حضرت جنید بغدادی رح اور حضرت بہلول رح کی ایمان افروز گفتگو

اوشو

لائبریرین
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺷﯿﺦ ﺟﻨﯿﺪ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺳﮯ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﺮﯾﺪ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﮯ۔ ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﻣﺮﯾﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ" :ﺗﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ?" ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ" : ﺣﻀﺮﺕ! ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ?" ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ" :ﺫﺭﺍ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﮐﻮ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻭ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ۔" ﻣﺮﯾﺪﻭﮞ ﻧﮯ ﺷﯿﺦ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﻞ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺳﻤﺠﮭﯽ۔ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺟﺴﺘﺠﻮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﮯ۔
ﺷﯿﺦ, ﺑﮩﻠﻮﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﻨﭧ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﯿﮟ۔ ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ" :ﺗﻢ ﮐﻮﻥ ﮨﻮ?" "ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺟﻨﯿﺪ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ۔" "ﺗﻮ ﺍﮮ ﺍﺑﻮﺍﻟﻘﺎﺳﻢ! ﺗﻢ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺷﯿﺦ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ﮨﻮ ﺟﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﮑﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮ?" "ﺟﯽ ﮨﺎﮞ, ﮐﻮﺷﺶ ﺗﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔"
"ﺍﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺗﻮ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯽ ﮨﻮ ﮞ ﮔﮯ?" "ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ, ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ, ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻧﻮﺍﻟﮧ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ, ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭼﺒﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ, ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻧﻮﺍﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ۔" ﭘﮭﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﮐﮩﺎ" :ﺟﻮ ﻟﻘﻤﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ, ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﮬﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﮬﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔" ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﺍﭨﮫ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﺷﯿﺦ ﺟﻨﯿﺪ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﮭﭩﮏ ﺩﯾﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ" :ﺗﻢ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﺮ ﻣﺮﺷﺪ ﺑﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺣﺎﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﮏ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ۔" ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻟﯿﺎ۔ ﺷﯿﺦ ﮐﮯ ﻣﺮﯾﺪﻭﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ" :ﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ! ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﺗﻮ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﮨﮯ۔" "ﮨﺎﮞ! ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﺗﻮ ﮨﮯ, ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻥ ﮐﺎﭨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺳﭽﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ﺁﺅ, ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﻠﯿﮟ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ۔"
ﺑﮩﻠﻮﻝ ﺍﯾﮏ ﻭﯾﺮﺍﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ۔ ﺷﯿﺦ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﯿﺦ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ" :ﮐﻮﻥ ﮨﻮ ﺗﻢ?" "ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ﺷﯿﺦ! ﺟﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ۔" ﺑﮩﻠﻮﻝ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ" :ﺧﯿﺮ ﺗﻢ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺁﺩﺍﺏ ﺳﮯ ﻧﺎﻭﺍﻗﻒ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ?" ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ" :ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﻮ ﮨﻮﮞ۔" "ﺗﻮ ﺑﺘﺎﺅ, ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ?" "ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺑﮯﻣﻮﻗﻊ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻮﻟﮯ ﺟﺎﺗﺎ, ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺧﻠﻖ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﮐﮯ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﻻﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﯾﮧ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﮩﻮﮞ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﯿﺰﺍﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ ﺑﺎﻃﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻇﺎﮨﺮ ﯼ ﻋﻠﻮﻡ ﮐﮯ ﻧﮑﺘﮯ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔" ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﮯ ﺁﺩﺍﺏ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﮟ۔ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ" :ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺁﺩﺍﺏ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺭﮨﮯ۔ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮈﮬﻨﮓ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ۔" ﭘﮭﺮ ﺷﯿﺦ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﮭﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﺩﯾﮯ۔ ﻣﺮﯾﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﻧﮧ ﺭﮨﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ" :ﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ! ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﺗﻮ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﺩﯾﻮﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﯿﺎ ﺗﻮﻗﻊ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ?" "ﺑﮭﺌﯽ! ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ۔ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﺘﮯ۔"
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﯿﺎ۔ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﻧﮯ ﻣﮍ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ: "ﺗﻤﮭﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺁﺩﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﯿﮟ ۔ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺗﻮ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﺎ?" ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ" :ﺟﯽ ﮨﺎﮞ! ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ۔" "ﺍﭼﮭﺎ ﺑﺘﺎﺅ, ﺗﻢ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﻮ?" "ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻋﺸﺎ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺩ ﻭ ﻭﻇﺎﺋﻒ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔" ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺁﺩﺍﺏ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﺰﺭﮔﺎﻥ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ" :ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺁﺩﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ۔" ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﻧﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻨﯿﺪ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ" :ﺍﮮ ﺣﻀﺮﺕ! ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﮑﮭﺎ ﺩﻭ۔"
ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ" :ﻣﯿﺎﮞ! ﯾﮧ ﺟﺘﻨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﯿﮟ, ﺳﺐ ﺑﻌﺪ ﮐﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺻﻞ ﺑﺎﺕ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺳﻨﻮ۔ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺻﻞ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺣﻼﻝ ﮐﯽ ﺭﻭﺯﯼ ﮨﻮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﻏﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﻣﻼﻭﭦ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﺁﺩﺍﺏ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﮯ, ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺮﺗﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﺭﻭﺷﻦ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔" ﺷﯿﺦ ﺟﻨﯿﺪ ﻧﮯ ﺑﮯﺳﺎﺧﺘﮧ ﮐﮩﺎ" :ﺟﺰﺍﮎ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﯿﺮﺃً۔" ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﮭﻼ ﮐﺮﮮ
ﭘﮭﺮ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ" :ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻝ ﮐﺎ ﭘﺎﮎ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﺖ ﮐﺎ ﺻﺎﻑ ﮨﻮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﯽ ﺟﺎﺋﮯ , ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺿﺎﻣﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮ۔ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﺮﺽ ﯾﺎ ﺩﻧﯿﺎﻭﯼ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﺎ ﻟﮕﺎﺅ ﯾﺎ ﺑﺎﺕ ﻓﻀﻮﻝ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﮦ ﮐﺘﻨﮯ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ, ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﻭﺑﺎﻝ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ, ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﻼﻡ ﺳﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ۔"
ﭘﮭﺮ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺑﺘﺎﯾﺎ" :ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺻﻞ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺍﺻﻞ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﻢ ﺳﻮﻧﮯ ﻟﮕﻮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﺑﻐﺾ, ﮐﯿﻨﮧ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﺪ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﻮ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻝِ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﻨﺪ ﺁﻧﮯ ﺗﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺫﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺭﮨﻮ۔"
ﺑﮩﻠﻮﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻨﯿﺪ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ۔ ﺷﯿﺦ ﺟﻨﯿﺪ ﮐﮯ ﻣﺮﯾﺪ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺷﺮﻣﺎﺋﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻨﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﺳﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﺒﻖ ﯾﮩﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ, ﺑﮩﺖ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﺻﻼﺡ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺴﺎ ﺭﮦ ﺟﺎﺗ ﺎ ﮨﮯ---
 

