حدود قوانین پر امیر جماعت اسلامی کا مضحکہ خیز موقف

فرخ

محفلین
ورنہ تو اقبال نے یہ بھی کہا تھا:
ضمیر لالہ مے لعل سے ہوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز

اور یہ بھی ملاحظہ کیجئے گا ذرا:

تصوف

يہ حکمت ملکوتي، يہ علم لاہوتي
حرم کے درد کا درماں نہيں تو کچھ بھي نہيں
يہ ذکر نيم شبي ، يہ مراقبے ، يہ سرور
تري خودي کے نگہباں نہيں تو کچھ بھي نہيں
يہ عقل، جو مہ و پرويں کا کھيلتي ہے شکار
شريک شورش پنہاں نہيں تو کچھ بھي نہيں
خرد نے کہہ بھي ديا 'لاالہ' تو کيا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہيں تو کچھ بھي نہيں

عجب نہيں کہ پريشاں ہے گفتگو ميري
فروغ صبح پريشاں نہيں تو کچھ بھي نہيں

اب کیا صوفی حضرات کو بھی اسی طرح زیر طنز رکھیں گے؟
 
اول تو اس شعر میں صوفی کی مذمت نہیں کی گئی۔۔۔کسی سے اسکی تشریح پوچھ لیجئے گا ;)
دوسرے یہ کہ صوفی بیچارے کو کیوں اس دھاگے میں گھسیٹ رہے ہیں۔۔۔یا پھر یہ بھی کوئی منطق ہوگی جسکا مجھے علم نہیں۔
 

فرخ

محفلین
اول تو اس شعر میں صوفی کی مذمت نہیں کی گئی۔۔۔کسی سے اسکی تشریح پوچھ لیجئے گا ;)
دوسرے یہ کہ صوفی بیچارے کو کیوں اس دھاگے میں گھسیٹ رہے ہیں۔۔۔یا پھر یہ بھی کوئی منطق ہوگی جسکا مجھے علم نہیں۔

جی ہاں، آپ کو ایسی باتیں نظر نہیں آئیں گی جناب۔۔۔کیونکہ ان اشعار میں جو باتیں کی گئی ہیں ان میں کوئی اور عینک لگا کر اور کسی اور ہی سیاہی سے لکھا گیا ہے۔
اور نہ آپ کو اسدھاگے میں اصل موضوع بحث مسئلے کا علم ہے۔ مگر آپ تنقید تو یوں کرتے نظر آرہے ہیں جیسے اس مسئلے کا بخوبی علم رکھتے ہوں اور منور حسن صاحب کی غلطی پکڑ لی ہو۔۔۔

جہاں سے ملائیت پر اتنا علم حاصل کیا، وہیں سے یہ مسئلہ بھی دریافت کر لیں جناب۔۔۔
ُپھر آپ باآسانی مدلل اور پوائینٹ کے مطابق بحث بھی کر سکیں گے۔۔۔۔۔۔


تو میرا سوال وہیں کا وہیں ہے ابھی!!!
 
ارے بھائی میں نے کب یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں کوئی مفتی یا عالمِ دین ہوں۔۔۔سیدھی سیدھی بات عرض کردی ہے کہ ایسے فقہی سوالات کیلئے علمائے کرام سے پوچھنا چاہئیے، میں کیوں وہ بات کہوں جس بات کا مجھے علم نہیں ہے۔۔۔اور نہ ہی دعویٰ ہے۔
لیکن جس معاملے میں مجھے بھروسہ ہوتا ہے کہ تھوڑی بہت شد بد یا سوجھ بوجھ رکھتا ہوں ، اس معاملے پر اظہارِ خیال کر لیتا ہوں۔۔۔اگر یہ طرزِ عمل غلط ہے تو بتائیے۔۔۔:grin:
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس پر بھی نظر دوڑا لیجیے
2nw08es.gif


