حدیث اور علم اصولِ حدیث

ام اویس

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمدوللہ وصلی اللہ علی محمد وعلی اٰلہ وسلم۔

فرمایا اللہ سبحانہ و تعالٰی نے سورہ الحجر آیت نمبر 9 میں کہ:

"اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ

ہم نے اس ذکر (نصیحت) کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔"

پھر سورہ النحل آیت 44 میں فرمایا کہ:

"وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیّن لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ

اور ہم نے یہ ذکر (نصیحت) تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے"

اس فرمان الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی رسالت کا مقصد عظیم قرآن محکم کے معانی و مراد کا بیان اور وضاحت ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے اس فرض کو اپنے قول و فعل وغیرہ سے کس طور پر پورا فرمایا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اسے ایک مختصر مگر انتہائی بلیغ جملہ میں یوں بیان کیا ہے۔

”کان خلقہ القرآن“

(مسند احمد:24601)

یعنی آپ کی برگزیدہ ہستی مجسم قرآن تھی۔
لہٰذا اگر قرآن حجت ہے (اور بلا ریب وشک حجت ہے) تو پھر اس میں بھی کوئی تردد و شبہ نہیں ہے کہ اس کا بیان بھی حجت ہوگا، آپ نے جو بھی کہا ہے،جو بھی کیا ہے، وہ حق ہے، دین ہے، ہدایت ہے،اور نیکی ہی نیکی ہے، اس لئے آپ کی زندگی جو مکمل تفسیر کلام ربانی ہے آنکھ بند کرکے قابل اتباع ہے۔

”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَةٌ“

(احزاب:21)

اللہ کا رسول تمہارے لئے بہترین نمونہٴ عمل ہے، علاوہ ازیں آپ صلى الله عليه وسلم کو خداے علی وعزیز کی بارگاہ بے نہایت سے رفعت وبلندی کا وہ مقام بلند نصیب ہے کہ ساری رفعتیں اس کے آگے سرنگوں ہیں حتی کہ آپ کے چشم وابرو کے اشارے پر بغیر کسی تردد وتوقف کے اپنی مرضی سے دستبردار ہوجانا معیار ایمان و اسلام ٹھہرایا گیا ہے۔
اللہ نے اپنا وعدہ قرآن کی شکل میں ایک غیر متنازعہ کتاب کی شکل میں پورا فرمایا۔ جس کے خلاف کوئی ایسا ثبوت موجود نہیں کہ یہ وہ کتاب نہیں ہے جو چودہ سو سال پہلے نازل ہوئی تھی۔
لیکن مسلمانوں کی اکثریت نے اس بات کو نظر انداز کر دیا ہوا ہے کہ نبی ﷺ کا اسوہ اور سنت بھی اس وعدے میں شامل ہے۔ کیونکہ قرآنی تعلیمات کا صحیح مفہوم اخذ کرنا ممکن ہی نہیں جب تک انکی عملی شکل یعنی نبی ﷺ کے اسوہ سے رجوع نہ کیا جائے۔
ابتداء میں اللہ نے قرآن کی حفاظت اس کو لوگوں کے سینوں میں محفوظ فرما کر کی۔ پھر جب حفاظ کرام مختلف جنگوں میں جام شہادت نوش فرمانے لگے تو اللہ کی توفیق سے خلفائے راشدین اور گرانقدر صحابہ کے مکمل اجماع کے بعد ایک ایک آیت کو ایک نسخے کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا۔ اب یہ لاکھوں ایمان والوں کے سینوں میں بھی محفوظ ہے اور لاتعداد کتابی نسخوں میں بھی جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے قرآن کی تعلیمات کو گہرائی میں جا کر سیکھا اور اپنے اپنے دور کے لوگوں کو سکھایا۔ یوں یہ آفاقی کلام بغیر کسی تحریف و ترمیم کے اپنی اصل شکل میں سینہ در سینہ منتقل ہوتا رہا اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک اللہ تبارک و تعالٰی چاہیں گے۔
بالکل ایسے ہی اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کے ذریعے اپنے نبی ﷺ کی سنت اور اسوہ کی بھی حفاظت فرمائی۔ کچھ کی یاداشت میں ہر بات محفوظ رہی وہ جب تک زندہ رہے نبی ﷺ کے اسوہ پر سختی سے قائم رہے اور دوسروں کو بھی بتاتے رہے۔ کچھ نے کتابت قرآن کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد نبی ﷺ کے اسوہ ، تعلیمات اور مختلف معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال کو لکھنا بھی شروع کر دیا۔
حدیث کے لغوی معانی خبر کے ہیں۔ تو اللہ کے نبی ﷺ کی طرف سے یہ باتیں کسی کو بتانا حدیث پہنچانا کہلایا۔ یعنی اللہ کے نبی ﷺ کی طرف سے خبر پہنچانا کہ فلاں معاملہ یوں اور فلاں چیز یوں ہے۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ سنت یا احادیث جو مکمل طور پر کسی کتاب کی شکل میں موجود نہیں تھیں ان میں مفاد پرستوں اور اللہ کے خوف سے عاری لوگوں نے دنیا کے فائدے اٹھانے کے لیے ملاوٹ شروع کر دی اور اس میں اپنی طرف سے باتیں گھڑنی شروع کر دیں۔
چونکہ اس زمانے میں جس کو نبی ﷺ کی چند باتیں یاد ہوتی تھیں اس کا معاشرے میں ایک مقام ہوتا تھا لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے تو بہت سارے دنیا داروں نے جھوٹی عزت کی خاطر خود سے ہی باتیں گھڑنی شروع کر دیں۔
کئی اقوال رسول ﷺ میں لوگوں کی کمزور یاداشت کی وجہ سے ملاوٹ ہونے لگی۔ کچھ لوگوں نے ان روایات کو آگے پھیلانے میں احتیاط سے کام نہ لیا اور سنی سنائی بھی آگے پھیلانے لگے۔
تو اللہ نے اپنے اس ذکر (نصیحت) کی حفاظت کے وعدے کو قائم رکھنے کی خاطر اس امت میں ایسے لوگوں کو پیدا فرمایا جو ناقابل یقین حد تک بہترین یاداشت کے مالک تھے۔ ان کے تقویٰ اور انکی تجزیاتی صلاحیتوں کا زمانہ گواہ تھا۔ انہوں نے بلا تکان سفر پر سفر کیے اور لاکھوں کی تعداد میں اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات کو اکٹھا کیا اور پھر ان میں سے اپنے نبی ﷺ کی سچی باتوں کو من گھڑت اور کمزور روایات سے الگ کیا۔
پھر نبی ﷺ کی اپنی باتوں میں جو مختلف علماء ، صحابہ اکرام ، تابعین اور تبع تابعین کے اپنے اقوال کی ملاوٹ ہو چکی تھی اس کو علیحدہ علیحدہ کیا۔ یہ سب روایت کے الفاظ اور متن پر خاص توجہ ، گہری عرق ریزی اور احادیث کو نبی ﷺ سے منسوب کرنے والے ہزاروں لوگوں کی سوانح حیات کے بغور مطالعے سے ممکن ہوا۔
جس میں قابل اعتراض متن والی ، الفاظ میں مماثلت نہ رکھنے والی ، اچھی شہرت نہ رکھنے والے لوگوں کی طرف سے بیان کی گئی تمام احادیث وغیرہ وغیرہ کو صحیح اور قبولیت کے درجے سے ہٹا دیا گیا۔
عصر حاضر میں حدیث کی قبولیت میں کئی طرح کی انتہائی آراء پائی جاتی ہیں۔
ایک تو وہ لوگ جو درجات احادیث سے قطع نظر سرے سے ہی احادیث کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن کے ہوتے ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں۔
دوسرے وہ جن کے لیے ہر حدیث قابل قبول ہے چاہے اس کا درجہ صحیح یا ضعیف کچھ بھی ہو۔
پھر کچھ لوگ اپنی محدود عقل و علم کو حدیث کی تصدیق کی کسوٹی بناتے ہیں اور حدیث میں بیان کردہ حقائق کو زمانہ حاضر کے مطابق پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں ان کا دل مطمئن ہو اسی حدیث کو مان لیتے ہیں جہاں نہ ہو اس کو رد کر دیتے ہیں۔
یہ تمام آراء ہی درست نہیں ہیں۔ صحیح راستہ یہی ہے کہ حدیث کو اس کے درجے کے مطابق قبول یا رد کرنا چاہیئے۔ اور جس اصول کے تحت حدیث جمع کی گئی ہیں اسی پر جرح کرنی چاہیئے اور اگر اس اصول یا طریقہ میں کسی سقم کے ثبوت مل جائیں تو ہی اس حدیث کی قبولیت میں کلام ہو سکتا ہے نہ کہ محض اپنی عقل اور دور حاضر کے معاشرتی اصولوں سے مطابقت نہ ہونے کی بنا پر یکسر حدیث کا رد کردیا جانا چاہیئے۔
(جاری ہے)
ہم آنے والی پوسٹس میں ان شاء اللہ احادیث کے درجات اور جن اصولوں کی بنیاد پر یہ درجات طے کیے گئے پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالیں گے۔
 

ام اویس

محفلین
دوسرا حصہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمد لله وصلی الله علی محمد وعلی اٰلہ وسلم۔

اللہ کے نبی ﷺ کے قول و فعل کی خبر (حدیث) بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
1)۔
اسناد:
یہ حدیث کو بیان کرنے والے راویوں کا سلسلہ ہوتا ہے جو ہر حدیث کے شروع میں موجود ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بات نبی ﷺ سے کس نے سنی ، پھر اس سے کس نے سنی اور آخر میں کاتب حدیث تک کس کے ذریعے پہنچی۔
2)۔
متن:
اسناد کے فوراً بعد حدیث کا متن شروع ہو جاتا ہے جو کہ حدیث کا اصل مضمون ہوتا ہے۔ متن کا وہ حصہ جو اصل میں نبی ﷺ کا قول و فعل ہوتا ہے الطرف کہلاتا ہے۔
مثال کے طور پر ذیل میں صحیح بخاری سے ایک مشہور حدیث پیش کی جا رہی ہے:

"(اسناد کی ابتداء)
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ، يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ۔ رضى الله عنه ۔ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
(اسناد کا اختتام)
(متن کی ابتداء)
يَقُولُ " إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ".
(متن کا اختتام)"
ترجمہ ۔
(اسناد کی ابتداء ) ہم کو حمیدی نے یہ حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا کہ ہم کو سفیان نے یہ حدیث بیان کی ، وہ کہتے ہیں ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا کہ مجھے یہ حدیث محمد بن ابراہیم تیمی سے حاصل ہوئی ۔ انھوں نے اس حدیث کو علقمہ بن وقاص لیثی سے سنا ، ان کا بیان ہے کہ میں نے مسجدنبوی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زبان سے سنا ، وہ فرما رہے تھے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا
( اسناد کا اختتام )
(متن کی ابتداء ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا ۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو ۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے ۔ ( متن کا اختتام )"

اوپر دی گئی حدٰیث میں اسناد کی ابتداء و اختتام اور اسکے بعد متن کی ابتداء اور اختتام کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ امید ہے اس سے قارئین کے ذہن میں ایک حدیث کی شکل واضح ہو گئی ہو گی۔ اس سے آپ سب کو ہماری آنے والی اصول حدیث کی پوسٹس کو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔

عموماً حدیث کا متن نہایت منطقی اور مناسب ہو سکتا ہے کہ جس پر یقین کر لینے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا لیکن کسی بھی حدیث کو صحیح ماننے کے لیے یہ کافی نہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم اس حدیث کی اسناد کا قابل قبول ہونا ہے۔ عبداللہ المبارک (وفات 181 ہجری) جو کہ امام بخاری کے استادوں میں سے ایک نامور شخصیت تھے نے فرمایا: اسناد دین کا حصہ ہے۔ اگر اسناد کو اہمیت نہ دی جائے تو جس کا جو جی چاہے گا اللہ کے نبی ﷺ کے نام پر کہتا پھرے گا۔ [رواہ امام مسلم فی تعارف صحیح مسلم]

مثال کے طور پر رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد صحابہ تو براہ راست ان کے نام کے حوالے سے ان کے اقوال بیان کیا کرتے تھے۔ پھر صحابہ کے بعد جب تابعین کا زمانہ آیا تو وہ جب کسی حدیث کو بیان کرتے تو نبی ﷺ کے ساتھ اس صحابی کا نام بھی لیتے جن سے انہوں نے نبی ﷺ کا وہ قول سنا ہوتا تھا۔ لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو نبی ﷺ کا وہ قول تو بیان کرتے جو انہوں نے کسی صحابی سے سن رکھا ہوتا تھا لیکن ان صحابی کا نام بیان نہ کرتے۔ (اس قسم کی حدیث بعد میں مرسل حدیث کہلائی) عین ممکن ہے کہ ایسی حدیث کی اسناد میں نبی ﷺ اور اس تابعی جو حدیث بیان کر رہا ہے کے درمیان ایک صحابی ہو یا دو یا کوئی اور تابعی۔۔ یہ ایک مثال ہے جس کی وجہ سے یہ نہایت ضروری ہوتا گیا کہ ہر حدیث کی اسناد کی مکمل تصدیق کے بعد ہی حدیث کی صحت کا فیصلہ کیا جائے۔ امام مالک (وفات 179 ہجری) فرماتے ہیں: سب سے پہلے جس نے حدیث کے ساتھ اسناد کو استعمال کرنا شروع کیا وہ ابن شہاب الزھری تھے۔
[ابن ابی حاتم:الجرح والتعدیل]

اسناد کی تصدیق و تحقیق وقت کی ایک بڑی ضرورت بن جانے کی دوسری عظیم وجہ یہ بنی کہ مسلمانوں میں ابھرنے والے مختلف گروہوں نے اپنے اپنے عقائد کی حمایت میں احادیث گھڑنی شروع کر دیں۔ اس مسئلے کا بھی ایک ہی حل تھا کہ حدیث کی اسناد کی کڑی جانچ پرکھ کی جائے اور من گھڑت روایات کو رد کر دیا جائے۔ ابن سیرین جو ایک تابعی تھے فرماتے ہیں: کہ وہ اسناد کا کبھی نہ پوچھتے تھے۔ لیکن جب کوئی فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا تھا تو پھر اس فتنہ کے تدارک کے لیے احادیث کی اسناد کی طرف رجوع کرتے تھے۔ جس کے نتیجے میں اہل سنت کی بیان کردہ روایات قبول کر لی جاتی تھیں اور اہل بدعت کی روایت کردہ رد کر دی جاتی تھیں۔
[تنقیدِ حدیث مابین المسلمین بحوالہ سنن ابن ماجہ:صفحہ 17-15]

نبی ﷺ کے اقوال یا افعال صحابہ نے ان سے سنے یا ان میں دیکھے پھر ان صحابہ سے کسی تابعی نے سنے اور پھر تبع تابعین کا زمانہ آیا تو وہی حدیث کسی تبع تابعی نے اس تابعی سے سنی اور یوں جیسے جیسے وقت گذرتا گیا احادیث کی اسناد میں راویان کا اضافہ ہوتا گیا۔ اس صورتحال کا یہ اولین تقاضا تھا کہ احادیث نبوی ﷺ کی تصدیق و قبولیت کے سخت اور بے لچک قواعد و ضوابط بنائے جائیں۔
یہ وہ ساری وجوہات تھیں جن کے نتیجے میں "مصطلح الحديث (احادیث کی درجہ بندی) " کے نام سے ایک نیا علم اور ضابطہ وجود میں آیا۔(جاری ہے)
اگلی قسط میں ہم ان شاء اللہ رب ذوالجلال کی نصرت سے مصطلح الحدیث اور احادیث کے مختلف درجوں پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالیں گے۔
 

ام اویس

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمد للہ وصلی اللہ علی محمد وعلی اٰلہ وسلم۔

کتب مصطلح الحدیث میں احادیث کے بہت سے درجات بیان ہوئے ہیں۔ ذیل میں ہم ان درجات اور جس بنیاد پر وہ درجات طے کیے جاتے ہیں اس کا مختصر ذکر کرنے جا رہے ہیں۔

1۔ اکثر حدیث کی اسناد میں سب سے پہلا نام اس ہستی کا ہوتا ہے جس کا قول حدیث میں نقل کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ قول نبی ﷺ کا ہو ، کسی صحابی کا ہو یا کسی تابعی کا تو ایسی حدیث کو بالترتیب مرفوع (elevated) ، "موقوف" (stopped) یا "مقطوع" (severed) کہتے ہیں۔ اگلی قسط میں ہم ان شاء اللہ مثالوں کے ساتھ ان تین درجات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

2۔ اگر حدیث کی اسناد میں موجود تمام راوایان کے باہمی ربط میں کسی قسم کا خلل پایا جائے یعنی فلاں نے سنا فلاں سے؛ اب یہ فلاں اور فلاں اگر آپس میں کی طرح منسلک نہ ہو پائیں تو ایسی تمام احادیث "مسند" (supported) ، متصل (continous) ، منقطع (broken) ، معلق (hanging) ، معضل (perplexing) اور مرسل (hirried) کے درجات میں آتی ہیں۔ ان شاء اللہ آنے والی اقساط میں ہم تفصیل سے دیکھیں گے کہ اسناد میں موجود راوی حضرات کے باہمی ربط میں کیا کیا خلل پایا جا سکتا ہے اور کن مختلف بنیادوں پر اس حدیث کو مسند، متصل ، منقطع ، معلق ، معضل یا مرسل قرار دیا جاتا ہے۔

3۔ ایسی حدیث جو بہت سارے لوگوں کی طرف سے روایت کی گئی ہو یعنی ہر دور میں مختلف لوگ اس ایک حدیث کو بیان کرتے رہے ہوں یا دوسرے الفاظ میں ایک ہی روایت کئی مختلف اسناد کے ساتھ موجود ہو تو ایسی حدیث کو "متواتر" (consecutive) کا درجہ دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف جس حدیث کو ہر دور میں ایک ہی راوی بیان کر رہا ہو یعنی وہ حدیث ایک ہی اسناد کے ساتھ دستیاب ہو تو اسے "احد یا خبر واحد" (isolated) کا درجہ دیا جاتا ہے۔ خبر واحد کے بھی آگے تین درجے "غریب" (scarce, strange) ، "عزیز" (rare, strong) اور "مشہور" (famous) ہیں۔ اگلی اقساط میں ان پر بھی تفصیلی نگاہ ڈالی جائے گی۔

4۔ اسناد میں موجود راوی حضرات کا آپس میں جوڑ بھی حدیث کی درجہ بندی میں اہمیت رکھتا ہے۔ مثلاً بعض اسناد میں جب فلاں سے فلاں کا جوڑ بنتا ہے تو عربی کا لفظ "عن" (on the authority of) استعمال ہوتا ہے تو بعض میں "حدثنا" (اس نے ہم تک روایت کیا) لکھا ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی میں "اخبارنا" (اس نے ہمیں مطلع کیا) اور کسی میں "سمتُ" (میں نے سنا) سے راویان کا آپس میں جوڑ بنتا ہے۔ اس بنیاد پر حدیث کو دو درجوں "مدلس" (concealed) اور "مسلسل" (uniformly-linked) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ کیوں اور کیسے ان شاء اللہ آنے والی اقساط میں تفصیل بیان کی جائے گی۔

5۔ حدیث کا متن اور اسناد کی نوعیت بھی اہم عوامل میں سے ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے راوی ایک ہی حدیث کو بیان کر رہے ہوں اور سبھی قابل بھروسہ ہوں لیکن ان میں نے ایک راوی حدیث کو کچھ باتوں کے اضافے کے ساتھ بیان کر رہا ہو جو باقی نہ کر رہے ہوں تو اس اضافے کو "زیادۃ الثقہ" کہا جاتا ہے۔

اس کے بعد اگر کوئی قابل بھروسہ راوی کوئی ایسی روایت بیان کرے جو زیادہ مظبوط راویاں کی بیان کردہ روایات کے خلاف جاتی ہو تو ایسی روایت کو "شاذ" (irregular) کا درجہ دیا جاتا ہے۔

اگر روایت میں کوئی بیہودہ ، نامناسب بات یا قطعی طور پر متفقہ غلط حقیقت موجود ہو تو ایسی روایت کو "منکر" (denounced) کا درجہ دیا جاتا ہے اور اسکی اسنادکو پھر کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ حافظ ابن حجر رح کسی کمزور یا ناقابل بھروسہ راوی کی بیان کردہ روایت جو کسی دوسری قابل بھروسہ راوی سے بیان کی گئی روایت کے خلاف ہو تو ایسی روایت کو بھی منکر کے درجے میں رکھتے تھے۔

اگر کوئی روایت جو اللہ کے نبی ﷺ کے قول پر مشتمل ہے اور ایک قابل بھروسہ راوی کی طرف سے روایت کی گئی لیکن حدیث میں قول رسول اللہ ﷺ بیان کرنے کے بعد راوی نے اپنی طرف سے بھی کوئی رائے دی یا کوئی بات کہی تو ایسی روایت کو "مدرج" (interpolated) کہا جاتا ہے۔

6۔ بعض اوقات اسناد یا متن میں کوئی چھپی ہوئی خرابی موجود ہوتی ہے۔ ایسی احادیث کو "معلل" (defective) کا درجہ دیا جاتا ہے۔گو کہ ایسی احادیث کو اوپر دئے گئے درجات میں سے کسی ایک میں رکھاجا سکتا ہے۔ لیکن معلل حدیث اپنی نوعیت کی وجہ سے اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کی تفصیل الگ سے بیان کی جائے۔ حدیث کے متن یا اسناد میں یہ خرابی کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔ اسی بنیاد پر معلل احادیث کو مزید دو درجوں "مقلوب" (overturned) اور "مضطرب" (shaky) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان شاء اللہ آنے والی اقساط میں ہم معلل ، مقلوب اور مضطرب احادیث کو مثالوں سے واضح کریں گے۔

7۔ احادیث کی درجہ بندی میں جتنے عوامل کا اہتمام کیا گیا ان میں سب سے اہم اسناد میں موجود راویان کا اچھی، قابل اعتماد شہرت کا حامل ہونا اور ان کی یاداشت کا بہت اچھا ہونا سب سے اہم تھے۔ راوایان کی اچھی شہرت میں انکی ایمانیات ، عام زندگی میں ان کے عملیات، جھوٹ بولتے تھے یا سچ، وعدے کے پکے تھے یا نہیں، لوگوں سے سلوک میں کیسے تھے وغیرہ وغیرہ سب دیکھا جاتا تھا۔ کسی بھی حدیث کو "صحیح" (sound) ، "حسن" (good)، "ضعیف" (weak) یا "موضوع (من گھڑت)" (fabricated) کے درجے میں رکھنے کے فیصلے میں دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ وزن راویان کی اچھی یا بری شہرت کو ہی دیا جاتا تھا۔

اسی ضرورت کی بنیاد پر ایک نیا علم وجود میں آیا جسے "رجال الحدیث" (the study of the reporters of Hadith) کہتے ہیں۔ اسی کو اسماء الرجال یا علم الرجال بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں تمام راویان حدیث کے بارے میں صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین کے جتنے اقوال مل سکتے تھے وہ اکٹھے کیے گئے ان کی پوری پوری سوانح حیات مرتب کی گئیں اور اس کی بنیاد پر ان کو بھی مختلف درجات میں تقسیم کیا گیا۔ اور پھر ان درجوں کے بل پر ان کی بیان کردہ روایات کو قبول کیا گیا یا رد کر دیا گیا۔

اگلی قسط میں ہم ان شاء اللہ رجال الحدیث پر ایک تفصیلی نظر ڈالیں گے۔ اس کے بعد پھر ہم اوپر بیان کئے گئے مختلف درجات حدیث کو مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔

(جاری ہے)
 

ام اویس

محفلین
چوتھا حصہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم والحمد للہ و صلی اللہ علی محمد و علی آلہ وسلم.

