حکومت ایک سو دس فیصد ذمہ دار ہے!

arifkarim

معطل
9092_90772941.jpg

قیصرانی ایچ اے خان لئیق احمد ناصر علی مرزا نایاب کاشفی حسینی انیس الرحمن محمود احمد غزنوی زرقا مفتی صائمہ شاہ عبدالقیوم چوہدری عباس اعوان محمداحمد ابن رضا عمار ابن ضیا منقب سید
 
آئے روز اس طرح کے واقعات کا ہونا ،ایک بڑا انتظامی اور معاشرتی مسئلہ ہے اس کی وجوہات میں لوگوں کا معاشرتی رویہ
کہ 1-لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور2- سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں

لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں چلیں اس کا ایک مبینہ جواز یہ ہو سکتا ہے کہ لوگوں کوانتظامیہ یا حکومت سے انصاف نہیں ملتا ،
لیکن لوگوں کا رویہ کہ سنی سنائی بات پر بغیر تصدیق کیے اعتبار کرنا انتہا درجے کی جہالت ہے

فرمان باری ہے:
﴿ يأيها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبإ فتبينوا أن تصيبوا قوما بجهالة فتصبحوا على ما فعلتم نادمين ﴾ ... سورة الحجرات
اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ کرو کہ تم کسی تم جہالت میں کسی قوم پر حملہ کر بیٹھو پھر تم بعد میں اپنے کیے پر نادم ہو جاؤ۔‘‘

نیز فرمان نبوی علیہ افضل الصلوات وازکی التسلیم ہے: « كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع » ... صحيح مسلم5
کہ کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
یورپ کے تاریک دور میں اکثر ایسے واقعات ہوا کرتے تھے ۔ ہم اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ مسلم ممالک میں ایسے واقعات نہیں ہوتے مگر یہ کالم پڑھ کر ساری خوش فہمیاں دور ہو گئیں۔
اس رمضان میں ہماری قریبی مسجد ک امام صاحب کو پولیس گرفتار کر کے لے گئی اُن پر لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال کا الزام تھا۔ مفتی صاحب اور مسجد کمیٹی کے دیگر اراکین نے ضمانت دے کر امام صاحب کی گلو خاصی کروائی۔
مشرف کے دور میں ایک نیا قانون بنا تھا جس کے تحت مسجد کا لاؤڈ اسپیکر جمعہ کے روز صرف اذان اورعربی خطبے کے لئے استعمال ہو سکتا ہے اردو کے وعظ کے دوران لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ممنوع ہے ۔امام صاحب نے اس قانون کی خلاف ورزی کی تھی
ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے قصبوں اور دیہات کے تھانیدار بھی اس قانون پر عملدرآمد کروائیں۔
حکومت اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے تمام مساجد کے امام حضرات کو جمعے کے وعظ میں درس دینے کا ہدایت نامہ بذریعہ علاقہ ایس ایچ او پولیس جاری کریں
مزید یہ کہ جھوٹا الزام لگانے والوں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو سخت عبرت ناک سزائیں دیں۔ اشتعال انگیزی پھیلانے کی سزا مزید سخت کی جائے اور اس کی تشہیر کی جائے
 
صاحبو!
آخر کب تک ہم حکومت کو ایسے واقعات کی ایک سو دس فیصد ذمہ دار ٹھہراتے اور اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے رہیں گے۔ جس قسم کا شدت پسند معاشرہ ہم نے ترتیب دیا ہے اس کا منطقی نتیجہ تو یہی نکلنا ہے۔ یاد کیجیے کہ نیو انگلینڈ ( امریکہ ) کا پیوریٹن معاشرہ بھی ہماری ہی طرح دین کی خدمت انجام دے رہا تھا اور حال اسپین کا ہوا تھا جب چلتے پھرتے لوگوں کو توہینِ مذہب پر وچ قرار دے کر زندہ آگ میں جلادیا جاتا تھا۔

