حکایاتِ گلستانِ سعد یؒ " تکّبر کا انجام "

الم

محفلین
image.png


حضرت سعدیؒ فرماتے کہ بچپن میں مجھے عبادت کا بہت شوق تھا۔میں اپنے والد محترم کے ساتھ ساری رات جاگ کر قرآن مجید کی تلاوت اور نماز میں مشغول رہتا تھا۔ ایک رات والد اور میں حسبِ معمول عبادت میں مشغول تھے اور ہمارے قریب ہی کچھ لوگ فرش پر پڑے غافل سو رہے تھے۔میں نے انکی یہ حالت دیکھی تو والد محترم سے کہا ان لوگوں کی حالت پہ افسوس ہے! ان سے اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ اٹھ کر تہجد کے نوافل ہی ادا کر لیتے۔

والدِ محترم نے میری یہ بات سنی تو فرمایا، بیٹا! دوسروں کو کم درجہ خیال کرنے اور انکی برائی کرنے سے بہتر تھا کہ تو بھی پڑ کے سو جاتا

؎ غرور انسان کی آنکھوں پہ پردہ ڈال دیتا ہے
وہ اوروں میں سوائے معصیت کچھ کچھ بھی نہیں پاتا
اگر اللہ بخش دے دیدہِ حق بیں انساں کو
نظر اپنی برائی کے سوا کچھ نہیں آتا



وضاحت:

حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں غرورِ پارسائی کی خرابی بیان کی ہے۔یہ ایسا گناہ ہے جس سے محتاط لوگوں میں سے بھی کم ہی بچ پاتے ہیں۔جب ایک شخص خود کو اطاعت میں مشغول پاتا ہے اور دوسروں کو اس طرف سے بر پروا پاتا ہے تو غیر محسوس طور پر اسکے دل میں غرور پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ مجھ سے کم درجے کے ہیں اور میں مقربانِ بارگاہ سے ہوں۔اور اگر شخص اپنی غلطی سے آگاہ ہو کر فوراً توبہ نا کرے تو عذاب کا مستحق بن جاتا ہے کیونکہ غرور کو مٹانا عبادت کا اولین مقصد ہے۔
 
Top