ماہر القادری حمدِ: تری شانِ تجمل کا وقارِ عرش ہے منظر

تری شانِ تجمل کا وقارِ عرش ہے منظر
ترا نقشِ جلالت ثبت ہے کعبہ کی عظمت پر

ضیا افگن ہے تیرا حسن بت خانہ کی دنیا میں
ترے انوار کی تابش ہے فانوسِ کلیسا میں

کہیں موجود ہے رنگ و بہارِ گلستاں بن کر
کہیں ظاہر ہے تو آتش کدے کی گرمیاں بن کر

ترے حسنِ تحیّر زا کی کوئی انتہا بھی ہے
کہ تو شامل ہے سب میں اور پھر سب سے جدا بھی ہے

ترا سازِ محبت ہے ترنم عندلیبوں کا
چٹک غنچہ کی کیا ہے، اک تری توحید کا نغمہ

ترے حسنِ جہاں افروز کے ہیں مختلف منظر
شگوفے، پھول، ذرے، کہکشاں، قوسِ قزح، اختر

حدودِ ذات سے تیرے نہیں ہے کوئی شے باہر
نشاط و کیف، نوع و جنس، رنگ و بو، عرَض، جوہر

تری شانِ ربوبیت ہے ہر محلول کی علت
زمانہ، ظرف، مقدار و تجدد، گردش و حرکت

ترے ہی نور سے روشن ہیں پتھرائی ہوئی آنکھیں
رواں ہوتی ہیں تیرے نام سے چھوٹی ہوئی نبضیں

بیاباں، کوه، باغ و دشت، صحرا، موج اور ساحل
تری تجرید کے، تفرید کے، توحید کے قائل

سمجھتے ہیں خدا تجھ کو، ثنا کرتے ہیں سب تیری
برہمن، شیخ، اسقف، مغ، پری، جن، حور اور قدسی

ہر اک ان میں ہے تابع، تیرے ہی حکمِ محکّم کا
اراده، آرزو، خواہش، تمنا، ولولہ، جذبہ

غریبوں کی تڑپ میں اور یتیموں کی نگاہوں میں
تری رحمت کے جھونکے بند ہیں بیوہ کی آہوں میں

بہا لاتی ہے گزرے دور کو موجِ کرم تیری
قسم کھا کر میں کہتا ہوں زلیخا کی جوانی کی

لجاجت سے تری چوکھٹ پہ کرتی ہیں جبیں سائی
پہاڑوں کی بلندی اور دریاؤں کی گہرائی

تری قدرت کی طاقت کا یہ اک ادنیٰ کرشمہ ہے
زمیں کے سخت پردے نرم دانہ چیر دیتا ہے

ترے حسنِ جلالت خیز کی گرمی اگر چاہے
ابھی سارا زمانہ برف کی صورت پگھل جائے

جو تو چاہے مرے مولا تو کانٹے خون ٹپکائیں
رگیں پھولوں کی پتھر سے زیادہ سخت ہو جائیں

ترے جلوے طلسمِ رنج و کلفت توڑ دیتے ہیں
ترے لطف و کرم ٹوٹے دلوں کو جوڑ دیتے ہیں

٭٭٭
ماہر القادریؒ
 

الف نظامی

لائبریرین
حدودِ ذات سے تیرے نہیں ہے کوئی شے باہر
نشاط و کیف، نوع و جنس، رنگ و بو، عرَض، جوہر
 
آخری تدوین:
Top