کراچی میں یوں تو ڈاکووں کی لوٹ مار عام ہے لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ جب کوئی قسمت کا مارا ڈاکو لوگوں کے ہتھے چڑھا ہے انہوں نے اسے مار مار کر جان ہی سے مار دیا ہے۔

ماب جسٹس کب تک؟ شدت پسندی کب تک؟ کیا قانون شکنی کے لیے قانون موجود نہیں؟ کیا توہینِ رسالت اور گستاخی کے لیے قانون موجود نہیں ؟ اگر قانون موجود ہے تو ہم کب تک قانون کی موجودگی میں بھی خود ملزم کو سزا دیتے رہیں گے؟ فاضل مضمون نگار اس غلط فہمی میں ہیں کہ چند سو سال بعد ہم عہدِ جدید میں پہنچ جائیں گے۔ ادھر صورتحال یہ ہے کہ ہم انتہائی تیز رفتار سے دوسری جانب، اخلاقی دیوالیہ پن کی جانب دوڑے چلے جاتے ہیں۔

افریقہ میں ایک راہ نورد ایک گاؤں میں پہنچا اور اس نے کسی آدم خور قبیلے کی موجودگی سے متعلق استفسار کیا تو جواب ملا کہ فکر نہ کرو، آخری آدم خور کو بھی ہم بھون کر کھا چکے ہیں۔

وللہ اعلم
 

ابن رضا

لائبریرین
ہمارے معاشرے کی عدم برادشت کو بھی سامراج دوست ، نام نہاد حکمرانوں نے ہی پروان چڑھایا ہے کبھی روس کو افغانستان سے پسپا کرنے کے لیے شدت پسند تنظیموں کی تشکیل و معاونت سے اور کبھی نت نئے مجاہدین گروہ پیدا کر کے۔ قانون تو سب موجود ہیں ، ان کی عملداری اور نفاذ ریاست کی ذمہ داری ہے جب ریاست اپنے سیاسی مفادات کے پیشِ نظر اپنی ذمہ داری سے بطریق احسن عہدہ برا نہیں ہو گی تو ردِ عمل میں عوام اپنی نجی عدالتیں لگا کر گلی گلی "من چاہے" انصاف کی خیرات تو بانٹیں گے ہی۔ کہ یہاں کون کسی کو کوئی پوچھنے والا ہے۔
 

عمارحسن

محفلین
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ موبائل خریدنے سے پہلے ہزارمرتبہ سوچتے ہیں، سب سے پوچھتے ہیں،تجربہ کار لوگوں کی رائےلیتے ہیں، جب ہمارا بچہ بیمار ہو جائے تو سب سے اچھے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں،
لیکن جب بات دین اسلام کی آتی ہے تو ہم نہ کبھی عقل سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی کسی جید عالم کی رائے کا احترام و انتظارکرتےہیں۔ اور ایسے سخت معملات میں اپنے جزباتی دل اور معاشرے کے آن پڑھ ، نام نہاد "معزز" شکل و صورت والوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔۔۔۔
بھیڑ چال چلنے میں ہماری قوم کا کوئی جواب نہیں، اور معاملہ دین کا ہوتو ہم بہت سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں، صلہ رحمی کا رواج جڑ سے ہی ختم ہوتا جا رہا ہے،۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک کتاب "حساس ادارے" سے لیا گیا اقتباس:
فرقہ پرستی
اسلام وہ واحد نقطہ ہے جس پر ہماری قومی زندگی کا ہر زاویہ مرکوز ہے۔ اسلام ہی ہماری قومیت کی اصل اساس اور عظیم الشان عمارت کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو قوموں کی برادری میں ایک نظریاتی ریاست کی شناخت حاصل ہے۔ چنانچہ ہمارے دشمنوں کا پہلا اور اہم ہدف ہمارا اسلامی تشخص ہی ہے۔ اس ھوالے سے ہمیں صرف بھارت ہی کا سامنا نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے یورپی حواریوں کی نگاہوں میں بھی ہمارا ایمان، عقیدہ اور تشخص کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ اور یہ اسلام دشمن قوتیں ہمیشہ ہی سے ہماری اس بنیاد سے خائف ہیں اور یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان بلاشبہ اسلام کا قلعہ ہے، وہ ہمہ وقت ہماری اس وقت پر ضرب لگانے میں مصروف رہتی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ ہمیں اسلامی قوت بننے سے روکنے کے لئے ہمارے اندر گروہی، مذہبی، لسانی، سیاسی اور ثقافتی اختلافات کو اس قدر ہوا دی جائے کہ بالاخر ہم ٹکڑوں میں بٹ جائیں اور یوں ہماری وہ قوت زائل ہو جائے جو ہماری نظریاتی اساس ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لئے پاکستان کے کونے کونے میں اسلامی مکتبوں کا ایک جال پھیلا دیا گیا ہے، جہاں زیادہ تر کم پڑھے لکھے، قدامت پسند اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی جنونیوں کو دوسرے اسلامی عقائد کے خلاف اشتعال انگیزی اور درگزر نہ کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان مذہبی مکاتب کے یہ نوجوان طلباء مکمل طور پر اپنے اساتذہ کے زیراثر ہیں جو ان طلباء کو گمراہ کرنے اور اسلام کے نام پر قتل و غارت کرنے کے کھلے سبق دیتے ہیں اور اس "کارِ خیر" کے عوض بھاری معاوضے حاصل کرتے ہیں۔۔۔۔
 