مصطلح الحدیث (classification of Hadith) اور رجال الحدیث (the study of the reporters of hadith) دونوں کا آپس میں ایک مضبوط تعلق ہے۔ راویان حدیث کی جانچ پرکھ کے دوران ان کی بیان کردہ روایات کے قبول یا رد کا تعین کرنے میں ایک اہم عنصر ان راویان کے بارے میں تابعین اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کی آراء تھی۔ ان راویان کے بارے میں ان کے ساتھ یا انہی کے زمانے میں رہنے والے لوگوں کی ان کے بارے میں کیا رائے تھی یہ ان کی بیان کردہ روایات کو قبول یا رد کرنے کی ایک اہم کسوٹی ثابت ہوئی۔ وہ کس طرح کے لوگ تھے۔ صادق اور امین تھے یا نہیں۔ اپنے وعدے کا کس حد تک پاس کرنے والے تھے۔ کس قدر تقوٰی کے حامل تھے۔ بات کرتے وقت غلطی تو نہیں کرتے تھے۔ کسی یاداشت کے مالک تھے یا من گھڑت باتیں تو نہیں بیان کرتے تھے وغیرہ وغیرہ
ان آراء یا تبصروں کی مدد سے ان راویان کو مندرجہ ذیل درجات میں بانٹ دیا گیا:
(یہ ترتیب قبولیت کے لحاظ سے اوپر سے نیچے بنائی گئی ہے۔ یعنی سب سے پہلا درجہ سب سے مظبوط اور سب سے زیادہ قابل قبول اور باقی کم سے کم تر)

1۔ "امام" (leader) ، "حافظ" (preserver)

2۔ "ثقہ" (trustworthy) ، "قابل اعتماد" (Reliable)

3۔ "باتیں بیان کرنے میں غلطی کر جاتا تھا" (Makes Mistakes)

4۔ "ضعیف" (Weak)

5۔ "متروک" (Abandoned)

6۔ "کذاب (جھوٹا، احادیث گھڑا کرتا تھا)" (Liar, used to fabricate ahadith)

جن راویان حدیث کو متفقہ طور پر پہلے دو درجات میں رکھا گیا تھا انہی کی بیان کردہ روایات کو درجہ صحیح دیا گیا۔ اور آخری دو درجات میں آنے والے راویان کی بیان کردہ احادیث کو ضعیف جداً (یعنی سخت ضعیف) یا موضوع (یعنی من گھڑت) کے درجے میں ڈال دیا گیا۔ بیچ والے دو درجات یعنی کہ باتوں کو غلط ملط کر دینے والے یا ضعیف کے درجے میں پائے جانے والے راویان کی بیان کردہ روایات کو ضعیف ہی گردانا جاتا ہے لیکن اگر ان میں سے بہت سارے کسی ایک حدیث کو بیان کر رہے ہوں تو یہ اس حدیث کے درجے کو بڑھا کر حسن (sound,good) تک لے جاتا ہے۔ اگر کسی راوی کے بارے میں اسماء الرجال میں مختلف رائے پائی جاتی ہو یعنی بالفرض ایک تابعی اسے ثقہ گردانتا ہو اور کوئی دوسرا تابعی اسے ضعیف سمجھتا ہو تو ایسی صورت میں مختلف عوامل کی بنیاد پر ایک انتہائی محتاط فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس راوی کو کس درجہ میں رکھا جائے۔ ان عوامل میں دونوں حضرات کے اختلاف کی وجہ، اختلاف کی نوعیت ، دونوں کا اپنا کردار و وزن، ان کا کسی کے بھی بارے میں رائے بنانے میں نرمی یا سختی رکھنے کا عنصر وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

رجال الحدیث یعنی روایانِ حدیث کے بارے میں مختلف ادوار کے لاتعداد لوگوں کی آراء کو اکٹھا کرنے پر بیش بہا کام کیا گیا جو تابعین کے دور سے لے کر ان کے بعد آنے والے اپنے اپنے وقت کے متفقہ متقی اور پرہیز گار لوگ تھے جن کی مدت حیات اسلام کی پہلی تین صدیاں بنتی ہیں۔ یعنی یہ وہ سب لوگ تھے جو اسلام کی پہلی تین صدیوں میں کسی نہ کسی دور میں زندہ رہے۔ جنہیں سابقون الاولون (پہلوں میں سبقت لے جانے والے) بھی کہا جاتا ہے۔ ان تمام لوگوں کے نام کتاب "تنقید الحدیث بین المسلمین بحوالہ ابن ماجہ" میں باب IV, V, VI کے آخر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں جو ابتدائی کتب لکھی گئیں ان میں ابن معین (233ھ) کی "تاریخ" ، خلیفه بن خیاط (240ھ) کی "طبقات"، امام بخاری (256ھ) کی "تاریخ" ، ابن ابی حاتم (327ھ) کی "الجرح والتعديل" اور محمد بن سعد (320ھ) کی طبقات شامل ہیں۔

جو حدیث تحقیق و تصدیق کے بعد صحیح قرار پا جائے وہ قابل قبول حدیث ہے۔ ایسی حدیث کے رد کا اب ایک ہی طریقہ ہے کہ جس اصول پر اسے جمع کیا گیا یا جس اصول پر اسے صحیح یا حسن کا درجہ دیا گیا اس اصول میں اگر کوئی سقم دریافت ہو جائے تو ہی اس حدیث کو اس کے درجے سے ہٹایا جا سکتا ہے نہ کہ کسی کی اپنی خواہش پر۔ چونکہ احادیث کی درجہ بندی میں بنیادی عنصر رجال الحدیث ہی ہے اس لیے اس پر جرح اس وقت سے لے کر اب تک ہوتی آئی ہے۔ اسکے بعد بہت سارے لوگوں نے اس علم میں سخت محنت کی خاص کر ان احادیث کے راویان پر جن کی بیان کردہ روایات چھ مشہور حدیث کی کتابوں بخاری، مسلم، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ میں موجود ہیں۔ ان میں حافظ عبدالغنی المقدسی (وفات 600 ھ) کی دس جلدوں پر مشتمل "الکمال فی اسماء الرجال" کافی شہرت رکھتی ہے۔

پہلے دور کی اسماء الرجال کی کتابیں راویوں کے نہایت مختصر حالات کو لیے ہوئے تھیں، ابن عدی (365ھ) اور ابو نعیم اصفہانی (430ھ) نے سب سے پہلے راویان کی زیادہ معلومات حاصل کرنے کی طرف توجہ دی۔ خطیب بغدادی (463ھ) ، ابن عبدالبر(462ھ) اورابن عساکر دمشقی (571ھ) نے ضخیم جلدوں میں بغداد اور دمشق کی تاریخیں لکھیں تو ان میں تقریباً سب اعیان و راویان کے تذکرے آگئے ہیں۔

جہاں تک فنی حیثیت کا تعلق ہے، سب سے پہلے حافظ عبدالغنی المقدسی (600ھ) نے ہی اس پر قلم اٹھایا اورالکمال فی اسماء الرجال لکھی۔ یہ اس باب میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ بعد کے آنے والے مصنفین رجال نے اسی پر آگے محنتیں کیں، اضافے کیے،تلخیصات کیں، ترتیبیں بدلیں،لیکن حق یہ ہے کہ اس کتاب کی مرکزی حیثیت سے کوئی نیا لکھنے والا مستغنی نہیں رہ سکا، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
اس کے بعد علم اسماء الرجال ایک مستقل فن کی حیثیت میں مرتب ہوا، اس باب میں جیسا کہ ہم نے پہلے کہا حافظ عبدالغنی المقدسی (600ھ) سرفہرست ہیں۔ انہوں نے ابتدائی اینٹیں چنیں اور آگے آنے والوں نے ان پر دیواریں کھڑی کیں۔
آپ کے بعدحافظ جمال الدین ابوالحجاج یوسف بن عبدالرحمن المزی (742ھ) آئے اور انہوں نے حافظ عبالغنی المقدسی کی الکمال کو پھر سے بارہ جلدوں میں مرتب کیا اور اس کا نام تہذیب الکمال رکھا۔ آپ نے اس میں روایان حدیث کے ابائی علاقوں کا بھی اضافہ فرمایا۔
پھر حافظ المزی کے شاگرد جناب حافظ شمس الدین ذہبی(848ھ) اٹھے اورانہوں نے "تہذیب الکمال" کو مختصر کرکے"تذہیب التہذیب" لکھی۔
ان کے بعد شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے تذہیب التہذیب کو اپنے انداز میں مختصر کیا۔
پھر شیخ الاسلام حضرت علامہ بدرالدین عینی نے(855ھ) معانی الاخبارمن رجال شرح معانی الآثار لکھی۔
ان کےبعد حافظ صفی الدین خزرجی(923ھ) نے خلاصۃ تہذیب تہذیب الکمال لکھی،یہ کتاب مطبع کبری بولاق سے (1301ھ) میں شائع ہوئی۔
ہمارے دور میں علمائے اہلسنت کے ہاں تحقیق رجال میں زیادہ تر یہی کتابیں رائج ہیں۔

آج کی قسط میں ہم نے دیکھاکہ احادیث کو بیان کرنے والے راوی حضرات کی صداقت کو پرکھنے کے لیے کس قدر عرق ریزی کی گئی اور جرح کا یہ عمل قریب ترین زمانہ تک جاری و ساری رہا۔ اور اس ساری مشق کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسی متروک یا ضعیف راوی (جن کی بات پر ان کے اپنے زمانے کے لوگ شک رکھتے ہوں) کی بیان کردہ روایت صحیح یا حسن کے درجے تک نہ پہنچ سکے۔

اگلی قسط میں ہم پچھلی اقساط میں بیان کردہ درجات احادیث پر مثالوں کے ساتھ تفصیل سے نگاہ ڈالیں گے اور دیکھیں گے الرجال الحدیث کو استعمال کرتے ہوئے کس طرح مختلف احادیث کو یہ درجات دیئے گئے
 

