حکومت طوفان کی زد میں ہے ...نجم سیٹھی
SMS: #NSA (space) message & send to 8001
اگر وزیراعظم نواز شریف کا خیال ہے کہ اُنھوں نے اُس طوفان کے آگے بندباندھ لیا جو گزشتہ سال عمران خان کے دھرنے نے اٹھایا تھا تو یہ اُن کی خام خیالی ہے۔ عمران خان کا اصل مطالبہ تازہ انتخابات تھے۔ اگر وزیر ِا عظم یہ سوچتے ہیں کہ اُن کی پی پی پی کے ساتھ ہونے والی خاموش افہام و تفہیم ، کہ وہ آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے کسی بھی حلقے کی طرف سے وفاقی حکومت گرانے کی کوششوں کا مل کر مقابلہ کریںگے، ابھی بھی قائم و دائم ہے تو اُنہیں ذرا آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہئے کہ ان کا یہ خاموش الائنس کس طرح خزاںرسیدہ پتوں کی طرح بکھررہا ہے۔ اگر اُن کا خیال تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے سے ’’دستبردار‘‘ ہونے اور جنرل راحیل شریف کے مطالبے پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’’تمام محاذوں پر‘‘ لڑنے کی منظوری دینے سے سول ملٹری اختیارات کا جھکائو اُن کے حق میں ہوچکا تو وہ ذرا چشم ِ حقیقت وا کرتے ہوئے دیکھیں کہ ایم کیو ایم اور پی پی پی، جو سندھ کے انتخابی مینڈیٹ کی نمائندگی کرتی ہیں، پر ہاتھ ڈالنے والی یہ جنگ اُن کی وفاقی حکومت کے لئے کیا سیاسی مضمرات رکھتی ہے تو اُن کی راتوں کی نیند حرام ہوجائے گی۔
جس طرح پی ٹی آئی کے لئے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ایک شدید دھچکا تھا، اسی طرح پنجاب سے قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر آنے والے حالیہ فیصلوں نے پی ایم ایل (ن) کو شدید زک پہنچائی ہے کیونکہ عمران خان انہی حلقوںکو کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تازہ عام انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہے تھے۔ جس طرح جوڈیشل کمیشن کے فیصلے نے عمران کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی، اسی طرح ان تینوں حلقوں،جس میں دو پر حکمران جماعت کے اہم ترین رہنمائوںنے کامیابی حاصل کی تھی،پر آنے والے فیصلے (جسے عوامی زبان میں کپتان کی ہیٹ ٹرک کہا جارہاہے)نواز شریف حکومت کے لئے مشکل وقت کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔ اب عمران خان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے پی پی پی کے اپوزیشن لیڈر، خورشید شاہ نے بھی چاروں صوبائی الیکشن کمشنروں کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ 2013کے انتخابات میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ پی ٹی آئی نے ان چاروں کمشنروں کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس بھی فائل کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ معاملہ اب کچھ دیر تک اہم ترین سیاسی مسئلہ بن کر سامنے موجود رہے گا۔
پہلے تو پی ایم ایل (ن)نے ان فیصلوں پر سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ ایک دفاعی تدبیر تھی، لیکن اب اس نے پی ٹی آئی کو انتخابی دنگل کا چیلنج دیتے ہوئے عوام کی عدالت میں جانے کافیصلہ کیا ہے۔ یہ اس کے لئے پرخطر راستہ ہے کیونکہ اگر پی ٹی آئی ضمنی انتخابات میں ان نشستوں پر کامیاب ہوجاتی ہے توپھر وہ تازہ عام انتخابات کے مطالبے پرزیادہ زور شور سے احتجاجی تحریک شروع کردے گی۔ اس دوران پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا پہلا مرحلہ اکتیس اکتوبر کو طے پایا ہے۔ یہ انتخابات دونوں جماعتوں، پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ن) کی مقبولیت جانچنے کا حقیقی ٹیسٹ ہوں گے۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کے اُن تینوں حلقوںکے انتخابی نتائج بھی اس مقبولیت پر مہر ِ تصدیق ثبت کردیںگے۔ بہرحال اگلے تین ماہ ان دونوں جماعتوں کے انتہائی اہم ہوں گے۔
