حضرت علی المرتضیٰ ع حاکموں کے لیے نمونہ

حضرت علی المرتضیٰ ع حاکموں کے لیے بہترین نمونہ

جناب امیر المومنین تیس عام الفیل ہجرت سے 23سال قبل خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔اور تمام علماء کرام کا کہنا ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر ولادت ہونے کی سعادت صرف بہ صرف آپ کو ہوئی،یہ شرف خود رسول اللہ کو بھی میسر نہیں ہوا۔
حضرت علی المرتضیٰ کی فضائل و مناقب کے حوالے سے اس مختصر کالم میں بیان کرنا ناممکن ہے۔تاہم دریا کو کوزے میں بند کرنے کی ہم کوشش کریں گے۔
دین مبین اسلام کی بنیاد جو رسول اللہ نے ڈالی ۔شجریہ طیبہ کا درخت جورسول اللہ نے اگائی ۔اس کی آبیاری کرنے میں جہاں خود رسول اللہ بندوست فرمایا وہاں علی المرتضیٰ بھی آپ کے ساتھ ساتھ برابر کے شریک تھے۔
دعوت ذوالعشیرہ کے موقعے پر جب خداوند متعال کی طرف سے حکم ہوا کہ وانذر عشیرتک الاقربین۔ کہ اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دے دیجیے ۔تو اس حکم خدا کی تعمیل کرتے ہوئے رسول اللہ نے حضرت ابو طالب کو کھانے کا بندوست کی ذمہ درای دے دی ۔چالیس افراد پر مشتمل اپنے خاندان کو خوب دعوت کا اہتمام کیا۔ دو روز تک سارے کھانا کھانے کے بعد جب رسول اللہ تبلیغ کرنے کا ارادہ کیا تو آپ کو بالکل موقع نہیں دیا گیا۔ جب تیسرے دن بھی کھانا کھانے کے بعد جب رسول اللہ تبلیغ اسلام کے غرض سےمحفل میں خطاب کرنا چاہا تو لوگ جانے کا ارادہ کیا جناب ابو طالب نے لوگوں کو بٹھایا اور رسول اللہ کو دین اسلام کی تبلیغ کا موقع فراہم کیا۔اسی موقع پر رسول اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے کون ہے ؟ جو میرے ساتھ اس امر خیر میں میری مدد کریں تاکہ وہ میر ا وزیر،جانشین اور میراخلیفہ ہوگا۔ تین مرتبہ رسول اللہ نے یہی سوال دھرایا مگر کسی نے بھی جواب نہیں دیا اس موقعے پر علی مرتضیٰ ابھی کمسن تھے اپنے ننھے ہاتھوں کو بلند کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یارسول اللہ میں آپ کی مدد کے تیار ہوں ۔
اور واقعا اسی عہدو پیمان پر باقی رہتے ہوئے علی المرتضیٰ نے ایک کامیاب زندگی گزاری۔
حضرت علی خود کی نگاہ میں کیا ہے اس حدیث سے اندازہ کر سکتے ہیں ۔فرمایا انا عبد من عبید محمد ۔میں محمد صلی اللہ کے غلاموں میں سے ایک ادنی غلام ہوں۔ اسی طرح فرمایا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنے ماں کے پیچھے چلتا ہے بالکل میں بھی رسول اللہ ویسے ہی پیروی کرتا ہوں۔
علی المرتضیٰ کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔علی کی بچپن کی زندگی ہمارے بچوں کے لیے نمونہ ،جوانی کی زندگی ہمارے جوانوں کے نمونہ ، علی بطور حاکم حاکموں کے لیے نمونہ، بطور سیاستدان ہمارے سیاستدانوں کے نمونہ ہے ۔ آپ نے بطور خلیفہ چار سال دس مہینے تک ظاہری حکومت کی۔اگرچہ یہ مختصر دورانیہ تھا لیکن رہتی دنیا تک تمام حاکموں کے لیے بہترین سیرت ہے۔
علی المرتضیٰ نے حاکموں کے لیے جو نصیحتیں کیں ہیں وہ آج دنیا کے تمام آئین میں کم وبیش شامل ہیں۔جب
مالک اشتر کے نام حضرت علی علیہ السلام کا خط۔ اس وقت جب انہیں محمد بن ابی بکر کے حالات کے خراب ہوجانے کے بعد مصر اور اس کے اطراف کا عامل مقرر فرمایا۔ اور یہ عہد نامہ حضرت کے تمام سرکاری خطوط میں سب سے زیادہ مفصل اور محاسن کلام کا جامع ہے۔
اس میں سے کچھ اقتباس ۔
یہ وہ فرمان ہے جو بندہ خدا، امیر المومنین علی نے مالک بن اشتر نخعی کے نام لکھا ہے جب انہیں کراج جمع کرنے، دشمن سے جہاد کرنے، حالات کی اصلاح کرنے اور شہروں کی آبادکاری کے لئے مصرف کا عامل قرار دے کر کر روانہ کیا۔
سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو، اس کی اطاعت کو اختیار کرو اور جن فرائض و سنن کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کے اتباع کے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا ہے اور کوئی شخص ان کے انکار اور بربادی کے بغیر بدبخت نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ اپنے دل، ہاتھ اور زبان سے دین خدا کی مدد کرتے رہنا کہ خدائے "عز اسمہ" نے یہ ذمہ داری لی ہے کہ اپنے مددگاروں کی مدد کرے گا اور اپنے دین کی حمایت کرنے والوں کو عزت و شرف عنایت کرے گا۔
دوسرا حکم یہ ہے کہ اپنے نفس کے خواہشات کو کچل دو اور اسے منہ زوریوں سے روکے رہو کہ نفس برائیوں کا حکم دینے والا ہے جب تک پروردگار کا رحم شامل نہ ہوجائے۔ اس کے بعد مالک یہ یاد رکھنا کہ میں نے تم کو ایسے علاقہ کی طرف بھیجا ہے جہاں عدل و ظلم کی مختلف حکومتیں گذر چکی ہیں اور لوگ تمہارے معاملات کو اس نظر سے دیکھ رہے ہیں جس نظر سے تم ان کے اعمال کو دیکھ رہے تھے اور تمہارے بارے میں وہی کہیں گے جو تم دوسرں کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ نیک کردار بندوں کی شناخت اس ذکر خیر سے ہوتی ہے جو ان کے لئے لووگں کی زبانوں پر جاری ہوتا ہے۔ لہذا تمہارا محبوب ترین ذخیرہ عمل صالح کو ہونا چاہیے۔ خواہشات کو روک کر رکھو اور جو چیز حلال نہ ہو اس کے بارے میں نفس کو صرف کرنے سے بخل کرو کہ یہی بخسل اس کے حق میں اصاف ہے، چاہے اسے اچھا گلے یا برا – رعایا کے ساتھ مہربانی اور محبت و رحمت کو اپنے دل کا شعار بنا لو اور خبردار ان کے حق میں بھاڑ کھانے والے درندہ کے مثل نہ ہوجانا کہ انہیں کھا جانے ہی کو غنیمت سمجھنے لگے – کہ مخوقات خدا کی دو قسمیں ہیں بعض تمہارے دینی بھائی ہیں اور بعض خلقت میں تمہارے جیسے بشیر ہیں جن سے لغزشیں بھی ہوجاتی ہیں اور انہیں خطائوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جان بوجھ کر یا دھوکے سے ان سے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں – لہذا انہیں ویسے ہی معاف کردینا جس طرح تم چاہتے ہو کہ پروردگار تمہاری غلطیوں سے درگذر کرے کہ تم ان سے بالاتر ہو اور تہمارا ولی امر تم سے بالاتر ہے اور پروردگار تمہارے والی سے بھی بالاتر ہے اور اس نے تم سے ان کے معاملات کی انجام دہی کا مطالبہ کیا ہے اور اسے تمہارے لئے ذریعہ آزمائش بنا دیا ہے اور خبردار اپنے نفس کو اللہ کے مقابلہ پر نہ اتار دینا۔ کہ تمھارے پاس اس کے عذاب سے بچنے کی طاقت نہیں ہے اور تم اس کے عضو اور رحم سے بے نیازبھی نہیں ہو۔ اور خبر دار کسی کو معاف کردینے پرنادم نہ ہونا اور کسی کو سزادے کراکڑ نہ جانا۔ غیط و غضب کے اظہار میں جلدی نہ کرنا اگر اس کے ٹال دینے کی گنجائش پائی جاتی ہو اور خبر دار یہ نہ کہنا کہ مجھے حاکم بنا یا گیا ہے لہٰذا میری شان یہ ہے کہ میں حکوم دوں اور میری اطاعت کی جائے کہ اس طرح دل میں فساد داخل ہو جا ئے گا اور دین کمزور پڑجائے گا اور انسان تغیرات زما نہ سے قریب تر ہو جائے گا۔ اور اگر کبھی سلطنت و حکومت کو دیکھ کر تمھارے دل میں عظمت و کبریائی اور غرور پیدا ہونے لگے تو پروردگار کے عظیم ترین ملک پر غورکرنا اور یہ دیکھنا کہ وہ تمھارے اوپر تم سے زیادہ قدرت رکھتا ہے کہ اس طرح تمھاری سرکشی دب جائے گی۔ تمھاری طغیانی رُک جائے گی اور تمھاری گئی ہوئی عقل واپس آجائے گی۔ دیکھو خبر دار اللہ سے اس کی عظمت میں مقابلہ اور اس کے جبروت سے تشابہ کی کوشش نہ کرنا کہ وہ ہرجبار کو ذلیل دیتا ہے اور ہر مغرور کو پست بنادیتا ہے۔ اپنی ذات' اپنے اہل و عیال اور رعایا میں جن سے تمھیں تعلق خاطر ہے سب کے سلسلہ میں اپنے نفس اور اپنے پروردگار سے انصاف کرنا کہ ایسا نہ کرو گے تو ظلم ہو جاؤ گے اور جو اللہ کے بندوں پر ظلم کرے گا اس کے دشمن بندے نہیں خود پروردگار ہوگا اور جس کا دشمن پروردگار ہو جائے گا اس کی ہر دلیل باطل ہوجائے گی اور وہ پروردگار کا مد مقابل شمار کیا جائے گا جب تک اپنے ظلم سے بازنہ آجائے یا توبہ نہ کرلے ۔ اللہ کی نعمتوں کی بر بادی اور اس کے عذاب میں عجلت کا کوئی سبب ظلم پر قائم رہنے سے بڑا نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ مظلومین کی فریاد کا سننے والا ہے اور ظالموں کے لئے موقع کا انتظار کر رہا ہے۔ تمھارے لئے پسندیدہ کام وہ ہونا چا ہئے جو حق کے اعتبار سے بہترین انصاف کے اعتبار سے کو شامل اور رعایا کو مرضی سے اکثریت کے لئے پسندیدہ ہو کہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے اور خاص لوگوں کی ناراضگی عام افراد کی رضامند کے ساتھ قابل معافی ہو جاتی ہے۔ رعایا ہیں خواص سے زیادہ والی پر خوشحال میں بوجھ نبنے والا اور بلاؤں میں کم سے کم مدد کرنے والا۔ انصاف کو نا پسند کرنے والا اور اصرار کے ساتھ مطالبہ کرنے والا عطا کے موقع پر کم سے کم شکریہ ادا کرنے والا اور نہ دینے کے موقع پر بمشکل عذر قبول کرنے والا۔ زمانہ کے مصائب میں کم سے کم صبر کرنے والا۔کوئی نہیں ہوتا ہے ۔ دین کا ستون۔ مسلمانوں کی اجتماعی طاقت دشمنوں کے مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتے ہیں لہٰذا تمھارا جھکاؤ انھیں کی طرف ہونا چاہئے اور تمھارا رجحان انھیں کی طرف ضروری ہے۔ رعا یا میں سب سے زیادہ دور اور تمھارے نزدیک مبغوض اس شخص کو ہونا چاہئے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے عیوب کا تلاش کرنے والاہو۔ اس لئے کہ لوگوں میں بہر حال کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور ان کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری والی پر ہے لہٰذا خبر دار جو عیب تمھارے سامنے نہیں ہے اس کا انکشاف نہ کرنا ۔ تمھاری ذمہ داری صرف عیوب کی اصلاح کر دینا ہے اور غائبات کا فیصلہ کرنے والا پروردگار ہے۔ جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ا ن تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو جن اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگار سے تمنا کرتے ہو۔ لوگوں کی طرف سے کینہ کی ہر گر ہ کو کھول دو اور دشمنی کی ہر رسّی کو کاٹ دو اور جو بات تمھارے لئے واضح نہ ہو اس سے انجان بن جاؤ اور ہر چغل خور کی تصدق میں عجلت سے کام نہ لوکہ چغل خور ہمیشہ خیانت کار ہوتا ہے چاہے وہ مخلصین ہی کے بھیس میں کیوں نہ آئے۔(مشاورت) ٰدیکھو اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا کہ وہ تم کو فضل و کرم کے راستہ سے ہٹادے گا اور فقر و فاقہ کا خوف دلاتا رہیگا اور اسی طرح بزدل سے مشورہ نہ کرنا کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور بنا دے گا ۔ اور حریص سے بھی مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالما نہ طرقہ سے مال جمع کرنے کو بھی تمارے نگاہوں میں آراستہ کردے گا۔ یہ بخل بُزدلی اور طمع اگر چہ الگ جذبات و خصائل ہیں لیکن ان کا قدر مشترک پروردگار سے سوء ظن ہے جس کے بعد ان خصلتوں کا ظہور ہوتا ۔
آخر میں ہمارے منتخب نمائندوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اگر آپ خود کو عوام کا صحیح نمائندہ سمجھتے ہو تو
کم از کم ایک دفعہ اس خط کو غور سے پڑھیں ۔قوی امکان ہے کہ آپ کا رویہ عوام کے ساتھ بہتر ہوگا۔
 

