حضرت معروف کرخی کا مختصر تعارف

حضرت ِسیِّدُنا شیخ معروف کرخی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی وِلادت مقامِ کرخ میں ہوئی ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نام اسد الدین ہے لیکن معروف کرخی کے نام سے مشہور ہیں ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کنیت ابومحفوظ ہے۔آپ کے والدِ ماجد کا نام فیروز تھا۔۔۔۔۔۔​
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور مکمل تعلیم و تربیت بھی حضرت سیدنا امام علی رضا علیہ السلام کے زیرِ سایہ پائی اور فقہ حنفی کے عظیم پیشوا حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی علمِ دین حاصل کیا اور مزید علمِ طریقت کے لئے حضرت سیِّدُنا حبیب راعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عارفِ اسرارِ معرفت، قطبِ وقت اور بدرِ طریقت تھے۔​
ایک شخص کا بیان ہے کہ میں حضرت سیِّدُنا ابو محفوظ معروف کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میرے لئے دعا فرمائی اور میں واپس گھر آ گیا ۔ دوسرے دن پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر نشان بنا ہوا ہے جیسے کوئی چوٹ لگی ہو ۔کسی نے آپ سے پوچھا : "اے ابو محفوظ! ہم کل آپ کے پاس سارا دن رہے ، آپ کے چہرہ پر کوئی نشان نہ تھا ، یہ کیا نشان ہے اور کیسے ہوا؟" آپ نے فرمایا : "اپنے مطلب کی بات کرو اسے چھوڑ یہ تمہارے مطلب کا سوال نہیں ہے ۔" اس شخص نے عرض کیا ، آپ کو اپنے معبود کی قسم ! آپ اس بارے میں کچھ بتائیں! اس پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا : " میں نے گزشتہ رات یہاں نماز ادا کی اور خواہش ہوئی کہ بیت اللہ کا طواف کر لوں پس میں مکہ شریف چلا گیا ، طواف کیا پھر زمزم کی طرف چل پڑا، تاکہ اس کا پانی بھی پی لوں تومیں دروازہ پر پھسل گیا ، گرنے کی وجہ سے میرے چہرہ پر جو تم دیکھ رہے ہو چوٹ آ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔​
(جامع کرامات اولیاء ،ج ٢،ص٤٩١)​
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وصال شریف 2 محرم الحرام 200ہجری کو ہوا ۔آپ کا مزار شریف بغدادِ معلی میں زیارت گاہِ خلائق ہے ۔​
حضرت سیدنا خطیب بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں : "آپ کی قبرمبارک حاجتیں اور ضرورتیں پوری ہونے کے لئے مجرّب (یعنی آزمودہ)ہے۔"​
اللّٰہ عَزّوَجَلَّ کی اِن پر رحمت ہو اور اِن کے صد قے ہماری مغفِرت ہو۔۔۔​
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اب قبر سے حاجتیں اور ضرورتیں پوری ہونا مجرب نسخہ بن چکا ہے۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کو توفیق عطا فرمائے۔
 
ام المومنین جناب عائشہ اور ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ (ص) کے کرتے سے بیماری میں شفا حاصل کرتی تھیں​

صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء
حدثنا ‏ ‏يحيى بن يحيى ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏خالد بن عبد الله ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الملك ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الله ‏ ‏مولى ‏ ‏أسماء بنت أبي بكر ‏ ‏وكان خال ولد ‏‏ عطاء ‏ ‏قال ‏ ‏أرسلتني ‏ ‏أسماء ‏ ‏إلى ‏ ‏عبد الله بن عمر ‏ ‏فقالت بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة ‏ ‏العلم ‏ ‏في الثوب ‏ ‏وميثرة ‏ ‏الأرجوان ‏ ‏وصوم رجب كله فقال لي ‏ ‏عبد الله ‏ ‏أما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الأبد وأما ما ذكرت من ‏ ‏العلم ‏ ‏في الثوب ‏
فإني سمعت ‏‏ عمر بن الخطاب ‏ ‏يقول سمعت رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏إنما يلبس الحرير من ‏ ‏لا خلاق له ‏ ‏فخفت أن يكون ‏ ‏العلم ‏ ‏منه وأما ‏ ‏ميثرة ‏ ‏الأرجوان ‏ ‏فهذه ‏ ‏ميثرة ‏ ‏عبد الله ‏ ‏فإذا هي ‏ ‏أرجوان ‏ ‏فرجعت إلى ‏ ‏أسماء ‏ ‏فخبرتها فقالت هذه ‏‏ جبة ‏ ‏رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏فأخرجت إلي ‏‏ جبة ‏ ‏طيالسة ‏ ‏كسروانية ‏ ‏لها ‏ ‏لبنة ‏ ‏ديباج ‏ ‏وفرجيها مكفوفين ‏ ‏بالديباج ‏ ‏فقالت هذه كانت عند ‏ ‏عائشة ‏ ‏حتى قبضت فلما قبضت قبضتها وكان النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يلبسها فنحن نغسلها للمرضى ‏ ‏يستشفى بها​

حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم (ص) اس کو پہنتے تھے۔​
اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں۔

کیا اب بھی کوئی ام المومنین جنابِ عائشہ اور ان کی صحابیہ بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر کی گواہی کو جھٹلا سکتا ہے کہ رسول اللہ (ص) تو ایک طرف، آپ (ص) کا کر​
تہ تک اتنا بابرکت تھا کہ مدینے کے صحابہ بیماری کی حالت میں اس سے شفا حاصل کرتے تھے (حالانکہ بیماری سے شفا دینا اصل میں اللہ کا کام ہے۔)​

·​
کیا ام المومنین عائشہ اور حضرت اسماء بنت ابی بکر نے رسول اللہ (ص) کے اس جبہ سے فائدہ طلب کر کے اس کو اللہ کا شریک بنا دیا؟​
 
·​
اور انہوں نے اللہ سے براہ ِراست بیماری سے شفا کیوں نہیں مانگ لی؟​


خود سوچیے کہ جب انہوں نے جبہ سے بیماری کے خلاف مدد طلب کی تو کیا یہ مدد حقیقی معنوں میں تھی؟ یا پھر انہوں نے یہ مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی تھی اور جبہ سے مدد مانگنے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا کہ اس کے وسیلے سے رسول اللہ (ص) کی برکت بھی شامل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی مقبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؟​
 
اللہ تعالیٰ قران میں جنابِ یوسف ؑ کی قمیض کا ذکر کر رہا ہے کہ اس میں برکت تھی اور یہ طاقت تھی کہ اندھی آنکہوں کو ان کی بینائی لوٹا سکیں۔ قران کہہ رہا ہے:​

اذْهَبُواْ بِقَمِيصِي هَ۔ذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ​
(القران 12، آیات 93 تا 96) (یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا) کہ میری اس قمیض کے ساتھ واپس جاؤ اور اس کو میرے والد کے چہرے پر ڈال دینا اور وہ پھر سے صاف دیکہنے لگے گا۔۔۔۔۔۔۔ تو انہوں نے وہ قمیض اس کے چہرے پر ڈال دی اور فوراً ہی اسے (یعقوب کو) صاف نظر آنے لگا.​
 
اور انہوں نے اللہ سے براہ ِراست بیماری سے شفا کیوں نہیں مانگ لی؟



خود سوچیے کہ جب انہوں نے جبہ سے بیماری کے خلاف مدد طلب کی تو کیا یہ مدد حقیقی معنوں میں تھی؟ یا پھر انہوں نے یہ مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی تھی اور جبہ سے مدد مانگنے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا کہ اس کے وسیلے سے رسول اللہ (ص) کی برکت بھی شامل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی مقبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؟
 
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اب قبر سے حاجتیں اور ضرورتیں پوری ہونا مجرب نسخہ بن چکا ہے۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کو توفیق عطا فرمائے۔


ام المومنین حضرت ام سلمہ (ر) نظرِ بد اور بیماری کے خلاف رسول اللہ (ص) کے بالوں سے مدد (فائدہ) طلب کرتی تھیں​

