حکایات

سلطان محمود غزنوی کی وفات کے بعد اسلامی سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا تو ایک عظیم انقلاب کے ذریعے سلجوقیوں کی حکومت قائم ہوئی جس سے اسلامی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ پہلے سلجوقیوں نے خراسان کو فتح کرکے اپنی حکومت قائم کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ایران و عراق پر سلجوقیوں کی مضبوط حکومت قائم ہو گئی۔ ان سلجوقی حکمرانوں میں طغرل بیگ ، الپ ارسلان، سلطان سنجر اور ملک شاہ سلجوقی کے نام قابل ذکر ہیں۔
یہ واقعہ ملک شاہ سلجوقی کے دورِ سلطنت کا ہے کہ ایک دن ملک شاہ سلجوقی کے دائیں پاؤں میں اچانک موچ آگئی۔ وہ تکلیف کی شدت سے بہت پریشان تھا اور اس تکلیف کی وجہ سے حکومتی امور انجام دینے کے قابل نہ رہا۔ دربار کے تمام امیر اور وزیر حکومت کے کام رک جانے اور بادشاہ کے پاؤں کی تکلیف کی وجہ سے پریشان تھے۔
ایک وزیر کے کہنے پر سلطان ملک شاہ سلجوقی نے اپنے ایک خاص اور ماہر حکیم عمر خیام کو ایک خط لکھوایا کہ میرے پاؤں میں موچ آگئی ہے اور میں سخت تکلیف میں ہوں جس کی وجہ سے سلطنت کے تمام امور رک گئے ہیں اس لیے تم فوراّ دربار میں حاضر ہو جاؤ۔ عمر خیام جو نہ صرف ایک حکیم تھا بلکہ مشہور منجم ، ریاضی دان اور بلند پایہ شاعر بھی تھا ، اس وقت ریاضی کے کسی پیچیدہ مسئلے میں الجھا ہواتھا وہ فوراّ دربار میں ملک شاہ سلجوقی کے علاج کی غرض سے نہیں جا سکتاتھا، دوسری طرف وہ بادشاہ کی ناراضگی سے بھی خوفزدہ تھا۔ چنانچہ وہ اس سوچ میں پڑ گیا کہ کوئی ایسی تدبیر کرے کہ اسے دربار میں بھی نہ جانا پڑے اور بادشاہ بھی ناراض نہ ہو۔ تھوڑی دیر میں اس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی۔ اس نے عقلمندی سے کام لیتے ہوئے جواب میں بادشاہ کو لکھ بھیجا “بادشاہ سلامت! امور سلطنت کی انجام دہی میں آپ پاؤں کی بجائے سر کو استعمال کریں۔ ایسا کرنے سے آپ سلطنت کے کام بھی سر انجام دے سکیں گے اور آپ کے پاؤن کا علاج بھی ہوجائے گا۔ “
ملک شاہ کو عمر خیام کا مشورہ اچھا لگا اور اس نے اس پر عمل کیا تو پھر سے امور سلطنت انجام دینے لگا اور پاؤں کی تکلیف سے بھی نجات مل گئی۔
 

