ضمیر جعفری حضرتِ اقبال کا شاہین تو کب کا اُڑ گیا

یوسف سلطان

محفلین
شوق سے لختِ جگر نورِنظر پیدا کرو
ظالمو! تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو

ارتقا تہذیب کا یہ ہے کہ پھولوں کے بجائے
توپ کے دھڑ، بم کے دھڑ، راکٹ کے سر پیدا کرو

میں بتاتا ہوں زوال اہلِ یورپ کاپلان
اہلِ یورپ کو مسلمانوں کے گھر پیدا کرو

میری دشواری کا کوئی حل مرے چارہ گرو
جلد تر پیدا کرو اور مختصر پیدا کرو

میری درویشی کے جشنِ تاجپوشی کے لیے
ایک ٹوپی اور کچھ مرغی کے پَر پیدا کرو

حضرتِ اقبال کا شاہین تو کب کا اُڑ گیا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو

"سیّد ضمیر جعفری—​
 
Top