حسن بن صباح اور اس کی بہشت



حسن بن صباح(1050-1124) کا شماراسلامی تاریخ کے متنازعہ کرداروں میں ہوتا ہے۔اس کی شخصیت ،اس کی فکری اور مذہبی تحریک ،جس نے بعد ازاں نزاری اسماعیلیوں کی شکل اختیار کی (موجودہ دور میں پرنس کریم آغاخاں اور ان کے پیروکار)کے بارے میں بہت سے قصے کہانیاں مشہور ہیں۔حسن بن صباح کو غلام احمد پرویز جیسا’روشن خیال‘ مذہبی دانشور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو ’آلودہ ‘ کرنے کا الزام دیتا ہے اور اسے’ عجمی سازش‘ کہہ کر حقارت سے مسترد کر دیتا ہے ۔

کچھ ہم عصر دانشوروں کے نزدیک حسن بن صباح اور اس کے فدائین موجودہ دور کے خود کش بمباروں کے پیش رو تھے ۔ان کہنا ہے کہ سیاسی اور نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کرنے کا سلسلہ حسن بن صباح ہی نے شروع کیا تھا۔

ایران کے شہر قم میں پیدا ہونے والے حسن اور اس کے قلعہ الموت ( لفظی مطلب ، شاہینوں کا بسیرا)کے بارے میں جو قصے کہانیاں مشہور ہیں وہ سب اطالوی سیاح مارکو پولو سے منسوب ہیں۔ مارکوپولو 24سال ایشیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کے بعدجب وہ واپس اپنے آبائی شہر وینس لوٹا تو وینس او ر جنیوا کے مابین جنگ ہورہی تھی ۔ مارکو پولو نے اس جنگ میں حصہ لیااور دوران جنگ وہ گرفتار ہوگیا ۔

جنگی قیدی کے طور پر اس نے اپنی سیر و سیاحت اور اس دوران حاصل ہونے والے تجربات سے اپنے ساتھی قیدیوں کو آگاہ کیا جنھیں انھوں نے بعد ازاں لکھ لیا۔ دنیا آج جسے مارکو پولو کا سفرنامہ کہتی ہے وہ در اصل اس کے ساتھی قیدیوں کی وہ یادداشتیں ہیں جنھیں انھوں نے دوران قید مار کو پولو کی زبانی سنا تھا ۔مارکو پولو کا اپنا لکھا ہوا کوئی سفر نامہ دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے ۔
ساتھی قیدیوں کی ان یاد داشتوں کا دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور ان تراجم کے متون ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مارکو پولو کے سفرنامہ کو بہت سے اہل علم متنازعہ قرار دیتے ہیں۔
قرون وسطی ٰکے مسلم مورخین ،جو حسن بن صباح کی تحریک اور اس کے مرکز قلعہ الموت سے زیادہ واقفیت رکھتے تھے، کی تحریروں میں قلعہ الموت میں کسی بہشت کی موجودگی اور حشیش کے استعمال کا ذکر موجود نہیں ہے۔ کہیں یہ تو نہیں کہ مارکو پولو نے قلعہ الموت کی بہشت اور وہاں حشیش کے زیر اثر عیش و عشرت کی سر گرمیوں کا ذکر اپنے سفر نامہ کو زیادہ رنگین اور دل چسپ بنانے کے لئے کیا ہو؟۔
قلعہ الموت کوئی ایسا جگہ نہیں تھی کہ جہاں لوگ جا نہیں سکتے تھے کیونکہ یہ کوئی خفیہ مقام یا کسی زیر زمین تحریک کا مرکز نہیں تھا ۔ قلعہ الموت جس وادی میں واقع تھا وہ پچاس کلومیٹر لمبی اور پانچ کلو میٹر چوڑی تھی اور یہاں دوسرے مذاہب اور فرقوں کے افراد کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ عباسی خلافت کے سفارتی وفود ایک سے زائد مرتبہ قلعہ الموت گئے تھے لیکن وہاں کسی بہشت کی موجودگی اور حشیش کا ذکر ان میں سے کسی نے بھی نہیں کیا اور ان وفود میں شامل افراد سے منسوب ایسی کوئی تحریر موجود نہیں ہے ۔
جب منگولوں نے مختلف مسلمان علاقوں کو فتح کرنا شروع کیا تو بہت سے مسلمان دانشوروں، اوراہل علم و فن نے پنا ہ کے لئے قلعہ الموت کا رخ کیا تھا ۔ ان پنا ہ لینے والوں میں مشہور عالم نصیر الدین طوسی ( متوفی : 1274) بھی شامل تھا ۔یہ افراد کئی دھائیوں تک قلعہ الموت میں رہے لیکن ان میں کسی نے بھی وہاں بہشت یا حشیش کے استعمال کا ذکر نہیں کیا ۔
جب ہلاکو خان نے قلعہ الموت کو فتح کر لیا تو اس کا سیکرٹری عطاالملک جیونی نے اس کا دورہ کیا ۔ اس نے قلعہ کی لائبریری سے کتب اور سائنسی آلات کو نکال کر باقی سب کچھ نذر آتش کر دیا تھا ۔ جیونی حسن بن صباح کا بد ترین مخالف تھا لیکن اس نے بھی الموت میں بہشت اور حشیش کے استعمال کا ذکر نہیں کیا تھابلکہ اس نے حسن بن صباح کی اس بنا پر تعریف کی تھی کہ اس نے اپنے زیر اثر علاقوں میں ہر قسم کی نشہ آور اشیا کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر رکھی تھی ۔
ہم عصر مسلمان مورخین نے قلعہ الموت میں کسی بہشت کی موجودگی کا اشارہ نہیں دیاتھا ۔ جدید تحقیق بھی ایسی کسی بہشت کی موجودگی اور حشیش کے زیر اثر نامور شخصیات کو قتل کرنے والے فدائین کی قلعہ الموت میں موجودگی کی تائید نہیں کرتی ۔ اب جو آثار قدیمہ والوں نے قلعہ الموت کی جگہ پر جو کھدائی کی ہے اس میں بھی ’ مشہور زمانہ ‘ بہشت کے کوئی آثار نہیں ملے۔
تحریر
لیاقت علی ایڈوکیٹ
ربط
حسن بن صباح اور اس کی بہشت – Niazamana
 