اب چھوڑ دیجیے ملا اور مسٹر کی تفریق اور کمر کس کر آجائیے اب کہ اس کا حل پیش کیجیے آپ سب کا جتنا بھی مطالعہ ہے قرآن، سنت اور فقہ کا آپ سب ہی مسلمان ہیں اور مسلمانوں کو ہی اپنے معاشرے میں پیش آنے والے مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کرنا ہے۔
محترم بھائی عابد آپ تو ضرور اس پر لکھیں۔
اور غزنوی صاحب آپ کیوں پیچھے ہٹ رہے ہیں کوئی فتویٰ نہیں لگے گا ان شاء اللہ آپ پر
بہن جی آپ بھی جو کچھ زنا بالجبر کی سزا شریعت میں کیا ہے اس پر لکھیے ۔
سب سے بہترین بات تو یہ ہے کہ سب پہلے تحفظِ حقوقِ نسواں بِل کا مطالعہ کریں۔
 

فرخ

محفلین
ارے بھائی میں نے کب یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں کوئی مفتی یا عالمِ دین ہوں۔۔۔سیدھی سیدھی بات عرض کردی ہے کہ ایسے فقہی سوالات کیلئے علمائے کرام سے پوچھنا چاہئیے، میں کیوں وہ بات کہوں جس بات کا مجھے علم نہیں ہے۔۔۔اور نہ ہی دعویٰ ہے۔
لیکن جس معاملے میں مجھے بھروسہ ہوتا ہے کہ تھوڑی بہت شد بد یا سوجھ بوجھ رکھتا ہوں ، اس معاملے پر اظہارِ خیال کر لیتا ہوں۔۔۔اگر یہ طرزِ عمل غلط ہے تو بتائیے۔۔۔:grin:

ٹھیک فرمایا جناب۔جب دین کو مفتی اور عالم دین اور ملائیت اور صوفیوں میں بانٹ دیا، تو کیا ضرورت ہے خود دین کا علم حاصل کرنے کی۔

جب دل کرے گا، بھڑاس نکال کر کہیں گے کہ ہمیں تو کچھ نہیں پتا، مگر ملا یہ کرتے ہیں اور ملا وہ کرتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔


اس وڈیو میں منور حسن صاحب ایک فقہی مسئلے پر ہی گفتگو فرما رہے تھے۔ مگر وہ جس انداز میں پیش کی گئی تو اگر وہ غلط لگی، تو صحیح بات پیش کر دیتے۔۔۔۔۔
آپ سے کس نے کہا تھا کہ ملائیت پر لیکچر شروع کر دیں۔ یہ تو موضوع بحث بھی نہیں تھا۔

آپ ملا اور علماء میں کیا فرق رکھتے ہیں جناب؟ یا یہ سوجھ بوجھ بھی نہیں ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
السلام علیکم ! میرے خیال میں امیر جماعت اسلامی اپنی بات کو صحیح سے بیان نہیں کرپائے اور اس میں ہاتھ اینکر پرسن کا بھی کہ جس نے فورا ایک دوسرا مفھوم اخذ کرتے ہوئے اپنا مفھوم امیر صاحب کہ منہ میں ڈالنے کی کوشش کی یہ بہترین وقت تھا کہ امیر صاحب اپنے غصہ پر قابو رکھتے اور اینکر کی کوشش کو ناکام بناتے مگر افسوس ایسا نہ ہوا اور انھوں نے وہی کیا جو کہ اینکر کا مقصد تھا مگر چاہیے تو یہ تھا کہ امیر جماعت اسلامی اس اینکر کو واضح طور پر فرق واضح کرتے ہوئے اپنی کہی گئی بات کی وضاحت کرتے کہ ان کا وہ جملہ درحقیقت زنا بالرضا کو پبلک نہ کرنے کی عمومی اخلاقی تربیت کہ بیان میں تھا اور ساتھ میں وضاحت کرتے کہ اگر زنا بالجبر کا معاملہ ہوتو اگر خاتون شریعت کہ مطابق 4 گواہ نہیں بھی لاسکتی تو ملزم کو شرعی حد تو نہیں لگ سکتی مگر قاضی دوسرئے شواہد اور قرائن کی بنیاد پر تعزیز جاری کرسکتا ہے سو زنا بالجبر کا کیس اندراج کرانے کی عورت کو مکمل آزادی ہے اگرچہ اس کہ پاس 4 گواہ نہ بھی ہوں باقی واللہ اعلم

