے؟
آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟
میرا خیال یہ ہے کہ فوج خود بھی امریکی ایجنڈے پر ہے۔
 

خاور بلال

محفلین
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ پاکستان آرمی اس وقت جہاد بالشعور کررہی ہے اور اس جہاد میں‌ہر وہ کام منع ہوتا ہے جس میں آزمائش کے معمولی سے بھی امکانات ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پسِ پردہ پاک آرمی نے ہی یہ پروگرام بنایا ہوکہ امریکا کے ذریعے حملے کروائے جائیں اس سے سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ آرمی کے تاثر سے تو یہی لگتا ہے ورنہ اگر ایسی کاروائ انڈیا کی جانب سے ہوتی تواب تک یہ سیاپا ڈال دیتے۔
 

امکانات

محفلین
پاک فضائیہ کے پاس امریکی حملے کا کوئی توڑ نہیں امریکہ کی برتری فضائی قوت ہی کی وجہ سے ہے پاکستان کے پاس نیٹو کی سپلائی بند کر نے کا آپشن تھا یہ بھی کب تک آخر روزی روٹی کا سوال ہے
 

آبی ٹوکول

محفلین
پاکستان افغانستان اور عراق کی طرح دہشتگردی کے خلاف میدان جنگ ہے۔ بش
2008-09-09 07:48:58 :تاریخ اشاعت

آئندہ چند ماہ میں آٹھ ہزار امریکی فوجی عراق سے واپس بلا لئے جائیں گے

صدر بش نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان اور عراق کی طرح دہشتگردی کے خلاف میدان جنگ ہے۔ وائٹ ہائوس سے جاری کردہ بیان میں امریکی صدر بش نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی کی جنگ میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

بیان میں کہاگیاکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان، افغانستان اور عراق امریکا کے لئے بڑے چیلنجز ہیں۔ صدر بش کا کہنا تھا کہ تینوں ممالک ایک جیسی صورتحال سے دو چار ہیں اور ان ملکوں میں انتہا پسند عوام پر اپنے نظریات لاگو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج جنوری تک عراق میں رہے گی۔ لیکن آئندہ چند ماہ میں آٹھ ہزار امریکی فوجی عراق سے واپس بلا لئے جائیں گے۔ صدر بش نے کہا کہ مزید ساڑھے چار ہزار امریکی فوجی افغانستان بھیجے جائیں گے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اب تو یہ لوگ کھل کر پاکستان کو میدان جنگ قرار دے رہے ہیں پہلے تو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک اہم اتحادی ہے اور اب کھل کر کہہ دیا کہ میدان جنگ ہے ۔ ۔ ۔
انھی کی شہہ پر اب افغانی ٹٹو بھی کھل کر بیان داغنے لگے ہیں ۔ ۔ ۔درج زیل بیان دیکھیے ۔ ۔ ۔
دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی سرزمین پر حملے ضروری ہیں۔ افغانستان
2008-09-09 07:57:03 :تاریخ اشاعت
دہشت گردوں کو پاکستانی خارجہ پالیسی پر اثر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا

افغانستان نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی سرزمین پر حملے ضروری ہیں افغان وزیر خارجہ رنگین داد فراسپانٹا نے برلن میں جرمن ہم منصب کے ساتھ بات چیت کے بعد صحافیوں سے کہا کہ جنگجوئوں کے خلاف جنگ کا رخ پاکستان کی جانب موڑنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی جڑیں پاکستان میں ہیں۔ جرمن وزیر خارجہ فرینک والٹر اسٹین مئیر نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے نظریاتی اور عسکری تربیتی مراکز پاکستانی پہاڑوں پر ہیں جن کی سرگرمیوں کو روکنے کی ضرورت ہے والٹر اسٹین مئیر کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو پاکستانی خارجہ پالیسی پر اثر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا۔

افغانستان کی صورتحال خطرناک ہے جنگ کا دائرہ وسیع اور فوجی طاقت میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے اس موقع پر جرمن وزیر نے افغانستان کے لئے امداد میں اضافہ کا بھی اعلان کیا۔ افغانستان میں جرمنی کے تین ہزار تین سو فوجی تعینات ہیں۔
خبر کا اصل ربط درج زیل ہے ۔ ۔