ربیع م

محفلین
عربی وکیپیڈیا کے مطابق!


حشاشین، حشیشیۃ یا الدعوةالجدیدة اسماعیلی نزاری گروہ ہے جو کہ فاطمیوں سے پانچویں صدی ہجری کے اواخر میں الگ ہوئے، یہ نزار المصطفی لدین اللہ اور آگے ان کی نسل میں آنے والے لوگوں کی امامت کی جانب دعوت دیتے تھے، پانچویں اور ساتویں صدی ہجری یا 11ویں اور 13ویں صدی عیسوی کے دوران ان کی شہرت پھیلی رہی ان کے بنیادی ٹھکانے فارس اور شام میں تھے جہاں کچھ لوگوں نے ایران سے ہجرت کرنے کے بعد شام کا رخ کیا تھا۔ اس گروہ کی بنیاد حسن بن صباح نے رکھی تھی جس نے قلعۃ الموت کو اپنا مرکز بنا کر اپنی دعوت کو پھیلانا اور چھوٹی سی مملکت کو مضبوط بنانا شروع کیا تھا! اسماعیلیوں کے خلافت عباسیہ، فاطمیہ اور ان کی ماتحت سلطنتوں جیسا کہ سلاجقہ، زنگی، خوارزمی اور ایوبی سبھی سے اختلاف تھے مگر یہ سب ان کی سرکوبی میں ناکام رہے۔

ان کی عسکری حکمت عملی کا زیادہ تر انحصار ٹارگٹ کلنگ پر تھا جنہیں ان کے فدائی انجام دیتے تھے اور اپنے مقصد کے حصول کیلئے وہ قطعاً موت سے خوفزدہ نہ ہوتے۔ ان کی اس حکمت عملی سے سبھی خوفزدہ رہتے۔
وجہ تسمیہ!
نزاریوں کیلئے سب سے پہلے حشیشیة کی اصطلاح فاطمی خلیفہ کے الآمر باحکام اللہ(1123) کے شام میں اسماعیلیوں کی کانب بھیجے گئے خط میں ملتی ہے اس خط کا مقصد نزار المصطفی باللہ کے امامت کے دعوے کا رد تھا، اس خط میں '' حشیشیة''کی اصطلاح دو بار بغیر کوئی سبب بیان کئے استعمال کی گئی۔
نزاریوں کیلئے حشیشیة کی اصطلاح دوسری بار عماد الدین اصفہانی(1183) کی کتاب '' نصرة النصرة''میں اس لفظ کا اشتقاقی معنی ذکر کئے بغیر استعمال کی گئی، اس کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں دوسری اصطلاحات جیسا کہ ملاحدة اور باطنیہ وغیرہ بھی استعمال کی گئیں۔
جبکہ ایلخانی دور کے مورخ جن میں جوینی اور رشید الدین شامل ہیں یہ دونوں فارس میں نزاری جماعت کی تاریخ کے بنیادی مصدر سمجھے جاتے ہیں انھوں نے حشیشیة کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔
اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اسماعیلی نصوص اور اس زمانے کی اسلامی غیر اسماعیلی نصوص میں جو کہ اسماعلیوں کی دشمن تھیں نزاریوں کے حشیش کے استعمال کا تذکرہ نہیں ملتا!
جبکہ حشاشین اصطلاح کی اشتقاقی اصل کے بارے میں مختلف آراء ملتی ہیں :
  • أساسان (Assasins):
یعنی قاتل یا ٹارگٹ کلر : فرانسیسی یہ لفظ اسماعیلی فدائیوں پر استعمال کرتے تھے، جنہوں نے ان کے بہت سے سالاروں کو قتل کیا فرانسیسیوں ان۔ سے خوفزدہ رہتے اور انھیں '' اساسان'' کا لقب دیا۔
  • حساسان:
شیخ الجبل '' حسن بن صباح '' کی جانب نسبت جس نے فدائی گروپوں کو منظم کیا۔
  • عساسون:
یہ '' عسس'' سے مشتق ہے وہ لوگ جو اپنی راتیں قلعوں اور فصیلوں پر پہرہ دیتے ہوئے گزارتے تھے۔
  • أساسين:
یہ '' المؤسسین'' سے ماخوذ ہے جنہوں نے قلعۃ الموت میں اپنی قوت کی بنیاد رکھی۔

