حسین روزِ عاشور اکبر کے ساتھ

Wajih Bukhari

محفلین
اے مرے قلب کی ٹھنڈک اے مری جان سنو
دل میں کیا کیا ہیں مچلتے مرے ارمان سنو
مجھ میں اب طاقتِ گفتار کہاں باقی ہے
ان کہی بات سنو، از لبِ عطشان سنو


اس لئے مہر فلک پر ہے کہ تم پر ہو نثار
پھول کھلتے ہیں کہ لے لیں رخِ زیبا سے بہار
چاند آنکھوں کی محبت میں نکل آتا ہے
جھلملاتے ہیں ستارے کہ ہوں قدموں کا غبار


جان کیا چیز ہے جاں کہتے تو جاں دے دیتا
مانگ لیتے جو جہاں، سارا جہاں دے دیتا
آپ اپنے کو مگر مانگ رہے تھے جو ابھی
ایسے ہدیے کی تمہیں کیسے زباں دے دیتا؟


ہے تمہارا بہت اصرار کہ رخصت دوں تمہیں
دل پہ اب ہاتھ رکھوں اور اجازت دوں تمہیں
لو اجازت ہے تمہیں پر بڑی خواہش تھی مری
کاش کچھ اور ہو مہلت کہ محبت دوں تمہیں


جا رہے ہو تو مقابل نہ ٹھہر پائے کوئی
کاٹ دو ہاتھ اگر ہاتھ بڑھائے کوئی
توڑ دینے ہیں تمہیں پیر کی ٹھوکر سے پہاڑ
جو لرزتا نہ ہو بت ایسا نہ رہ جائے کوئی


جاؤ تم دادِ شجاعت دو میں سہہ لوں گا فراق
اب خدا حافظ و ناصر ہو میں سہہ لوں گا فراق
ایک چھوٹی سی گزارش ہے مرے نورِ نظر
جا کے اک بار پلٹنا تو میں سہہ لوں گا فراق
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اس لئے مہر فلک پر ہے کہ تم پر ہو نثار
پھول کھلتے ہیں کہ لے لیں رخِ زیبا سے بہار
چاند آنکھوں کی محبت میں نکل آتا ہے
جھلملاتے ہیں ستارے کہ ہوں قدموں کا غبار
ہمشکلِ مصطفیٰ تھے دلوں کا قرار تھے
تم تو ضعیف باپ کا دار و مدار تھے
ہے تیرے بعد گلشنِ شبیر میں خزاں
میدانِ کربلا میں ۔۔۔۔۔

نوحے میں اپنے جس گھڑی ریحان نے دیا
سر پر ردائے زہرا ہوئی مثلِ سائباں
میدانِ کربلا میں ۔۔۔
 
Top