فارسی شاعری حریفِ صافی و دُردی نہ ای خطا اینجاست - غزلِ نظیری نیشاپوری مع اردو ترجمہ

محمد وارث

لائبریرین
محمد حسین نظیری نیشاپوری کا شمار مغلیہ دور کے عظیم ترین شعراء میں سے ہوتا ہے۔ اس دور کی روایت کے عین مطابق نظیری نے بہت قصیدے لکھے اور بہت عرصے تک خانخاناں کے دربار سے وابستہ رہے اور خوب خوب مدح سرائی کی لیکن نظیری کی اصل شہرت انکی غزلیات کی وجہ سے ہے جس میں جدت طرازی انکا طرۂ امتیاز ہے۔

مولانا شبلی نعمانی انکے متعلق 'شعر العجم' (جلد سوم) میں لکھتے ہیں۔

"ابتدائے تمدن میں میں معشوق کے صرف رنگ و روپ اور تناسبِ اعضا کا خیال آیا اور اس کیلیے حسن ایک عام لفظ ایجاد کیا گیا لیکن جب رنگینیِ طبع اور نکتہ سنجی بڑھی تو معشوق کی ایک ایک ادا الگ الگ نظر آئی اور وسعتِ زبان نے انکے مقابلہ میں نئے نئے الفاظ مثلاً کرشمہ، غمزہ، ناز، ادا وغیرہ وغیرہ تراشے۔ اس قسم کے الفاظ اور ترکیبیں جدت پسند طبیعتیں ایجاد کرتی ہیں اور یہی طبعیتیں ہیں جن کو اس شریعت کا پیغمبر کہنا چاہیے۔ ان الفاظ کی بدولت آیندہ نسلوں کو سیکڑوں، ہزاروں خیالات اور جذبات کے ادا کرنے کا سامان ہاتھ آ جاتا ہے، نظیری اس شریعت کا اولوالعزم پیغمبر ہے، اس نے سیکڑوں نئے الفاظ اور سیکڑوں نئی ترکیبیں ایجاد کیں، یہ الفاظ پہلے سے موجود تھے لیکن جس موقع پر اس نے کام لیا یا جس انداز سے ان کو برتا شاید پہلے اس طرح برتے نہیں گئے تھے۔"

نظیری کی خوبصورت غزل مع ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔

حریفِ صافی و دُردی نہ ای خطا اینجاست
تمیزِ ناخوش و خوش می کُنی بلا اینجاست

تُو نہ تو صاف اور نہ ہی تلچھٹ پینے کا متحمل ہے اور یہی تیری خطا ہے، تُو ناخوش اور خوش کی تمیز کرتا ہے یہی تیری بلا ہے۔ یعنی زندگی کے صرف ایک اور اچھے رخ کی خواہش یا آرزو ہی مصیبت کی جڑ ہے۔

بغیرِ دل ھمہ نقش و نگار بے معنیست
ھمیں ورق کہ سیہ گشتہ مدّعا اینجاست

دل کے بغیر تمام نقش و نگار بے معنی ہیں، یہی ورق (یعنی دل) جو سیاہ ہو گیا ساری بات اور سارا مدعا تو یہیں ہے یعنی ظاہری نقش و نگار چاہے جتنے بھی خوب ہوں سیاہ دل کے ساتھ بے معنی ہیں۔

یہ شعر سب سے پہلے میں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب 'غبارِ خاطر' میں پڑھا تھا اور بہت پسند آیا، مولانا کو بھی بہت پسند رہا ہوگا کہ یہ شعر دو مختلف جگہوں پر لکھا ہے اور میرے لیے اسی شعر نے غزل ڈھونڈنے کیلیے مہمیز کا کام کیا جو بلآخر ایک درسی کتاب میں مل ہی گئی۔

ز فرق تا قَدَمَش ہر کجا کہ می نگرَم
کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست

اسکے سر سے لیکر اسکے قدموں تک میں جہاں بھی (جس حصے کو بھی) دیکھتا ہوں انکی رعنائی میرے دامنِ دل کو کھینچتی ہے کہ دیکھنے کی جگہ یہیں ہے، محبوب کی تعریف سر سے پاؤں تک کر دی ہے۔ اس شعر کا دوسرا مصرع بھی ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

خطا بہ مردمِ دیوانہ کس نمی گیرَد
جنوں نداری و آشفتہ ای خطا اینجاست

کسی دیوانے کو کوئی بھی خطا وار نہیں سمجھتا، (لیکن اے عاشق تجھ پر جو لوگ گرفت کر رہے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ) تو پریشان حال تو ہو گیا ہے لیکن جنون نہیں رکھتا اور یہی تیری خطا ہے جس پر پکڑ ہے، یعنی ابھی تیرا عشق خام ہے، جب اس مفلوک الحالی میں جنون بھی شامل ہو جائے گا تو پھر تُو کامل ہوگا اور دنیا کی گرفت سے آزاد۔

ز دل بہ دل گذَری ہست، تا محبت ہست
رہِ چمن نتواں بست تا صبا اینجاست

جب تک محبت ہے دل کو دل سے راہ رہے گی، جب تک بادِ صبا یہاں ہے چمن کا راستہ بند نہیں کیا جا سکتا یعنی حسن و عشق کا تعلق تب تک رہے گا جب تک چمن اور صبا کا تعلق ہے یعنی تا قیامت۔

بدی و نیکیِ ما، شکر، بر تو پنہاں نیست
ہزار دشمنِ دیرینہ، آشنا اینجاست

شکر ہے (خدا کا) کہ ہماری بدی اور نیکی تجھ (محبوب) سے پنہاں نہیں ہے کہ ہمارے ہزار پرانے آشنا دشمن یہاں موجود ہیں، مطلب یہ کہ وہ ہماری کوئی بھی برائی اگر تمھارے سامنے کریں گے تو پروا نہیں کہ تو پہلے ہی سے جانتا ہے۔

سرشکِ دیدۂ دل بستہ بے تو نکشایَد
اگرچہ یک گرہ و صد گرہ کشا اینجاست

میرے دیدۂ دل کے آنسوؤں کی جو گرہ بند گئی ہے وہ تیرے بغیر نہیں کھلنے کی، اگرچہ اس دنیا میں بہت سے گرہ کھولنے والے (مشکل کشا) موجود ہیں لیکن عاشق کا مسئلہ تو محبوب ہی حل کرے گا۔

بہ ہر کجا رَوَم اخلاص را خریداریست
متاع کاسِد و بازارِ ناروا اینجاست

میں جہاں کہیں بھی جاؤں میرے اخلاص کے خریدار موجود ہیں لیکن صرف اسی جگہ ہماری متاع (خلوص) ناقص ٹھہرا ہے اور بازار ناروا ہے۔ کیا حسبِ حال شعر ہے۔

ز کوئے عجز نظیری سرِ نیاز مَکَش
ز ہر رہے کہ درآیند انتہا اینجاست

اے نظیری عجز و انکساری کے کوچے سے اپنا سرِ نیاز مت اٹھا، کہ جس راستے سے بھی آئیں انتہا تو یہیں (کوئے عجز) ہے۔ میری نظر میں یہ شعر بیت الغزل ہے۔
 
Top