الف نظامی

لائبریرین
کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا" :تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟" لوگوں نے کہا" : حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟" شیخ نے جواب دیا" :ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔" مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔
شیخ, بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا" :تم کون ہو؟" "میں ہوں جنید بغدادی"
"تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"
"جی ہاں،کوشش تو کرتا ہوں"
"اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟"
"کیوں نہیں،بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں،چھوٹا نوالہ بناتا ہوں،آہستہ آہستہ چباتا ہوں،دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا"
پھر دوبارہ کہا:" جو لقمہ بھی کھاتا ہوں, الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں"
یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا" :تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے"
یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔
شیخ کے مریدوں نے کہا:" یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے"
"ہاں! دیوانہ تو ہے،مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آو ،اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے"
بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا:" کون ہو تم؟"
"میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا"
بہلول نے کہا:" خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟"
شیخ نے جواب دیا:"جی ہاں جانتا تو ہوں"
"تو بتاو، کس طرح بات کرتے ہو؟"
"میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا،سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں"
اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔
بہلول نے کہا:"کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا"
پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا " یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟"
"بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے"
اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمہیں معلوم ہی ہو گا؟"
شیخ نے کہا:" جی ہاں! معلوم ہے"
"اچھا بتاو،تم کس طرح سوتے ہو؟"
"جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں"
یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔
بہلول نے کہا:" معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے"
یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا:" اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو"

کچھ دیر بعد بہلول نے کہا:" میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں, سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی ملاوٹ ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے, ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا"
شیخ جنید نے بےساختہ کہا" :جزاک اللہ خیراً " اللہ تمہارا بھلا کرے
پھر بہلول نے بتایا:"گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاو یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی،تمہارے لیے وبال بن جائے گی،اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے"
پھر سونے کے متعلق بتایا:"اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض،کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو"
بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔ حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں, بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے ---
 
آخری تدوین:
Top