سندھ میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ اب دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، اور اب اس کا ہدف بدعنوانی ہے۔ اس کا عمومی مطلب سندھ میں پی پی پی کی صوبائی حکومت لیا جاسکتا ہے۔ جب چند ماہ پہلے پی پی پی کے مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹرز کو سندھ ر ینجرز نے گرفتار کیا توآصف زرداری آگ بگولہ ہوگئے تھے۔ اُس وقت ایسا لگتا تھا کہ سندھ حکومت رینجرز کوکارروائیوں کے لئے درکار لیگل کور معطل کردے گی، لیکن آخری لمحے پرفوج، وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان ہونے والے ’’مذاکرات‘‘نے ایسا ہونے سے بچالیا ۔ اب نیب اور ایف آئی اے کی مشترکہ ٹیم نے فوجی کمان کی اشیر باد سے ڈاکٹر عاصم حسین ، جو کہ طویل عرصے سے آصف زرداری کے راز داراور بزنس معاون ہیں، کو گرفتار کیا تونہ صر ف کراچی بلکہ اسلام آباد میں بھی گھنٹیاں بج اُٹھیں۔ اگر پی پی پی کی سندھ حکومت رینجرز کو دیا گیا اختیار واپس لے لیتی ہے تو فوج صوبے میں گورنر راج کا مطالبہ کرے گی۔ تاہم اٹھارویںترمیم کے بعد ایسا کرنا ایک مشکل امر ہے ، تو پھر اسٹیبلشمنٹ اپنی بات منوانے کا کوئی اور طریقہ سوچے گی۔ اس دوران پی پی پی بھی مسٹر شریف پر دبائو ڈالے گی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو کنٹرول کریں ورنہ وہ ان کے خلاف پی ٹی آئی کے حق میں کھڑی ہوجائے گی۔
یہ تمام داخلی دبائو بھی کم نہ تھا اور اس پر مستزاد، نواز شریف حکومت کوبیرونی محاذپر بھارتی جارحیت کا سامنا بھی ہے۔ اس سے پہلے نواز شریف امیدکررہے تھے کہ اوفا میٹنگ کے بعد ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا، لیکن طاقتور حلقوں کی طرف سے اُنہیں مجبور کیا گیا کہ وہ اس بات پر مضبوط اسٹینڈ لیں کہ دوطرفہ مذاکرات میں کشمیر پربھی بات کی جائے۔ اس طرح وہ مذاکرات معطل ہوگئے۔
فی الحال وزیر ِاعظم نواز شریف کے آرمی چیف، جنرل راحیل شریف سے تعلقات بعض حلقوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی سازشوں کی سطح سے بلند رہے ہیں، لیکن جب فوج دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے سیاسی پہلو کی طر ف آئے گی تو کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ تعلقات میں تنائو آسکتا ہے۔ آخر کار اس کارروائی کا دائرہ اسلام آباد اورپنجاب تک وسیع ہونا ہے تاکہ اس پر کسی جانبداری کا الزا م نہ لگ سکے۔ چنانچہ یہ سوچ کر حکمرانوں کی راتوں کی نیند حرام ہوچکی ہوگی کہ اگر وہ ضمنی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست کھا گئے اور پی پی پی بھی سندھ کی صورت حال کی وجہ سے ان سے دور ہوگئی تو کیا ہوگا؟شیکسپیئر نے درست کہا تھا۔۔۔’’تاج پہننے والا سر انتہائی بے آرام رہتا ہے‘‘ (ہنری فور)۔

SMS: #NSA (space) message & send to 8001
اگر وزیراعظم نواز شریف کا خیال ہے کہ اُنھوں نے اُس طوفان کے آگے بندباندھ لیا جو گزشتہ سال عمران خان کے دھرنے نے اٹھایا تھا تو یہ اُن کی خام خیالی ہے۔ عمران خان کا اصل مطالبہ تازہ انتخابات تھے۔ اگر وزیر ِا عظم یہ سوچتے ہیں کہ اُن کی پی پی پی کے ساتھ ہونے والی خاموش افہام و تفہیم ، کہ وہ آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے کسی بھی حلقے کی طرف سے وفاقی حکومت گرانے کی کوششوں کا مل کر مقابلہ کریںگے، ابھی بھی قائم و دائم ہے تو اُنہیں ذرا آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہئے کہ ان کا یہ خاموش الائنس کس طرح خزاںرسیدہ پتوں کی طرح بکھررہا ہے۔ اگر اُن کا خیال تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے سے ’’دستبردار‘‘ ہونے اور جنرل راحیل شریف کے مطالبے پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’’تمام محاذوں پر‘‘ لڑنے کی منظوری دینے سے سول ملٹری اختیارات کا جھکائو اُن کے حق میں ہوچکا تو وہ ذرا چشم ِ حقیقت وا کرتے ہوئے دیکھیں کہ ایم کیو ایم اور پی پی پی، جو سندھ کے انتخابی مینڈیٹ کی نمائندگی کرتی ہیں، پر ہاتھ ڈالنے والی یہ جنگ اُن کی وفاقی حکومت کے لئے کیا سیاسی مضمرات رکھتی ہے تو اُن کی راتوں کی نیند حرام ہوجائے گی۔
جس طرح پی ٹی آئی کے لئے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ایک شدید دھچکا تھا، اسی طرح پنجاب سے قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر آنے والے حالیہ فیصلوں نے پی ایم ایل (ن) کو شدید زک پہنچائی ہے کیونکہ عمران خان انہی حلقوںکو کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تازہ عام انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہے تھے۔ جس طرح جوڈیشل کمیشن کے فیصلے نے عمران کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی، اسی طرح ان تینوں حلقوں،جس میں دو پر حکمران جماعت کے اہم ترین رہنمائوںنے کامیابی حاصل کی تھی،پر آنے والے فیصلے (جسے عوامی زبان میں کپتان کی ہیٹ ٹرک کہا جارہاہے)نواز شریف حکومت کے لئے مشکل وقت کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔ اب عمران خان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے پی پی پی کے اپوزیشن لیڈر، خورشید شاہ نے بھی چاروں صوبائی الیکشن کمشنروں کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ 2013کے انتخابات میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ پی ٹی آئی نے ان چاروں کمشنروں کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس بھی فائل کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ معاملہ اب کچھ دیر تک اہم ترین سیاسی مسئلہ بن کر سامنے موجود رہے گا۔
