حکایت رومی : مور کے پر

سید زبیر

محفلین
حکایت رومی : مور کے پر​
" ایک مور جنگل میں کھڑا اپنے پر نوچ کر پھینک رہا تھا ایک عقلمند یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا بولا​
' اے مور ! تیرا دل کس طرح گوارا کرتا ہے کہ تو اپنے اتنے خوبصورت پرو ں کو نوچ کر پھینک رہاہے جنہیں انسان بہت ذوق و شوق سے اٹھا کر قران جیسی مقدس کتاب کے اندر رکھ لیتا ہے اور محبوبانِ جہاں اس کے پنکھے بنا کر اپنے خوبصورت چہروں کو ہوادیتے ہیں اور تو قدرت کی ایسی پر نقش و نگار چیز کو اس قدر بے قدری سے ضائع کر رہا ہے '​
مور یہ سن کر منہ سے کچھ نہ بولا مگر اس کی آنکھوں سے خود بخود آنسو رواں ہو گئے ۔ جو کہ درد دل کا پتہ دیتے تھے جس نے حاضرین کو بہت متاثر کیا مور جب آنکھوں کی راہ وہ دل کی آگ نکال چکا تو بولا​
'اے دانا انسان ! اب میری بات بھی سن لے تو نے میرے خوشنما پروں دیکھا ہے مگر میں اپنے عیبوں کو دیکھ کر دیکھ کر اشک بار ہوں نہ میر ے گوشت میں مزا ہے نہ پاؤں میں ، لوگ میرے خوبصورت پروں کی تعریف کرتے ہیں اور میں اپنی زشت پائی پر شرمندہ ہوتا ہوں ۔صرف پر ہی ہیں جن کی وجہ سے شکاری میرا شکار کرتے ہیں اور مجھے مار گراتے ہیں کاش گوشت اور پاؤں کی طرح میرے پر بھی خراب ہوتے اور میری نیلگوں گرن بھی بد صورت ہوتی تا کہ میں شکاریوں کا شکار نہ بنتا ۔میں اپنی دم اس لیے نوچ نوچ کر پھینک رہا ہوں تا کہ مجھے لنڈورا دیکھ ککر شکاری میری جان لینے کے درپے نہ ہوں'
سبق: ہنر اور اخلاق انہی کو سود مند ہے جا اللہ سے ڈرتے ہیں ورنہ یہ ہنر اور اختیار ان کے لیے وبال جان بن جاتا ہے جیسا کہ مور کے لیے اس کے پر "
 

سید زبیر

محفلین
حکایات رومی سے ایک حکایت : گدھا اور گھوڑے
ایک غریب سقے کا بڑا دبلا گدھا تھا و اتنا لاغر ہوگیا کہ اگر زور سسے ہوا چلتی تو اڑا کر دور پھینک دیتی پشت پر جا بجا زخموں کے غار پڑ گئے تھے اور ان میں بے شمار کیڑے چل رہے تھے وہ دو قدم بھی بغیر ٹھوکر کھائے نہیں چل سکتا تھا ایک اصطبل کے داروغے نے اسے دیکھ کر سقے سے پوچھا کہ تمہارا گدھا اس قدر ناتواں کیوں ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ مفلس ہوں جب مجھے کھانے کو نہیں ملتا تو گدھے کو کیا کھلاوں ۔فاقوں نے اسے نحیف کردیا ۔ داروغہ نے کہا اسے ایک مہینے کے لیے میرے اصطبل میں چھوڑ جاؤ پھر دیکھنا کیا رنگ لاتا ہے ۔ چنانچہ وہ گدھے کو اپنے اصطبل میں لے گیا اور اسے گھوڑے کے ساتھ باندھ کر گھاس او ردانہ کھلانے لگا گھوڑوں کے ساتھ ہر روز اس کی مالش بھی ہوتی بھنگی آکر اس کے کھڑے ہونے کی جگہ صاف کرتا اور سقے چھڑکاؤ کر جاتے ،لید وغیرہ فوراً اٹھائی جاتی اور تازہ چارہ کھلایا جاتا یہ ٹھاٹھ دیکھ کر بے چارہ گدھا دل میں کہنے لگا اے خدا! اگرچہ تجھ سے پوچھنا داخل بے ادبی ہے مگر میں تجھ سے پوچھے بغیر رہ نہیں سکتا کہ مجھ میں اور گھوڑوں میں کیا فرق ہے وہی ہاتھ پاؤں میرے ہیں وہی ان کے ،دونوں کے پیٹ کھانا مانگتے ہیں پھر معلوم نہیں کہ ایک دوسرے میں اس قدر فرق کیوں رکھا گیا ۔کہ ان کی قسمت میں گھاس ، دانہ اور مصالحہ اور میری قسمت کوڑوں پر چرنا اور ڈنڈے کھانا۔​
انہی دنوں ایک لڑائی پر اصطبل کے تمام گھوڑے بھیجے گئے ،جب واپس آئے تو تمام زخموں سے چور تھے وہی بدن جن میں ریشم سی چمک اور لچک تھی کانس سے لیکر دم تک خون میں لتھڑ کر خراب ہو رہے تھے اور خون کسی طرح نہ تھمتا تھا تیر جسموں میں پیوست تھے جن کو نکالنے کے لیے گھوڑوں کو باندھ کر پچھاڑا اور تیروں کو نکالا گیا ۔​
سبق : انسان کو چاہئیے کہ اپنی استعداد سے اونچا نہ اڑے اور خیال رکھے ۔​
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت عمدہ شراکت، محترم زبیر صاحب۔
ذات پاک نے جس کو جہاں پر رکھا ہے وہی اس کے لئے مناسب ترین مقام ہے۔
 
Top