پنجاب کے ضلع قصور کے نواحی گاؤں کورٹ رادھا کشن میں مشتعل افراد کی جانب سے عیسائی جوڑے کو قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ہلاک کر دینے کا واقعہ نہایت قابل افسوس ہے۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے اُتنی کم ہے۔ کسی بھی ملزم کو الزام ثابت ہوئے بغیر سزا دینا ایسا عمل ہے جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ ہی انسانی اخلاقیات میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ایسی نوبت آتی کیوں ہے؟؟
ان لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟؟؟

اگر ماضی کے واقعات پر نظر ڈالیں تو معاملہ بہت واضح ہو جاتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل اسلام آباد کے دیہی علاقے "میرا جعفر" میں ایک مسیحی خاتون رمشا مسیح پر توہین قران کا الزام میں ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ علاقے کے درجنوں لوگ اس بات کے گواہ تھے کہ اُس نے قرانی اوراق کو آگ لگائی۔ رمشا مسیح کیس میں پاکستانی میڈیا، سرکاری اداروں اور این جی اوز نے جس طرح قانون کو تماشہ بنایا تھا عبرت انگیز تھا۔

پولیس اور خفیہ اداروں نے واقعے کے عینی شاہدین کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا۔ مبینہ طور پر کیس کے مدعی امام مسجدخالد جدون کو پہلے اغوا کر کے اُس پر کیس واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔ بعد میں "میرا جعفر کی مسجد امینیہ" کے موذن اور واقعے کے گواہ حافظ زبیر کے اہل خانہ کو "غیرقانونی حراست" میں لے کر اُسے مدعی مقدمہ کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا گیا، جس نے مجبور ہو کر مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا کہ مدعی مقدمہ و امام مسجد خالد جدون نے رمشا مسیحی کے خلاف کیس بنانے کے لئے عام اوراق کی راکھ میں از خود قرآنی اوراق شامل کئے تھے۔

حافظ زبیر کے اس بیان پر خالد جدون کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے اُسے فوری طور پر گرفتار کرکے کے جیل منتقل کر دیا گیا۔ اسی بیان کو بنیاد بنا کر مقامی عدالت کے جج محمد اعظم خان نے ملزمہ رمشا مسیح کی ضمانت پانچ پانچ لاکھ کے دو مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔ جیل سے رمشا مسیح کو بذریعہ ہیلی کپٹر نامعلوم مقام پر لےجایا گیا۔ گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق وہ نامعلوم مقام امریکی سفارت خانہ تھا۔ جہاں سے بعد ازاں وہ ضمانت پر ہونے کے باوجود پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ کنیڈا روانہ ہو گئی۔

