قدرت اللہ شہاب "حضور" كا فرمان - اقتباس از شہاب نامہ

۔۔۔ہالینڈ ميں پہنچ كر محكمہ پروٹوكول كے ايك افسر نے مجھے برسبيل تذكرہ يہ بتايا كہ اگر ہم سور (خنزير) كے گوشت (پورک،ہیم، بيكن وغيرہ) سے پرہیز كرتے ہیں تو بازار سے بنا بنايا قيمہ نہ خريديں كيونكہ بنے ہوئے قيمے ميں اكثر ہر قسم كا ملا جلا گوشت شامل ہوتا ہے۔ اس انتباہ کے بعد ہم لوگ ہالينڈ كے استقباليوں كے ايك من بھاتا کھاجا قيمے كى گولياں( Meat Balls) سے پرہیز كرتے تھے۔ايك روز قصرِ امن (Peace Palace) ميں بين الاقوامى عدالت عاليہ كا سالانہ استقباليہ تھا ۔ چودھری ظفر اللہ خان (قاديانى ) بھی اس عدالت كے جج تھے۔ ہم نے ديكھا كہ وہ قيمے كى گولياں سِرکے اور رائى كى چٹنی ميں ڈبو ڈبو كر مزے سے نوش فرما رہے ہیں۔ ميں نے عفت سے كہا: آج تو چودھرى صاحب ہمارے ميزبان ہیں، اس ليے قیمہ بھی ٹھیک ہی منگوايا ہو گا۔ وہ بولى : ذرا ٹھہرو، پہلے پوچھ لينا چاہیے۔
ہم دونوں چودھری صاحب كے پاس گئے۔سلام كر كے عفت نے پوچھا : چودھرى صاحب یہ تو آپ كى ريسپشن ہے۔قيمہ تو ضرور آپ كى ہدايت كے مطابق منگوايا گيا ہو گا؟
جواب ديا: ريسپشن كى انتظاميہ كا محكمہ الگ ہے۔ قيمہ اچھا ہی لائے ہوں گے ۔لو يہ كباب چکھ كر ديكھو۔
عقت نے ہر قسم كے ملے جلے گوشت كا خدشہ بيان كيا تو چودھری صاحب بولے : " بعض موقعوں پر بہت زيادہ كريدميں نہیں پڑنا چاہیے۔ "حضور كا فرمان" بھی یہی ہے۔"
دين كے معاملات ميں عفت بے حد منہ پھٹ عورت تھی۔ اس نے نہايت تيكھے پن سے کہا: "يہ "فرمان" آپ كے حضور كا ہے یا ہمارے حضورﷺ كا؟" ۔۔۔

(اقتباس از: شہاب نامہ: قدرت اللہ شہاب)
 
اسی قسم کا واقعہ ہمارےمشاہدے میں بھی ہے۔
ساوتھ کوریا میں ہماری کلاس فیلو اتفاق سےایک پاکستانی خاتون تھیں۔ جب ہماری کوارڈینٹر نے نئے انے والوں کے لیے ایک لنچ ارینج کیا تو ہمارا مطالبہ تھا کہ ہم صرف سبزی والی ڈش کھائیں گے۔ اس نے ایک ریسٹورنٹ منتخب کیا جس میں سبزی اور گوشت دونوں قسم کی ڈش فراہم ہوتی تھیں۔ جب لنچ شروع ہوا تو ہماری توقعات کے برعکس متحرمہ نے گوشت کی ڈشز پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا۔ ہم نے چپکے سے ٹوکا کہ یہ جھٹکے کا ہے تو محترمہ کمال بے نیازی سے بولیں کہ بسم اللہ پڑھ کر کھالیں حلال ہوجائے گا یہ خنریز تو نہیں ہے۔ ہم بھونکچا رہ گئے۔

عقدہ بعد میں کھلا کہ محترمہ ہمارے ہی انسٹیوٹ میں ایک پاکستانی قادیانی استاد کی بیگم ہیں۔ بعد میں سالانہ تقریب میں یہ استاد مزے سے لحم نوش فرمارہے تھے۔ اچانک ہمارے ایک کورین استاد ان کا نام لے کر کہنے لگے یہ تم کیا کھا رہے ہو یہ تو “پورکی بیف“ ہے یعنی پورک اور بیف ملاہوا۔ موصوف کا رنگ فق ہوگیا۔
 
Top