حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت کا ایک واقعہ

نیلم

محفلین
سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے بعد حضرت بلال کی ایک اذان ۔ پورا مدینہ اسے سن کر رونے لگا تھا

****************************
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو تم نے کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو، پھر کہنے لگے کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، اور... شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :

ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟

حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 308

’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘

خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک! یا سیدی یا رسول اﷲ! کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟

بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :

يا بلال! نشتهی نسمع أذانک الذی کنت تؤذن لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی المسجد.

سبکی، شفاء السقام : 239
هيتمی، الجوهر المنظم : 27

’’اے بلال! ہم آج آپ سے وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے ناناجان) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘

اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو انکار کا یارا نہ تھا، لہٰذا اسی مقام پر کھڑے ہوکر اذان دی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں دیا کرتے تھے۔ بعد کی کیفیات کا حال کتبِ سیر میں یوں بیان ہوا ہے :

ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 2358
سبکي، شفاء السقام : 340
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 308

’’جب آپ رضی اللہ عنہ نے (بآوازِ بلند) اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا، مدینہ منورہ گونج اٹھا (آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا)، جب اشھد ان لا الہ الا اﷲ کے کلمات ادا کئے گونج میں مزید اضافہ ہو گیا، جب اشھد ان محمداً رسول اﷲ کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتی کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں (رقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا) لوگوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔
 
ماشاء اللہ بہن ۔
اللہ عزوجل اپنے حبیب ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے صدقے آپ کے درآجات بہت بلند فرماے۔ آمین یا رب العالمین۔
حقیقی عشق وہی تھا ۔ کہ بلاوا آے اور بندہ سر کے بل دوڑا چلا آے۔ اللہ عزوجل ھم گستاخ سیاہ کاروں کے دلوں کو بھی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے جیسا منور فرما دے۔ آمین بجاہ النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا رب العالمین۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
سبحان اللہ!
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
اذان ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
 

زبیر مرزا

محفلین
سبحان اللہ
جزاک اللہ
اللہ تعالٰی ہمیں شوق بلالی
رضی اللہ عنہ​
اور عشق بلالی
رضی اللہ عنہ​
کوسمجھنے اوراس کی روشنی سے قلوب کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے
 

باباجی

محفلین
خوب خوب
مجھ جیسے پتھر کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں
اے کاش ہمیں بھی اس عشق کا ایک ذرہ عنایت ہو جائے
پھر کوئی غم نہ ہو، چاہے قیامت ہو جائے
 

علی چوہدری

محفلین
بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ ( صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے چند مخلص اصحاب میں سے ایک صحابی تھے
اللہ تعالی ہمیں بلال رضی اللہ عنہ کے غلاموں میں شمار فرمائے بلال رضی اللہ عنہ صرف موذن ہی نہیں تھے بلکہ بلال مدرس تھے جنہوں نے ہمیں درس دیا کہ رسول اللہ(صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت کیسے کی جائے اور حسنیں ( امام حسن علیہ سلام و امام حسین علیہ سلام ) کے حکم کی تامیل کر کے بتا دیا کہ عشق محمد (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) یعنی بعد از محمد مصطفی ( صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) آل محمد معصومین ( علیہ سلام) سے محبت کرو
 

نیلم

محفلین
بہت شکریہ
بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ ( صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے چند مخلص اصحاب میں سے ایک صحابی تھے
اللہ تعالی ہمیں بلال رضی اللہ عنہ کے غلاموں میں شمار فرمائے بلال رضی اللہ عنہ صرف موذن ہی نہیں تھے بلکہ بلال مدرس تھے جنہوں نے ہمیں درس دیا کہ رسول اللہ(صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت کیسے کی جائے اور حسنیں ( امام حسن علیہ سلام و امام حسین علیہ سلام ) کے حکم کی تامیل کر کے بتا دیا کہ عشق محمد (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) یعنی بعد از محمد مصطفی ( صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) آل محمد معصومین ( علیہ سلام) سے محبت کرو
 
سبحان اللہ۔جتنی بار بھی یہ واقعہ سنا یا پڑھا ہے ہر وقت رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
جزاک اللہ۔@نیلم بہنا
 

زبیر حسین

محفلین
دوستوں نے سچ کہا کہ جب بھی یہ واقعہ سنا جائے رقت طاری ہو جاتی ہے ،میں اب بھی یہ تحریر اونچی آواز میں پڑھ کر اپنی بیگم کو بھی سنا رہاتھا لیکن تھوڑا سا پڑھنے کے بعد اونچی آواز میں پڑھنے کی ہمت نہ رہی۔۔
خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا
خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا
علامہ اقبال کا یہ شعر بھی وہی واقعہ بیان کر رہا ہے۔
 

نیلم

محفلین
جی بلکل یہ محبت بھی نصیب والوں کے ہی دل میں جگہ بناتی ہے.
دوستوں نے سچ کہا کہ جب بھی یہ واقعہ سنا جائے رقت طاری ہو جاتی ہے ،میں اب بھی یہ تحریر اونچی آواز میں پڑھ کر اپنی بیگم کو بھی سنا رہاتھا لیکن تھوڑا سا پڑھنے کے بعد اونچی آواز میں پڑھنے کی ہمت نہ رہی۔۔
خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا
خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا
علامہ اقبال کا یہ شعر بھی وہی واقعہ بیان کر رہا ہے۔
 
Top