رمشا مسیح کے ملک سے روانہ ہونے کے فوری بعد اس کے خلاف دائر مقدمے کے مدعی امام مسجد خالد جدون کے خلاف گواہی دینے والے افراد اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ یوں ایک طرف خالد جدون کو باعزت بری کر دیا گیا، اور دوسری طرف رمشا مسیح کے خلاف درج مقدمہ بھی "عدم ثبوت" کی بنا پر خارج کر دیا گیا۔ یہ دونوں کام بیک وقت کیسے سرانجام پائے یہ تو کوئی قانونی ماہر ہی بتا سکتا ہے۔ لیکن اہل خبر جانتے ہیں کہ اس سارے کیس کے دوران تفتیشی افسر سب انسپکٹر منیر حسین جعفری غیر ملکی سفارت خانوں اور این جی اوز کے اہلکاروں کے اشاروں پر چلتا رہا تھا۔

میڈیا نے اس سارے کیس کی رپورٹنگ جس بھونڈے اور جانبدارانہ انداز سے کی وہ ایک الگ کہانی ہے۔ رمشا مسیح کی اصل تصویر کی جگہ 2005ء زلزلے سے متاثر ہونے والی ایک بچی کو رمشا بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ این جی اوز کے نمائیندوں کے بیانات کو مقامی لوگوں کا موقف بنا کر پیش کیا گیا۔ ہر خبر میں رمشا کو مظلوم اور مدعی مقدمہ کو ایک ولن بنا کر پیش کیا گیا۔ رمشا کے بیرون ملک روانگی کے بعد اس کیس کی رپورٹنگ کا مکمل بلیک آؤٹ کر دیا گیا۔

یہ صرف ایک کیس کی داستان ہے۔ ایسے درجنوں کیس بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پولیس، عدلیہ، خفیہ ادارے اور میڈیا توہین رسالت اور توہین مذہب کے مقدمات میں اتنا عجیب و غریب کردار ادا کرتے ہوئے ملزمان کے ساتھ ایک پارٹی بن جائیں گے، تو عوام اُن پر کس طرح انصاف کے حصول کی خاطر اعتماد کر سکتے ہیں؟؟

این جی اوز اور حکومتی اداروں کے اہلکاروں نے اپنی دانست میں ایک رمشا مسیح کو قانون کی گرفت سے تو بچالیا، لیکن اُن افراد کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا ہے، جن پر کبھی بھی توہین مذہب کا الزام لگے گا۔
مذہب ہمیشہ سے اس کے بیشتر پیروکاروں کے لیے جذباتی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر ریاست اور اس میں بسنے والی عوام چاہتی ہے کہ مستقبل میں کورٹ رادھا کشن جیسے واقعات کی روک تھام ہو تو اُسے فوری طور پر رمشا مسیح اور اس جیسے دیگر مقدمات میں قانون کو مذاق بنانے والے حکومتی اور غیر حکومتی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ ورنہ لوگ قانون کو پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا کر موقع پر ہی سزا دینے میں خود کو حق بجانب سمجھتے رہیں گے اور ایسے واقعات کا تدراک ناممکن ہوتا چلا جائے گا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
پنجاب کے ضلع قصور کے نواحی گاؤں کورٹ رادھا کشن میں مشتعل افراد کی جانب سے عیسائی جوڑے کو قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ہلاک کر دینے کا واقعہ نہایت قابل افسوس ہے۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے اُتنی کم ہے۔ کسی بھی ملزم کو الزام ثابت ہوئے بغیر سزا دینا ایسا عمل ہے جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ ہی انسانی اخلاقیات میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ایسی نوبت آتی کیوں ہے؟؟
ان لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟؟؟

اگر ماضی کے واقعات پر نظر ڈالیں تو معاملہ بہت واضح ہو جاتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل اسلام آباد کے دیہی علاقے "میرا جعفر" میں ایک مسیحی خاتون رمشا مسیح پر توہین قران کا الزام میں ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ علاقے کے درجنوں لوگ اس بات کے گواہ تھے کہ اُس نے قرانی اوراق کو آگ لگائی۔ رمشا مسیح کیس میں پاکستانی میڈیا، سرکاری اداروں اور این جی اوز نے جس طرح قانون کو تماشہ بنایا تھا عبرت انگیز تھا۔