ام اویس

محفلین
پانچواں حصہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمد للہ وصلی اللہ علی محمد وعلی اٰلہ وسلم۔

صاحب قول کی بنیاد پر احادیث کی درجہ بندی:

حدیث کس کے قول پر مبنی ہے اس بنیاد پر اسے تین درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

1۔ مرفوع (elevated)

اس حدیث کو کہتے ہیں جو براہ راست نبی کریم ﷺ کی طرف سے روایت کی جا رہی ہو۔ مثال کے طور پر اس کی اسناد میں کسی صحابی ، تابعی یا کسی اور کی طرف سے روایت ہوتا ہے کہ "رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"۔

صحیح بخاری کی ایک حدیث ہم مثال کے طور پر یہاں نقل کرتے ہیں جس سے مرفوع حدیث کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔

حمیدی عبداللہ بن زبیر > سفیان > یحییٰ بن سعید انصاری > محمد بن ابراہیم تیمی > علقمہ بن وقاص لیثی > حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ > رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا ۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو ۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے ۔

مذکورہ بالا حدیث کی اسناد کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کو سنا کہ وہ فرما رہے تھے اور پھر یہ حدیث عمر رضی اللہ عنہ سے مختلف تابعین اور تبع تابعین سے ہوتی ہوئی کاتب حدیث تک پہنچی۔ جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی ﷺ فرما رہے تھے تو یہ ایک مرفوع حدیث ہے کہ یہ براہ راست نبی اکرم ﷺ سے سنا گیا ان کا قول ہے۔

2۔ موقوف (stopped)

ایسی حدیث کو کہتے ہیں جو کسی صحابی کے قول پر مبنی ہو اور اسکی اسناد میں نبی ﷺ کا ذکر نہ ہو۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری میں ہی کتاب الفرائض میں ایک حدیث ہے جو کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عمل کے بارے میں ہے:

أَبُو مَعْمَرٍ > عَبْدُ الْوَارِثِ > أَيُّوبُ > عِكْرِمَةَ > ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ (وراثت میں) دادا کو بھی باپ کی طرح ہی لیتے تھے۔

اب جیسا کہ اس حدیث کی اسناد میں واضح ہے کہ یہ براہ راست نبی ﷺ کا قول نہیں ہے اس لیے یہ موقوف کے درجے میں آئے گی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حدیث بیان کرتے وقت صحابہ جو الفاظ استعمال کرتے تھے وہ بھی اہم ہیں۔ کئی احادیث جن کی سند میں نبی ﷺ کا نام موجود نہیں ہوتا لیکن راوی کے الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ روایت کرنے والے صحابی نے نبی ﷺ سے ہی سنا ہو گا مثال کے طور پر ایک حدیث میں کسی صحابی سے مروی ہوتا ہے کہ "ہمیں حکم دیا گیا کہ ۔ ۔ ۔ ۔" اب ظاہر ہے حکم دینے والے نبی ﷺ ہی ہو سکتے ہیں۔ اس لیئے درجے کے اعتبار سے یہ حدیث مرفوع ہی ہو گی بھلے اس کی اسناد میں نبی ﷺ کا نام موجود نہیں۔۔
ایسی اور بھی مثالیں ہیں جیسا کہ:

"ہمیں منع کر دیا گیا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "

"ہم عموماً یوں کرتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔"

"سنت میں سے ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ "

"رسول اللہ ﷺ جب ہمارے بیچ میں تھے تو ہم یوں کیا یا کہا کرتے تھے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ "

"فلاں یا فلاں کرم کرنے میں ہمیں کوئی عار نہ ہوتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "

"ایسے کہا جاتا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔"

"یہ (آیت) ان حالات میں نازل ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ "

3۔ مقطوع (severed)

یہ ایسی حدیث ہوتی ہے جس کی اسناد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نہ تو نبی ﷺ کا اور نہ ہی کسی صحابی کا بلکہ کسی تابعی کا قول ہے۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم , کتاب المقدمہ میں حدیث # 26 ہے:

حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ > حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ >أَيُّوبَ وَهِشَامٍ >مُحَمَّدٍ >فُضَيْلٌ >هِشَامٍ >مَخْلَدُ بْنُ حُسَيْنٍ >هِشَامٍ >مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ نے فرمایا کہ یقیناً یہ علم (الحدیث) دین ہے۔ اسلئے احتاط کرنا کہ تم کس سے اپنا دین لے رہے ہو۔

جیسا کہ اس حدیث کی اسناد میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ محمد بن سیرین نامی ایک تابعی کا قول ہے اس لیے اس حدیث کو مقطوع کے درجے میں رکھا جائے گا۔

اوپر دی گئی تینوں اقسام کی احادیث کی صداقت کو جاننے اور ان کے قبول و رد کے عوامل تو وہی ہیں جو کسی بھی حدیث کی پرکھ میں استعمال ہوتے ہیں مثلاً راوی حضرات کا قابل اعتماد ہونا ، ان کا آپس میں لنک وغیرہ وغیرہ لیکن ان کو مذکورہ بالا تین درجات میں تقسیم بھی افادیت سے خالی نہیں۔
اسطرح نبی ﷺ کے اپنے اقوال جو براہ راست ان سے سن کر روایت کئے گئے ، کو صحابہ یا تابعین کے اقوال سے یکسر الگ کر دیا گیا۔ اس سے خاص طور فقہی مسائل پر بحث مباحثے میں بہت مدد ملی۔

موطا امام مالک جو کہ احادیث کی اولین کتابوں میں سے ایک ہے اس میں ان اقسام کی احادیث تقریباً برابر تعداد میں ہیں۔ بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اس میں مرسل (ان کا بیان اگلی اقساط میں آئے گا) احادیث بھی ایک قابل ذکر تعدادمیں موجود ہیں۔ ابو بکر الابھری (375ھ) کا فرمانا ہے کہ موطا میں احادیث کی تعداد ان کی اقسام کے مطابق یوں ہیں:

مرفوع 600

موقوف 613

مقطوع 285

مرسل 228

جو کل ملا کے 1726 احادیث بنتی ہیں۔

(جاری ہے)


اگلی قسط میں ان شاء اللہ ہم متصل ، مسند اور مرسل وغیرہ احادیث کی اقسام کی تفصیل بیان کریں گے۔
 

ام اویس

محفلین
چھٹا حصہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمد للہ وصلی اللہ علی محمد وعلی اٰلہ وسلم

اتصال اسناد کی بنیاد پر درجات احادیث

جن احادیث کی اسناد میں موجود راوی حضرات کا آپس میں سماع (سننا) ثابت ہو اور اس بات کے کوئی شواہد نہ ہوں کہ اسناد میں سے کسی راوی کا نام غائب کر دیا گیا ہے تو ان تمام احادیث کو مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

1۔ مُتصِل (Continious)

ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس میں ایک راوی دوسرے سے روایت کر رہا ہو اور یہ ثابت ہو کہ اس نے واقعی ان صاحب سے اپنی زندگی کے ایسے وقت میں یہ بات خود سنی جب انسان کی سیکھنے کی صلاحیتیں درست حالت میں ہوتی ہیں۔ اور یہی شرط اس سے اوپر موجود تمام راویان کے لیے بھی ہے یہاں تک کہ سند کسی معروف صحابی تک پہنچے اور ختم ہو جائے یا پھر آگے نبی ﷺ تک پہنچے۔ دوسرے الفاظ میں متصل ایسی موقوف یا مرفوع حدیث کو کہتے ہیں جسکی سند کا سلسلہ کسی صحابی یا نبی ﷺ تک ایسے ملا ہوا ہو کہ تمام راویان نے خود سنی ہو جس نے بھی ان کو روایت کیا۔ یعنی اس حدیث کی اسناد میں سے کوئی راوی نکال نہ دیا گیا ہو۔

ایک مُتصِل حدیث کی مثال یوں ہو سکتی ہے:

"مالک > ابن شہاب > سالم بن عبداللہ > عبداللہ ابن عمر نے سنا رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ نے فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
یہ ایک مرفوع حدیث ہے جس کی سند متصل ہے۔ اس حدیث کے سارے راوی اسکی اسناد میں موجود ہیں۔

ایک متصل موقوف کی مثال یوں ہو سکتی ہے:

"مالک > نافع > ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "

2۔ مُسنَد ((Musnad (supported)

ایسی متصل حدیث کو کہتے ہیں جو مرفوع بھی ہو یعنی اسکی سند کا سلسلہ تمام راویان سے ہوتا ہوا نبی ﷺ تک ایسے ملا ہوا ہو کہ درمیان میں سے کوئی راوی نکال نہ دیا گیا ہو۔متصل موقوف احادیث اور غیر متصل مرفوع احادیث دونوں مسند کے درجے میں نہیں رکھی جاتیں بلکہ ایک متصل مرفوع حدیث ہی مُسنَد کے درجے میں آتی ہے۔

مُسنَد کی اصطلاح احادیث کے ایسے ذخیرے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے جس میں ہر صحابی کی روایت کردہ احادیث کو الگ الگ جمع کیا گیا ہو۔ مثال کے طور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ تمام روایات ایک جگہ پر ، عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ تمام ایک جگہ پر اور بالکل ایسے ہی تمام صحابہ رضوان اللہ علیھم کی روایت کردہ اپنے اپنے راوی کی ترتیب سے ایک ہی جگہ اکٹھی کر دی گئی ہوں۔ اس انداز میں مرتب کیا گیا سب سے بڑا ذخیرہ احادیث امام احمد بن حنبل کی کتاب مسند احمد ہے جس میں لگ بھگ تیس یزار کے قریب احادیث ہیں۔

اسقاط اسناد کی بنیاد پر احادیث کے درجات

بعض اوقات احادیث کی اسناد میں کسی ایک یا ایک سے زیادہ راوی کا نام ترک کر دیا گیا ہوتا ہے۔ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہو یا کسی اور وجہ سے ایسا ہو گیا ہو ان تمام احادیث کو مندرجہ ذیل مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

1۔ مُرسل (hurried)

ایسی حدیث جس کو ایک تابعی نے بیان کیا ہو اور بیان کرتے وقت اس صحابی کا نام حذف کر دیا ہو جس سے اس نے سنا۔ ایسی حدیث مرسل حدیث کہلاتی ہے۔ مثلاً کوئی تابعی کسی حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے براہ راست بیان کرے۔ اب یقیناً ان تابعی نے وہ رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنی بلکہ انہوں نے کسی صحابی سے ہی سنی ہو گی لیکن حدیث بیان کرتے وقت کسی بھی وجہ سے ان صحابی کا ذکر نہیں کیا۔
مرسل حدیث کو بنیادی طور پر مسترد کیاجاتا ہے۔ کیونکہ جن صحابی کو حذف کیا گیا ہے ہمیں انکے حالات کا علم نہیں اور انکی تعداد ایک بھی ہو سکتی ہے یا زیادہ بھی۔ ہو سکتا ہے وہ کوئی صحابی نہ ہو اور ضعیف ہو۔ محدثین ، فقہا اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کا یہی نقطہ نظر ہے۔
لیکن کچھ اہل علم کا اس سے اختلاف ہے۔ تین بڑے ائمہ، امام ابو حنیفہ ، مالک اور احمد بن حنبل کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اس قسم کی حدیث کو قبول کرلیاجائے اگر بیان کرنے والا تابعی ثقہ (قابل اعتماد) ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک ثقہ تابعی صرف اسی صورت میں کسی بات کو نبی ﷺ کے ساتھ منسوب کر سکتا ہے اگر اس نے کسی قابل اعتماد راوی (صحابہ) سے اسکو سنا ہو۔
مگر امام شافعی وغیرہ ایک مرسل حدیث کو کچھ شرائط کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ جن میں بیان کرنے والے تابعی کا بڑی عمر کا ہونا ، اس تابعی کا ثقہ ہونا ، اس حدیث کے خلاف کسی صحیح حدیث کا نہ ہونا ، حدیث کسی صحابی کے قول سے مطابقت رکھتی ہو اور حدیث کو کسی اور سند سے بھی روایت کیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ۔

