حساب عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے۔امجد اسلام امجد

حساب عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمھیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے

کسی چراغ میں ہم ہیں، کسی کنول میں تُم
کہیں جمال ہمارا، کہیں تمھارا ہے

وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشّے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے

ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے
نجانے ہم ہیں دوبارہ کہ یہ دوبارا ہے!

وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
ہر ایک حسن کسی حسن کا اشارہ ہے

نجانے کب تھا! کہاں تھا! مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے

یہ دو کنارے تو دریا کے ہوگئے، ہم تم!
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے!

امجد اسلام امجد
 
Top