حکومتی معاشی پالیسیاں اور بیس لاکھ بیروزگار

جاسم محمد

محفلین
حکومتی معاشی پالیسیاں اور بیس لاکھ بیروزگار
سید امجد حسین بخاری بدھ 12 فروری 2020
1982774-muashipolicyandbayrozgaar-1581335064-562-640x480.jpg

حکومتی معاشی اصلاحات کے دعوؤں کے باوجود ثمرات عام آدمی تک منتقل نہیں ہورہے۔ (فوٹو: فائل)

اخبارات میں عموماً کاروباری دنیا کے معاملات کےلیے ایک صفحہ مخصوص کیا گیا ہوتا ہے، جہاں عام آدمی کو مارکیٹ کے حالات سے باخبر رکھا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ ایک سال سے اوسطاً چھ کاروباری خبریں روزانہ پہلے صفحے یعنی فرنٹ پیج پر نظر آتی ہیں۔ یہ خبریں اچانک اتنی اہم کیوں ہوگئیں؟ اس کا جواب بالکل سادہ ہے کہ حکومت کی ناکام پالیسیوں کے باعث ملکی معیشت منجدھار میں گھری ہوئی ہے۔ آئے روز ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خسارے کی کوئی ایسی لہر چلے گی جو منجدھار میں پھنسی اس معیشت کو خدانخواستہ ڈبو دے گی۔

اکثر سوچتا ہوں کہ حکومت کی پالیسیوں میں اگر بہتری نہ آئی تو پاکستانی مارکیٹ کسی بحران کی زد میں آکر کریش ہی نہ ہوجائے۔ ماہرین معیشت گزشتہ ایک سال سے حکومت کو مسلسل خطروں سے آگاہ کررہے ہیں۔ لیکن حکومت ہے کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے اس گمان میں مبتلا ہوگئی ہے کہ سب ہی اچھا چل رہا ہے۔ روپے کی قدر گری تو مارکیٹ میں بھونچال آگیا، رہی سہی کسر برآمدات اور درآمدات کے عدم توازن نے پوری کردی۔

حکومت نے دعویٰ کیا کہ ملک کی شرح نمو 3.3 فیصد ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ 1.9 فیصد تھی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ یہ شرح نمو جنگ زدہ افغانستان سے بھی کم ہے۔ پاکستان شرح نمو میں جنوب ایشیائی ممالک میں سب سے کم ہے۔ ایک جانب پاکستان میں شرح نمو سب سے کم ہے، لیکن یہاں شرح سود دنیا میں سب سے بلند ترین سطح پر ہے۔ ان دو عوامل کے باعث ملک میں افراط زر میں اضافہ ہوا۔ صنعتوں کا پہیہ رک گیا۔ 10 لاکھ کے قریب لوگ بیروزگار ہوئے۔ ٹیکس کولیکشن میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یعنی معاشی اعتبار سے ایسی ناکامیاں اٹھائیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

رواں سال ملک میں شرح نمو 1.3 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ یعنی اس سال کم از کم 12 لاکھ مزید افراد بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف اپنے اقتدار کے دو سال مکمل ہونے پر 22 لاکھ افراد کی نوکریوں کی قربانی لے چکی ہوگی۔

حکومت نے معیشت کو سہارا دینے کےلیے شرح سود بڑھائی۔ کچھ لوگوں نے سرمایہ کاری کی۔ اب پاکستان جونہی شرح سود میں کمی کرے گا، سرمایہ کار بینکوں سے اپنا پیسہ نکلوا لیں گے، جس کا نتیجہ ایک اور تباہی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ملک میں چینی اور گندم کی مقدار کم پیدا ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود بیرون ملک برآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ تاجروں نے نہ صرف گندم برآمد کی، بلکہ فائن آٹا، سوجی، پراٹھے اور سویاں بھی برآمد کردیں۔ اپنی زرعی اجناس چند روپوں کے فائدے کےلیے برآمد کی گئی، مگر اب وہی گندم دگنی قیمت پر درآمد کی جارہی ہے۔

اس سال بھی ملک کی زرعی پیداوار ماضی کی نسبت خطرناک حد تک کم ہونے کا خدشہ ہے۔ لیکن تاحال اسے بہتر بنانے کےلیے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے۔ سرکار کی ناقص پالیسیوں کے باعث سرمایہ دار ٹیکس ادا نہیں کررہا، جبکہ حکومت یوٹیلٹی بلز کے ذریعے عوام سے پیسے بٹور رہی ہے۔