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے اسرائیل نے، انہوں نے سلیمان بن عبدااللہ وہب سے کہا مجھ کو میرے گھر والوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پیالی پانی کی دے کر بھجوایا، اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں۔ یہ پیالی چاندی کی تھی۔ اس میں آنحضرت(ص) کے کچھ بال ڈال دئے گئے۔ عثمان نے کہا کہ جب کسی شخص کو نظرِ بد لگ جاتی تھی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا کنگھال (برتن) پانی کا بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتا (اور بی بی ام سلمہ رسول (ص) کے بالوں سے مس کیا ہوا پانی اس میں ڈال دیتیں)۔ عثمان نے کہا میں نے اس کو جھانک کر دیکھا تو سرخ سرخ بال دکھائی دئیے​
۔ صحیح بخاری، کتاب اللباس، ترجمہ از اہلحدیث عالم، مولانا وحید الزمان​

· کیا اب بھی کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھنا شرک ہے کہ رسول اللہ (ص) خدا کی اجازت سے ہمیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟​
 

شمشاد

لائبریرین
ملنگ شاہ صاحب پہلے اپنا تعارف تو دیں۔ باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔
 
پہلی بات تو یہ ہے کہ توسل جائز ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری اور صحاح میں دیگر احادیث سے توسل ثابت ہے۔ اور تمام اہلسنت والجماعت کا متفق علیہ عقیدہ ہے۔
البتہ یہ عقیدہ رکھنا کہ:
1۔ جو انسان وفات پا چکا وہ خود یہ کام کرسکتا ہے۔
2۔ جو انسان وفات پا چکا وہ اس کام کا اختیار رکھتا ہے
3۔ فوت ہوئے کسی نبی یا بزرگ سے براہِ راست لفظاً یا معناً مدد طلب کرنا۔
4۔ کسی نبی یا ولی کو مختارِ کل ماننا
5۔ کسی اہلِ قبر سے اس طرح کہنا کہ ہماری مشکل حل کردو یا حل کروادو
علی ہذا القیاس۔
یہ سب عقائد کفر یا شرک کے ذیل میں آتے ہیں۔

اوپر جتنے بھی حوالے دئے گئے کہیں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی انسان اس میں مختارِ کل اور مختار مطلق ہو اور اپنی قبر سے لوگوں کی مشکل کشائی کرے۔ جیسے یوسف علیہ السلام کا ذکر کیا تو یہ ان کا معجزہ تھا جس پر وہ خود بھی قادر نہیں۔
حضور ﷺ کے بال کا ذکر کیا گیا۔ ہم مانتے ہیں کہ اللہ کے مقرب بندوں اور خاص کر حضور ﷺ کے استعمال شدہ برتن اور کپڑوں اور بال، اور نعلین مبارک میں اللہ نے برکت رکھی ہے۔ لیکن اس برکت کا منبعِ فیض اللہ کی ذات ہے۔ یہ تصور کرنا کہ انکا کرتا مشکل کشا ہے غلط عقیدہ ہے۔
ہم اہلسنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ کوئی بزرگ، ولی، صحابہ یا نبی دنیا کا کوئی بھی خرقِ عادت کام دے سکتا ہے چاہے وہ مردے کو زندہ کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اس میں اس کا اختیار کوئی نہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے بعض اوقات اولیاء سے ایسی کرامات سرزد کروادیں جو نبی کے ہاتھوں پر بھی نہیں ہوئیں۔
اس سے ثابت یہ ہوا کہ مختارِ کل اللہ کے علاوہ کوئی بھی نہیں۔ ورنہ اگر بات مختاری کی ہوتی تو ولی کے ذریعے نبی سے بڑے کام سرزد ہونا محال ہوتا۔ کوئی انسان اگر مردے کو زندہ بھی کرکے دکھا دے تو اس کی قبر سے مدد طلب نہیں کی جائے گی۔ اس کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ کیوں کہ وہ مختار نہیں۔ بلکہ اللہ کی ذات کا محتاج ہے۔
 
Top