نایاب
لائبریرین
السلام علیکم
محترم اہل علم و ذکر و عمل
اک التجا کہیں تحریر میں غلطی ہو تو اصلاح کر دیجیے گا
حسین ابن علی وقت کی پیشانی کا نور
جب خیر و شر میں دقّتِ تفریق ہو گئ
بے ساختہ حُسین کی تخلیق ہو گئ
عبدالحمید عدم
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سرداد نداد دست دردست یزید
حقا کہ بناے لاالہ است حسین
خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی اجمیری
سانحہ کربلا ایک نہایت عمیق الاثر واقعہ ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس کا مطالعہ ایک شخصی مظلومیت کے حوالے سے کیا جاتاہے۔ہمارے واعظان خوش بیان حزن و غم کی ایک داستان خونچکان بیان کرتے ہوئے اپناسارا زورکلام امام عالی مقام اور خانوادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے بسی اور مظلومیت کی تصویرکشی پر صرف کردیتے ہیں اور وہ مقصد عظیم جس کے لئے امام حسین علیہ السلام نے اپناسب کچھ قربان کردیا وہ تشنہ اظہار رہ جاتاہے ۔
19 جنوری 2008ء (9 محرم الحرام)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کینیڈا سے خصوصی ٹیلیفونک خطاب
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO
بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہل بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دےo (الْأَحْزَاب ، 33 : 33)
شیخ الاسلام نے کہا کہ یہ قرآن مجید کا اسلوب ہے کہ جس حکم کو بڑی تاکید کے ساتھ اور کمال درجہ کے ساتھ لوگوں تک پہنچانا مقصود ہو تو اللہ تعالٰی قرآنی آیات میں اس کے فعل کے ساتھ دوبارہ بیان فرماتے ہیں۔ اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالی نے دو بار تکرار کے ساتھ اہل بیت کی تطہیر پر زور دیا ہے۔ یہ اسلوب قرآن میں چند مقامات پر ہے۔ اس انداز کی ایک مثال درود پاک کے حوالے سے حکم قرآنی میں بھی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo (الْأَحْزَاب ، 33 : 56)
اس موقع پر آپ نے حدیث مبارکہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ بالا آیہ کریمہ (سورۃ الاحزاب، 33 : 33) کے نازل ہونے کے چھ ماہ تک حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز فجر کے وقت سیدہ فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیھا کے گھر کے سامنے سے گزرتے اور بآواز بلند فرماتے "الصلوۃ یا اھل البیت" اے میری اہل بیت نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ یہ فرما کر اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرماتے۔
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے مروی حدیث مبارکہ بیان کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں سیدہ فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیھا موجود تھیں اس دوران حضرت علی علیہ السلام حاضر ہوئے، دونوں شہزادے حسن و حسین علیھما السلام بھی ان کے ساتھ تھے۔ آقا علیہ السلام نے سب کو قریب کر لیا۔ حضرت علی اور سیدہ فاطمۃ کو اپنے سامنے بٹھا لیا پھر دونوں شہزادوں حسن و حسین علیھما السلام کو اپنی دائیں اور بائیں ران پر بٹھا لیا، اور ان کے اوپر چادر ڈال دی۔ پھر یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی۔
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا کی "اے اللہ یہ میری اہل بیت ہیں۔" ان سے مراد پنج تن پاک ہیں۔
آپ نے کہا کہ اہل بیت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خانوادہ کلی ہے ہی لیکن علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیہ کے تحت تفسیر ابن کثیر میں 20 سے زاید مستند احادیث مبارکہ نقل کیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ اہل بیت اطہار کا اطلاق خاص طور پر حضرت علی، سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرہ اور حسنین کریمین امام حسن و حسین علیھم السلام پر ہوتا ہے۔
آپ نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کا لقب ابو عبداللہ اور آپ چار ہجری شعبان المعظم کو پیدا ہوئے۔ آقا علیہ السلام کے وصال مبارک کے وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کی عمر صرف چھ برس تھی لیکن اس کے باوجود آپ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے حدیث روایت کی ہیں۔ یہ آپ کی وہ خدا داد صلاحیتیں تھیں جو کم سنی میں ہی ظاہر ہو گئیں۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ یزید دائمی لعنتی اور مردود ہے اور اس کو امام عالی مقام علیہ السلام نے بھی جہنمی اور کافر قرار دیا۔ آپ نے کہا کہ تاریخ میں اسلام کیلئے جان قربان کرنے والوں اور شہادت کے منصب پر فائز ہونے والوں کی کمی نہیں مگرحضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اس لئے شہادت عظمیٰ قرار پائی کہ اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانوادے اور اہل بیت اطہار سے تعلق رکھنے والی بزرگ ہستیوں کی کثیر تعداد نے اسلام کی بقاء اور سربلندی کا جام شہادت نوش کیا۔ امت مسلمہ قیامت تک حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے خانوادے کی قربانی کو یاد رکھے گی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام اور یزید کی جنگ کو دو شہزادوں کے اقتدار کی جنگ قرار دینے والے جاہل ہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام کو جنت میں نوجوانوں کے سردار ہونے کا شرف حاصل ہے