پہلے تو پی ایم ایل (ن)نے ان فیصلوں پر سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ ایک دفاعی تدبیر تھی، لیکن اب اس نے پی ٹی آئی کو انتخابی دنگل کا چیلنج دیتے ہوئے عوام کی عدالت میں جانے کافیصلہ کیا ہے۔ یہ اس کے لئے پرخطر راستہ ہے کیونکہ اگر پی ٹی آئی ضمنی انتخابات میں ان نشستوں پر کامیاب ہوجاتی ہے توپھر وہ تازہ عام انتخابات کے مطالبے پرزیادہ زور شور سے احتجاجی تحریک شروع کردے گی۔ اس دوران پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا پہلا مرحلہ اکتیس اکتوبر کو طے پایا ہے۔ یہ انتخابات دونوں جماعتوں، پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ن) کی مقبولیت جانچنے کا حقیقی ٹیسٹ ہوں گے۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کے اُن تینوں حلقوںکے انتخابی نتائج بھی اس مقبولیت پر مہر ِ تصدیق ثبت کردیںگے۔ بہرحال اگلے تین ماہ ان دونوں جماعتوں کے انتہائی اہم ہوں گے۔
سندھ میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ اب دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، اور اب اس کا ہدف بدعنوانی ہے۔ اس کا عمومی مطلب سندھ میں پی پی پی کی صوبائی حکومت لیا جاسکتا ہے۔ جب چند ماہ پہلے پی پی پی کے مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹرز کو سندھ ر ینجرز نے گرفتار کیا توآصف زرداری آگ بگولہ ہوگئے تھے۔ اُس وقت ایسا لگتا تھا کہ سندھ حکومت رینجرز کوکارروائیوں کے لئے درکار لیگل کور معطل کردے گی، لیکن آخری لمحے پرفوج، وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان ہونے والے ’’مذاکرات‘‘نے ایسا ہونے سے بچالیا ۔ اب نیب اور ایف آئی اے کی مشترکہ ٹیم نے فوجی کمان کی اشیر باد سے ڈاکٹر عاصم حسین ، جو کہ طویل عرصے سے آصف زرداری کے راز داراور بزنس معاون ہیں، کو گرفتار کیا تونہ صر ف کراچی بلکہ اسلام آباد میں بھی گھنٹیاں بج اُٹھیں۔ اگر پی پی پی کی سندھ حکومت رینجرز کو دیا گیا اختیار واپس لے لیتی ہے تو فوج صوبے میں گورنر راج کا مطالبہ کرے گی۔ تاہم اٹھارویںترمیم کے بعد ایسا کرنا ایک مشکل امر ہے ، تو پھر اسٹیبلشمنٹ اپنی بات منوانے کا کوئی اور طریقہ سوچے گی۔ اس دوران پی پی پی بھی مسٹر شریف پر دبائو ڈالے گی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو کنٹرول کریں ورنہ وہ ان کے خلاف پی ٹی آئی کے حق میں کھڑی ہوجائے گی۔
یہ تمام داخلی دبائو بھی کم نہ تھا اور اس پر مستزاد، نواز شریف حکومت کوبیرونی محاذپر بھارتی جارحیت کا سامنا بھی ہے۔ اس سے پہلے نواز شریف امیدکررہے تھے کہ اوفا میٹنگ کے بعد ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا، لیکن طاقتور حلقوں کی طرف سے اُنہیں مجبور کیا گیا کہ وہ اس بات پر مضبوط اسٹینڈ لیں کہ دوطرفہ مذاکرات میں کشمیر پربھی بات کی جائے۔ اس طرح وہ مذاکرات معطل ہوگئے۔
فی الحال وزیر ِاعظم نواز شریف کے آرمی چیف، جنرل راحیل شریف سے تعلقات بعض حلقوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی سازشوں کی سطح سے بلند رہے ہیں، لیکن جب فوج دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے سیاسی پہلو کی طر ف آئے گی تو کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ تعلقات میں تنائو آسکتا ہے۔ آخر کار اس کارروائی کا دائرہ اسلام آباد اورپنجاب تک وسیع ہونا ہے تاکہ اس پر کسی جانبداری کا الزا م نہ لگ سکے۔ چنانچہ یہ سوچ کر حکمرانوں کی راتوں کی نیند حرام ہوچکی ہوگی کہ اگر وہ ضمنی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست کھا گئے اور پی پی پی بھی سندھ کی صورت حال کی وجہ سے ان سے دور ہوگئی تو کیا ہوگا؟شیکسپیئر نے درست کہا تھا۔۔۔’’تاج پہننے والا سر انتہائی بے آرام رہتا ہے‘‘ (ہنری فور)۔