اصل مسئلہ یہی ہے کہ امیرِ جماعت اپنے غصے کو قابو میں رکھتے ۔ اور یہ وہی انداز فکر اور اندازِ بیاں سے جہاں سے ساری پیچیدگیاں پیدا ہوتیں ہیں ۔ ایک رہنما ، ایک امیر اور ایک عالم میں اتنا صبر وتحمل اور قوتِ برداشت ہونی چاہیئے کہ مخالف کی بات کو صحیح طور پر سمجھ کر اس کا جواب دلیل ، استدلال اور ثبوت کیساتھ قرآن و سنت کے مطابق دے سکے ۔ یہ بردبادی اور سمجھداری کے تقاضے ہیں ۔ بصورتِ دیگر امیرِ صاحب کے اندازِ گفتگو اور ہمارے شور میں پھر کیا فرق رہ جائے گا اور عالمَ دین اور ہم جیسے طالبِ علم کہاں کھڑے ہونگے ۔ اسلام کی بنیادی تعلیم ہی اخلاق ہے جہاں سے سارے عمل پھوٹتے ہیں ۔
میرا خیال ہے عابد بھائی نے آخری سطروں میں موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے زیرَ بحث نکتہ پر اپنا موقف بیان کیا ہے ۔ جس کے پاس اس سلسلے میں کوئی دلیل ، معلومات اور ثبوت ہیں اس کو احسن طریقے سے یہاں پیش کردیں ۔ مگر اس موضوع پر مذید کوئی اور نقب لگانے سے پرہیز کریں ۔ صوفی ازم ، ملائیت ، داڑھی اور طرح کے کئی موضوعات پر بہت بحث ہوچکی ہے ۔ لہذا موضوع کے برخلاف اگر کوئی پوسٹ اپنا رخ تبدیل کرکے کہیں اور جاتی نظر آئی تو وہ حذف یا اشاعت سے محروم ہوجائے گی ۔ مجھے آپ کی محنت کے زیاں کا افسوس رہے گا ۔ امید ہے شاید اس طرح موضوع اپنے پیرائے سے باہر نکلنے سے بچ سکے ۔
شکریہ
 
فی زمانہ جب میڈیکل سائنس جس قدر ترقی کرچکی ہے، میرا نہیں خیال کہ اس بات کا پتہ چلانا دشوار ہو کہ اگر کسی عورت کے ساتھ ریپ ہوا ہےاور اس نے کسی شخص کو موردٰ الزام ٹھرایا بھی ہے تو یہ کس حد تک سچ ہے اور کس حد تک جھوٹ۔۔۔طبی معائنہ اور ڈی این اے ٹیسٹ سے کافی ھد تک پتہ چل جاتا ہے۔۔اب ان چیزوں کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ عورت کو خاموش ہی رہنا چاہیئے، یہ بھی کوئی عقلمندی والی بات نہیں ہے۔۔۔
دوسرے یہ کہ زنابالجبر فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے اور اسکی سزا بھی وہی ہونی چاہئیے جو فساد فی الارض کی ہے۔
 

فرخ

محفلین
مختاراں مائی کا کیس یاد ہے آپ کو؟؟
کافی شہرت پائی ہے محترمہ نے۔۔۔۔
مگر ہوا کیا؟؟؟؟؟
نہ تو یہ منافق نظام اور کفر کے قدموں میں گرا ہوا معاشرہ اسے انصاف دے سکا اور نہ اسکے کوئی ثبوت سامنے آسکے؟؟
اور اس مسئلے کے گواہ بھی کوئی نہیں ملے۔۔۔۔

اور اس معاشرے میں بہت سے خواتین ایسی ہیں جن کے ساتھ بہت کچھ ہو چُکا، مگر انہوں سے کم از کم اس بنیاد پر شہرت حاصل نہیں کی اور کم از کم لوگ انکو اس حیثیت سے نہیں جانتے۔