2۔ منقطع (broken)

اگر حدیث کی سند میں شروع کو چھوڑ کر یعنی صحابی کا نام چھوڑ کر آگے کسی بھی مقام سے کسی راوی کا نام حذف کر دیا گیا ہو تو ایسی حدیث کو منقطع کہا جاتا ہے۔ وہ احادیث جن میں دو لگاتار راویان کے نام کو حذف کر دیا گیا ہو وہ منقطع کے درجے میں نہیں آتیں۔ سند کا یہ ٹوٹنا ایک جگہ ہو یا ایک سے زائد جگہ اس حدیث کو منقطع ہی کہا جائے گا۔

پھر ایسی تمام احادیث جن کی اسناد بطاہر متصل معلوم ہوتی ہے لیکن ان میں دئے گئے کسی دو راویان کا ایک دوسرے سے سماع (سننا یا ملاقات) ثابت نہیں ہوتا بھلے وہ ایک ہی زمانے میں زندہ رہے ہوں تو ایسی احادیث کو بھی متصل کی بجائے منقطع ہی کہا جائے گا۔

ایسی تمام احادیث جن میں راوی کہے "مجھے ایک شخص نے بتایا" اور اس شخص کی سند کے بارے کچھ معلوم نہ ہو تو ایسی روایات کو بھی منقطع کہا جاتا ہے۔

اہل علم کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ منقطع حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ محذوف شدہ راوی کے حالات کیا تھے۔

3. مُعضل (perplexing)

ایسی حدیث جس کی سند میں سے لگاتار دو یا دو سے زیادہ راویان کو حذف کر دیا جائے معضل حدیث کہلاتی ہے۔ معضل حدیث بھی ضعیف ہی گردانی جاتی ہے۔ اور یہ مرسل اور منقطع سے بھی زیادہ ضعیف ہوتی ہے کیونکہ اس میں لگاتار دو یا دو سے زیادہ راویوں کا حال معلوم نہیں ہوتا۔

4۔ مُعلق (hanging)

ایسی حدیث جس کی شروع کی پوری کی پوری سند کو غائب کر دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یا صحابی یا صحابی و تابعی کے علاوہ شروع کے تمام راویان کو حذف کر دیا جائے تو ایسی حدیث کو معلق حدیث کے درجے میں رکھا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر امام مالک اپنی موطا میں بعض اوقات سند یوں بیان کرتے ہیں کہ "مجھے یہ بتایا گیا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے یوں فرمایا"۔ اس حدیث میں اب امام مالک اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان کے تمام راوی ترک کر دیئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک معلق حدیث ہے۔

اگر حدیث کے شروع کے دو لگاتار راویان کو حذف کر دیا گیا ہو تو یہ بیک وقت معضل بھی ہے اور معلق بھی۔ اگر حدیث کے شروع سے ہی لیکن ایک ہی راوی کو حذف کیا گیا تو معلق تو ہو گی مگر معضل نہیں۔اگر حدیث کی سند کے درمیان سے دو مسلسل راویان کو ترک کر دیا گیا تو یہ معضل تو ہو گی لیکن معلق نہیں۔

معلق حدیث کے بارے میں بھی عام حکم یہی ہے کہ اس کو ضعیف گردانا جائے گا کیونکہ جو راوی حذف کر دئے گئے ان کے حالات کا کوئی علم نہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ ایسی تمام احادیث جن میں راوی حذف کر دئے جاتے ہیں چاہے شروع میں ہوں یا آخر میں یا درمیان میں ان پر عمومی طور سے ضعیف کا حکم ہی لاگو ہوتا ہے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ بعض اوقات مختلف کتابوں میں ایک حدیث پوری سند کے ساتھ نہیں ہوتی لیکن دوسری کسی کتاب میں وہی حدیث اپنی پوری متصل سند کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ ایسی حدیث کو پھر معلق نہیں بلکہ متصل یا مسند ہی کہیں گے اور اس کی مکمل اسناد کی جانچ پرکھ کے بعد اس پر صحیح یا ضعیف کا حکم لگایا جائے گا۔ ہاں اگر ایک معلق حدیث کی مکمل اور متصل سند کہیں اور دستیاب نہ ہو تو اسے ضعیف کہا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)
 

ام اویس

محفلین
ساتواں حصہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمدوللہ وصلی اللہ علی محمد وعلی اٰلہ وسلم

تعداد راویان کی بنا پر اقسام حدیث

حدیث کی اسناد میں موجود ہر راوی کے اپنے اپنے دور میں کتنے اور لوگ تھے جو اسی حدیث کو روایت کرنے والے تھے؟ اس بنیاد پر حدیث کو دو درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

1. متواتر (consecutive)

متواتر ایسی حدیث کو کہتے ہیں کہ وہ ہر زمانے ہر نسل میں مختلف طبقات کے کثیر التعداد لوگوں کی طرف سے روایت کی جاتی رہی ہو کہ اتنے لوگوں کا ایک جھوٹ پر اکٹھا ہونا ممکن نہ ہو. مثال کے طور پر پانچ وقت نماز ، رمضان کے روزے ، زکوٰۃ، حج اور قراءت قرآن کے متعلق روایات ہر زمانے میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد بیان کرتی رہی ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث تقریباً 62 مختلف صحابہ نے نبی ﷺ سے روایت فرمائی اور ان کے بعد ہر دور کے مسلمانوں میں وسیع پیمانے پر مشہور رہی اور بیان ہوتی رہی۔

"جس نے بھی جان بوجھ کر مجھ سے کوئی جھوٹ منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے"۔(رواہ بخاری ، مسلم ، ابن ماجہ ، ترمذی و ابی داؤد)

ایک متواتر حدیث سے قطعی اور یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔ اسکی تصدیق میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیئے۔ اس کے راوی حضرات کی گہری چھان کی بھی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ وہ اتنے زیادہ ، متنوع اور مختلف ہوتے ہیں کہ ان کا کسی جھوٹ پر متفق ہونا نا ممکن ہی ہوتا ہے۔

2. احد یا خبر واحد (single)

خبر واحد ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی اسناد میں موجود راویان کے اپنے اپنے زمانے میں تھوڑی تعداد میں ہی دوسرے لوگوں سے روایت ہوتی رہی ہو۔ ایک حدیث کے احد ہونے کے لیے چونکہ بیان کرنے والے راویوں کی کوئی خاص تعداد مقرر نہیں اس لیے اسکو مزید تین درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

ا) غریب (scarce , strange)

کسی بھی حدیث کو غریب کے درجے میں اسوقت رکھتے ہیں جب ہر زمانے میں اس کو روایت کرنے والا کوئی ایک ہی فرد ہو۔ یا کسی ایک دور میں حدیث کو بیان کرنے والا ایک ہی فرد ہو اور آگے بھلے زیادہ لوگ اس کو روایت کرنے والے ہوں تو ایسی حدیث کو بھی غریب ہی کہتے ہیں۔ مثلاً ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:

"مالک --ِ> یحیٰی بن ابی صالح --ِ> ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سنا نبی ﷺ سے کہ سفر اذیت کا نام ہے"

اس حدیث کی اسناد میں موجود تمام راویان اپنے اپنے زمانے میں واحد فرد تھے جنہوں نے اس حدیث کو بیان کیا۔ ان کے علاوہ کسی اور نے نہیں کیا۔ اس لحاظ سے یہ ایک غریب حدیث ہے۔ ایک غریب حدیث پر ضعیف یا صحیح کا حکم اس کے احادیث کی جانچ پڑتال کے طریقے پر ہی کیا جاتا ہے۔ اگر اس کے تمام راوی ثقہ یا قابل اعتماد ہیں تو اس کو صحیح سمجھنے میں کوئی تردد نہیں۔ گو کہ زیادہ ترغریب احادیث ضعیف ہی ہیں لیکن پھر بھی کسی حدیث کا غریب ہونے سے اس کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا۔ اگر وہ اصول حدیث میں طے کیے گئے معیار ر پر پوری اترتی ہے تووہ صحیح بھی ہو سکتی ہے۔

ب) عزیز (rare , strong)

اگر ایک حدیث کسی ایک زمانے میں صرف دو مختلف راویان کی طرف سے روایت ہوئی ہو تو اسے عزیز کے درجے میں رکھا جاتا ہے۔ خبر عزیز شروع میں ایک ہی صحابی سے بھی روایت ہو سکتی ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا " تم میں سے کسی کا ایمان مکمل نہیں جب تک میں اسے اسکی اولاد ، والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں"

اس حدیث کو دو تابعین قتادہ اور عبدالعزیز بن شعیب نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا اسکے بعد ان دونوں سے مزید دو دو لوگوں نے اسے بیان کیا۔ شُعبہ اور سعید نے قتادہ سے سن کر بیان کیا اور اسماعیل اور عبدالوارث نے عبدالعزیز بن شعیب سے۔یوں یہ حدیث عزیز ٹھہری۔

ایسی احادیث پر بھی غریب والا حکم ہی لاگو ہوتا ہے۔ یعنی اگر اسکی اسناد صحیح ہونے کے لیے اصول حدیث میں طے شدہ معیار پر پوری اترتی ہے تو وہ صحیح ہے۔

ج) مشہور (famous)

ہر وہ حدیث جس کو بیان کرنے والے راوی دو سے زیادہ ہوں لیکن متواتر کی تعداد میں نہ پہنچ پائیں مشہور کہلاتی ہے۔ چند علماء کے مطابق وہ احادیث جو زیادہ جانی جاتی ہوں چاہے وہ مصدقہ ذرائع سے بیان ہوں یا نہیں وہ مشہور ہی کہلاتی ہے۔ شروع میں ہو سکتا ہے ایک ہی صحابی نے اسکو رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہو لیکن بعد میں یہ لوگوں میں وسیع پیمانے پر جانی جاتی ہو اور بہت سارے لوگ اس کو بیان کرنے والے ہوں۔ نہ کہ غریب یا عزیر کی طرح جو شروع میں ایک یا دو راوی حضرات سے بیان ہوتی ہے اور آخر تک ہر دور میں اس کو بیان کرنے والے راوی اسی تعداد میں رہتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر ایک ہی زمانے میں صرف دو ہی راوی ایک حدیث کو کسی مصدقہ ذریعے سے بیان کر رہے ہوں جیسا کہ الزھری یا قتادہ ، حدیث غریب یا عزیز ہی رہے گی لیکن اگر لوگوں کا ایک گروہ اتنی تعداد میں حدیث کو بیان کر رہا ہو جو متواتر تک نہ پہنچتی ہو تو پھر اسے مشہور کہا جائے گا۔