پولیس اور خفیہ اداروں نے واقعے کے عینی شاہدین کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا۔ مبینہ طور پر کیس کے مدعی امام مسجدخالد جدون کو پہلے اغوا کر کے اُس پر کیس واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔ بعد میں "میرا جعفر کی مسجد امینیہ" کے موذن اور واقعے کے گواہ حافظ زبیر کے اہل خانہ کو "غیرقانونی حراست" میں لے کر اُسے مدعی مقدمہ کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا گیا، جس نے مجبور ہو کر مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا کہ مدعی مقدمہ و امام مسجد خالد جدون نے رمشا مسیحی کے خلاف کیس بنانے کے لئے عام اوراق کی راکھ میں از خود قرآنی اوراق شامل کئے تھے۔

حافظ زبیر کے اس بیان پر خالد جدون کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے اُسے فوری طور پر گرفتار کرکے کے جیل منتقل کر دیا گیا۔ اسی بیان کو بنیاد بنا کر مقامی عدالت کے جج محمد اعظم خان نے ملزمہ رمشا مسیح کی ضمانت پانچ پانچ لاکھ کے دو مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔ جیل سے رمشا مسیح کو بذریعہ ہیلی کپٹر نامعلوم مقام پر لےجایا گیا۔ گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق وہ نامعلوم مقام امریکی سفارت خانہ تھا۔ جہاں سے بعد ازاں وہ ضمانت پر ہونے کے باوجود پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ کنیڈا روانہ ہو گئی۔

رمشا مسیح کے ملک سے روانہ ہونے کے فوری بعد اس کے خلاف دائر مقدمے کے مدعی امام مسجد خالد جدون کے خلاف گواہی دینے والے افراد اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ یوں ایک طرف خالد جدون کو باعزت بری کر دیا گیا، اور دوسری طرف رمشا مسیح کے خلاف درج مقدمہ بھی "عدم ثبوت" کی بنا پر خارج کر دیا گیا۔ یہ دونوں کام بیک وقت کیسے سرانجام پائے یہ تو کوئی قانونی ماہر ہی بتا سکتا ہے۔ لیکن اہل خبر جانتے ہیں کہ اس سارے کیس کے دوران تفتیشی افسر سب انسپکٹر منیر حسین جعفری غیر ملکی سفارت خانوں اور این جی اوز کے اہلکاروں کے اشاروں پر چلتا رہا تھا۔

میڈیا نے اس سارے کیس کی رپورٹنگ جس بھونڈے اور جانبدارانہ انداز سے کی وہ ایک الگ کہانی ہے۔ رمشا مسیح کی اصل تصویر کی جگہ 2005ء زلزلے سے متاثر ہونے والی ایک بچی کو رمشا بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ این جی اوز کے نمائیندوں کے بیانات کو مقامی لوگوں کا موقف بنا کر پیش کیا گیا۔ ہر خبر میں رمشا کو مظلوم اور مدعی مقدمہ کو ایک ولن بنا کر پیش کیا گیا۔ رمشا کے بیرون ملک روانگی کے بعد اس کیس کی رپورٹنگ کا مکمل بلیک آؤٹ کر دیا گیا۔

یہ صرف ایک کیس کی داستان ہے۔ ایسے درجنوں کیس بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پولیس، عدلیہ، خفیہ ادارے اور میڈیا توہین رسالت اور توہین مذہب کے مقدمات میں اتنا عجیب و غریب کردار ادا کرتے ہوئے ملزمان کے ساتھ ایک پارٹی بن جائیں گے، تو عوام اُن پر کس طرح انصاف کے حصول کی خاطر اعتماد کر سکتے ہیں؟؟