البتہ میں اس بات کے حق میں ہوں کہ قانون بغیر تشہیر کئے اور الزام ثابت ہونے تک ملزمان سے تفتیش ضرور کرے۔
مگر پھر خیال آتا ہے کہ میں جس قانون کی بات کر رہا ہوں اسکے رکھوالے خود ایسی ایسی لعنتوں میں ملوث ہیں اور اس میں زنا بالجبر کوئی حیرت والی بات نہیں۔
 

فرخ

محفلین
زنا بالجبر کی شریعت میں سزا شائید موت ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں کیا ہے اور یہی ملزمان چھوٹ کر کیا کرتے ہیں اسکی ایک مثال تو پنجاب میں ڈائیو کی بس پر کام کرنے والی لڑکی کی ایک سے زیادہ مرتبہ عزت دری کی داستان ہے جس میں شہباز شریف بھی اچھل کر سامنے آئے، مگر ابھی تک اس معاملے میں کیاانصاف ملا؟؟؟؟
 

فرخ

محفلین
یہ چنانچہ آپ نے جسکا بھی اُٹھایا ہے، اس پر نتیجہ آپ خود نکال سکتے ہیں۔
اپنے غزنوی ہونے کا کوئی تو فائدہ اُٹھائیں۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اصل مسئلہ یہی ہے کہ امیرِ جماعت اپنے غصے کو قابو میں رکھتے ۔ اور یہ وہی انداز فکر اور اندازِ بیاں سے جہاں سے ساری پیچیدگیاں پیدا ہوتیں ہیں ۔ ایک رہنما ، ایک امیر اور ایک عالم میں اتنا صبر وتحمل اور قوتِ برداشت ہونی چاہیئے کہ مخالف کی بات کو صحیح طور پر سمجھ کر اس کا جواب دلیل ، استدلال اور ثبوت کیساتھ قرآن و سنت کے مطابق دے سکے ۔ یہ بردبادی اور سمجھداری کے تقاضے ہیں ۔ بصورتِ دیگر امیرِ صاحب کے اندازِ گفتگو اور ہمارے شور میں پھر کیا فرق رہ جائے گا اور عالمَ دین اور ہم جیسے طالبِ علم کہاں کھڑے ہونگے ۔ اسلام کی بنیادی تعلیم ہی اخلاق ہے جہاں سے سارے عمل پھوٹتے ہیں ۔
میرا خیال ہے عابد بھائی نے آخری سطروں میں موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے زیرَ بحث نکتہ پر اپنا موقف بیان کیا ہے ۔ جس کے پاس اس سلسلے میں کوئی دلیل ، معلومات اور ثبوت ہیں اس کو احسن طریقے سے یہاں پیش کردیں ۔ مگر اس موضوع پر مذید کوئی اور نقب لگانے سے پرہیز کریں ۔ صوفی ازم ، ملائیت ، داڑھی اور طرح کے کئی موضوعات پر بہت بحث ہوچکی ہے ۔ لہذا موضوع کے برخلاف اگر کوئی پوسٹ اپنا رخ تبدیل کرکے کہیں اور جاتی نظر آئی تو وہ حذف یا اشاعت سے محروم ہوجائے گی ۔ مجھے آپ کی محنت کے زیاں کا افسوس رہے گا ۔ امید ہے شاید اس طرح موضوع اپنے پیرائے سے باہر نکلنے سے بچ سکے ۔
شکریہ

السلام علیکم ظفری بھائی ! آپ نے بالکل درست فرمایا میں نے “ زنا بالجبر کی صورت میں عورت کیا کرئے “ ؟؟؟ اس معاملہ میں اپنی ذاتی رائے پیش کی ہے ۔ کیونکہ جہاں تک میں سمجھا ہوں امیر صاحب نے زنا بالرضا میں جو عمومی اخلاقی تعلیمات اسلام ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا نقطہ نظر بیان کیا اور پھر اینکر کی یکلخت مداخلت پر اسی پر زنا بالجبر کو بھی قیاس کردیا یا پھر انکو اتنا موقع ہی نہیں ملا کہ وہ اپنی بات کی صحیح توجیح و توضیح بیان کرسکتے اور تصریح کرسکتے۔ خیر زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں اگرچہ جرم کی نوعیت کہ اعتبار سے ضرور فرق ہے مگر دونوں صورتوں میں اسلامی حدود کا جو نصاب ہے وہ یکساں ہی ہے جبکہ سزا کی نوعیت میں با اعتبار شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونے کہ اختلاف ہے ۔

