۔1
وہ بھی کیا دور تھا
ذہن کا آئینہ گرد آلود تھا
روحِ انسانیت ہو چکی تھی فنا
میکشی تھی ہنر
اور زِنا معتبر
سر سے تہذیب کے گر چکی تھی رِدا شرم و اخلاص کی
مر چکا تھا تمدّن بھی تاریخ کا
اور ڈوبیء ہوئی تھی رگِ ارتقا
حکمراں تھیں جہالت کی تاریکیاں فکر و ادراک پر
تھا ہر اک گام پر شرک جلوہ فگن
کفر تھا خندہ زن
وہ خدا جو کہ ہے احکم الحاکمیں
وہ جو ہے اصل مٰیں خالقِ انس و جاں
جس نے ’کُن‘ کہہ کے عالم کو پیدا کیا
جس کے قبضے میں ہے سب کی موت و حیات
وہ جو دیتا ہے پتھر کے کیڑوں کو رزق
سارے انسان و حیواں کو رزق
چل رہا ہے ازل سے بِلا مشورہ
جس کے ادنیٰ اشارے پہ نظمِ جہاں
اس کی توحید کا اُڑ رہا تھا مذاق
فکرِ انساں ہوئی اس قدر منحرف
اس نے بڑھ کر صحیفوں میں تحریف کی
وہ تغیّر ہوا رب کے احکام میں
سب مذاہب کی شکلیں ہوئیں بد نُما
اک خدا کی جگہ
ہو رہی تھی عبادت کہیں مہر کی
پوجتا تھا کوئی شوق سے چاند کو
ہو رہی تھی پرستش کہیں آگ کی
کوئی پانی کو سمجھے ہوئے تھا خدا
جہل اتنا بڑھا
فکرؕ گستاخ نے ان گنت چُن لئے پتھّروں کے خدا
اس کا مرکز زمینِ عرب بن گئی
جس کے ہر گام پر تھا خدا ہر قبیلے کا بیٹھا ہوا
ان میں کوئی ہبل کا پرستار تھا
زلفِ عزّیٰ میں کوئی گرفتار تھا
کوئی دیوانۂ نائلہ و اساف
چومتا تھا کوئی روئے لات و منات
اس طرح ہر طرف
غلبۂ بت پرستی تھا چھایا ہوا فہم و ادراک پر
ہو رہی تھی پرستش خدا کی جگہ بت کی شکلوں میں انسان کی
انتہا یہ کہ ان کی خوشی کے لئے
جشنِ عیش و مسرّت کا تھا اہتمام
اور اس جشن میں
تھا رسومِ جہالت کا اک اژدہام
تھی عقیدت کی یہ انتہا
عاجزی، انکساری کے ساتھ
ان بتوں کے مقابل تھا ننگا کھڑا ہر کوئی
تالیوں کی نِدا، سیٹیوں کی صدا اس پہ تھی مستزاد
حد سے جب بڑھ گئیں شرک و سرمستیاں
جہل و عیّاریاں، کفر و مکّاریاں
ایسے ماحول میں
غیرتِ حق کو حرکت ہوئی دفعتاً
اس نے بھیجا زمیں پر وہ آخر نبی
جس کی تخلیق تھی باعثِ کن فکاں، ماورائے گماں
یعنی وہ داعئِ حق جو در اصل تھا
مقبلِ مقبلاں، سرورِ عرشیاں، ہادئ انس و جاں
مرسلِ مرسلاں، مونسِ بے کساں، پیشوائے زماں
شاہدِ ذو المن، فخرِ شان و زمن
ابرِ فیض و کرم، آفتابِ ہُمم
ابتدا انتہا، بحرِ جُود و سخا، مظہرِ کبریا