این جی اوز اور حکومتی اداروں کے اہلکاروں نے اپنی دانست میں ایک رمشا مسیح کو قانون کی گرفت سے تو بچالیا، لیکن اُن افراد کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا ہے، جن پر کبھی بھی توہین مذہب کا الزام لگے گا۔
مذہب ہمیشہ سے اس کے بیشتر پیروکاروں کے لیے جذباتی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر ریاست اور اس میں بسنے والی عوام چاہتی ہے کہ مستقبل میں کورٹ رادھا کشن جیسے واقعات کی روک تھام ہو تو اُسے فوری طور پر رمشا مسیح اور اس جیسے دیگر مقدمات میں قانون کو مذاق بنانے والے حکومتی اور غیر حکومتی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ ورنہ لوگ قانون کو پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا کر موقع پر ہی سزا دینے میں خود کو حق بجانب سمجھتے رہیں گے اور ایسے واقعات کا تدراک ناممکن ہوتا چلا جائے گا۔
کالم نگار کی جہالت ترس کے قابل ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
پنجاب کے ضلع قصور کے نواحی گاؤں کورٹ رادھا کشن میں مشتعل افراد کی جانب سے عیسائی جوڑے کو قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ہلاک کر دینے کا واقعہ نہایت قابل افسوس ہے۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے اُتنی کم ہے۔ کسی بھی ملزم کو الزام ثابت ہوئے بغیر سزا دینا ایسا عمل ہے جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ ہی انسانی اخلاقیات میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ایسی نوبت آتی کیوں ہے؟؟
ان لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟؟؟

اگر ماضی کے واقعات پر نظر ڈالیں تو معاملہ بہت واضح ہو جاتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل اسلام آباد کے دیہی علاقے "میرا جعفر" میں ایک مسیحی خاتون رمشا مسیح پر توہین قران کا الزام میں ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ علاقے کے درجنوں لوگ اس بات کے گواہ تھے کہ اُس نے قرانی اوراق کو آگ لگائی۔ رمشا مسیح کیس میں پاکستانی میڈیا، سرکاری اداروں اور این جی اوز نے جس طرح قانون کو تماشہ بنایا تھا عبرت انگیز تھا۔

پولیس اور خفیہ اداروں نے واقعے کے عینی شاہدین کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا۔ مبینہ طور پر کیس کے مدعی امام مسجدخالد جدون کو پہلے اغوا کر کے اُس پر کیس واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔ بعد میں "میرا جعفر کی مسجد امینیہ" کے موذن اور واقعے کے گواہ حافظ زبیر کے اہل خانہ کو "غیرقانونی حراست" میں لے کر اُسے مدعی مقدمہ کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا گیا، جس نے مجبور ہو کر مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا کہ مدعی مقدمہ و امام مسجد خالد جدون نے رمشا مسیحی کے خلاف کیس بنانے کے لئے عام اوراق کی راکھ میں از خود قرآنی اوراق شامل کئے تھے۔

حافظ زبیر کے اس بیان پر خالد جدون کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے اُسے فوری طور پر گرفتار کرکے کے جیل منتقل کر دیا گیا۔ اسی بیان کو بنیاد بنا کر مقامی عدالت کے جج محمد اعظم خان نے ملزمہ رمشا مسیح کی ضمانت پانچ پانچ لاکھ کے دو مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔ جیل سے رمشا مسیح کو بذریعہ ہیلی کپٹر نامعلوم مقام پر لےجایا گیا۔ گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق وہ نامعلوم مقام امریکی سفارت خانہ تھا۔ جہاں سے بعد ازاں وہ ضمانت پر ہونے کے باوجود پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ کنیڈا روانہ ہو گئی۔

رمشا مسیح کے ملک سے روانہ ہونے کے فوری بعد اس کے خلاف دائر مقدمے کے مدعی امام مسجد خالد جدون کے خلاف گواہی دینے والے افراد اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ یوں ایک طرف خالد جدون کو باعزت بری کر دیا گیا، اور دوسری طرف رمشا مسیح کے خلاف درج مقدمہ بھی "عدم ثبوت" کی بنا پر خارج کر دیا گیا۔ یہ دونوں کام بیک وقت کیسے سرانجام پائے یہ تو کوئی قانونی ماہر ہی بتا سکتا ہے۔ لیکن اہل خبر جانتے ہیں کہ اس سارے کیس کے دوران تفتیشی افسر سب انسپکٹر منیر حسین جعفری غیر ملکی سفارت خانوں اور این جی اوز کے اہلکاروں کے اشاروں پر چلتا رہا تھا۔