ابو سعید خلیل الدین (761ھ) کے مطابق ایک حدیث ایک ہی وقت میں عزیز بھی ہو سکتی ہے اور مشہور بھی۔ مراد یہ کہ اگر اسکی اسناد میں کسی سطح پر ایک ہی دور میں صرف دو راوی بیان کرنے والے ہوں لیکن دوسے دور یا اگلی نسل میں بہت سارے لوگ اس کو ان دو راویوں سے آگے بیان کر رہے ہوں تو ایسی حدیث عزیز بھی ہے اور مشہور بھی۔مثلاً یہ والی حدیث:

"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم آخری امت ہیں لیکن قیامت کے دن ہم سب سے آگے ہوں گے" (مفہوم حدیث)

اب یہ حدیث ایک سطح پر عزیز ہے کیونکہ یہ ایک دور میں یہ صرف حذیفہ بن الیمن اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنھم سے روایت ہو رہی ہے لیکن ان کے بعد ابو ھریرہ ؓ سے آگے بہت سارے لوگوں نے اسکو روایت کیا۔

مشہور حدیث کا حکم بھی وہی ہے جو دوسری خبر واحد کی قسموں (غریب ، عزیز) کا ہے۔ یعنی اس یں بھی صحیح یا ضعیف دونوں ہو سکتی ہیں۔ اس حدیث کی اسناد بتائے گی کہ صحیح کہا جائے یا ضعیف۔ ہاں اگر ایک مشہور حدیث صحیح بھی ہو تو پھر اسے غریب یا عزیز احادیث پر ترجیح دی جائے گی۔

راوی کے طریقہ روایت کی بنیاد پر حدیث کی اقسام:

جب ایک راوی اپنے شیخ یا کسی دوسرے راوی سے کوئی حدیث آگے بیان کرتا ہے تو وہ عموماً کہتا ہے "حدثنا " (اس نے ہم تک روایت کیا) یا "اخبارنا" (اس نے ہمیں مطلع کیا) یا "سَمِعتُ" (میں نے اس سے سنا) یا " عن " (میں بیان کرتا ہوں فلاں کی اتھارٹی (صدق) پر) وغیرہ وغیرہ۔

ان میں سے پہلے تین طریقوں پر روایت کی گئی حدیث ظاہر کرتی ہے کہ راوی نے خود ذاتی طور پر اس کو بیان کرنے والے سے سنا۔ لیکن "عن" کے ساتھ بیان کی گئی روایت ذاتی طور پر بھی سنی ہو سکتی ہے یا کسی دوسرے راوی سے اس کے علم میں آئی ہو سکتی ہے جس کا نام لینے کی بجائے اس نے جہاں سے بات چلی اسکی اتھارٹی پر آگے بیان کر دیا۔ روایت بیان کرنے کے ان طریقوں کی بنیاد پر حدیث کو مندرجہ ذیل مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

1)۔ مدلس (concealed)

مدلس ایک ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس میں حدیث بیان کرنے والا "عن" کے ساتھ کسی شیخ کی اتھارٹی پر حدیث بیان کرتا ہے جس سے اس کی ملاقات بھی ثابت ہوتی ہے مگر یہ حدیث اس نے اس شیخ سے خود نہیں سنی ہوتی۔ اور وہ یہ ظاہر بھی نہیں کرتا کہ یہ حدیث اس تک کس کے ذریعے پہنچی بلکہ "عن" کا ستعمال کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس نے خود اس شیخ سے سنا جبکہ جس سے اس نے سنا اس کی شناخت ظاہر نہیں کرتا۔ جس کی وجہ سے اسکی اسناد میں بے یقینی سی پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی راوی کی شناخت کا اسطرح ظاہر نہ کرنا تدلیس (یعنی چھپانا) کہلاتا ہے۔

تدلیس کی تین قسمیں ہیں:

ا) تدلیس اسناد:

جب کوئی شخص اپنے شیخ سے جس سے اسکی ملاقات بھی رہی ہو کوئی ایسی حدیث روایت کرے جو اس نے خود اس شیخ سے نہیں سنی بلکہ کسی اور سے سنی۔ اور بجائے یہ بتانے کے اس نے خود اس حدیث کو اس شیخ سے نہیں سنا وہ "اپنے شیخ کی اتھارٹی پر" یا "اس نے کہا" جیسے الفاظ کا استعمال کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ جیسے اس نے خود اس حدیث کو سنا۔ یوں اس حدیث کی اسناد کی تفصیل جان بوجھ کر چھپا لیتا ہے۔

ب) تدلیس شیوخ:

جب تدلیس کرنے والا اس شیخ کا نام تو بیان کرے جس سے اس نے حدیث ذاتی طور پر سنی مگر ایسے انداز میں کہ اس کی شناخت ظاہر نہ ہو سکے۔ مثلاً اس شیخ کو غیر معروف نام استعمال کر کے ، یا اسکے بچپن کا کوئی نام (nick name) استعمال کر کے وغیرہ وغیرہ۔

ج) تدلیس تسویہ:

العراقی (806ھ) نے تدلیس کی ایک تیسری قسم بھی بیان کی ہے جسے تدلیس تسویہ کہا جاتا ہے۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ ایک حدیث کی سند میں دو ایسے راوی پائے جاتے ہوں جو ثقہ (قابل اعتماد) ہوں اور ان کی آپس میں ملاقات بھی ثابت ہو لیکن ان دونوں کے بیچ ایک ضعیف راوی بھی ہو۔ یعنی صورتحال کچھ یوں ہو جائے: 1) راوی --> 2) ثقہ شیخ --> 3) ثقہ راوی --> 4) ضعیف راوی --> 5) ثقہ راوی؛ یہاں اب دونوں ثقہ راوی 3،5 کی ملاقات بھی ثابت ہے۔ اب تدلیس کرنے والا شخص (1) اس حدیث کو ایسے روایت کرے گا کہ وہ ضعیف راوی ( 4 ) کو بیچ میں سے حذف کر کے راوی (3) کی براہ راست (5) سے روایت کر دے گا۔ اس طریقے سے وہ اپنی سند میں تمام ثقہ راویوں کا ہی ذکر کرے گا۔ یہ تدلیس کی بدترین شکل ہے۔ اسمیں تدلیس کرنے والا شخص ایسے طریقے سے حدیث کو روایت کرتا ہے کہ سننے والا اسے صحیح ہی سمجھتا ہے۔ اس میں بڑا دھوکہ پایا جاتا ہے۔

تدلیس اور اسقاط اسناد (منقطع ، مرسل معضل وغیرہ) میں بڑا فرق یہ ہے کہ اسقاط اسناد سامنے نظر آ رہی ہوتی ہے۔ یعنی جب سند میں کہیں سے کوئی راوی حذف ہوتا ہے تو اس کے ثبوت موجود ہوتے ہیں۔ مثلا "الف" اگر "ب" سے روایت کرتا ہے تو علم الرجال میں سے پہلے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ الف کی ب سے ملاقات نہیں ہوئی تو لازماً درمیان میں کوئی تیسرا بھی ہے۔ جبکہ تدلیس میں "الف" جب "ب" سے روایت کرتا ہے تو بیچ میں کوئی تیسرا توہوتا ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ الف کی ب سے ملاقات بھی ثابت ہوتی ہے یون یہ پتہ لگانا نہایت مشکل ہوتا ہے کہ درمیان میں سے کوئی راوی حذف کیا گیا ہے۔

کسی بھی حدیث میں کی گئی تدلیس کا علم دو طریقے سے ہوتا ہے۔ ایک تو تدلیس کرنے والا پوچھنے پر خود ہی بتا دے۔ یا کوئی محدث یا علم الرجال کا محقق اپنی تحقیق کے بل پر تدلیس کا سراغ لگا لے۔

جس حدیث میں تدلیس ثابت ہو جائے اسے مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اور ایک نقطہ نظر کے مطابق تدلیس کرنے والے شخص کی روایت کی گئی ہر روایت کو مسترد کر دیا جائے گا۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ تدلیس کرنے والا شخص اگر کسی دوسری روایت کو واضح الفاظ میں بیان کرے جیسا کہ حدثنا یا اخبارنا یا سمعت جس سے ثابت ہو کہ میں نے خود سنا تو اسے قبول کیا جائے گا۔ لیکن جس روایت کو ذومعنی انداز میں بیان کرے گا اس کو مسترد کر دیا جائے گا۔

2) مسلسل (uniformly-linked)

ایک مسلسل حدیث ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی اسناد میں تمام کے تمام راوی شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی انداز میں روایت کرتے ہوں۔ مثال کے طور پر اگر ایک حدیث کے تمام راوی "حدثنا" (فلاں نے ہم تک روایت کیا) کہہ کر حدیث بیان کر رہے ہوں تو ایسی حدیث کو مسلسل کہیں گے۔ مسلسل حدیث کا علم تدلیس کی ممکنات پر بحث مباحثے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

(جاری ہے)
 

ام اویس

محفلین
آٹھواں حصہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمد للہ وصلی اللہ علی محمد وعلی اٰلہ وسلم

اسناد اور متن کی نوعیت کی بنا پر درجات حدیث

حدیث کا متن اور اسناد کی نوعیت بھی اہم عوامل میں سے ہے۔ متن اور اسناد کی مختلف نوعیات کی بنا پر حدیث کو مندرجہ درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

1)۔ شاذ
امام الشافعی کے مطابق شاذ (irregular) ایسی حدیث کو کہتے ہیں جو کسی قابل بھروسہ راوی کی طرف سے روایت کی گئی ہو مگر اس سے بھی زیادہ قابل اعتماد راوی کی بیان کی گئی کسی دوسری حدیث کے خلاف جاتی ہو۔ تو ایسے میں زیادہ ثقہ راویان کی حدیث کو ترجیح دی جاتی ہے اور دوسری کو شاذ قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔یہ مخالفت سند میں بھی پائی جا سکتی ہے اور متن میں بھی۔ شاذ حدیث کی ایک مثال جامع ترمذی میں مندرجہ ذیل حدیث ہے

"عبدالواحد بن زیاد --> الاعمش --> ابو صالح --> ابو ہریرہ رضی اللہ عنه سے مرفوع حدیث روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی فجر کی نماز ادا کرے تو اس کے بعد (اگر سونا چاہے تو) دائیں کروٹ پر سوئے۔"

امام بیقی کا خیال ہے کہ دائیں کروٹ سونا نبی ﷺ کا عمل ہے نہ کہ ان کا قول۔ ان کا کہنا ہے کہ الاعمش کے ثقہ شاگردوں میں سے صرف عبدالواحد بن زیاد ہی ہیں جو اس کو نبی ﷺ کے قول کے طور پر بیان کر رہے ہیں جبکہ ان کے باقی تمام شاگردوں نے اس کو نبی ﷺ کے عمل کے طور پر بیان کیا ہے۔ تو اکثریت نے جو بیان کیا ہے اسے ترجیح دی جائے گی اور عبدالواحد کی روایت کو شاذ قرار دیا جائے گا۔
جس روایت کی مخالفت میں کوئی حدیث شاذ ٹھہرتی ہے اس روایت کو محفوظ کہتے ہیں۔ شاذ روایت کو مسترد کر کے محفوظ روایت کو لے لیا جاتا ہے۔

2۔ منکر (denounced)

