حمورابی کا حقوق نسواں بل

پاکستانی

محفلین
اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ وہ حمورابی تھا۔ اس نے خود کو سچائی کے دیوتا مردک کی طرف سے نامزد کردہ قرار دیا۔ اردو معارف اسلامی میں بعض حوالوں سے نمرود کو مردک کہا گیاہے مگر ان حوالوں کی صداقت پر اصرار نہیں کیاگیا۔ فرانس میں بیٹھ کر اپنی دینی دانش سے ایک عالم کو متاثر کرنے والے ڈاکٹر حمیداللہ نے یہ قیاس قائم کیا کہ حمورابی نمرود ہی تھا۔ طبری نے نمرود کو ایرانی حکمران ضحاک کہہ کر پھر خود ہی اس کی تردید کردی۔ الخوارزمی نے مفاتیح العلوم میں نمرود کو کیکاؤس کہا۔ نیو اسٹینڈرڈ انسائیکلوپیڈیا نے حمورابی کا دور 1792 سے 1750 قبل مسیح قرار دیا ہے جبکہ انسائیکلوپیڈیا برٹینکا کا کہنا ہے کہ حمورابی کا زمانہ 2067سے 2025قبل مسیح تک پھیلا ہوا ہے۔تاہم یہ کہنا قطعی طور پر ناممکن ہے کہ حمورابی اور نمرود ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں۔ حمورابی نے 43 سال تک اہل عراق پر حکمرانی کی مگر اس کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ پوری دنیا کا حکمران ہے اس نے بابل شہر بسایا۔ اس نے خود کو اعلیٰ وارفع شہزادہ قرار دیا جسے بقول اس کے یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ دنیا میں نیکی پھیلائے تاکہ کوئی طاقتور کسی کمزورکو نقصان نہ پہنچاسکے۔ حمورابی کا کہنا ہے کہ میں کالے سر والے لوگوں پر راج کروں گا، میں روشن خیال ہوں اور دنیا میں اپنی روشن خیالی پھیلاؤں گا۔ میں نے دنیا کے چار حصوں کو فتح کیا ہے۔ میں نے اہل بابل کا نام بلند کیا۔ میں نے ار کو مالا مال کیا۔ میں گش شرگال میں دولت لایا۔ میں سفید بادشاہ شماش ہوں۔ میں نے سپارا کی بنیادیں رکھیں۔ میں نے ای ببار عظیم کو بسایا جو جنت نظیر ہے۔ میں وہ جنگجو ہوں جس نے لارسا کی حفاظت کی۔ میں نے عروق کو نئی زندگی دی۔ میں نے رعایا تک پانی پہنچایا اور ای انا کو سربلند کیا اور انو اور نانا کو حسن سے مالا مال کیا میں نے اپنے وطن کے خزانوں کو دولت سے بھر دیا۔ ہوسکتا ہے کہ روشن خیال حمورابی نے اپنے وطن کے خزانوں کو زرمبادلہ کے ذخائر سے بھردیا ہو مگر وہ خود کو ناقابل مزاحمت جنگجو سمجھتا تھا وہ خود کوشہر ادب کو زندگی عطا کرنے والا سمجھتا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ایسا بزرگ و برتر ہے جس نے نینوا کا نام ای مش مش میں رہنے دیا۔ وہ خود کوحق کی توثیق کرنے والا قانونی حکمران سمجھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس نے خداؤں کو خوش کردیا ہے۔ وہ خود کو بابل کا سورج قرار دیتا تھا جس کی کرنیں سمیر اور عکاد پر پھیلی ہوئی تھیں۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں وہ بادشاہ ہوں جسے دنیا کے چاروں کونوں میں مانا جاتا ہے اور جب مجھے مردک نے انسانوں پر حکمرانی کے لئے بھیجا تو میں نے دھرتی پر حق اور سچ کی حفاظت اور عدل و احسان کے لئے ایک دستاویز تیار کی۔ 1901ء میں فرانسیسی ماہرین آثار و باقیات نے ایران میں کھدائی کے دوران سات فٹ بلند ایک تختہ سیاہ دریافت کیا یہ لگ بھگ چار ہزار سال پرانی پتھر کی سلیٹ تھی جس پر حمورابی کے قوانین درج تھے۔ 282 شقوں پر مشتمل اس ضابطہ قانون کی شق 66 سے 99 تک نہیں پڑھی جاسکی تاہم شق نمبر1 سے شق نمبر65 اورشق نمبر100 سے282 تک پورا ضابطہ قانون پڑھا جاسکتا ہے اس ضابطہ قانون کی شق نمبر127 سے 194 تک 68 شقیں ایسی ہیں جو حقوق نسواں اور عائلی قوانین سے متعلق ہیں۔ ہمارے خیال میں ان 68 شقوں کو تحریر کرنا قارئین پر بوجھ ڈالنا ہوگا تاہم ان میں چند شقیں مشتے از خروارے پیش کی جارہی ہیں۔
شق نمبر127:۔ اگر کوئی شخص کسی کنواری لڑکی یا کسی شخص کی بیوی پر الزام لگاتا ہے اور اُسے ثابت نہیں کرتا ہے تو اس شخص کو ججوں کے روبرو پیش کیا جائے گا اور اس کی بھنوؤں پر نشان لگادیا جائے گا (جلد کاٹ کر یا بھنوؤں کے بال کاٹ کر)
شق نمبر128:۔ اگر کوئی شخص کسی عورت کو بیوی بناکر لے جاتا ہے اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم نہیں کرتا ہے تو وہ اس شخص کی بیوی نہیں ہوگی۔