میڈیا نے اس سارے کیس کی رپورٹنگ جس بھونڈے اور جانبدارانہ انداز سے کی وہ ایک الگ کہانی ہے۔ رمشا مسیح کی اصل تصویر کی جگہ 2005ء زلزلے سے متاثر ہونے والی ایک بچی کو رمشا بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ این جی اوز کے نمائیندوں کے بیانات کو مقامی لوگوں کا موقف بنا کر پیش کیا گیا۔ ہر خبر میں رمشا کو مظلوم اور مدعی مقدمہ کو ایک ولن بنا کر پیش کیا گیا۔ رمشا کے بیرون ملک روانگی کے بعد اس کیس کی رپورٹنگ کا مکمل بلیک آؤٹ کر دیا گیا۔

یہ صرف ایک کیس کی داستان ہے۔ ایسے درجنوں کیس بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پولیس، عدلیہ، خفیہ ادارے اور میڈیا توہین رسالت اور توہین مذہب کے مقدمات میں اتنا عجیب و غریب کردار ادا کرتے ہوئے ملزمان کے ساتھ ایک پارٹی بن جائیں گے، تو عوام اُن پر کس طرح انصاف کے حصول کی خاطر اعتماد کر سکتے ہیں؟؟

این جی اوز اور حکومتی اداروں کے اہلکاروں نے اپنی دانست میں ایک رمشا مسیح کو قانون کی گرفت سے تو بچالیا، لیکن اُن افراد کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا ہے، جن پر کبھی بھی توہین مذہب کا الزام لگے گا۔
مذہب ہمیشہ سے اس کے بیشتر پیروکاروں کے لیے جذباتی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر ریاست اور اس میں بسنے والی عوام چاہتی ہے کہ مستقبل میں کورٹ رادھا کشن جیسے واقعات کی روک تھام ہو تو اُسے فوری طور پر رمشا مسیح اور اس جیسے دیگر مقدمات میں قانون کو مذاق بنانے والے حکومتی اور غیر حکومتی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ ورنہ لوگ قانون کو پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا کر موقع پر ہی سزا دینے میں خود کو حق بجانب سمجھتے رہیں گے اور ایسے واقعات کا تدراک ناممکن ہوتا چلا جائے گا۔
کونسے؟ اظہار الحق صاحب کی یا مذکور بے نام کی؟
بے نام صاحب کی :)
 
کالم نگار کی جہالت ترس کے قابل ہے
کالم مذکورہ سوشل میڈیا کے ایک جہادی صفحے سے کاپی کیا گیا ہے، کالم نگار کا نام موجود نہیں تھا ورنہ درج کر دیا جاتا۔
اس کو پوسٹ کرنے کا مقصد اس دو رخی سوچ کو ظاہر کرنا تھا جس سے ہمارا معاشرہ حقیقت میں دو چار ہے اور اس کے سدباب کے لیے ہم بحیثیت قوم زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں کر پا رہے
 

arifkarim

معطل
پتا نہیں پاکستان میں یار لوگ مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز پر کیسے کیسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ ہم جب پاکستان میں تھے تو وہاں بس ایک ہی اعلان ہوا کرتا تھا کہ ’’جن کا بچہ ہے آکر لے جائیں‘‘،’’جن کا بچہ ہے آکر لے جائیں‘‘۔ اس روز جن کے خوف سے کوئی مسجد میں گھستا ہی نہیں تھا :)
 