خبر کا اصل ربط درج زیل ہے
http://www.geourdu.com/
 

مہوش علی

لائبریرین
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ پاکستان آرمی اس وقت جہاد بالشعور کررہی ہے اور اس جہاد میں‌ہر وہ کام منع ہوتا ہے جس میں آزمائش کے معمولی سے بھی امکانات ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پسِ پردہ پاک آرمی نے ہی یہ پروگرام بنایا ہوکہ امریکا کے ذریعے حملے کروائے جائیں اس سے سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ آرمی کے تاثر سے تو یہی لگتا ہے ورنہ اگر ایسی کاروائ انڈیا کی جانب سے ہوتی تواب تک یہ سیاپا ڈال دیتے۔

یہ جو آپ آج جہاد بالشعور کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو اگر آپ نے یہ جہاد بالشعور کر لیا ہوتا تو آج یہ دن ہی نہ دیکھنا پڑتا اور پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہوتی۔
یہ جہاد بالشعور [جس میں علمی و ٹیکنالوجی جہاد، تبلیغی جہاد وغیرہ سب شامل ہیں] نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ ان انتہا پسندوں نے ملک کو اُس گڑھے میں دھکیل دیا ہے کہ جس میں صرف تاریکیاں ہی تاریکیاں ہیں۔
اور آپ جیسے جہاد بالسیف پر اکسانے والے تو وہ ہیں جو کہ اپنی طاقت کی اتنی بڑی بڑی بڑکیں مارا کرتے تھے ۔۔۔۔۔ تو کیا آپ کا آج دم نکل گیا ہے کہ امریکہ حملے پر حملے کر رہا ہے اور آپ خود باہر نکل کر مقابلہ کرنے کے آج پاک آرمی کی دھائیاں دے رہے ہیں؟ تو کہاں ہے آج آپ کی طالبان؟ کیا آج بھی ماضی کی طرح پھر سے ہمیشہ کی طرح پہاڑوں میں مفرور ہے اور ہمیشہ کی طرح پاکستان کی معصوم شہری آبادی کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ گئی ہے؟

یہ ہمارے اپنے انتہا پسند ہیں کہ جنہوں نے امریکا کی یہ مصیبت قوم پر نازل کروائی ہے۔ اور کل جب میں کہتی تھی کہ آپ کی ان دہشت گردیوں کے نتیجے میں جب امریکہ آئے گا تو قوم و ملک کا بہت نقصان ہو گا، تو اُس وقت یہ لوگ مجھے بزدلی کے طعنے دیتے تھے، مگر آج خود بزدلوں کی طرح بیٹھے ہوئے صرف پاک فوج پاک فوج کی دھائیاں مچائے ہوئے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
ہاہاہا، اگر جواب دیں گے تو اور مار کھائیں گے، بہتر ہے خاموشی اختیار کر لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

زیک

مسافر
اس بیان کی تو ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیئے کہ فوج بغیر حکومت کی اجازت کے کسی دوسرے ملک کی فوج پر چاہے وہ سرحدوں کی خلاف‌ورزی ہی کیوں‌نہ کر رہی ہو حملہ نہیں کر سکتی کہ ایسا کرنے کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
اس بیان کی تو ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیئے کہ فوج بغیر حکومت کی اجازت کے کسی دوسرے ملک کی فوج پر چاہے وہ سرحدوں کی خلاف‌ورزی ہی کیوں‌نہ کر رہی ہو حملہ نہیں کر سکتی کہ ایسا کرنے کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔

حملہ نہ کرنے کے نتائج تو ہم بھگت ہی رہیں ہیں، کیا خیال ہے جوابی حملہ کر کے بھی مزہ چکھ لیں گے؟
 
میرے خیال میں امریکیوں کو بزوز طاقت روکنا لازم ہے۔ اگر روک نہیں‌ سکتے تو کوشش کریں اور نہیں‌تو کم سے کم برا تو جانیں،
ایمان کا کم تر درجہ ہے۔
انکو روکنا بزور بازو، سفارتی طور پر، احتجاج کرکے ہوگا۔ ایک دفاع جو سفارتی، سیاسی، سماجی ہر سطح پر ہو۔ اس کےلئے چین روس اور ہر اس ملک کی مدد درکار ہوگی جو ہمارا ہمدرد ہے۔
 