شق نمبر129:۔ اگر کسی شخص کی بیوی کسی دوسرے شخص کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں پکڑی جاتی ہے تو دونوں کوباندھ کر پانی میں پھینک دیا جائے گا تاہم شوہر کو اپنی بیوی اور بادشاہ کو اپنی کنیز کو معاف کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
شق نمبر130:۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی منکوحہ (جس کی رخصتی نہ ہوئی ہو) کے پاس جاتا ہے جو مرد کو نہیں جانتی اور اپنے والد کے پاس رہتی ہے اس سے دھوکا کرکے اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرتا ہے تو اس شخص کی سزا موت ہوگی تاہم عورت کو بے قصور سمجھا جائے گا۔
شق نمبر131:۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی بیوی پر الزام عائد کرتا ہے لیکن وہ عورت درحقیقت زنا کی مرتکب نہیں ہوئی تو اس عورت کو لازمی طور پر قسم اٹھانا ہوگی اور پھر اسے گھر جانے دیا جائے گا۔
شق نمبر132:۔ اگرکسی شخص کی بیوی پر دوسرا شخص الزام لگاتا ہے مگر وہ عورت دوسرے شخص کے ہاتھوں رنگے ہاتھوں نہیں پکڑی جاسکی تو اسے اپنے شوہر کی خاطر دریا میں چھلانگ لگانا ہوگی۔
شق نمبر133:۔ اگر کوئی شخص جنگی قیدی بنالیا جاتا ہے اور اس کے گھر میں اپنی بیوی کے لئے غذا اور خوراک موجود ہے اس حالت میں اگر وہ اپنے شوہر کا گھر چھوڑتی ہے اور کسی دوسرے شخص کے ہاں چلی جاتی ہے اور اپنی چادر اور چاردیواری کا لحاظ نہیں کرتی تو اس عورت کی عدالتی مذمت کی جائے گی اور اسے پانی میں پھینک دیا جائے گا۔
شق نمبر134:۔ اگر کوئی شخص جنگی قیدی بن جاتا ہے اور اس کے گھر میں نان نفقہ کا کوئی انتظام موجود نہیں اس صورت میں اگر اس کی بیوی کسی دوسرے گھر چلی جاتی ہے تو اُسے بے گناہ تصور کیا جائے گا۔
شق نمبر136:۔ اگر کوئی شخص اپنا گھر چھوڑ دیتا ہے اور بھاگ جاتا ہے اور پھر اس کی بیوی کسی دوسرے گھر چلی جاتی ہے پھر وہ شخص واپس آجاتا ہے اور اپنی بیوی کو واپس لے جانا چاہتا ہے تو چونکہ وہ شخص خود ہی گھر چھوڑ کر چلاگیا تھا اور لاپتہ ہوگیا تھا ایسے حالات میں اس شخص کی بیوی لوٹائی نہیں جاسکے گی۔
شق نمبر137:۔ اگر کوئی شخص اپنی بیو ی سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتا ہے جس سے اس کے بچے پیدا ہوئے ہوں تو اسے عورت کو جہیز لوٹانا ہوگا نیز اسے عورت کو اپنے کھیتوں، باغوں اور جائیداد کے ایک حصے پر حق تصرف دینا ہوگا تاکہ وہ اس کے بچوں کی پرورش کرسکے اور جب اس کے بچے بالغ ہوجائیں گے تو وہ تمام چیزیں بچوں کو منتقل ہوجائینگی تاہم ایک بیٹے کے حصے کے برابر عورت کے پاس دیا جائے گا اور پھر اس کے بعد عورت کو آزادی ہوگی جس سے اس کا دل چاہے شادی کرے۔
شق نمبر138:۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتا ہے اور اس کی بیوی نے اس کے کسی بچے کو جنم نہیں دیا تو وہ اسے اس کا حق مہر اور جہیز جو وہ اپنے والد کے گھر سے لائی تھی لوٹادے گا اور اسے آزاد کرکے جانے دے گا۔
شق نمبر139:۔ اگر کوئی حق مہر طے نہیں ہوا تھا تو وہ اپنی طرف سے رہائی کے تحفے کے طور پر اسے سونے کی ایک خاص مقدار (مینا) ادا کرے گا۔
شق نمبر140:۔ اگر وہ ایک نوآزاد شخص ہوگا تو وہ ایک تہائی (مینا) ادا کرے گا۔ ہم ماہر قانون نہیں، ہمیں اتنا بھی علم نہیں کہ ریاست کے عائلی قوانین پوری ریاست کا کورایشو کس طرح اور کن حالات میں بن جاتے ہیں۔ ہمیں تو حمورابی نے بھی نہیں بتایا کہ اس روشن خیال حکمران کے عہد میں بے روزگاری کی شرح کیا تھی۔ کتنے افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ کتنے لوگ بھوک، بیماری اور بے روزگاری سے اپنے بچوں سمیت خودسوزی کرلیا کرتے تھے۔ کتنے لوگ حمورابی سرکار کے ٹیکس اور یوٹیلٹی بلوں کو ادا کرنے کے لئے اپنے گھر،چھوٹے بڑے اثاثے اور اپنی زرعی اراضی بیچ دیا کرتے تھے۔ کتنے لوگ نان شبینہ کے محتاج تھے۔ کتنی بچیاں جہیز نہ ہونے پر اپنے سروں کو چاندی سے رنگ لیا کرتی تھیں۔ کتنی بیاہتائیں بے محبت ریا کار سیجوں پر سج سج کر اکتا جاتی تھیں اور کتنی مائیں گھروں سے دور روزی کمانے کے لئے جانے والے جواں سال بیٹوں کی لاشیں وصول کرتی تھیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ

عرض حال…نذیر لغاری
روزنامہ جنگ 03۔12۔2006
 
Top