حافظ ابن حجر کے مطابق ایک ایسی روایت جو کسی ضعیف راوی کی طرف سے بیان کی جا رہی ہو اور کسی ثقہ راوی کی بیان کردہ روایت کے خلاف بھی جاتی ہو تو اسے منکر کے درجے میں رکھا جائے گا۔ کچھ محدثین تو ضعیف راویان کی بیان کردہ تمام احادیث کو منکر کے درجے میں ہی رکھتے ہیں۔ اور بعض اوقات ایک حدیث کو اسوقت منکر قرار دیا جاتا ہے جب وہ رسول اللہ ﷺ کے عمومی اقوال سے متصادم ہو۔

منکر کے برعکس اگر ثقہ راویوں کی بیان کردہ حدیث میں کوئی قابل بھروسہ راوی اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرے جو حدیث کے متن سے متصادم بھی نہ ہو تو اسے راوی کی رائے کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ روایت کے اس حصے کو "زیادة ثقہ (addition by trstworthy)" کہتے ہیں۔

مثلاً بخاری و مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ فرمایئے:

"ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کونسا عمل زیادہ ثواب کا حامل ہے تو انہوں نے فرمایا کہ وقت پر نماز ادا کرنا۔ "

اس حدیث میں دو راویان الحسن اور بندر نے اس میں کچھ اضافہ کیا ہے "کہ وقت پر نماز ادا کرنے کا مطلب جب نماز کا وقت شروع ہوتا ہے۔ " دونوں چونکہ قابل بھروسہ راوی ہیں اس لیے ان کے اس اضافے کو ان کے نام سے قبول کیا جائے گا۔

3۔ مُدرَج (interpolated)

مدرج ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس میں کسی راوی کا اپنا قول بھی حدیث کا حصہ بن جائے اور اسکی نشاندہی نہ کی گئی ہو کہ یہ اضافہ راوی کی طرف سے ہے یا یہ رسول اللہ ﷺ کا قول ہے۔

اس کی مثال حضرت ابو ہریرہ سے بیان کردہ یہ روایت ہے:

"ابی قطن اور شبابہ --> شبابہ شعبہ --> محمد بن زیاد --> ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وضو اچھی طرح کیا کرو۔ ان دھلی ایڑیوں کو آگ کی سزا دی جائے گی۔"

اس میں "وضو اچھی طرح کیا کرو" حضرت ابو ہریرہ ؓ کا قول ہے نبی ﷺ کانہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے صرف اتنا فرمایا کہ "ان دھلی ایڑیوں کو آگ کی سزا دی جائے گی"۔ یہ معاملہ صحیح بخاری کی ایک حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے۔

"آدم --> شعبہ --> محمد بن زیاد --> ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا وضو اچھی طرح کیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ان دھلی ایڑیوں کو آگ کی سزا دی جائے گی۔"


اس روایت کو دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ اوپر والی حدیث میں ابی قطن اور شبابہ کو مغالطہ لگا کہ وضو اچھی طرح کیا کرو بھی رسول اللہ ﷺ کا ہی قول ہے۔ جبکہ آدم کی بیان کردہ روایت میں اسے ابو ہریرہ ؓ کی طرف سے کئے گئے اضافے کے طور پر ہی لیا گیا ہے۔ یوں ابی قطن کی بیان کردہ روایت مدرج ٹھہری۔

اس طرح کا اضافہ حدیث کے شروع ، بیچ یا آخر میں کہیں بھی پایا جا سکتا ہے۔

عموماً یہ ادراج متن میں ہی پایا جاتا ہے مگر بعض اوقات ایسا اسناد میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جب کوئی راوی کسی ایک حدیث کی سند کسی دوسری میں پیوند کر دیتا ہے۔ادراج کا علم کئی ذرائع سے ہو سکتا ہے۔ مثلاً

ا۔ یہی روایت کسی دوسری طرق یا سند سے موجود ہو اور وہاں ادراج کو الگ کر دیا گیا ہو

ب۔ اہل علم تحقیق کر کے واضح کر دیں کہ اس جگہ متن میں ادراج کیا گیا ہے

ج۔ راوی خود اقرار کر لے کہ یہ اس کی اپنی بات ہے جو حدیث میں داخل ہو گئ ہے۔

چ۔ رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے اس بات کا جاری ہونا نا ممکن ہو۔

اگر کوئی راوی ادراج کا عادی ہو تو وہ غیر ثقہ یعنی ناقابل بھروسہ کہلائے گا اور اسکی ساری روایات کو مسترد کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر کسی راوی سے ایسا کبھی غلطی سے ہو گیا ہو یا انہوں نے کسی مشکل بات کو آسان کرنے ے لیے ادراج کیا ہو تو اس راوی کے متعلق محدثین نے نرم رویہ اختیار کیا ہے اور ان کی باقی روایات کو یکسر مسترد نہیں کیا۔

(جاری ہے)
 

ام اویس

محفلین
نواں حصہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمد للہ وصلی اللہ علی محمد وعلی اٰلہ وسلم

اسناد یا متن میں کسی پوشیدہ خرابی کی بنیاد پر درجات حدیث

ایسی احادیث کو معلل (defective) کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم معلل حدیث کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ جانیں کہ پوشیدہ خرابی کس نوعیت کی ہو سکتی ہے ، بہتر ہو گا کہ ہم مضطرب (shaky) اور مقلوب (reversed) احادیث کو پہلے دیکھ لیں کیونکہ ان سے ہمیں معلل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

1. مضطرب (shaky)

حافظ ابن کثیر کے مطابق اگر کسی روایت کے راویان اس روایت کو بیان کرنے والے شیخ کے بارے میں متفق نہ ہوں یا متن اور اسناد میں کسی نکتے پر ان کا اتفاق نہ ہو اور اختلاف بھی ایسا ہو کہ ایک کی رائے کو دوسرے کی رائے پر ترجیح نہ دی جا سکتی ہو جس کی وجہ سے روایت کے متن یا اسناد میں بے یقینی کی سی کیفیت پیدا ہو جائے تو ایس روایت کو مضطرب کے درجے میں رکھیں گے۔

اسناد میں اضطراب کی مثال ابو بکر ؓ سے بیان کی گئی ایک روایت ہو سکتی ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں آپ کو بوڑھا ہوتا دیکھ رہا ہوں جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے سورہ ھود اور اس کے ساتھ کی سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے۔

الدارالقطنی کہتے ہیں یہ ایک مضطرب حدیث کی مثال ہے۔ یہ ابو اسحاق نے بیان کی ہے مگر اسکی اسناد کے بارے میں کوئی دس کے قریب مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔ کوئی اسکو مرسل کہتا ہے تو کوئی متصل۔ کوئی اسے ابو بکر ؓ کی مسند کہتا ہے تو کوئی حضرت سعدؓ یا عائشہ ؓ کی مسند۔ چونکہ یہ سارے رائے دہندگان وزن میں ایک برابر ہیں اس لیے کسی ایک کی رائے کو دوسرے پر ترجیح دینا مشکل ہے۔ اس لیے اس حدیث کو مضطرب کے درجے میں رکھا گیا ہے۔

2۔ مقلوب (reversed, changed)

مقلوب اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں کسی روایت کی سند کسی دوسری روایت کے متن میں پیوند کر دی جائے یا کسی روایت کا متن کسی دوسری روایت کی سند سے جوڑ دیا جائے۔ یا کوئی راوی روایت کو بیان کرتے وقت متن کا کوئی جملہ الٹی ترتیب سے بول دے۔

اسکی مثال ایک مشہور حدیث میں دی جا سکتی ہے جس میں ان سات لوگوں کا ذکر ہے جن کو قیامت کے دن اللہ اپنے عرش کے سائے میں جگہ دیں گے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ان سات لوگوں میں سے ایک وہ ہو گا جو اس طرح صدقہ دیتا ہے کہ اس کے دائیں ہاتھ کو بھی نہیں پتہ چلتا کہ بائیں ہاتھ نے کیا دیا ہے۔ یہاں پر اس جملے میں دائیں اور بائیں ہاتھ کی ترتیب کو واضح طور پر کسی راوی نے بدل دیا ہے۔ کیونکہ درست جملہ بخاری اور مسلم کی ہی دوسری روایات میں موجود ہے۔ جہاں لکھا ہے کہ وہ اسطرح صدقہ دیتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہیں پتہ چلتا کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا ہے۔

بغداد کے علماء نے امام بخاری کو آزمانے کی خاطر دس بندے نامزد کیئے اور ہر ایک کو دس احادیث دے دی گئیں۔ ان کے پاس جو بھی احادیث تھیں ان میں ہر ایک کے متن کے ساتھ کسی دوسری حدیث کی اسناد لگا دی گئی تھی۔ یعنی ان احادیث کو مقلوب بنا کر پیش کیا گیا۔ امام بخاری نے ان سب کو غور سے سنا اور سب کی روایات مسترد کر دیں۔ جب وہ سب اپنی اپنی احادیث سنا چکے تو انہوں نے باری باری ان تمام بندوں کو مخاطب کیا اور انہیں ان کی بیان کردہ احادیث درست سند کے ساتھ بیان کر دیں۔ اس واقعے سے علمائے بغداد میں امام بخاری کی شہرت میں زبردست اضافہ ہوا۔

کسی راوی کی طرف سے حدیث کی سند میں کسی کا نام بدل دینا یا ناموں کی ترتیب بدل دینا بھی حدیث کو مقلوب بنا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث کو نبی ﷺ سے ابو ہریرہ ؓ کے ذریعے روایت کیا جائے لیکن اصل میں وہ کسی اور نے نبی ﷺ سے روایت کی ہو۔ یا ولید سے مسلم نے سنا کہا جائے لیکن اصل میں مسلم نے ولید سے سنا ہو وغیرہ وغیرہ

3۔ معلل (defective)معلل ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند یا متن میں کوئی ایسی خرابی ہو جو پوشیدہ ہو اور اسکے ظاہر ہو جانے سے حدیث کی صحت پر فرق پڑتا ہو۔ اگر دونوں باتیں ہوں تو ہی اس حدیث کو معلل کہیں گے۔ ورنہ اگر اسناد یا متن میں کوئی غیر پوشیدہ خرابی ہو تو وہ حدیث پہلے بیان کیے گئے درجات میں سے کسی میں ڈالی جائے گی۔

حدیث میں پوشیدہ علتیں مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں:

ا۔ کسی حدیث کو مرفوع قرار دینا جبکہ اصل میں وہ موقوف ہو۔ یا اسے مسند قرار دینا جبکہ اصل میں وہ مرسل ہو۔

ب۔ ایک راوی اپنے استاذ سے کوئی حدیث بیان کر رہا ہو لیکن وہ ان شیخ سے کبھی ملا ہی نہ ہو۔ یا وہ کسی ایک صحابی سے حدیث بیان کر رہا ہو لیکن اصل میں وہ حدیث کسی دوسرے صحابی کی طرف سے بیان کردہ ہو۔

علل کا علم ، مصطلح الحدیث (علم الحدیث) کی سب سے مشکل ترین شاخ ہے۔ اور اس کا درجہ دوسرے علوم سے بلند ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس علم کے ذریعے احادیث میں پوشیدہ خامیاں تلاش کی جاتی ہیں۔ اس علم کے ماہرین کے لیے اعلی درجے کا حافظہ ، معلومات اور وسعت نظر چاہیے ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس میدان میں سوائے چند قلیل ماہرین جیسے ابن مدینی (234ھ) ، ابن ابی حاتم الرازی (327ھ) ، الخلل (311ھ) ، الداراقطنی (385ھ) نے ہی اس پر کتابیں لکھی ہیں۔ ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب میں تقریباً 2،840 معلل احادیث بیان کی ہیں۔