جبکہ مارکو پولو کی جانب سے بیان کردہ افسانوی جنت کا مشاہدہ مارکوپولو نے خود ہرگز نہیں کیا ہو گا کیونکہ قلعۃ الموت 1256 میں جلا دیا گیا تھا جبکہ مارکوپولو 1254 میں پیدا ہوا۔


واللہ اعلم!
 

ربیع م

محفلین
حسن بن صباح کی جنت، فسانہ یا حقیقت؟
ظفر سید
بی بی سی اردو، اسلام آباد

'حسین نے نہایت ہی جوش و حیرت سے دیکھا کہ انھی چمنوں میں جا بہ جا نہروں کے کنارے کنارے سونے چاندی کے تخت بچھے ہیں جن پر ریشمی پھول دار کپڑوں کا فرش ہے۔

'لوگ پر تکلف اور طلائی گاؤ تکیوں سے پیٹھ لگائے دل فریب اور ہوش ربا کم سن لڑکیوں کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں اور جنت کی بےفکریوں سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ خوب صورت خوب صوت آفتِ روزگار لڑکے کہیں تو سامنے دست بستہ کھڑے ہیں اور کہیں نہایت ہی نزاکت اور دل فریب حرکتوں سے ساقی گری کرتے ہیں۔ شراب کے دور چل رہے ہیں اور گزک کے لیے سدھائے یا قدرت کے سکھائے ہوئے طیور پھل دار درختوں سے پھل توڑ توڑ کے لاتے ہیں اور ان کے سامنے رکھ کے اڑ جاتے ہیں۔'

یہ اقتباس عبدالحلیم شرر کے 1899 میں شائع ہونے والے مشہورِ زمانہ ناول 'فردوسِ بریں' سے لیا گیا ہے جس میں وہ حسن بن صباح کی مصنوعی جنت کا ڈرامائی احوال بیان کر رہے ہیں۔

فردوسِ بریں کا شمار اردو کے مقبول ترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ یہ آج بھی تعلیمی نصابوں کا حصہ ہے اور قریب قریب ہر سکول اور کالج کی لائبریری میں مل جاتا ہے۔

مغرب میں بھی اس ناول کو خاصی پذیرائی ملی۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا اور 2016 میں یورپ کے کئی شہروں میں اسی ناول پر مبنی تھیئٹر ڈرامے دکھائے گئے جنھیں ذوق و شوق سے دیکھا گیا۔



شرر اس میدان میں اکیلے نہیں ہیں۔ مشرق و مغرب میں لکھی گئی درجنوں کہانیوں، ناولوں اور افسانوں میں اس مصنوعی جنت کا ذکر ملتا ہے جس میں نوجوانوں کو نشے میں دھت کروا کر جنت کے ماڈل پر تیار کردہ باغات و محلات میں عیش و عشرت کے ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اصل جنت میں پہنچ گئے ہیں، پھر انھیں بےہوش کر کے باہر لے جایا جاتا ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بڑی شخصیت کو قتل کر دیں تو انھیں دوبارہ اسی جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔

مشہور ہے کہ ایسی ہی جنت 12ویں صدی میں ایران کے علاقے رودبار کے قلعۂ الموت میں حسن بن صباح نے قائم کی تھی جہاں وہ نوجوانوں کو ورغلا کر انھیں حکمرانوں، علما اور دوسرے مخالفین کے قتل کے لیے بھیجتے تھے۔

یہ حسن بن صباح کون تھے اور ان سے وابستہ ان حیرت انگیز دیومالائی کہانیوں میں کس حد تک صداقت ہے؟

علوم کی مختلف شاخوں سے لگاؤ
تصویر کے کاپی رائٹBIBLIOTHÈQUE NATIONALE DE FRANCE
Image caption
26ویں اسماعیلی امام علاؤالدین محمد سوئم بن جلال الدین حسن کو اس پینٹنگ میں پیش کیا گیا ہے
ان کا اصل نام حسن الصباح تھا اور وہ 1150 کی دہائی میں ایرانی شہر قم میں ایک عرب شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ لڑکپن ہی میں ان کے والد اس زمانے کے علمی گڑھ 'رے' چلے گئے۔ یہاں نوجوان حسن نے رائج علوم میں تیزی سے مہارت حاصل کرنا شروع کی۔

