حسین ابن علی ۔۔ وقت کی پیشانی کا نور

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم اہل علم و ذکر و عمل
اک التجا کہیں تحریر میں غلطی ہو تو اصلاح کر دیجیے گا
حسین ابن علی وقت کی پیشانی کا نور
جب خیر و شر میں دقّتِ تفریق ہو گئ
بے ساختہ حُسین کی تخلیق ہو گئ
عبدالحمید عدم
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سرداد نداد دست دردست یزید
حقا کہ بناے لاالہ است حسین
خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی اجمیری

سانحہ کربلا ایک نہایت عمیق الاثر واقعہ ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس کا مطالعہ ایک شخصی مظلومیت کے حوالے سے کیا جاتاہے۔ہمارے واعظان خوش بیان حزن و غم کی ایک داستان خونچکان بیان کرتے ہوئے اپناسارا زورکلام امام عالی مقام اور خانوادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے بسی اور مظلومیت کی تصویرکشی پر صرف کردیتے ہیں اور وہ مقصد عظیم جس کے لئے امام حسین علیہ السلام نے اپناسب کچھ قربان کردیا وہ تشنہ اظہار رہ جاتاہے ۔
19 جنوری 2008ء (9 محرم الحرام)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کینیڈا سے خصوصی ٹیلیفونک خطاب
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO
بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہل بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دےo (الْأَحْزَاب ، 33 : 33)
شیخ الاسلام نے کہا کہ یہ قرآن مجید کا اسلوب ہے کہ جس حکم کو بڑی تاکید کے ساتھ اور کمال درجہ کے ساتھ لوگوں تک پہنچانا مقصود ہو تو اللہ تعالٰی قرآنی آیات میں اس کے فعل کے ساتھ دوبارہ بیان فرماتے ہیں۔ اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالی نے دو بار تکرار کے ساتھ اہل بیت کی تطہیر پر زور دیا ہے۔ یہ اسلوب قرآن میں چند مقامات پر ہے۔ اس انداز کی ایک مثال درود پاک کے حوالے سے حکم قرآنی میں بھی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo (الْأَحْزَاب ، 33 : 56)
اس موقع پر آپ نے حدیث مبارکہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ بالا آیہ کریمہ (سورۃ الاحزاب، 33 : 33) کے نازل ہونے کے چھ ماہ تک حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز فجر کے وقت سیدہ فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیھا کے گھر کے سامنے سے گزرتے اور بآواز بلند فرماتے "الصلوۃ یا اھل البیت" اے میری اہل بیت نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ یہ فرما کر اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرماتے۔
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے مروی حدیث مبارکہ بیان کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں سیدہ فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیھا موجود تھیں اس دوران حضرت علی علیہ السلام حاضر ہوئے، دونوں شہزادے حسن و حسین علیھما السلام بھی ان کے ساتھ تھے۔ آقا علیہ السلام نے سب کو قریب کر لیا۔ حضرت علی اور سیدہ فاطمۃ کو اپنے سامنے بٹھا لیا پھر دونوں شہزادوں حسن و حسین علیھما السلام کو اپنی دائیں اور بائیں ران پر بٹھا لیا، اور ان کے اوپر چادر ڈال دی۔ پھر یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی۔
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا کی "اے اللہ یہ میری اہل بیت ہیں۔" ان سے مراد پنج تن پاک ہیں۔
آپ نے کہا کہ اہل بیت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خانوادہ کلی ہے ہی لیکن علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیہ کے تحت تفسیر ابن کثیر میں 20 سے زاید مستند احادیث مبارکہ نقل کیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ اہل بیت اطہار کا اطلاق خاص طور پر حضرت علی، سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرہ اور حسنین کریمین امام حسن و حسین علیھم السلام پر ہوتا ہے۔
آپ نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کا لقب ابو عبداللہ اور آپ چار ہجری شعبان المعظم کو پیدا ہوئے۔ آقا علیہ السلام کے وصال مبارک کے وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کی عمر صرف چھ برس تھی لیکن اس کے باوجود آپ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے حدیث روایت کی ہیں۔ یہ آپ کی وہ خدا داد صلاحیتیں تھیں جو کم سنی میں ہی ظاہر ہو گئیں۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ یزید دائمی لعنتی اور مردود ہے اور اس کو امام عالی مقام علیہ السلام نے بھی جہنمی اور کافر قرار دیا۔ آپ نے کہا کہ تاریخ میں اسلام کیلئے جان قربان کرنے والوں اور شہادت کے منصب پر فائز ہونے والوں کی کمی نہیں مگرحضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اس لئے شہادت عظمیٰ قرار پائی کہ اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانوادے اور اہل بیت اطہار سے تعلق رکھنے والی بزرگ ہستیوں کی کثیر تعداد نے اسلام کی بقاء اور سربلندی کا جام شہادت نوش کیا۔ امت مسلمہ قیامت تک حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے خانوادے کی قربانی کو یاد رکھے گی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام اور یزید کی جنگ کو دو شہزادوں کے اقتدار کی جنگ قرار دینے والے جاہل ہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام کو جنت میں نوجوانوں کے سردار ہونے کا شرف حاصل ہے
محتاج دعا
نایاب
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
حسین ابن علی وقت کی پیشانی کا نور

اقبال کہتے ہیں کہ اگر امام حسین علیہ السلام کا مقصد ومدعا سلطنت حاصل کرنا ہوتاتو اس طرح بغیر تیاری کے بے سروسامان سفرنہ کرتے کہ آپ کے دشمن صحراکے ذروں کی طرح بے شمارتھے اور دوست صرف بہتر ہمراہی "بہ یزدان ہم عدد "سے مراد ہے لفظ یزدان کے اعداد کے برابر جو بہتربنتے ہیں۔
اقبال کے نزدیک حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی جو داستان حرم کانقطہ آغازہے اس کی تکمیل حضرت امام عالی مقام علیہ السلام نے کی اور اس طرح آپ اس اجمال کی تفصیل ہیں۔
غریب و سادہ ورنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتداءہیں اسماعیل
زندگي اور موت دوحقیقتیں ہیں ان کے بارے میں ایک مسلمان کا نقطہ نظرکیا ہونا چاہیے؟ترجمان حقیقت علامہ اقبال نے اپنے کلام میں اس سوال کا جواب نہایت جامعیت کے ساتھ دیا ہے،فرماتے ہیں
کھول کے کیا بیاں کروں سرمقام مرگ وعشق
عشق ہے مرگ باشرف مرگ حیات بے شرف
صحبت پیرروم سے مجھ پہ ہوا یہ رازفاش
لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سربکف

برترازاندیشہ سود و زیان ہے زندگي
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگي
تو اسے پیمانہ امروزوفردا سے نہ ناپ
جاودان پیہم رواں ہردم رواں ہرزندگي
تخلیق کائنات سے لیکر آج تک کی تاریخ کو اگر بغور دیکھا جائے تو بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں، لیکن جس طرح سرزمین کربلا میں امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اپنے جان نثاروں کے ساتھ ہوئی ہے اس طرح کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپ کی ولادت سے لے کر شہادت تک کے واقعات کو پڑھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کے بچپن کے حالات کو دیکھتے ہیں احادیث کی روشنی میں:
۱۔عن ابی رافع رضی اللہ عنہ ان النبی صلّی اللہ علیہ وسلم اَذَّنَ فی اذن الحسن والحسین علیہم السلام حین ولدا ۔ (مجمع الزوائد)
حضرت ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت امام حسن و حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے خود ان دونوں کے کانوں میں آذان دی۔
۲۔ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم عق عن الحسن و الحسین کبشا کبشا۔ (ابوداؤد شریف)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے خود امام حسن اور امام حسین کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا۔
۳۔ عن المفضل قال ان اللہ تعالیٰ حجب اسم الحسن و الحسین حتیٰ سمی بہما النبی صلّی اللہ علیہ وسلم ابنیہ الحسن و الحسین۔ (ابن کثیر)
حضرت مفضل سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔
۴۔عن یحییٰ بن ابی کثیر ان النبی صلّی اللہ علیہ وسلم سمع بکاء الحسن و الحسین فقام زعما فقال ان الولد لفتنۃ لقد قمت الیہما وما اعقل۔ (ابن ابی کثیر)
حضرت یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسین علیہ السلام کا رونا سنا تو آپ پریشان ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا بیشک اولاد آزمائش ہے میں بغیر غور کرنے کے کھڑا ہوگیا ہوں۔
۵۔حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے تو حضرت امام حسن و حسین علیہ السلام آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سوار ہوگئے تو لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو چھوڑدو، ان پر میرے ماں باپ قربان ہیں۔
۶۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے حضرت حسن اور حسین علیہ السلام سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی۔(ابن ماجہ)
۷۔حضرت ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہ السلام کی طرف دیکھا اور فرمایا جس نے تم سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی۔