سیما علی

لائبریرین
آخر میں ہمارے منتخب نمائندوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اگر آپ خود کو عوام کا صحیح نمائندہ سمجھتے ہو تو
کم از کم ایک دفعہ اس خط کو غور سے پڑھیں ۔قوی امکان ہے کہ آپ کا رویہ عوام کے ساتھ بہتر ہوگا۔
جزاک اللّہ خیر
پر اثر ان پر ذرا نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین

امیر المؤمنین علی (ع) کے اس خطبے میں موجود سوالات کے جوابات دیں تا کہ شبہات ختم ہو سکیں۔

امير المؤمنين علی (ع) نے کتاب نہج البلاغہ کے خطبہ 91 میں فرمایا ہے:

دَعُونِي وَ الْتمِسُوا غَيْرِي فَإِنَّا مُسْتَقْبِلُونَ أَمْراً لَهُ وُجُوهٌ وَ أَلْوَانٌ لَا تَقُومُ لَهُ الْقُلُوبُ وَ لَا تَثْبُتُ عَلَيْهِ الْعُقُولُ وَ إِنَّ الْ آفَاقَ قَدْ أَغَامَتْ وَ الْمحَجَّةَ قَدْ تَنَكَّرَتْ. وَ اعْلَمُوا أَنِّي إِنْ أَجَبْتُكُمْ رَكِبْتُ بِكُمْ مَا أَعْلَمُ وَ لَمْ أُصْغِ إِلَي قَوْلِ الْقَائِلِ وَ عَتْبِ الْعَاتِبِ وَ إِنْ تَرَكْتُمُونِي فَأَنَا كَأَحَدِكُمْ وَ لَعَلِّي أَسْمَعُكُمْ وَ أَطْوَعُكُمْ لِمَنْ وَلَّيْتُمُوهُ أَمْرَكُمْ وَ أَنَا لَكُمْ وَزِيراً خَيْرٌ لَكُمْ مِنِّي أَمِيراً.