ماوراء

محفلین
حکایت

بیٹے کو باپ کی نصیحت


ایک دفعہ ایک فقہیہ نے اپنے والد محترم سے متکلمین کی شکایت کرتے ہوئے کہا “ ابا جان! یہ متکلم لوگ باتیں تو بڑی بڑی کرتے ہیں۔ لیکن ان کا اپنا عمل ان کی باتوں کے خلاف ہوتا ہے۔
جیسے کہتے ہیں کہ دنیا فانی ہے۔ اس سے دل نہیں لگانا چاہیے۔ مال و دولت جمع نہیں کرنا چاہیئے۔ جبکہ یہ خود ہر وقت روپے پیسے اکھٹے کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق قرآن مجید میں رب کائنات نے ارشاد فرمایا ہے (ترجمہ) تم لوگوں کو بھلائی اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہو۔ لین اس سلسلے میں اپنی حالت پر کبھی غور نہیں کرتے۔“
فقہیہ کا والد کافی سمجھدار اور صاحب علم تھا۔ بیٹے کی بات سن کر کہنے لگا پیارے بیٹے۔ اپنے دل و دماغ سے اس خیال کو نکال دے کہ جب تک تجھے کوئی با عمل عالم نہ ملے گا۔ تو کسی کی نصیحت پر کان نہ دھرے گا۔ یہ بات یاد رکھ لے۔ کہ نیکی اور بھلائی کی بات تو جہاں سے سنے۔ اس کو اپنے ذہن میں رکھ لے۔ خواہ ایسی بات کسی دیوار پر ہی کیوں نہ لکھی ہوئی ہو۔ اپنے آپ کو اس نابینا جاہل شخص کی مانند نہ بنا۔ جو کیچڑ میں پھنسا شور مچا رہاتھا۔ کہ لوگو۔ مجھے ایک چراغ روشن کر کے لا دو۔ اس کی یہ بات ایک خاتون نے سنی تو کہنے لگی بھلے آدمی جب تو دیکھ ہی نہیں سکتا۔ یعنی تو اندھا ہے۔ تو روشن چراغ کا تجھے کیا فائدہ پہنچے گا۔
باپ نے اپنے بیٹے کو ایک اور مثال دیکر اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی۔ اس نے کہا۔ کہ واعظوں کی محفل تو ایک بزاز کی دکان کی مانند ہوتی ہے۔ جہاں سے بغیر قیمت ادا کئے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔
عالم سے بھی اس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جب تک حاصل کرنے والے کو عالم سے سچی اور پکی عقیدت نہ ہو۔ جب تک کسی سے دلی عقیدت نہ ہو۔ اس کی کوئی بات دل پر اثر نہیں کرتی۔ جبکہ نصیحت اگر دیوار پر بھی لکھی ہوئی ہو۔ تو قابلِ قبول ہوتی ہے۔



وضاحت:- اس حکایت میں حضرت سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے دو اہم باتیں بیان فرمائی ہیں اول یہ کہ ہر آدمی میں کوئی نہ کوئی خامی یا عیب ضرور ہوتا ہے۔ کیونکہ بے عیب تو صرف ذات خداوند کریم ہی کی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب تک دل میں سچی عقیدت نہ ہو۔ کسی کی بات دل پر اثر ہی نہیں کرتی۔ کسی سے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو۔ تو خود کو باادب بنا دو۔ عقیدت مند بناؤ۔ کہ حصول علم کا سارا انحصار ادب اور عقیدت پر ہے۔ جب تک آپ کے ذہن میں یہ خیال ہو گا۔ کہ فلاں شخص میں یہ عیب ہے۔ فلاں میں یہ خامی ہے تب تک ان کی محفل میں بیٹھے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اصلاح نفس کے لیے بھی لازمی گر یہ ہے۔ کہ جن سے کچھ حاصل کرنے کی تمنا دل میں رکھتے ہو۔ ان لوگوں میں خامیاں اور عیب تلاش کرنے کا خیال تک بھی دل میں نہ لاؤ۔ فارسی کی مشہور کہاوت ہے۔


ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
اگر کچھ مرتبہ چاہے تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں​
 

ماہ وش

محفلین
نام ۔۔

شہر میں‌دنگے تھے ، دو لوگ ایک نیم تاریک گلی میں ڈرتے ڈرتے ایک دوسرے کی طرف بڑھے ،، دونوں‌ مفلوک الحال ، دونوں‌ نیم جان سے ،، ایک نے آہستہ سے دوسرے سے اس کا نام پوچھا ،،دوسرے نے نام بتا کر پہلے نام پوچھنے والے کا نام پوچھا ،، پھر دونوں‌ نے چھریاں نکال کر ایک دوسرے پر وار کردیا ۔ رات کا اندھیرا آہستہ آہستہ دو لاشوں کو نگل رہا تھا ۔
 
Top