مذکورہ روایت کی طرح اور بھی کئی روایات موجود ہیں جن سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کس طرح امام حسن اور حسین علیہ السلام سے محبت کرتے تھے، کس طرح امام حسین کو اپنے کندھوں پر سوار کرتے تھے، کس طرح امام حسین کا رونا آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتا تھا۔ کس طرح امام حسن و امام حسین علیہ السلامکے لیے جنت سے کپڑے آتے تھے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید کربلا امام عالی مقام آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے تھے اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اس معرکہ عظیم کے دن کے لیے حضرت امام حسین علیہ السلام کی خود تربیت بھی فرماتے تھے۔ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں صراحۃ فرماتے تھے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے اوباش حاکم شہید کریں گے۔ اور کبھی فرماتے تھے کہ
”یا ام سلمۃ اذا تحولت ہٰذہ التربۃ دما فاعلمی ان ابنی قد قتل“۔ (معجم الکبیر عربی)
اے ام سلمہ جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو یقین کرلینا کہ میرا لخت جگر شہید کیا گیا۔
میرے محبوب نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت امام حسین علیہ السلام کی وفات کی جگہ بھی بیان فرمادی تھی کہ ”انہ تقتل بکربلائ“ یہ میرا نواسہ حضرت امام حسین علیہ السلام کربلاء کی زمین میں شہید کیا جائے گا۔ ایسے دور میں جب حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ رونما ہونے والا تھا تو اس دور کے لیے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ
”تعوذوا باللہ من سنۃ سنین و امارۃ الصبیان“
(البدایہ والنہایہ ج ۸)
یعنی ساٹھ ہجری کے سال اور لڑکوں کی حکومت سے پناہ مانگو۔
اس مذکورہ حدیث کو سامنے رکھ کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ دعا کرتے تھے کہ
”اللّٰہم انی اعوذبک من رأس الستین وامارۃ الصبیان“
اے اللہ میں ساٹھ ہجری اور لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ
”ان ہلاک امتی او فساد امتی رؤس امراء اغیلمۃ سمہاء من قریش“
بیشک میری امت کی ہلاکت یا فساد قریشوں کے بیوقوف اور اوباش حکمرانوں کے ہاتھوں ہوگا۔ (مسند احمد بن حنبل)
مذکورہ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح امام حسین علیہ السلام سے صلّی اللہ علیہ وسلم نے محبت اور پیار کیا تھا اس کا مثال ملنا محال ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اپنے محبوب نواسے کو یہ سب کچھ سمجھادیا کہ تیری شہادت کب، کہاں اور کیوں ہوگی۔
اب ہم اگر حضرت امام حسین علیہ السلامکی سیرت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے آپ نے کس طرح اپنے آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کی شریعت و سنت کو اپنی جان سے عزیز تر سمجھا تھا کہ کبھی پوری رات نماز میں ہوتے تھے، کبھی تلاوت میں، کبھی مخلوق کی خدمت میں، کبھی سخاوت میں، ہر وقت اوامر و نواہی پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جب حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری زندگی سے آپ کو محبوب حقیقی کی طرف سے وصال کا پیغام آیا اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پردہ فرما گئے تو اس وقت عالم اسلام کے لیے قیامت کا منظر تھا۔ لیکن اس کے بعد گلشن توحید کی آبیاری کے لیے خلفائے راشدین اس گلشن کو اپنے محبوب قائد صلّی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے بڑھاتے رہے۔ حتیٰ کہ وہ ساٹھ ہجری کا وقت آگیا جس کے متعلق حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”یہ میری امت کو قریش کے اوباش حکمران تباہ کریں گے۔“
اب ایک ظالم و جابر حکمران سامنے آتا ہے اور شریعت کی حدود کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے۔ شراب پینا شروع کردیا، زنا عام ہوگئی، قتل و غارت عام ہوگئی، ظلم بڑھنے لگا۔ اب یہ وقت تھا جب شہید کربلا امام حسین علیہ السلام کو اپنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہر طرف نظر آنے لگا ”کہ میری امت کو اوباش حکمران ہلاک کریں گے۔“
