حکایاتِ گلستانِ سعدیؒ "خدا کی یاد"

الم

محفلین
image.png



حضرت سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک قافلے کے ساتھ سفر کر ریا تھا۔صحرا میں سفر کرنے والے قافلوں کی روایت کے مطابق ہمارا کارواں ساری رات سفر کرتا رہا اور جب صبح کے آثار ظاہر ہوئے تو آرام کے لئیے ایک مناسب مقام پر پڑاؤ کیا۔ سب مسافر سونے کی تیاری کرنے لگے۔ لیکن ایک شخص نے اچانک نعرہ مارا اور تیزی سے صحرا کی طرف روانہ ہو گیا۔ دن چڑگے وہ واپس آیا تو میں نے پوچھا کہ میاں! یہ تیرا کیا حال ہوا؟ مجھے تو تیری یہ حرکت بہت ہی عجیب لگی۔

اس شخص نے جواب دیا، تم نے نہیں دیکھا کہ سپیدہِ صبح نمودار ہوتے ہی چرند پرند خدا کی حمدوثنا میں نغمہ سرا ہو گئے۔بُلبلیں باغوں میں، چکور پہاڑوں پر، مینڈک پانی میں اور چوپائے جنگل میں شور کر رہے۔پس مجھے یہ بات مروت سے بعید معلوم ہوئی کہ جانور تو خدا کی یاد میں مشغول ہوں اور میں پڑا سو رہوں۔

؎ پنچھیوں کی صدا کی صدا نے صبح کے وقت کردیا مجھ کو بر خود و مدہوش
شرمسار اس خیال سے میں ہوا مر غ تسبیح خواں ہیں، میں خاموش



وضاحت:
اس حکایت میں سعدی علیہ الرحمہ نے ابنائے آدم کو اُن نے اصل مقصدِ حیات کی طرف توجہ دلائی ہے اور وہ بلاشبہ یہ ہے کہ وہ خلوصِ دل سے اپنے رب کی عبادت کریں۔پنچھیوں اور دوسرے جانداروں کے تسبیح خواں ہونے کو ذکر کر کے اپنی دلیل کو مضبوط بنایا اور اس شخص کی بے قراری کا نقشہ کھینچ کر یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہر ذہ شعور کو اپنے خالق کی یاد میں اسی طرح سرگرم اور بے قرار ہونا چاہیئے
 
Top