اپنی آپ بیتی 'سرگزشتِ سیدنا' (جس کے صرف چند ٹکڑے ہی باقی بچے ہیں) میں وہ لکھتے ہیں:

'سات برس کی عمر سے مجھے علوم کی مختلف شاخوں سے گہرا لگاؤ تھا اور میں مذہبی رہنما بننا چاہتا تھا۔ 17 سال کی عمر تک میں نے خاصا علم حاصل کر لیا تھا۔'

علوم کی یہ شاخیں دینیات کے علاوہ فلکیات، علمِ ہندسہ (جیومیٹری)، منطق اور ریاضی تھیں۔

اسی دوران ان کی ملاقات امیرہ زراب نامی اسماعیلی داعی سے ہوئی جنھوں نے نوجوان حسن کے زرخیز دماغ کے لیے بارش کا سا کام کیا۔ حسن ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ اسماعیلی ہو گئے۔

عمر خیام کے کلاس فیلو؟
یہاں ہمارا سامنا ایک دلچسپ روایت سے ہوتا ہے جس کا ذکر ایڈورڈ فٹزجیرلڈ نے عمر خیام کی رباعیات کے ترجمے کے دیباچے میں بھی کیا ہے۔ قصہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ حسن الصباح، مشہور شاعر، ماہرِ فلکیات اور ریاضی دان عمر خیام، اور نظام الملک طوسی تینوں اس دور کے مشہور عالم امام موفق کے شاگرد تھے اور انھوں نے ایک دن مل کر عہد کیا تھا کہ جو کوئی پہلے کسی بڑے عہدے تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کرے گا وہ دوسروں کو نوازے گا۔

ہوا یوں کہ نظام الملک طاقتور سلجوق سلطان الپ ارسلان کے وزیر اعظم بن گئے اور انھوں نے لڑکپن کے وعدے کو وفا کرتے حسن الصباح اور عمر خیام کو بڑے بڑے عہدے دینے کی پیشکش کی، البتہ دونوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر انھیں رد کر دیا۔

یہ کہانی ہے تو بڑی مزیدار، لیکن کیا یہ سچائی پر مبنی ہے؟ نظام الملک 1018 میں پیدا ہوئے تھے، جب کہ حسن الصباح کا سال پیدائش 1050 کے لگ بھگ ہے، جس کا مطلب ہے کہ نظام حسن سے 32 سال بڑے تھے۔

مزید یہ کہ 1059 میں، یعنی جب حسن کی عمر نو سال کے قریب ہو گی، نظام الملک صوبہ خراسان کے گورنر بن کر پہلے ہی 'بڑے عہدے' تک پہنچ چکے تھے اس لیے یہ قرینِ قیاس نہیں ہے کہ وہ رے کے کسی نوعمر لڑکے کے ہم جماعت ہوں اور اس کے ساتھ کسی عہد نامے میں شریک ہوں۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption
قلعہ الموت اپنے جغرافیے کی بنا پر ناقابلِ تسخیر تھا
عقابوں کا نشیمن
اس زمانے میں مصر پر فاطمی خاندان کی حکومت تھی جو اسماعیلی تھے۔ قاہرہ کی جامعہ الازہر انھی نے قائم کی تھی۔ حسن 1078 میں مختلف ملکوں میں پھرتے پھراتے قاہرہ پہنچ گئے جہاں ان کے افسانے پہلے ہی سے پہنچ چکے تھے، چنانچہ فاطمی دربار میں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔

حسن نے مصر میں تین سال گزارے لیکن اس دوران فاطمیوں کے سپہ سالار بدر الجمالی حسن کے مخالف ہو گئے اور انھیں زنداں میں ڈال دیا گیا۔ اتفاق سے زنداں کا مینار گر پڑا۔ اس واقعے کو حسن کی کرامت سمجھا گیا اور انھیں باعزت رہا کر دیا گیا۔

اس کے بعد حسن نے مصر میں مزید قیام مناسب نہیں سمجھا۔ وہ ایران لوٹ آئے اور اگلے نو برسوں تک مختلف علاقوں میں دعوت و تبلیغ میں مگن رہے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اپنی توجہ رودبار صوبے کے علاقے دیلمان پر مرکوز کرنا شروع کر دی۔ یہاں انھیں کوہ البرز کی برفانی چوٹیوں میں گھرا ہوا ایک قلعہ نظر آیا جو ان کے مستقبل کے منصوبوں کے لیے نہایت سودمند ثابت ہو سکتا تھا۔

