حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی عقیدۂ علم الغیب پر گفتگو

قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ کوئی آدمی غیب کی بات نہیں جانتااور کوئی نہیں بتا سکتا کہ کہ اس کی موت کب آئے گی اور کہاں آئے گی۔ اور کئی نہیں بتا سکتاکہ بارش کب ہو گی۔ اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کل اس کو کیا پیش آنے والا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ کہ اے محمدؐ لوگوں سے کہہ دیں کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا۔ اور اگر غیب کا علم جانتا ہوتا تو سب آفتوں سے بچا رہتا۔
مگر اس کے ساتھ ہی قرآن مجید میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ ملک سبا کی ملکہ بلقیس کا تخت کون یہاں میرے پاس لا سکتا ہے؟ دربار کے ایک جن نے جواب دیا: میں چند گھنٹے میں وہ تخت یہاں لا سکتا ہوں۔ اس پر حضرت سلیمانؑ کے وزیر حضرت آصف بن برخیا نے کہا: میں پلک چھپکاتے وہ تخت لا سکتا ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کا یہ ارشاد کہ انسان غیب کا علم نہیں جانتا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر چیز انسان سے غائب اور غیب ہے بلکہ یہ ہے کہ جو چیز انسان کے علم اور طاقت سے غائب ہے وہ اس کے لیے غیب ہے اور اس کا علم اس کو نہیں ہے لیکن جب خدا کے دیئے ہوئے کسی علم کے ذریعے کوئی اانسان کسی غیبی چیز کو جان لیتا ہے تو پھر وہ چیز اس علم والے انسان سے غائب نہیں رہتی اور اس وقت اس آدمی کو عالم الغیب کہا جا سکتا ہے یعنی اس چیز کا علم رکھنے والا جو اس چیز کے علم نہ رکھنے والوں سے غائب اور غیب ہے۔ چنانچہ اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو یہ حکم دیا تھا کہ تم لوگوں سے کہہ دو کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا پھر بھی قرآن مجید میں ایسی بہت سی باتوں کا ذکر ہے جن کو آنحضرتﷺ نے بیان کیا ور جن کا علم آنحضرتﷺ کو وحی کے ذریعے ہوا۔ مثلا قرآن میں معراج کا ذکر ہے کہ حضرتﷺ زمین سے عرش اعظم تک گئے اور خدا سے ملے اور جنت، دوزخ کو دیکھا اور پھر اپنے گھر میں واپس آگئے اور اتنی جلدی واپس آگئے کہ آنحضرت کا بچھونا گرم تھا اور دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی۔ پس یہ چیز ان سب لوگوں سے غائب تھی جو اس غیب کا علم نہ رکھتے تھے مگر آنحضرتﷺ اس غیب کے عالم تھے۔اس طرح آنحضرتﷺ نے آئندہ کی نسبت فرما دیا تھا کہ روم اور شام اور ایران مسلمان فتح کر لیں گے حالانکہ یہ اس وقت فرمایا تھا جبکہ کوئی ظاہری طاقت اتنے بڑے بڑے ملکوں کو فتح کرنے کی مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ تھی۔ یا جس وقت آنحضرتﷺ کے چچا حضرت عباؓ بد کی لڑائی میں قید ہوئے اور آنحضرتﷺ نے قیدیوں کو فدیہ لیکر چھوڑنا شروع کیاتو حضرت عباسؓ نے کہا: اے محمدﷺ! تم کو معلوم ہے کہ تمہارا چچا بہت مفلس ہے اور اس کے پاس فدیہ دینے کو کچھ نہیں ہے تو اس وقت آنحضرتﷺ نے مدینے میں بیٹھے بیٹھے فرمایا: چچا، مکے میں تمہارے گھر کے اندر فلاں جگہ تھیلی میںاتنا سونا رکھا ہے۔یہ سن کر حضرت عباسؓ فورا مسلمان ہو گئے اور انہوں نے کہا: اس سونے کی خبر میرے سوا اور کسی کو نہیں تھی۔ تم یقینا سچے پیغمبر ہو جو تم کو اس سونے کی خبر ہوگئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ ایک ایسا علم جانتے تھے جو دوسروں سے غائب اور غیب تھا اور آنحضرتﷺ ہی اس غیب کے عالم تھے۔
اسی طرح مکے کے دشمن چند مسلمانوں کو دھوکے سے مکے میں لے گئے اور وہاں بڑی بے دردی سے دشمنوں نے ان مسلمانوں کو مار ڈالا۔ جس وقت وہ مسلمان مرنے لگے تو انہوں نے بلند آواز سے کہا: یارسول اللہﷺ تم پر سلام۔ اسی وقت آنحضرت ﷺ نے مدینے میں بیٹھے بیٹھے فرمایا: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ اور اس کے بعد سب مسلمانوں سے فرمایا: تمہارے فلاں بھائی مکے میں اس وقت شہید ہوئے، ان کے لیے دعا کرو اور ان کے جنازے کی نماز پڑھو۔
الغرض اسی قسم کے بے شمار واقعات قرآن مجید میں اور حدیثوں میں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسے علم عطا فرمائے ہیں جن کے ذریعے وہ غیب کی باتیں جان لیتے ہیں۔چنانچہ جہاں حضرت بلقیس کے تخت لانے کا ذکر ہے وہاں حضرت آصف کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس شخص نے پلک چھپکاتے بلقیس کا تخت لانے کے لیے کہا جس کو خدا کی طرف سے ایک علم دیا گیا تھا اور قرآن مجید میں یہ بھی ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو زک دینے کے لیے حضرت آدم ؑ کو اسماء کا علم سکھایا تھا۔
نظامی بنسری، ۲۳۳ ۔۲۳۵

نوٹ: نظامی بنسری کتاب حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے مرید احمد ایاز(راجکمار ہر دیودکن کے ہندو شہزادے جو بعد میں مسلمان ہوئے) کی کتاب چہل روزہ سے ماخوذ ہے۔ اس کی ترتیب و تحشیہ خواجہ حسن نظامی دہلویؒ نے کی ہے۔​
 
Top