محتاج دعامحترم اہل علم و ذکر و عمل
اک التجا کہیں تحریر میں غلطی ہو تو اصلاح کر دیجیے گا
حسین ابن علی وقت کی پیشانی کا نور
جب خیر و شر میں دقّتِ تفریق ہو گئ
بے ساختہ حُسین کی تخلیق ہو گئ
عبدالحمید عدم
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سرداد نداد دست دردست یزید
حقا کہ بناے لاالہ است حسین
خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی اجمیری
سانحہ کربلا ایک نہایت عمیق الاثر واقعہ ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس کا مطالعہ ایک شخصی مظلومیت کے حوالے سے کیا جاتاہے۔ہمارے واعظان خوش بیان حزن و غم کی ایک داستان خونچکان بیان کرتے ہوئے اپناسارا زورکلام امام عالی مقام اور خانوادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے بسی اور مظلومیت کی تصویرکشی پر صرف کردیتے ہیں اور وہ مقصد عظیم جس کے لئے امام حسین علیہ السلام نے اپناسب کچھ قربان کردیا وہ تشنہ اظہار رہ جاتاہے ۔
19 جنوری 2008ء (9 محرم الحرام)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کینیڈا سے خصوصی ٹیلیفونک خطاب
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO
بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہل بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دےo (الْأَحْزَاب ، 33 : 33)
شیخ الاسلام نے کہا کہ یہ قرآن مجید کا اسلوب ہے کہ جس حکم کو بڑی تاکید کے ساتھ اور کمال درجہ کے ساتھ لوگوں تک پہنچانا مقصود ہو تو اللہ تعالٰی قرآنی آیات میں اس کے فعل کے ساتھ دوبارہ بیان فرماتے ہیں۔ اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالی نے دو بار تکرار کے ساتھ اہل بیت کی تطہیر پر زور دیا ہے۔ یہ اسلوب قرآن میں چند مقامات پر ہے۔ اس انداز کی ایک مثال درود پاک کے حوالے سے حکم قرآنی میں بھی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo (الْأَحْزَاب ، 33 : 56)
اس موقع پر آپ نے حدیث مبارکہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ بالا آیہ کریمہ (سورۃ الاحزاب، 33 : 33) کے نازل ہونے کے چھ ماہ تک حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز فجر کے وقت سیدہ فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیھا کے گھر کے سامنے سے گزرتے اور بآواز بلند فرماتے "الصلوۃ یا اھل البیت" اے میری اہل بیت نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ یہ فرما کر اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرماتے۔
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے مروی حدیث مبارکہ بیان کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں سیدہ فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیھا موجود تھیں اس دوران حضرت علی علیہ السلام حاضر ہوئے، دونوں شہزادے حسن و حسین علیھما السلام بھی ان کے ساتھ تھے۔ آقا علیہ السلام نے سب کو قریب کر لیا۔ حضرت علی اور سیدہ فاطمۃ کو اپنے سامنے بٹھا لیا پھر دونوں شہزادوں حسن و حسین علیھما السلام کو اپنی دائیں اور بائیں ران پر بٹھا لیا، اور ان کے اوپر چادر ڈال دی۔ پھر یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی۔
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا کی "اے اللہ یہ میری اہل بیت ہیں۔" ان سے مراد پنج تن پاک ہیں۔
آپ نے کہا کہ اہل بیت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خانوادہ کلی ہے ہی لیکن علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیہ کے تحت تفسیر ابن کثیر میں 20 سے زاید مستند احادیث مبارکہ نقل کیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ اہل بیت اطہار کا اطلاق خاص طور پر حضرت علی، سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرہ اور حسنین کریمین امام حسن و حسین علیھم السلام پر ہوتا ہے۔
آپ نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کا لقب ابو عبداللہ اور آپ چار ہجری شعبان المعظم کو پیدا ہوئے۔ آقا علیہ السلام کے وصال مبارک کے وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کی عمر صرف چھ برس تھی لیکن اس کے باوجود آپ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے حدیث روایت کی ہیں۔ یہ آپ کی وہ خدا داد صلاحیتیں تھیں جو کم سنی میں ہی ظاہر ہو گئیں۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ یزید دائمی لعنتی اور مردود ہے اور اس کو امام عالی مقام علیہ السلام نے بھی جہنمی اور کافر قرار دیا۔ آپ نے کہا کہ تاریخ میں اسلام کیلئے جان قربان کرنے والوں اور شہادت کے منصب پر فائز ہونے والوں کی کمی نہیں مگرحضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اس لئے شہادت عظمیٰ قرار پائی کہ اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانوادے اور اہل بیت اطہار سے تعلق رکھنے والی بزرگ ہستیوں کی کثیر تعداد نے اسلام کی بقاء اور سربلندی کا جام شہادت نوش کیا۔ امت مسلمہ قیامت تک حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے خانوادے کی قربانی کو یاد رکھے گی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام اور یزید کی جنگ کو دو شہزادوں کے اقتدار کی جنگ قرار دینے والے جاہل ہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام کو جنت میں نوجوانوں کے سردار ہونے کا شرف حاصل ہے
نایاب