حنیفؔ شاہجہانپوری: بے وفا دوست (نظم)

’’بےوفا دوست‘‘


کہاں جا رہے ہو مرے دوستو!
کبھی بھولے بھٹکے بھی آیا کرو!
یہ تانبے کے پیسے بڑے بے وفا
نہیں پاس کچھ دوستی کا ذرا
شرارت سے آنکھیں چراتے رہے
مرے گھر سے لیکن رہے دور دور!


اکیلا ہوں! کیا تم نہیں دیکھتے؟
مرے ساتھ کیوں تم نہیں کھیلتے؟
غبارے پتنگیں اُڑائیں چلو!
جلیبی، قلاقند کھائیں چلو!
بلند شاخ پر چہچہاتے رہے
رہے دام سے یہ چہے دور دور!


بڑے ہو کے پیسے، اکنّی بنے
دونّی، چونّی، اٹھنّی بنے
کہا، ہاتھ میں ہاتھ دے کر چلو
مجھے ان دکانوں پہ لے کر چلو
مری تشنگی کو بڑھاتے رہے!
ندی ہو کے، مجھے سے، بہے دور دور!


جوانی میں کچھ اور پیارے ہوئے
جھروکوں سے چھپ کر اشارے ہوئے
کبھی نقرئی قہقہے چھوڑ کر
کبھی کاغذی اوڑھنی اوڑھ کر
لبھاتے رہے، چھب دکھاتے رہے
مگر دسترس سے رہے دور دور!
(۵۷ء)
 
آخری تدوین:
Top