پتا نہیں پاکستان میں یار لوگ مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز پر کیسے کیسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ ہم جب پاکستان میں تھے تو وہاں بس ایک ہی اعلان ہوا کرتا تھا کہ ’’جن کا بچہ ہے آکر لے جائیں‘‘،’’جن کا بچہ ہے آکر لے جائیں‘‘۔ اس روز جن کے خوف سے کوئی مسجد میں گھستا ہی نہیں تھا :)
اور آپ اسی خوف سے پاکستان سے مستقل ہی نکل گئے
 

arifkarim

معطل
اور آپ اسی خوف سے پاکستان سے مستقل ہی نکل گئے
ہماری وہاں سے نکلنے کی وجوہات خاندانی تھیں۔ ہمارے ماموں کا یہاں کوئی قریبی خاندان نہیں تھا اور جب 1999 میں انکی وفات ہوئی تو ہماری ممانی صاحبہ نے سپانسر کیا اس بنیاد پر کے انہیں اور انکے بچوں کو قریبی رشتہ داروں کی ضرورت ہے۔ جسکے بعد ہم یہاں سنہ 2000 میں وزٹ ویزا پر آئے۔ مستقل قیام کا پروگرام نہیں تھا لیکن ہمارے یہاں آتے ہی والد صاحب نے جو کہ پاکستان ہی میں تھے دوسری شادی کر لی۔ جواباً ہماری والدہ صاحبہ نے یہاں مستقل رہنے کی درخواست امیگریشن والوں کو جمع کروادی۔ ہمارا کیس کوئی ایسا مضبوط تو تھا نہیں کہ پکی پکی رہائش یہاں ملتی لیکن شومئی قسمت جب ہم یہاں آئے اسوقت یہاں عیسائی جماعتوں کی مخلوط حکومت تھی اور انکی امیگریشن پالیسی بہت زیادہ نرم دل واقع ہوئی تھی۔ اور ہزاروں لوگوں میں ہمارا بھی نام شامل ہو گیا جن کی مستقل رہائش کی درخواست منظور کر لی گئی تھی۔ اسی سال دوسرا الیکشن ہوا اور مخالف جماعتوں نے آکر ان نرم دل قوانین کو تبدیل کر دیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور جن کی درخواستیں منظور ہو چکی تھیں انہیں قانوناً رد کرنا ناممکن تھا۔ بس پھر کیا تھا ہم نہ تیتر رہے نہ بٹیر۔ پاکستان جاتے تو سوتیلی ماں۔ اور یہیں رہتے تو باپ اور ماموں کا سر پر سایہ نہیں۔ جیسے تیسے ہمنے اپنے آپکو منا لیا اور پاکستان کے بگڑتے حالات کود یکھتے ہوئے ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا فیصلہ بالکل درست تھا۔
 

حسینی

محفلین
اوپر کسی نے بڑی اچھی بات کی ہے۔۔۔۔
ہر بات میں کوالیفکیشن کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔ لیکن جب دین کا معاملہ آتا ہے۔۔ تو اک جاہل، ان پڑھ نیم ملا کے پیچھے اندھا دھند چلنے لگتے ہیں۔۔۔۔
کیوں ہر مسجد میں امام جماعت رکھنے سے پہلے اس کی قابلیت اور سابقہ نہیں دیکھا جاتا؟۔۔۔ کیوں ہر اک کے پیچھے چپ چاپ نماز پڑھتے ہیں۔۔ اور اس کے خطبے سنتے ہیں؟؟
جس طرح ہر معاملے میں اس فیلڈ کے قابل سے قابل تر متخصص کر طرف ہم رجوع کرتے ہیں۔۔ دین میں بھی متخصص اور سب سے اعلم کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے۔۔۔

البتہ اس معاملہ میں عوام کے ساتھ ساتھ حکومت بھی ذمہ دار ہے۔۔۔ عوام تو ہمیشہ جرائم کرسکتے ہیں۔۔ اور کرتے ہیں۔۔۔ حکومت اگر اس طرح کے کیسز میں اک دو دفعہ ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دے۔۔ تو آئندہ کسی کی جرات نہ ہوگی۔
لیکن ہر دفعہ جھوٹے وعدے۔۔۔ جھوٹی تسلی اور تسکین دے کر۔۔ درد کا علاج برف سے کرتے ہیں۔۔ اصل علاج کی طرف کوئی نہیں جاتا۔
 
Top