(جاری ہے)
 

ام اویس

محفلین
دسواں حصہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمد للہ وصلی اللہ علی محمد وعلی اٰلہ وسلم

راویوں کی یاداشت اور کردار کی بنیاد پر درجات احادیث

پہلی دو صدیوں کے محدثین کے ہاں حدیث کے فقط دو ہی درجات ہوتے تھے ایک ضعیف اور دوسرا صحیح۔ ترمذی وہ پہلے محدث تھے جنہوں نے تمام ضعیف قرار دی گئی احادیث میں سے حسن کو الگ کیا۔ یہی وجہ تھی کہ احمد بن حنبل جیسے فقھا ضعیف احادیث سے دلائل پیش کیا کرتے تھے۔ یہی وہ ضعیف احادیث تھیں جو بعد کی عرق ریزی سے حسن کے درجے کو پہنچیں۔

اب ہم ان چار اہم درجات حدیث پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالتے ہیں۔

1۔ صحیح (sound)

صحیح حدیث ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی اسناد شروع سے لے کر آخر تک متصل ہو ، اور ایسے راویان پر مشتمل ہو جو زبردست یاداشت کے مالک سمجھے جاتے ہوں اور اس حدیث میں کوئی ظاہری یا باطنی علت موجود نہ ہو۔

منقطع ، معضل ، مضطرب ، مقلوب ، شاذ ، منکر ، معلل یا مدلس میں سے کوئی اس تعریف کے مطابق صحیح نہیں قرار دی جا سکتی۔

احادیث کو جمع کرنے والے لوگوں میں سب سے زیادہ نام امام بخاری اور امام مسلم نے کمایا جس کی وجہ صرف اور صرف صحیح احادیث کو جمع کرنے کی انکی انتھک کوششیں ہیں۔ عمومی طور پر قاعدہ یہی رہا کہ راویان جس قدر قابل بھروسہ ہوں اور اچھی یاداشت کے مالک سمجھے جاتے ہوں اتنی ہی حدیث مستند ہو گی۔ مثال کے طور پر

الشافعی --> مالک --> نافعی --> عبداللہ بن عمرؓ --> نے سنا رسول اللہ ﷺ سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ سنہری اسناد کہلائے گی کیونکہ اس میں موجود ہر راوی صادق اور امین ہونے کی زبردست شہرت رکھتا ہے۔ کچھ محدثین بخاری کو مسلم پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ امام بخاری صرف انہی اسناد کو تلاش کرتے تھے جن میں راویان کی آپس میں ملاقات ثابت ہو بھلے زندگی میں ایک ہی بار ہو۔ جبکہ امام مسلم ایسی احادیث کو بھی قبول کر لیتے تھے جن میں راویان ثقہ (قابل اعتماد) ہوں اور ایک دور میں زندہ رہے ہوں بھلے ان کی ملاقات نہ بھی ہوئی ہو۔

صحیح حدیث پر عمل کرنا واجب ہے۔ اس بات پر حدیث ، اصول فقہ اور فقہ کے ماہرین کا اتفاق رائے ہے۔ یہ شریوت کی حجتوں میں سے ایک ہے اور ایک مسلمان کو اسے ترک کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے۔

2۔ حسن (good)

امام ترمذی کے مطابق حسن حدیث وہ ہوتی ہے جو شاذ نہ ہو، اس کی سند میں سب عادل اور قابل بھروسہ راوی ہوں اور وہ ایک سے زیادہ اسناد کے ذریعے بیان ہوئی ہو۔

الذھبی کے مطابق حسن حدیث وہ حدیث ہے جو ضعیف سے اوپر کے درجے کی ہے مگر کسی بھی وجہ سے صحیح کے درجے تک نہ پہنچ پاتی ہو۔

حافظ ابن حجر کے مطابق حسن وہ حدیث ہے جس کی سند متصل ہو ، راوی اچھے کردار کے مالک ہوں ، شاذ نہ ہو اور اس میں کوئی پوشیدہ خامی بھی نہ ہو مگر راویوں میں اسکی حفاظت میں کچھ کمی پائی جاتی ہو تو اسے صحیح کی بجائے حسن کہیں گے۔

امام ترمذی ایک حدیث بیان کرتے ہیں:

قتیبہ --> جعفر بن سلمان الضعبی --> ابن عمر الجونی --> ابوبکر بن موسٰی اشعری سے روایت ہے کہ ان کے والد ؓ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "جنت کے دروازے تلواروں کی چھاؤں میں ہیں"۔

اس حدیث کے بارے میں امام صاحب کا قول ہے کہ یہ حسن غریب ہے۔ یہ اس وجہ سے حسن ہے کہ اس میں چار راوی تو ثقہ ہیں مگر جعفر بن سلیمان حسن ہے۔ اس وجہ سے یہ حدیث صحیح کے درجے سے نیچے حسن میں آ جاتی ہے۔

امام ترمذی کے مطابق ایک ضعیف حدیث اگر کسی مختلف سند کے ساتھ بھی روایت ہوئی ہو اور اسکے ضعیف ہونے کی وجہ راویان کا جھوٹا اور فاسق ہونا نہ ہو تو ایسی حدیث کو حسن لغیرہ کہتے ہیں۔

اس تعریف سے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ایک ضعیف حدیث حسن لغیرہ کے درجے تک دو امور کی وجہ سے پہنچ پاتی ہے۔

ا۔ وہ حدیث کسی اور سند سے بھی روایت کی گئی ہو اور وہ سند پہلی جیسی یا اس سے زیادہ قوی ہو۔

ب۔ حدیث کے ضعیف ہونے کا سبب راوی کا کچا حافظہ ، سند کا منقطع ہونا اور راوی کا بے خبر ہونا ہو (نہ کہ اس پر جھوٹ اور فسق کا الزام ہو)

لیکن اگر حدیث کا ضعف شدید ہو یعنی اگر وہ حدیث اپنے راوی پر جھوٹ اور فسق کے الزام کی وجہ سے ضعیف قرار دی گئی ہو یا حدیث بذات خود شاذ ہو تو ایسی حدیث دوسری اسناد کے ساتھ موجود ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے درجے کو بلند نہیں کریں گی۔

مثال کے طور پر ایک جانی مانی حدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"جو بھی میری امت میں چالیس احادیث یاد کرے گا اللہ قیامت کے دن اسے بلند درجات والے لوگوں میں اٹھائے گا۔"

اکثر محدثین نے اسے ضعیف ہی کہا ہے حالانکہ یہ کئی مختلف اسناد سے روایت ہوئی ہے۔

3۔ ضعیف (weak)

ایک ایسی حدیث جو اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے حسن کے درجے تک بھی نہ پہنچ سکے وہ ضعیف کہلائے گی۔ یہ ضعف عموماً اسناد میں اسقاط کی وجہ سے ، کسی راوی کے برے کردار کی وجہ سے ، کسی دوسری صحیح حدیث کے متن کے خلاف ہونے ، راوی کے بدعتی ہونے یا اس کے حالات کا مکمل علم نہ ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔

کسی حدیث میں اوپر دی گئی کمزوریاں جتنی کم ہوں گی اتنی ہی حدیث کم ضعیف ہو گی۔ اور جتنی زیادہ ہوں گی اتنی ہی وہ حدیث شدید ضعیف ہو گی اور موضوع (من گھڑت) کے قریب ہو گی۔

4۔ موضوع (من گھڑت ، fabricated)

موضوع "وضع" سے ہے۔ جس کا معانی ہے گھڑی ہوئی چیز۔ اصطلاحی معنوں میں موضوع حدیث ایسی حدیث کو کہتے ہیں جو اپنے پاس سے گھڑ کر نبی ﷺ سے منسوب کر دی گئی ہو،

یہ ضعیف احادیث میں سے سب سے بدترین درجے کی حدیث ہے۔ بعض اہل علم تو اسے ضعیف حدیث میں بھی نہیں شمار کرتے بلکہ ایک الگ درجے میں رکھتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اپنی طرف سے کوئی بات نبی ﷺ سئ منسوب کرنا ایک بہت بڑا جرم ہے۔

موضوع حدیث کو پہچاننے کے کئی طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بیان کرنے والا خود ہی یہ اقرار کر لے کہ یہ حدیث اسناد سمیت اس نے خود ہی بنائی ہے۔۔ مثال کے طور پر محمد بن سعید المسلوب کہا کرتا تھا کہ کسی اچھی بات کے ساتھ اسناد بنا کر اسے بطور حدیث پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ایک اور مشہور مؤجد حدیث عبدالکریم ابو علوجہ جس کو بصرہ کے گورنر محمد بن سلیمان نے صلیب پر چڑھا دیا تھا نے خود اقرار کیا تھا کہ اس نے تقریباً چار ہزار کے قریب احادیث گھڑی ہیں جس میں اس نے حرام اشیاء کو بھی حلال قرار دے دیا اور حلال کو حرام۔

تنقیدِ حدیث مابین المسلمین بحوالہ سنن ابن ماجہ کے مصنف نے اپنی کتاب میں کئی موضوع احادیث کی مثالیں دی ہیں جن کی روشنی میں موضوع احادیث کو مندرجہ ذیل آٹھ قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن کو حدیث گھڑنے کی وجوہات بھی کہا جا سکتا ہے۔

1۔ سیاسی اختلافات کی بنا پر لوگوں نے حدیثیں گھڑیں۔

2۔ مذہبی اختلاقات کی بنیاد پر اپنے مسلک کو سچ ثابت کرنے کے لیے احادیث گھڑی گئیں۔

3۔ اپنی نکالی ہوئی بدعات کی حمایت میں گھڑی گئی احادیث

4۔ قصہ گو حضرات کی گھڑی ہوئی احادیث

5۔ گمراہ سنیاسیوں کی طرف سے گھڑی گئی احادیث

6۔ کسی ایک امام ، جگہ یا نسل کی حمایت کے لیے گھڑی گئی احادی

7۔ ذاتی مفاد کی خاطر گھڑی گئی احادیث

8. مشہور کہاوتیں جن کی سند گھڑ کے انہیں حدیث بنا کر پیش کر دیا گیا۔ بالکل ایسے جیسے اسرائیلیوں نے قصے کہانیاں اور کہاوتیں اپنے نبیوں کے نام سے منسوب کر کے انہیں ہی اپنا دین و مذہب بنا لیا۔

ختم شد--

الحمد لله

اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے اصولِ حدیث کا سلسلہ احسن طریقے سے اختتام پذیر ہوا۔ اللہ کی مدد شامل حال نہ ہوتی تو یہ ممکن نہ تھا۔ اس کے لیے ہم رب العالمین کے شکرگذار ہیں۔
 

ام اویس

محفلین
حدیث اور علم اصول حدیث کے متعلق یہ تحریر دس حصوں میں کسی نے جی پلس پر شئیر کی تھی ۔ بہت عمدہ تحریر و تحقیق ہے ۔ اب جی پلس بند ہو رہا ہے تو میں نے یہاں شئیر کر دی ۔ مجھے اکثر اس کو دہرانے کی ضرورت رہتی ہے ۔
 
Top