خرم

محفلین
کوئی بھی کسی بھی ملک کے اوپر حملہ اس کی حکومت کی آشیر باد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور اس میں پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں کہ ظالمان کے خطرہ کو سبھی محسوس کرسکتے ہیں۔ ان کی شرائط میں سے ایک شرفو کو ہٹانا تھی، وہ مان لی گئی ہے اس لئے اب سب ملکر ظالمان کے خلاف کاروائی میں حصہ ڈالیں گے اور جہاں پاک فوج کے لئے کاروائی کرنا مشکل ہوگا وہاں امریکہ کاروائی کرے گا۔ میرے خیال میں تو کچھ بھی حکومت کی مرضی اور اطلاع کے بغیر نہیں ہو رہا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میرے خیال میں امریکیوں کو بزوز طاقت روکنا لازم ہے۔ اگر روک نہیں‌ سکتے تو کوشش کریں اور نہیں‌تو کم سے کم برا تو جانیں،
ایمان کا کم تر درجہ ہے۔
انکو روکنا بزور بازو، سفارتی طور پر، احتجاج کرکے ہوگا۔ ایک دفاع جو سفارتی، سیاسی، سماجی ہر سطح پر ہو۔ اس کےلئے چین روس اور ہر اس ملک کی مدد درکار ہوگی جو ہمارا ہمدرد ہے۔

راجہ بھیا، میری رائے جانیے تو اس تمام تر مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ پاک فوج پاک زمین کے چپے چپے کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے۔ صرف اسکے بعد سفارتی سطح پر ہم امریکا کا مقابلہ کر سکیں گے [بلکہ سفارتی سطح پر اسے شکست تک دے سکیں گے]۔

ویسے تو امریکہ اکیلے ہی طاقت کے حساب سے ہم پر حاوی ہے، مگر یاد رکھئیے جب تک ہم طالبان دہشتگردوں سے پاک زمین کو پاک نہیں کر دیتے اُس وقت تک دنیا کا کوئی ملک ہمارا ہمدرد نہ بنے گا بلکہ الٹا امریکہ کا ہی ساتھ دے کر اسے ہی مضبوط بنائے گا۔

1۔ چین ہے تو وہ طالبان سے تنگ [حال ہی میں طالبان نے پھر معصوم چینی انجینئرز کو اغوا کیا ہے]۔ اب بتلائیے چین طالبان کی مدد کو کیونکر آئے گا؟
2۔ روس ہے تو وہ طالبان کے خلاف اور ہر صورت میں امریکا کے ساتھ ہو گا۔
3۔ سعودی عرب ہے تو اسنے واضح کر دیا ہے کہ وہ القاعدہ اور طالبان کو دہشتگرد تنظیمیں مانتا ہے اور انکا قتل جائز جانتا ہے۔ سعودیہ میں کئی القاعدہ متحرکین کو سعودی حکومت نے قتل کیا ہے اور حکومتی سطح پر فتوے سے انکو باغی قرار دے کر قتل کرنا جائز قرار دے دیا ہے۔ [اگر اس موقع پر میں مثال دوں تو سب سے اچھی مثال سعودیہ کی عراق میں کردار کی ہے کہ جہاں اُسنے کبھی امریکہ سے جنگ نہیں کی]۔
4۔ ایران ہے تو وہ طالبان سے تنگ ہے اور اس معاملے میں امریکہ کے خلاف تھوڑی بہت بیان بیازی کے علاوہ مجھے مشکل لگتا ہے کہ وہ اور زیادہ مدد کرے۔ اگر خالی پاکستان کا مسئلہ ہوتا تو امید کی جا سکتی تھی کہ جیسے ایران نے شام کے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ کسی ایک ملک پر جنگ کی صورت میں دوسرا ملک بھی اسے اپنے پر جنگ تصور کرے گا، اس بنیاد پر ایران اور پاکستان بھی آپس میں ایسا معاہدہ کر لیں۔
مگر یہاں مسئلہ طالبان کا ہے اور انکی موجودگی میں ایسا کوئی معاہدے کی مجھے کوئی امید نہیں۔
5۔ روس کے علاوہ وسطی ایشیا کی تمام تر نو آزاد مسلم ریاستیں طالبان سے [اور انکی وجہ سے پاکستان سے بھی] نفرت کرتی ہیں اور پاکستان کا ساتھ نہ دیں گی۔

