حمد ماخوذ از " مثنوی کام کنلہ از غلام عباس" 1204 ہجری

سید زبیر

محفلین
عباس نے مثنوی " کام کندلہ ۱۲۰۴ ہجری میں لکھی تھی اس کی حمد دوستوں کے لیے پیش خدمت ہے ۔ مزید مطالعہ کے لیے رابطہ صفحہ ۱۸۷
http://www.iiu.edu.pk/mayar-vol-4.php?action=next


یا فتاح
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم وتعمم بالخیر ہو الغنی


الٰہی دے سخن کے مجھ جواہر
تجلی سے توں کر معنی کا ماہر

دے اپنے لظف میں گنج معانی
عیاں کر مجھ پورا ز نکتہ دانی

عنایت کر مجھے معنی کا مخزن
سخن ک شمع سے کر دل کو روشن

عطا کر منج معانی کا خزینہ
منور کر سخن سے میرا سینہ

تکلم کو دے قوت حمد بولوں
سخن کے بے بہا موتیوں کو رولوں

مجھے غواص کر بحر سخن کا
پورءوں عقد میں گوہر بچن کا

کہ تا بولوں تیری حمد خدائی
کروں تجھ عشق میں تغمہ سرائی

کہ تیری مہر سے ذرہ چل کے
سو بے شک مہر سے او جا کے ہلکے

جدائی جا و صل کی مے سے مد ہوش
و نحن و اقرب کا جام کر نوش

جواہر کر دیا نور" علی نور
دی مشت خاک میں براقی نور

جو عکس ہے مہر سیتی در بدخشاں
ہوا ہے سنگ خارا لعل رخشاں

چوہا نیساں کی بوند از چرخ دو لاب
صدف میں مہر و ما(ہ) لولو سے ہر آب

زمرد بنا کر قاف کا سنگ
کیا ہے آسماں کوں اس کے ہم رنگ

کر جب تخرج الحیا کا ارشاد
ہو مردہ زندہ بے جان اجساد

ہے ذوزق تختہ سبعہ زمیں کا
بحر پر امر رب العالمیں کا

کہ عالم تاب جو شمس و قمر ہیں
سو اس کے نور کے در ویزہ گر ہیں

جو ویسے نور کی جب بھیک منگ لائے
تب ایسی لمعت درخشندہ کی پائے

ہے نام اسی کا حافظ و پناہ کل
کہے حافظ بلا ٹل جائے بالکل

یہ ادنا کام او ایسا خدا ہے
یتی قدرت تو بندے میں دیا ہے

جو نور خاص اس کے نور کی ہی
ں یقیں وہ رشک چندر سور کی ہیں

ہے قدرت ان میں یو مشکل کی حلمیں
ٹلاویں مشکلاں کئی لاک پل میں


معانی : بچن:کلام ، چلکے: چمک ، ہلکے : ہلکان کرنا ، چوہا : ٹپکنا ، اقرب: جمع کرنا
دو لاب: ذخیرہ ، تخرج الحیا: زندہ نکلنا ، اجساد : جسد کی جمع ، ذورق: چھوٹی کشتی ، درویزہ گر (در یوزہ گر) بھکاری ، لمعت: شعاع ، یتی : اتی،اتنی ، چندرسور :چاند سورج ، لاک: لاکھ
 
Top