حُسین انجُم --- خوشبو کسی بدن کا ابھی میرے بر میں ہے

طارق شاہ

محفلین
غزل
حُسین انجُم
خوشبو کسی بدن کا ابھی میرے بر میں ہے
گونجی ہُوئی صدا کوئی دِیوار و در میں ہے
کُشتہ ہیں اپنی فکرِ تغافل شعار کا
سودا کسی کی زُلف کا کب اپنے سرمیں ہے
ہر آئینے کو نقشِ تحیّر بنا دیا
وہ نقش کون سا دل آئینہ گر میں ہے
شورِ نشور جس کے مقابل ہے دم بخُود
ایسا سکوت دامنِ قلب ونظر میں ہے
ہاں ، تلخیوں میں آبِ طرب کے ہے وہ مٹھاس
جو قند وشیرمیں ہے نہ شہد وشکرمیں ہے
انجم، بشر کے خانۂ گںبد میں کیا نہیں
وہ راز بھی تھا باز کے جو بال و پر میں ہے
حُسین انجُم
 

طارق شاہ

محفلین
بہت خوب​
ہاں ، تلخیوں میں آبِ طرب کے ہے وہ مٹھاس
جو قند وشیرمیں ہے نہ شہد وشکرمیں ہے
واہ
سید صاحب!
ممنون ہوں پذیرائیِ انتخاب اور اظہارِ خیال پر!
محنت بارآور ہوئی جو پیش کردہ غزل آپ کو پسند آئی
تشکّر
بہت شاداں رہیں
 
Top