یہ قلعہ الموت تھا۔

بظاہر تو لگتا ہے کہ اس قلعے کا نام موت یعنی مرنے سے متعلق ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ الموت مقامی زبان کے الفاظ 'الا' اور 'آموت' سے نکلا ہے۔ دیلمانی زبان میں الا عقاب ہے اور آموت (فارسی میں آموخت) کا مطلب ہے سیکھنا۔ روایت مشہور ہے کہ اس علاقے کا حکمران وہاں شکار کھیل رہا تھا کہ اسے ایک پہاڑی پر عقاب اترتا ہوا دکھائی دیا۔ اسے احساس ہوا کہ اس مقام کا جغرافیہ اس قسم کا ہے کہ اگر یہاں قلعہ بنایا جائے تو وہ ناقابلِ شکست ثابت ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے یہاں قلعہ تعمیر کروایا اور اس کا نام الموت پڑ گیا، یعنی 'عقاب کا سکھایا ہوا۔'


ہلاکو خان کے درباری مورخ عطا ملک جوینی نے، جن کا تفصیلی ذکر آگے چل کر آئے گا، اس قلعے کا دورہ کیا تھا۔ وہ اپنی کتاب 'تاریخِ جہاں گشا' میں لکھتے ہیں: 'الموت ایک ایسے پہاڑ پر واقع ہے جس کی شکل گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے اونٹ کی مانند ہے۔ قلعہ جس چٹان پر تعمیر کیا گیا ہے اس کے چاروں طرف ڈھلوانیں ہیں، صرف ایک تنگ راستہ ہے جس کا بڑی آسانی سے دفاع کیا جا سکتا ہے۔'

حسن نے قلعہ الموت کے آس پاس کے علاقے میں ڈیرے ڈال دیے۔ ان کا پیغام زور پکڑتا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے خود قلعے کے اندر ان کے حواریوں کی اتنی اکثریت ہو گئی کہ قلعہ دار حسین مہدی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ قلعے کا اختیار حسن کے حوالے کر کے وہاں سے رخصت ہو جائے۔ یہ واقعہ سنہ 1090 کا ہے۔

اب حسن الصباح نے قلعہ الموت کو اپنا مرکز بنا کر آس پاس کے وسیع علاقے میں اپنا پیغام پھیلانے کا کام شروع کر دیا۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ آس پاس کے کئی قلعے ان کے قبضے میں آ گئے جن میں سے کچھ کو خریدا گیا، کچھ پر بزور قبضہ کیا گیا اور کچھ ایسے تھے جس کے لوگوں نے دعوت سے متاثر ہو کر خود اپنے دروازے کھول دیے۔

قصہ مختصر چند برسوں کے اندر تقریباً تمام رودبار اور پڑوسی علاقوں میں حسن کی عملداری قائم ہو گئی۔

ان کے انہماک و ارتکاز کا یہ عالم تھا کہ وہ الموت میں آ جانے کے بعد 35 برس تک قلعے سے باہر نہیں گئے، بلکہ اپنے گھر سے بھی صرف دو بار باہر نکلے۔ تاریخ دان رشید الدین ہمدانی 'جامع التواریخ' میں لکھتے ہیں کہ 'وہ اپنی موت تک اپنے گھر ہی میں رہے جہاں وہ اپنا وقت مطالعے، دعوت تحریر کرنے، اپنی عملداری کا نظم و نسق چلانے میں گزارتے رہے۔'

سلجوق سلطان ملک شاہ نے اپنے دورافتادہ سرحدی علاقے چھن جانے کی خبر سن کر حسن الصباح کی سرکوبی کے لیے 1092 میں ایک لشکر بھیجا جس نے الموت کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ قلعہ ناقابلِ تسخیر تھا، دوسری طرف آس پاس کے علاقوں سے حسن کے ماننے والوں نے کچوکے لگا لگا کر شاہی لشکر کو اس قدر زچ کیا کہ اسے چار ماہ کے بعد اپنا سا منھ لے کر لوٹتے ہی بنی۔

خودکش فدائی
الموت کے محاصرے کے چند ماہ بعد 16 اکتوبر 1192 کو سلجوق سلطان کے وزیرِ اعظم اور حسن الصباح کے میبنہ ہم جماعت نظام الملک نہاوند ضلعے میں سفر کر رہے تھے کہ دیلمان کے علاقے کا ایک نوجوان، جس نے فقیروں کا بھیس بدلا ہوا تھا، ان کے قریب پہنچا اور اپنے چغے سے خنجر نکال کر ان پر وار کر دیا۔

رشید الدین ہمدانی کے مطابق حسن الصباح کو معلوم ہوا تھا کہ الموت پر سلجوقیوں کے حملے کے پیچھے دراصل نظام الملک کا ہاتھ تھا۔ انھوں نے ایک دن اپنے فدائیوں سے کہا: 'تم میں سے کون ہے جو اس ملک کو نظام الملک طوسی کے فتنے سے پاک کر سکے؟'

ایک نوجوان بو طاہر آرانی نامی نے ہاتھ بلند کیا اور بعد میں جا کر شیخ الجبال کے فرمان پر عمل کر ڈالا اور اس دوران خود بھی نظام الملک کے محافظوں کے ہاتھوں مارا گیا۔