سوال 1:

اگر امامت اصول دين میں سے ہے، اگر علی (ع) انبیاء کی طرح خداوند کی طرف سے انتخاب شدہ ہیں، اگر آیت تبلیغ، آيت تطہير، حديث غدير اور حديث منزلت وغیرہ کے مطابق متعدد مرتبہ رسول خدا (ص) کے جانشین کے طور پر نصب ہوئے ہیں تو پھر کیوں وہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے چھوڑو جاؤ کسی دوسرے کو اپنا خلیفہ بناؤ ؟

سوال 2:

کیا یہ اسکا انداز کلام ہے کہ جو خداوند کی طرف سے انتخاب ہوا ہے ؟ اگر وہ واقعا رسول خدا (ﷺ
) کی طرف سے معیّن ہوئے تھے تو پھر ان شرائط کو رکھنے کا کیا معنی ہے ؟ کیا کبھی کسی نے سنا ہے کہ خدا کی طرف سے ایک نبی آیا ہو اور وہ کہے کہ ابھی حالات مناسب نہیں ہیں لہذا مجھے ان کاموں سے معاف کرو «دعوني و التمسوا غيري» اور کہے کہ اگر تم اتنا اصرار کر رہے ہو تو میں بھی اس شرط کے ساتھ قبول کروں گا کہ جیسے میں خود چاہوں گا، ویسے امت اسلامی پر حکومت کروں گا ؟

سوال 3

وہ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے اس کام سے معاف کر دو تو میں بھی تمہاری طرح عوام میں شمار ہوں گا، کیسے ؟ یعنی جسکا وظیفہ انبیاء سے بھی مہم تر ہو وہ اس حد تک وظیفے سے فرار کرے کہ اپنے آپکو عام عوام کی طرح شمار کرے بلکہ یہ بھی فرمائے کہ: جسکو تم لوگ حکومت دو شاید میں تم لوگوں کی نسبت کا زیادہ مطیع اور فرمانبردار ہوں گا۔

سوال 4:

حضرت علی (ع) نے فرمایا:

لِمَنْ وَلَّيْتُمُوهُ أَمْرَكُمْ،

جسکے حوالے تم اپنی حکومت کرو گے،

کیوں فرمایا: اپنی حکومت کو ؟ کیا کسی کو حکومت دینا لوگوں کے اختیار میں ہے کہ جسے چاہیں دے دیں ؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ خداوند امام اور خلیفہ کو معیّن کرتا ہے اور لوگوں کو اس میں دخالت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ؟ کیا تم لوگ نہیں کہتے کہ شورا خلیفہ کا انتخاب نہیں کر سکتی ؟ کیا انھوں نے اہل شورا کو غاصب نہیں کہا ؟ پس کیسے حضرت علی (ع) فرما رہے ہیں: تم جسکو بھی اپنی حکومت دے دو گے، میں بھی اسکی اطاعت کروں گا،

«وليتموه» کا لفظ استعمال کیا کیوں نہ کہا: «ولاه الله» ؟ جسکو بھی خدا معیّن کرے گا میں اسی کی اطاعت کروں گا ؟

سوال 5:

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں:

وَ أَنَا لَكُمْ وَزِيراً خَيْرٌ لَكُمْ مِنِّي أَمِيراً،

میرے تم پر امیر و حاکم بننے سے بہتر ہے کہ میں تمہارا وزیر رہوں،

یہ کیسے ہے ؟ مگر جسکو خدا نے معیّن کیا ہے، جسکو رسول خداﷺ
( نے نصب کیا ہے، جسکی امامت پر بے شمار آیات و روایات دلالت کرتی ہوں، اسکا دائرہ اختیار کتنا ہے کہ اپنی مرضی سے منصب الہی کو قبول نہ کرے اور سخاوت سے کام لیتے ہوئے کہے کہ اصرار نہ کرو میں حاکم نہیں بنتا میں وزیر اور مشاور ہی ٹھیک ہوں، اگر وہ خدا کی طرف سے انتخاب ہوئے تھے تو انکا کہنا کہ میرا وزیر بننا، میرے حاکم بننے سے بہتر ہے تو پھر عہدے کا چناؤ کرنا کس کے اختیار میں ہے ؟

یہ خداوند ہی ہے کہ جو معیّن کرتا ہے کہ کون امام بہتر ہے اور کون سا وزیر ؟ اب قبول بھی کر لیں کہ حضرت علی معصوم تھے، کیا معصوم اپنی رائے سے حکم خدا کو تبدیل کر سکتا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو اس بات پر دلیل کیا ہے ؟