اس لیے میرے پیارے ملک پاکستان کے ہموطنو کو بہت سوچ سمجھ کر اگلا قدم اٹھانا ہو گا۔ سفارتی سطح پر احتجاج کر لیا جائے تو بہتر ہے ورنہ مسلح تصادم ہونے کی صورت میں خامخواہ میں پاک فوج اور پاک عوام کا ہی انتہائی زیادہ نقصان ہو گا جبکہ طالبان کا کچھ نہ بگڑے گا جو کہ پھر سے پاک فوج اور پاک عوام کو چھوڑ کر پھر پہاڑوں میں جا چھپیں گے۔

اللہ ہمارے پیارے وطن پر اپنا رحم و کرم کرے۔ امین۔
 

خرم

محفلین
سوال طاقت یا کمزوری کا نہیں‌ہے اور اسے اس کے متعلق ہونا بھی نہیں چاہئے کہ مؤمن کو اللہ پر ہی بھروسہ ہوتا ہے۔ سوال جواز کا ہے۔ طالبان کے خلاف جنگ کیوں نہ کی جائے اور ان کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد کیوں نہ کی جائے؟ طالبان جب آپ کے ملک کا حصہ ہوتے ہوئے آپ کے خلاف برسر پیکار ہیں، آپ کے معاہدوں کے باغی ہیں آپ کے فوجیوں کو ذبح کرتے ہیں، آپ کے عوام کو پھاڑتے ہیں تو ان کی سرکوبی کے لئے مشترکہ تعاون کیوں نہ کیا جائے؟ جب کوئی مجرم ہوتا ہے تو اس کی سرکوبی کے لئے دنیا کی کسی بھی پولیس سے رابطہ کیا جاتا ہے اور اسے تائب کرنے یا سزا دینے کے لئے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
 
میں طالبان کی قطعی حمایت نہیں کررہا ہوں، حکومت کی رٹ قائم کرنا حکومت پر لازم ہے۔ اور یہ طالبان طرز کے لوگ جو انسان کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دینے کر پروگرام لےکے چلے ہیں ان کو لازم ہے کہ قابو کیا جائے۔ کیسے اور کس طرح فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جانیں۔
مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی کرے۔ یہ ایک سنگین جرم ہے۔ اور میں ذاتی حیثیت میں اسکی سختی سے مخالفت کروں گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میں طالبان کی قطعی حمایت نہیں کررہا ہوں، حکومت کی رٹ قائم کرنا حکومت پر لازم ہے۔ اور یہ طالبان طرز کے لوگ جو انسان کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دینے کر پروگرام لےکے چلے ہیں ان کو لازم ہے کہ قابو کیا جائے۔ کیسے اور کس طرح فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جانیں۔
مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی کرے۔ یہ ایک سنگین جرم ہے۔ اور میں ذاتی حیثیت میں اسکی سختی سے مخالفت کروں گا۔

بھائی جی، اگر آپ کا غم اس سے غلط ہو سکے تو آپ اکیلے کے دل میں اس وقت خوفناک درد نہیں ہو رہا بلکہ جتنا آپکا دل دکھ رہا ہے اتنا ہی میرا بھی دل دکھ رہا ہے اور پوری قوم کا بھی اتنا ہی دل دکھ رہا ہے۔
امریکہ کی دشمنی اچھی نہ دوستی اچھی [کم از کم پاکستان کے حوالے سے دوستی کرتے وقت بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ بین الاقوامی سطح پر اپنے مفادات کے لیے کسی کو بھی قربانی کا بکرا بنا سکتا ہے]۔
اس لیے امریکہ کے ہمارے پڑوس میں آ کر بیٹھ جانا، بلکہ آگے بڑھ کر خود ہماری سرحدوں میں حملے کرنا ۔۔۔۔۔ یہ اونٹ کسی وقت بھی کسی بھی طرف کروٹ لے سکتا ہے۔ اس بات پر پوری قوم ہی تشویش میں مبتلا ہے۔