یہ حسن الصباح کی مہم کا پہلا 'خودکش' حملہ تھا۔

ظاہر ہے کہ سیاسی قتل حسن کی ایجاد نہیں تھا کہ یہ عمل اتنا ہی پرانا ہے جتنی انسانی تاریخ۔ لیکن جس منظم طریقے سے اور جس وسیع پیمانے پر حسن نے اسے بطور آلہ استعمال کیا، اس کی وجہ سے ان کا نام اس سے منسلک ہو کر رہ گیا ہے۔


حسن کو معلوم تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ کبھی بھی سلجوقوں اور دوسرے طاقتور دشمن حکمرانوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اس صورتِ حال میں انھوں نے وہ تکینک استعمال کی کہ بجائے ہزاروں کی تعداد میں فوجوں کا میدانِ جنگ میں دوبدو مقابلہ کیا جائے، بہتر یہی ہے کہ اپنے کسی جانثار فدائی کی تربیت کر کے اس کے ہاتھوں کسی حکمران، خطرناک وزیر، سپہ سالار یا مخالف مذہبی عالم کو قتل کروا دیا جائے۔

یہ طریقہ حیرت انگیز طور پر کامیاب ثابت ہوا۔ طوسی کے بعد حسن کے فدائین کے نشانے پر کئی حکمران، شہزادے، گورنر، جرنیل، اور علما بنے، اور ان کی دہشت نزدیک و دور تک پھیل گئی۔ کئی اہم شخصیات کسی بھی اجنبی سے ملنے سے کترانے لگے اور دوسرے اپنے لباس کے نیچے احتیاطاً زرۂ بکتر پہننے لگے۔

تصویر کے کاپی رائٹFOX DIGITAL
Image caption
مقبول فلم اسیسنز کریڈ میں مائیکل فاسبینڈر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا
مقبول ویڈیو گیم
پچھلے چند عشروں کے دوران خودکش حملہ آوروں کی لہر کے بعد حسن الصباح کے نام کی بازگشت اکثر میڈیا میں سنی گئی ہے اور جدید دور کے خودکش حملہ آوروں کو قلعہ الموت کے فدائیوں سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

کئی ناولوں، کہانیوں، نظموں کے علاوہ حسن الصباح کے فدائی اور ان کی جنت آج کی مشہور ویڈیو گیم 'اسیسنز کریڈ' میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ اس کا شمار دنیا کی مقبول ترین گیمز میں ہوتا ہے اور اب تک اس کی دس کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔

سنہ 2016 میں اس ویڈیو گیم پر مبنی ایک فلم بنائی گئی جس نے 24 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا بزنس کیا۔

شیخ الجبال اور ان کی مصنوعی جنت
قلعۂ الموت میں حسن الصباح کی زندگی کا یہی وہ دور ہے جو بعد میں آنے والی صدیوں میں اساطیری حیثیت اختیار کر گیا۔ انھیں عام طور پر شیخ الجبال (Old Man of the Mountain) کہا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ انھوں نے اس قلعے میں ایک مصنوعی جنت قائم کر رکھی تھی جس کی ایک جھلک نوجوانوں کو دکھا کر انھیں سلاطین، وزرا، مذہبی رہنماؤں اور دوسری سرکردہ شخصیات کے قتل کے لیے آمادہ کیا جاتا تھا۔

مخالفین کی نظر میں یہ لوگ دہشت گرد تھے، لیکن خود حسن الصباح اور ان کے حامیوں کے نزدیک یہ فدائی تھے جنھیں مقصد کے حصول کی خاطر جانیں قربان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی۔ قلعہ الموت میں ایسے تمام فدائیوں کے نام ایک قسم کے 'رول آف آنر' میں داخل کیے جاتے تھے اور انھیں شہید کا درجہ دیا جاتا تھا۔

مارکو پولو کی کارستانی
یہ کہانی مشہور کرنے میں سب سے نمایاں کردار مارکو پولو نے ادا کیا۔ یہ وہ اطالوی سیاح تھا جس کا سفرنامہ دنیا کی مشہور ترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں مارکو پولو نے لکھا ہے:

'شیخ الجبال نے دو پہاڑوں کے درمیان واقع وادی میں ایک وسیع و عریض اور خوشنما باغ بنوایا ہے جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس میں ہر قسم کے پھل پائے جاتے ہیں اور تصور سے باہر حسین محلات اور خیمے ہیں جن پر سونے کے ورق چڑھے ہیں اور ان میں نفیس تصاویر ہیں۔ اس باغ میں چھوٹی چھوٹی ندیاں ہیں جن میں شراب، دودھ، شہد اور پانی بہتا ہے، اور یہاں دنیا کی حسین ترین دوشیزائیں ہیں جو ہر طرح کے ساز بجاتی ہیں اور وہ حسین نغمے گاتی ہیں اور دل لبھانے والے رقص کرتی ہیں۔'



مارکو پولو مزید لکھتے ہیں کہ 12 سے 20 برس عمر کے نوجوانوں کو نشہ پلا کر اس باغ میں لایا جاتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت میں پہنچ گئے ہیں۔ اس کے بعد جب انھیں بے ہوش کر کے اس فردوسِ بریں سے نکالا جاتا ہے تو وہ اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر کسی کو بھی قتل کرنے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