امام علی (ع) اور حكومت کا قبول کرنا:

مندرجہ بالا سوالات کے جواب میں کہنا چاہیے کہ:

اولاً: حضرت علی (ع) نے یہ خطبہ اس وقت ارشاد فرمایا تھا کہ جب امت اسلامی میں آشوب و فتنے شروع ہو چکے تھے اور خلفاء کی ایجاد کردہ بدعتوں کی وجہ سے لوگ اسلام واقعی سے دور اور سنت حقیقی کو بالکل بھولا چکے تھے۔

امام شافعی نے كتاب الام میں وہب ابن كيسان سے نقل کیا ہے کہ:

كلّ سنن رسول الله قد غيّرت حتي الصلاة،

نماز سمیت رسول خدا کی ہر سنت کو تبدیل کر دیا گیا تھا۔

كتاب الام: ج 1 ص 208

ابن سعد نے کتاب طبقات میں ذکر کیا ہے:

عن الزهري قال: دخلت علي أنس ابن مالك بدمشق و هو وحده يبكي، فقلت: ما يبكيك؟ قال: لا أعرف شيئا مما أدركت ، إلا هذه الصلاة وقد ضيّعت،

زہری کہتا ہے کہ میں انس ابن مالک کے پاس گیا، میں نے دیکھا کہ وہ اکیلا بیٹھا رو رہا ہے، میں نے اس سے پوچھا: کیوں رو رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا: مجھے کوئی چیز بھی رسول خداﷺ
کے زمانے کے مطابق نظر نہیں آ رہی، ایک نماز تھی اسکو بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔
صحيح الترمذي: ج 3 ص 302

وجامع بيان العلم: ج 2 ص 244

والزهد والرقائق: ص 531

وضحي الإسلام: ج 1 ص 365

امام مالک نے كتاب الموطأ میں اپنے جدّ سے نقل کیا ہے:

ما أعرف شيئاً ممّا أدركت الناس إلا النداء بالصلاة،

نماز کے علاوہ کوئی شے اپنی اصلی حالت میں نہیں ہے۔

الموطأ، ج 1 ص 93 وشرحه ج 1 ص 122

اور اسکے علاوہ بہت سے موارد ایسے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خلفاء کی اسلام حقیقی سے عدم آگاہی اور خلاف سنت اعمال انجام دینے کی وجہ سے، حقیقی اسلام اور شرعی احکام لوگوں کے درمیان سے ختم ہو چکے تھے۔

اور حتی نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ جب 25 سال بعد حضرت علی (ع) نے خلیفہ بننے کے بعد نماز با جماعت پڑھائی تو لوگوں اور بوڑھے اصحاب نے کہا:
علی کی نماز نے آج ہمیں رسول خداﷺ
کی نماز کی یاد دلا دی ہے
مطرف سے نقل ہوا ہے کہ کہتا ہے کہ میں اور عمران ابن حصین نے علی کے پیچھے نماز پڑھی، وہ (علی) جب سجدہ کرتا تھا تو تکبیر کہتا تھا، اور جب وہ دو رکعت کے بعد قیام کے لیے کھڑا ہوتا تھا تو بھی تکبیر کہتا تھا، جب ہم نماز سے فارغ ہو گئے تو عمران نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: ہم نے بالکل یہی نماز رسول خدا
کے ساتھ بھی پڑھی تھی،
یا اس نے کہا: اس (علی) نے ہمیں رسول خدا
کی نماز کی یاد دلا دی ہے۔

صحيح مسلم: ج 2 ص 8 ، (1 / 169) باب إثبات التكبير من كتاب الصلاة

روي البخاري، عن عمران بن حصين قال: صلّي مع علي بالبصرة فقال: ذكرنا هذا الرجل صلاة كنّا نصليها مع رسول اللّه صلي الله عليه وسلم.

عمران ابن حصین سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہم نے بصرہ میں علی کے ساتھ نماز پڑھی تو اس مرد (علی) نے ہمیں رسول خدا کے ساتھ پڑھنے والی نماز کی یاد دلا دی ہے۔

صحيح البخاري: ج 1 ص 200، باب إتمام التكبير في الركوع من كتاب الآذان
 
Top