بہرحال، پاکستان کا واحد آپشن مجھے یہی نظر آ رہا ہے کہ وہ سفارتی سطح پر خوب احتجاج کرے۔ اور اپنے کارڈز مضبوط کرنے کے لیے جہاں تک ممکن ہو سکے پاک سرزمین کو طالبانی دہشتگردوں سے پاک کر دے۔ یہ وہ واحد راستہ ہے جس سے امریکہ کا راستہ روکا جا سکتا ہے اور اسے سفارتی سطح پر اتنا مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس خطے کو اپنی افواج سے خالی کر دے۔

بہرحال گیند اس وقت ہمارے ہی کورٹ میں ہے اور ہمیں اپنی چالیں خوب سوچ سمجھ کر چلنی ہیں۔

////////////////////////////////////////
امریکہ کیوں اور کس پر پاکستانی زمین پر حملہ کر رہا ہے [امریکی آرگومنٹ]؟
راجہ بھیا:
ایشیا ٹائمز میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس نے حالات کے وہ خاکے پیش کیے جو ابتک میری نظروں سے اوجھل تھے۔ میں مختصر الفاظ میں بیان کرتی ہوں:

1۔ امریکہ کو مشرف صاحب سے ایک چیز پر بہت بڑا اعتراض تھا، اور وہ یہ کہ مشرف صاحب طالبان اور دیگر گروہوں میں سے چند ایک کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں جبکہ کچھ گروہوں کے خلاف بالکل کاروائی نہیں کر رہے ہیں۔
2۔ یہ دوسرے گروہ محسود وغیرہ کی طالبان کے برخلاف بہت زیادہ حد تک پاک آرمی کے کنٹرول میں تھے اور پاکستانی اپنی سرحدوں میں طالبانی حکومت قائم نہیں کرنا چاہتے تھے۔
3۔ تو جنرل مشرف نے القاعدہ اور دیگر ایسے طالبانی گروہوں کے خلاف تو ایکشن لیا جو کہ پاک سرحد میں اپنا ورژن آف اسلام نافذ کرنا چاہتے تھے۔
طالبان کا تعلق بنیادی طور پر دیوبند طبقہ فکر سے ہے [اصل دیوبند کے علمبردار میری نظر میں مولانا فضل الرحمان ہیں جو کہ انتہا پسند نہیں ہیں]۔
جبکہ فاٹا میں کچھ گروہ ہیں جو کہ بنیادی طور پر اہلحدیث ہیں اور یہ پاک سرحد میں اپنا قانون نافذ نہیں کرنا چاہتے بلکہ اپنی پروفائل لو رکھتے ہوئے امریکہ کے خلاف افغانستان میں لڑنا چاہتے تھے۔ [مثلا خالد شاہ گروپ کے متعلق آپ نے پچھلے مہینے پڑھا ہو گا کہ جن کو خود محسود طالبان نے 15 حامیوں سمیت قتل کر دیا تھا]۔ یہ شاہ خالد کا گروہ پاک فوج کا حمایت یافتہ تھا۔
اسی طرح حقانی گروہ بھی ہے جو کہ افغانستان میں طالبان سے تعاون تو کرتا ہے مگر بنیادی طور پر طالبان کا حصہ نہیں۔
تو صدر مشرف کے زمانے میں اس دوسرے ٹائپ کے گروہ کے خلاف ایک بھی کاروائی نہیں ہوئی اور ایک بھی بندہ نہیں پکڑا گیا اور انہیں کھلا موقع ملا کہ یہ اپنی کاروائیاں جاری رکھیں۔

امریکہ کافی عرصے سے پاکستان پر ان گروہوں کے خلاف آپریشن کرنے کے لیے دباوء ڈال رہا تھا، مگر صدر مشرف نے آپریشن نہیں کیا۔ جبتک صدر مشرف اقتدار میں تھے اُس وقت تک امریکہ نے براہ راست حملہ نہیں کیا۔ مگر اس وقت حالات بہت خراب ہو چکے ہیں اور امریکہ جارحیت پر اتر آیا ہے اور اب بذات خود ان مخصوص گروہوں پر حملے کر رہا ہے۔
 
Top