حکومت کی جانب سے معاشی اصلاحات کے دعوے تو کیے جارہے ہیں، لیکن اس کے اثرات عام آدمی تک منتقل نہیں ہورہے۔ ماہرین معیشت کے مطابق پاکستان کو شرح سود کو چار سے پانچ فیصد تک لانا ہوگا، جبکہ برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ اس عدم توازن کو اگر آسان الفاظ میں سمجھا جائے تو جس ملک کی جتنی زیادہ برآمدات ہوں گی، وہاں کی معیشت اتنی تیزی سے بہتر ہوگی۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ پاکستان درآمدات پر انحصار کم کرے، مقامی صنعت کو فروغ دے۔ لیکن درآمدات کو قابو میں رکھنے کےلیے اسمگلنگ کو کنٹرول کرنا بھی لازمی ہے۔ اس وقت ملکی معاشی ابتری کا الزام صرف عمران خان حکومت کو دیا جاتا ہے، لیکن یہ درست نہیں ہے۔ اس معاشی ابتری کا سفر ستر کی دہائی میں شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے۔

پاکستان میں پہلے براہ راست انتخابات دسمبر 1970 میں ہوئے۔ ان متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوا، ساتھ ہی اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے پہلے پچیس برس میں یہاں کی شرح نمو 6.8 فیصد سالانہ تھی۔ لیکن بھٹو قیادت کے دوران یہ شرح 4.8 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے چند ایک اس بلاگ میں پیش کروں گا۔

پہلی وجہ، پاکستان کی زراعت ہے۔ قیام پاکستان کے وقت زراعت ہی اس ملک کی بنیاد تھی۔ لیکن بھٹو کی پالیسیوں نے زراعت کے ساتھ صنعت کو بھی مضبوط کیا۔ یعنی اس ملک پر سرمایہ دارانہ نظام کا راج ہوگیا۔ کسان کی زندگی دن بدن اجیرن ہوتی گئی۔ لیکن صنعتکار کی صنعتیں پھیلنے لگیں۔ اس ملک پر کسان نہیں بلکہ تاجروں کا راج ہونے لگا۔ ایوان سے لے کر دکان تک ہر پالیسی صنعتکاروں کا تحفظ کرنے لگی۔ یہ تاجر ملک کے بجائے اپنے مفاد کےلیے سوچنے لگے۔ ایک جانب حکومت سے سبسڈی حاصل کی جانے لگی، جبکہ دوسری جانب کسانوں کو خام مال کی قیمت بھی کم ملنے لگی۔ سرمایہ دار کو خام مال اگر بیرون ملک سے کم قیمت پر ملتا ہے تو اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ مقامی کسان کی فصل ضائع ہو یا وہ اونے پونے داموں بیچ دے۔ نتیجتاً پاکستانی کسان نے فصلوں کی جانب توجہ کم کردی اور ملک کا زیر کاشت رقبہ بھی تیزی سے کم ہونے لگا۔

اسی نظام کی بدولت پاکستان کی درآمدات بڑھنے لگیں۔ مشرف دور حکومت میں پاکستان اگر سو ڈالر کی اشیاء بیرون ملک بھیجتا تو اسے ایک سو پندرہ ڈالر کی اشیاء منگوانا پڑتیں۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے دور میں یہ فرق تیزی سے بڑھنے لگا۔ آج پاکستان 100 کے مقابلے میں 230 ڈالر کی اشیاء درآمد کرتا ہے۔ یعنی ملک سے سرمایہ تیزی سے بیرون ملک جارہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر پابندی لگائے۔ عام آدمی کا حکومت پر اعتماد بحال کیا جائے تاکہ وہ ٹیکس ادا کرے۔ ملک میں بہتر معیشت کےلیے ضروری ہے کہ یہاں سیاسی استحکام بھی رہے۔ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کے ساتھ مسائل کا حل بھی بتایا جائے۔ کسانوں کا معیار زندگی بہتر بنایا جائے۔ صنعت کاروں کے بجائے کسانوں کو سبسڈی دی جائے تاکہ وہ جانفشانی کے ساتھ اس سونا اگلتی مٹی سے اپنا پیار بحال کریں۔ حکومت کےلیے بھی ضروری ہے کہ شرح نمو کو بہتر بنائے اور ماہرین معیشت کے خدشات پر غور کرے، کیونکہ مزید لوگ بے روزگاری کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top