حضرت کا منتہائے مقصود!...نقش خیال…عرفان صدیقی

حضرت شیخ الاسلام کی آمد آمد ہے اور یہاں، فاطمہ جناح پارک کے نواح میں واقع اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے، میرا دل فرطِ عقیدت سے جھوم رہا ہے۔ ادھر الطاف بھائی کے ڈرون حملے کی تفصیلات اب تک منظر عام پر آچکی ہوں گی جن کی مجھے اس وقت تک کوئی بھنک نہیں۔کیا الطاف بھائی طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس آرہے ہیں؟ کیا وہ سندھ اور وفاقی حکومت سے ناتا توڑ کر اسمبلیوں سے بھی مستعفی ہونے جارہے ہیں؟ کیا وہ حضرت شیخ الاسلام سے دست بستہ اپیل کرنے جارہے ہیں کہ وہ فی الحال اپنا لانگ مارچ موقوف کردیں؟ یا کیا وہ اپنے ہیٹ سے کوئی ایسا کبوتر نکالنے جارہے ہیں جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں؟ میں یہ کالم لکھتے ہوئے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن آپ پر تو اب سب کچھ آشکار ہوچکا ہے۔
عطاء الحق قاسمی نے شیخ الاسلام سے میرے والہانہ عشق کی گواہی دی ہے اگرچہ مجھے زبان غیر سے یہ شرحِ آرزو کچھ اچھی نہیں لگی لیکن یہ جان کر خوش ہوا کہ قاسمی صاحب کے دل میں، میرے حوالے سے رقابت کا الاؤ دہک رہا ہے۔ آج میں اس الاؤ پر کچھ اور تیل چھڑکتے ہوئے یہ تاثر زائل کرنا چاہتا ہوں کہ شیخ الاسلام ماضی میں تو صاف ستھری جمہوریت، پاکیزہ انتخابات اور عوام کی حقیقی نمائندگی کے حوالے سے اتنے حساس نہ تھے لیکن اب نہ جانے کیا ہوا کہ وہ سلطانی جمہور کیلئے آتش زیرپا ہوگئے ہیں۔ حضرت ہمیشہ سے ہی حقیقی جمہوریت کیلئے سر بہ کف رہے ہیں اور ووٹ کی حرمت پر کبھی آنچ نہ آنے دی، تاریخ اس کی گواہ ہے۔
حضرت کے مخالفین، تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے پرویز مشرف کے ریفرنڈم کا حوالہ دیتے ہیں جس کی حمایت کے لئے زبردست میراتھن ریس ہوئی تھی۔ یہ ریس حضرت نے بڑے مارجن سے جیت لی تھی، عمران خان دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ میں نے آج شب اپنے پرانے کالموں کی کتاب ”دائروں میں سفر“ پر نظر ڈالی تو یہ خیال مزید پختہ ہوگیا کہ حضرت اس وقت بھی صاف ستھری جمہوریت کے لئے بے داغ انتخابی عمل اور دوررس اصلاحات کے عظیم مبلغ تھے۔ مشرف نے30/اپریل 2002ء کے ریفرنڈم سے قبل حضرت سے کئی ملاقاتوں کے بعد ہی پاکیزہ و معصوم ریفرنڈم کے انتظامات کو آخری شکل دی تھی اور حضرت نے بھی کامل اطمینان کرلینے کے بعد ہی ریفرنڈم کی مجاہدانہ و غازیانہ حمایت کا پرچم اٹھایا تھا کہ یہ انتظامات، حقیقی جمہوریت اور بے لاگ عوامی رائے کے مسلمہ اصولوں پر پورے اترتے تھے۔ ان انتظامات کی ہلکی سی ایک جھلک سے اندازہ ہوجائے گا کہ حضرت کے ناقدین کس قدر دروغ گو اور تاریخ سے کتنے بے بہرہ ہیں اور حضرت کیوں کر ہمیشہ حقیقی جمہوریت کے داعی رہے۔
پہلے قدم کے طور پر پرویزمشرف کو ایک انتہائی دیانتدار چیف الیکشن کمشنر کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لئے ان کی نگاہ جسٹس (ر) ارشاد حسن خان پہ جا ٹھہری جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوتے ہوئے نہ صرف مشرف کے باغیانہ اقدام کی توثیق کرچکے تھے بلکہ بن مانگے یہ اختیار بھی دے چکے تھے کہ جنرل ضروری سمجھے تو آئین میں من مانی ترامیم بھی کرلے۔ایک معتبر، انصاف پسند اور بے داغ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر پر شیخ الاسلام نے مہر توثیق ثبت کر دی۔ ریفرنڈم کے لئے دیانت و امانت کے زریں اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے کڑے انتظامات کئے گئے کہ ایک بھی جعلی ووٹ نہ ڈالا جاسکے۔ مثلاً یہ کہ پورے ملک کو ایک حلقہ انتخاب میں بدل دیا گیا۔ عوام کی سہولت کے لئے ہر شخص کو اجازت دے دی گئی کہ وہ جہاں چاہے ووٹ ڈال دے۔ انتخابی فہرستوں کا خرخشہ بھی ختم کردیا گیا، شناختی کارڈ دکھانے کی شرط بھی اڑا دی گئی۔ عوامی سہولت کے لئے اسکولوں، اسپتالوں، عدالتوں، کچہریوں، لاری اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں، دفتروں، تھانوں، حوالاتوں، جیل خانوں، ہوائی اڈوں، بس اسٹاپوں، بازاروں، مارکیٹوں، شاپنگ پلازوں، پیٹرول پمپوں، ٹی وی، ریڈیو اسٹیشنوں اور گلی محلوں کی دکانوں کو پولنگ اسٹیشنز کا درجہ دے دیا گیا۔ موٹر وے کے تمام سروس ایریاز پر بھی صندوقچیاں دھری تھیں۔ اسلام آباد سے لاہور جانے والے میرے ایک دوست کو ویگن سے اتروا کر پانچ بار ووٹ ڈلوائے گئے۔ اس ریفرنڈم میں 70 فیصد سے زائد عوام نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ مشرف کے حق میں 98فیصد سے زائد ووٹ آئے۔
چونکہ یہ سارے انتظامات، ان شرائط پر پورے اترتے تھے جن کے لئے حضرت آج سربکف میدان کارزار میں اترے ہیں، اس لئے انہوں نے نہ صرف کھل کر اس ریفرنڈم کی حمایت کی بلکہ قرآن و حدیث سے مستند حوالے بھی نکال کر لائے۔ یہ ریفرنڈم کے انتہائی آزادانہ، منصفانہ، غیرجانبدارانہ، دیانتدارانہ انعقاد ہی کا نتیجہ تھا کہ شیخ الاسلام مشرف کے حضور ہدیہٴ تبریک پیش کرنے والی پہلی چند شخصیات میں سے تھے، عمران خان نے ذرا بعد میں مبارک پیش کی۔ خان صاحب کو فرصت ملے تو کبھی اپنے رفیق کار حامد خان سے ضرور پوچھیں کہ انہوں نے ریفرنڈم کی مخالفت کیوں کی تھی؟ تب حامد خان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر تھے اور ریفرنڈم کو فراڈ قرار دینے والوں میں ان کی آواز خاصی نمایاں تھی۔ یہی ریفرنڈم تھا جس کا اعلان سنتے ہی جسٹس طارق محمود نے، الیکشن کمیشن کی رکنیت اور بلوچستان ہائی کورٹ جج کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
آج بھی حضرت کی تگ و تاز کا مقصد یہی ہے کہ انتخابی اصلاحات کے ذریعے، اس طرح کے انتظامات کو یقینی بنایا جائے جو مشرف نے تاریخی ریفرنڈم کے لئے کئے تھے۔ اس مقامِ بلند کو پانا ممکن نہ ہو تو بھی اس کے قریب تر آنے کی کوشش تو ضرور ہونی چاہئے۔ ارشاد حسن خان ابھی حیات ہیں۔ فخرو بھائی کی جگہ بآسانی انہیں چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا جاسکتا ہے۔ نگران وزیراعظم کے لئے پرویز مشرف کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ باقی اصلاحات کے لئے ریفرنڈم والے بلیو پرنٹ کو ہو بہو اپنایا جاسکتا ہے۔ حضرت شیخ الاسلام اسی عظیم قومی مشن کے لئے میرے شہر تشریف لارہے ہیں۔ ان کے لئے ایک بلٹ پروف فولادی کنٹینر تیاری کے آخری مراحل میں ہے جس پر ایک کروڑ روپے سے زیادہ لاگت آئی ہے۔ اس شاہی کنٹینر میں ایک آراستہ پیراستہ بیڈ روم، باتھ رومز اور دیگر تمام لوازمات موجود ہوں گے۔ منہاج القرآن کے میڈیا کوآرڈینیٹر قاضی محمود الاسلام کے مطابق صرف پنجاب میں چالیس ہزار بسوں کا اہتمام کرلیا گیا ہے۔ بیس ہزار روپے فی کس کے حساب سے ان بسوں کے کرائے کا تخمینہ80کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد سے خصوصی ٹرینیں بھی چل رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے کارواں الگ بندوبست کر رہے ہیں۔قاضی محمود الاسلام کے مطابق اس عظیم کارخیر کے لئے عورتیں اپنے زیورات نچھاور کررہی ہیں۔ عشاق اپنے گھر کے اثاثے نیلام کررہے ہیں۔ مجھے اپنی تہی دامانی کا احساس شدت سے ستا رہا ہے۔ جی چاہتا ہے اظہار عشق میں کم از کم قاسمی سے بازی لے جاؤں لیکن ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے سوا کوئی نذرانہ عقیدت بھی نہیں اور میرا رقیب کالم نگاری کے فن میں بھی مجھ سے کوسوں بلند ہے، کوئی محرومی سی محرومی ہے!

بہ شکریہ زروزنامہ جنگ
کالم کا ربط
 
Top