مارکو پولو کا سفرنامہ اپنے دور کا 'بیسٹ سیلر' ثابت ہوا اور اس کی وساطت سے یہ کہانیاں یورپ بھر میں پھیل گئیں، جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں دہرائی جاتی ہیں۔

اس دوران کسی نے یہ نہ سوچا کہ مارکو پولو جب 1272 میں چین جاتے ہوئے اس علاقے سے گزرے، تب حسن الصباح کو فوت ہوئے تقریباً ڈیڑھ صدی اور منگولوں کے ہاتھوں قلعۂ الموت کو تباہ ہوئے 15 برس گزر چکے تھے۔

دوسری طرف کچھ جدید مورخین نے کہا ہے کہ مارکو پولو چین تو کجا، ترکی سے آگے تک گئے ہی نہیں تھے اور انھوں نے ساری کہانیاں استنبول میں بیٹھ کر سیاحوں اور ملاحوں سے سن سنا کر لکھ ڈالیں۔

تصویر کے کاپی رائٹBIBLIOTHÈQUE NATIONALE DE FRANCE
Image caption
الموت کے محاصرے کو رشید الدین ہمدانی نے اس طرح پیش کیا ہے
لیکن یہ افسانہ مارکو پولو کی ایجاد نہیں ہے۔ اس زمانے میں حسن الصباح اور قلعہ الموت کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں گردش میں تھیں، انھوں نے کہیں سے ایسی ہی کوئی اڑتی اڑتی خبر سن کر اسے تحریر کر دیا جس کے بعد یہ کہانی دنیا بھر میں 'وائرل' ہو گئی۔

ہم نے ہلاکو خان کے درباری مورخ عطا ملک جوینی کی 'تاریخِ جہاں گشا' کا ذکر کیا تھا۔ جوینی حسن الصباح اور اسماعیلیوں کے سخت دشمن تھے، اس لیے ان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان سے کسی قسم کی رو رعایت برتیں گے۔

ہلاکو خان نے جب 1256 میں قلعہ الموت فتح کیا تو جوینی ان کے ساتھ قلعے پہنچے۔ وہ بڑی تفصیل سے حسن الصباح کے حالاتِ زندگی، ان کے نظریات، الموت کی تاریخ، وہاں کے حکمرانوں، عمارات، طرزِ تعمیر اور کتب خانوں کا احوال بیان کرتے ہیں، لیکن ان کی کتاب میں کہیں بھی کسی جنت یا اس کے آثار کا ذکر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔

ہم اس دور کے ایک اور مشہور تاریخ دان رشید الدین ہمدانی کا ذکر کر چکے ہیں۔ ان کی سنہ 1307 میں مکمل ہونے والی کتاب 'جامع التواریخ' کو اس دور کے ایرانی تاریخ پر سند تسلیم کیا جاتا ہے، مگر وہ بھی حسن الصباح اور قلعہ الموت کا تفصیلی ذکر کرنے کے باوجود وہاں کسی جنت کے وجود سے واقف نہیں ہیں۔

'اصل جاں نثار'
'شیخ الجبال' کے بارے میں کئی اور کہانیاں، روایتیں اور افسانے بھی گردش میں ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک دن کسی ملک کا سفیر الموت آیا ہوا تھا اور اس نے اپنے حکمران کی کیل کانٹے سے لیس فوجوں کی ہیبت کے بارے میں ڈینگیں مارنا شروع کر دیں۔ حسن الصباح نے کہا، 'ٹھیرو، میں تمھیں دکھاتا ہوں کہ اصل سپاہی کیا ہوتا ہے۔'

وہ اسی وقت سفیر کو قلعے کی چھت پر لے گئے اور وہاں تعینات دو محافظوں میں سے ایک سے کہا کہ 'چھت سے کود جاؤ،' اور دوسرے کو حکم دیا، 'اپنا خنجر نکال کر اپنے دل میں پیوست کر دو۔' کہا جاتا ہے کہ جب ایک محافظ بلا چوں و چرا قلعے کی بلند فصیل سے کود گیا اور دوسرے نے خنجر اپنے سینے میں گھونپ دیا تو سفیر پر وہی ہیبت طاری ہو گئی جو اس نے اپنی زبردست فوج کے ذکر سے حسن پر طاری کرنا چاہی تھی۔

چرس کے نشے میں دھت؟
یہ بھی مشہور ہے کہ انگریزی کا لفظ assassin یعنی اہم شخصیات کا قاتل بھی حسن الصباح ہی کے اس دور کی پیداوار ہے کہ کیوں کہ وہ اور بعد میں آنے والے ان کے جانشین فدائیوں کو حشیش (یعنی چرس) کے نشے میں دھت کروا کر قاتلانہ مہمات پر بھیجا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو حشیش کی نسبت سے حشاشین کہا جاتا تھا، جو مغرب میں پہنچ کر اسیسن بن گیا۔