حضرت امام حسین علیہ السلامکو معلوم تھا کہ جب عربستان کی سر زمین پر معصوم بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، بت پرستی عام تھی، ویاج خوری عام تھی، زنا کو زندگی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے، جہالت و ظلم کی انتہا تھی۔ ایسے پرفتن دور میں میرے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح توحید کا اعلان کیا تھا، میرے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کے بعد کس طرح ابولہب نے ناشائستہ کلمات کہے تھے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورہ لہب نازل فرمائی تھی۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کو طائف کے میدان میں کس طرح لہولہاں کردیا گیا تھا۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کی پہلی غلام عورت حضرت بی بی سمیہ رضی اللہ عنہا کو کس طرح ظالموں نے سرعام شہید کردیا تھا۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو کس درخت کے ساتھ باندھ کر اور تیروں سے آپ کے جسم کو خون میں نہلایا گیا تھا۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح اپنے صحابہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور کیا گیا تھا۔ اور ان تین سالوں میں کتنے معصوم بچے اسلام کی آبیاری کے لیے بھوکے پیاسے شہید ہوگئے تھے، کتنی معصوم بچیاں پانی کے ایک گھونٹ کے لیے چلاتی چلاتی تڑپتی ہوئی حالت میں دم توڑ چلی تھیں۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح جنگ احد میں اپنے رب کریم کی توحید کی بلندی کے لیے اپنے دانت مبارک شہید کروادیے تھے۔ یہ وہ منظر تھا جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات کے سامنے ہر وقت طواف کررہا تھا، اب جب ایک ظالم نے اس گلشن اسلام کی ویرانی کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو حضرت امام حسین کی روح تڑپ اٹھی، آنکھوں کے سامنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک تھا کہ عنقریب قریش کے اوباش حکمران میری امت کو ہلاک کردیں گے۔
اس دین محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کے لیے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنا تن من دھن، اپنا وطن، اولاد، مال، دولت ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ اور پھر وہ وقت بھی آگیا کہ جب تاریخ عالم نے دیکھا کہ ایک طرف ہزاروں لوگ جو بظاہر مسلمان تھے اپنے محبوب نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے کو بھوکا اور پیاسا دیکھتے خوشی محسوس کررہے تھے۔ لیکن امام حسین علیہ السلام کو اور ان کے جان نثاروں کو پانی کا ایک گھونٹ پلانا ان کی نظر میں بڑا جرم تھا۔ درحقیقت یہ مقام رضا تھا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا فیصلہ ہے کہ انسان کو بھوک، خوف، مال، ثمرات وغیرہ کی کمی سے آزمایا جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ انسان اپنے مالک حقیقی کی رضا پر راضی رہتا ہے یا نہیں۔ لیکن تاریخ عالم نے دیکھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس مقام پر بھی رضا کا دامن نہیں چھوڑا اور جابر و ظالم کے سامنے اپنی گردن نہ جھکائی۔ اب وہ آخری مرحلہ مقام رضا بھی آ پہنچا جب حضرت امام عالی مقام کے سامنے آپ کے جان نثاروں کو ایک ایک کرکے شہید کیا گیا۔ اور آخر وہ گھڑی بھی آگئی جب معصوم علی اصغر کی شہادت واقع ہوئی۔ لیکن اس صبر کے پہاڑ نے اپنے نانا محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کے دین کو مضبوطی کے ساتھ سنبھال کر رکھا۔
وقت شہادت شمر ذی الجوشن کی برص زدہ شکل دیکھتے ہی امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے نانا رسولِ خدا نے سچ فرمایا تھا کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہلِ بیت کے خون سے ہاتھ رنگتا ہے ۔اے بدبخت شمر بلاشبہ تو وہی کتا ہے جس کی نسبت میرے نانا نے خبر دی تھی۔ اس کے بعد شمر نے ان کا سر پیچھے کی طرف سے(پسِ گردن سے) کاٹ کر تن سے جدا کر دیا۔اور پھر یہ مرد مجاہد مرد غازی جس نے 72 نفوس قدسیہ کے ساتھ بالآخر خود بھی شہادت کا جام پی لیا۔ اور اپنے نانا کے دین کے ساتھ ایسا رشتہ جوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا جس کا مثال تاریخ عالم میں ملنا محال ہے۔۔
روایات کے مطابق اللہ کے نبی حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کا سر بھی اسی طرح پس گردن سے کاٹ کر جدا کیا گیا تھا۔ ابن زیاد کے حکم کے مطابق آپ کا سربریدہ جسم گھوڑوں کے ٹاپوں سے روندوا دیا گیا۔ بعد میں تمام شہدائے اہلِ بیت کے سر نیزوں کی نوک پر رکھ کر پہلے ابنِ زیاد کے دربار میں لے جائے گئے اور بعد میں دمشق میں یزید کے دربار میں لے جائے گئے۔یزید نے امام حسین کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوے اپنے کچھ اشعار پڑھے جن سے اس کا نقطہ نظر معلوم ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے
”کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو ، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا ، بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئي نہ کوئی فرشتہ آیا ہے“
۔​
محتاج دعا
نایاب
 
Top