تاریخ کی کسی کتاب ہم عصر میں اس بات کے شواہد نہیں ملتے کہ حسن الصباح یا ان کے پیروکار کسی قسم کی نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے تھے۔ معروف تاریخ دان برنارڈ لیوس کے مطابق اس دور کے اسماعیلیوں کے لیے لفظ 'حشاشیہ' (حشیش پینے والا) کی اصطلاح دراصل اس لیے استعمال ہوتی تھی کہ دوسروں کو ان کے خیالات بہکے بہکے لگتے تھے، نہ کہ خود حشیش پینے کے باعث۔

کٹر انصاف پسندی
Image caption
جب حسن الصباح نے اپنے دو پیروکاروں کو حکم دیا تو انھوں نے فوراً تعمیل کرتے ہوئے اپنے آپ کو مار ڈالا
حسن الصباح بےحد ذہین سیاسی رہنما اور منتظم تھے۔ ان کے سیاسی و نظریاتی مقاصد کے حصول کے لیے نظریہ بھی درکار تھا اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے تنظیم بھی۔ انھوں نے یہ دونوں کام کر دکھائے۔

ان کی کٹر انصاف پسندی کی مثال یہ پیش کی جاتی ہے کہ جب قانون کا معاملہ آیا تو انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو بھی نہیں بخشا، ایک کو شراب پینے کی پاداش میں اور دوسرے کو قتل کے جرم میں مروا ڈالا۔

حسن الصباح کا انتقال 12 جون 1124 کو ہوا۔ چونکہ ان کی نرینہ اولاد زندہ نہیں بچی تھی، اس لیے انھوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے ایک وفادار داعی کِیا بزرگ امید کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا جنھوں نے ایک عرصہ قلعۂ الموت پر حکومت کی۔ یہ سلسلہ 1256 تک چلتا رہا، تاوقتیکہ منگول حکمران ہلاکو خان نے الموت کو فتح کر کے اس نزاری اسماعیلی ریاست کا خاتمہ کر ڈالا۔

حسن الصباح کی زندگی اس لحاظ سے بےحد دلچسپ ہے کہ اس پر طرح طرح کے افسانوں کی دبیز دھند چھائی ہوئی ہے جس میں ان کی اصل شخصیت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ زمانے کی یہ ستم ظریفی بھی دیکھیے کہ اس نے ان کا اصل نام بھی بدل کر حسن بن صباح مشہور ہو گیا، حالانکہ ان کے والد کا نام صباح نہیں بلکہ علی تھا۔

تاہم اساطیری دھند کے پردے چاک کر کے دیکھا جائے تو ایک ایسے شخص کی تصویر سامنے آتی ہے جو صاحب میدان بھی تھا اور صاحبِ کتاب بھی، جنھوں نے نہ صرف زبردست عسکری و سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا بلکہ علمی و عقلی میدان میں بھی ان کا شمار اپنے دور کے اہم دانشوروں میں ہوتا ہے۔ اس کا اعتراف ان کے بدترین مخالفین نے بھی کیا ہے۔

عمر خیام سے مماثلت
ہم جماعت والی روایت کو نظر انداز بھی کر دیں تب بھی حسن الصباح اور عمر خیام میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں ایران میں ایک ہی عشرے میں پیدا ہوئے، انھوں نے لگ بھگ ایک جیسی عمریں بھی پائیں اور دونوں نے کچھ عرصہ اصفہان میں گزارا۔ اس لیے یہ مزیدار امکان بہرحال موجود ہے کہ دونوں کی ملاقات رہی ہو، آخر کو ان کے کئی علمی مشاغل اور دلچسپیاں ایک جیسی تھیں۔

Image caption
حسن الصباح کی 19ویں صدی میں بنائی گئی ایک تصویر
لیکن ان سے بھی گہری ایک اور مماثلت ہے۔ حسن الصباح، جو دینی عالم اور فوجی کمانڈر تھے، رہتی دنیا تک ایک ایسی مصنوعی جنت کے خالق کی حیثیت سے جانے جائیں گے جہاں شراب کی نہریں بہتی تھیں اور شباب ہر سو جلوہ افروز ہوتا تھا۔

دوسری طرف عمر خیام، جو دراصل ریاضی دان اور ماہرِ فلکیات تھے، انھیں شراب و شباب اور باغات سے متعلق ایسی رباعیات کا خالق سمجھا جائے گا جو انھوں نے نہیں لکھیں۔

ایرانی محقق صادق ہدایت کی تحقیق کے مطابق خیام سے منسوب سینکڑوں رباعیوں میں سے صرف آٹھ یا دس ایسی ہیں جن کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ خیام کے قلم سے نکلی ہیں، باقی اللہ اللہ خیر سلا۔

اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں ہم عصروں کے سر ایک ایک 'جنت' تھوپ دی گئی جس کا ان دونوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔


ماخذ
 
Top