میں نے یہاں اینکر پرسن کہ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ جس میں وہ امیر صاحب سے پوچھتا ہے کہ اگر کسی خاتون کہ ساتھ جبرا زنا کی واردات ہوجائے تو وہ کیا خاموش بیٹھے ؟؟؟ یہاں تک کہ وہ چار گواہ نہ پیش کرسکے ؟؟؟؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ نہیں وہ خاموش نہیں بیٹھے گی بلکہ وہ اسلامی عدالت میں استغاثہ دائر کرے گی جبکہ قاضی واقعاتی شہادتوں اور قرآئن نیز فی زمانہ جرم کہ اثبات کہ بدلتے ہوئے قرآئن کو ضمنی شہادتوں کہ بطور قبول کرتے ہوئے کوئی بھی تعزیراتی حکم صادر کرسکتا ہے کیونکہ قرآن کی رو سے ایسے ضمنی “شہادتی قرآئن “ جرم کو “ بطور حد “ ثابت کرنے میں ناکافی ہیں مگر جرم چونکہ دیگر قرآئن کی روشنی میں اپنے وقوع میں ثبوت پاچکا مگر جو شہادتی نصاب قرآن کو مقصود و مطلوب تھا وہ شہادتی نصاب میسر نہ آسکا لہزا ایسی صورت میں قرآن کی لاگو کردہ حد تو ساقط ہوجائے گی جبکہ دیگر ضمنی شواہد کی صورت میں قاضی کوئی بھی تعزیر جاری کرسکتا ہے ۔
عورت استغاثہ دائر کرسکتی ہے بغیر چار گواہوں کی موجودگی میں بھی اس ضمن میں دلیل ترمذی و ابوداؤد کی وہ مشھور زمانہ حدیث ہے کہ جس میں ایک عورت نماز کے لیے نکلتی ہے تو ایک شخص اس سے زبردستی کرتا ہے الخ یہ کہ وہ خاتون بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں استغاثہ دائر کردیتی ہے ایسی حالت میں کہ اس کہ پاس ایک بھی گواہ موجود نہیں ہوتا کہ اصل مجرم کون ہے ؟؟؟ اس حدیث پر اگرچہ فقہاء نے علم الروایت و درایت دونوں کی رو سے جرح کی ہے مگر اس کا تعلق حدیث کہ اس حکم سے خاص ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس متہم شخص کو سنگسار کرنے کا حکم صادر فرمادیا جب کہ ہمارا استدلال اس حدیث سے فقط عورت کہ حق استغاثہ کو دائر کرنے کی حد تک ہے ۔۔باقی واللہ اعلم والسلام
 

فرخ

محفلین
خیر زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں اگرچہ جرم کی نوعیت کہ اعتبار سے ضرور فرق ہے مگر دونوں صورتوں میں اسلامی حدود کا جو نصاب ہے وہ یکساں ہی ہے اور سزا بھی ایک ہی ہے ۔
السلام وعلیکم عابد بھائی
میرے ناقص علم کے مطابق زنا بالرضا میں دو مزید کیس ہوتے ہیں۔ اگر مجرمین شادی شدہ ہوں تو انہیں سنگسار کر دیا جاتا ہے ورنہ کوڑے مارے جاتے ہیں۔ اور اگر ایک شادی شدہ ہو تو پھر اُسے سنگسار کیا جاتا ہے۔

مگر زنا باالجبر میں سزا شائید ہر صورت میں موت ہی ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
السلام وعلیکم عابد بھائی
میرے ناقص علم کے مطابق زنا بالرضا میں دو مزید کیس ہوتے ہیں۔ اگر مجرمین شادی شدہ ہوں تو انہیں سنگسار کر دیا جاتا ہے ورنہ کوڑے مارے جاتے ہیں۔ اور اگر ایک شادی شدہ ہو تو پھر اُسے سنگسار کیا جاتا ہے۔

مگر زنا باالجبر میں سزا شائید ہر صورت میں موت ہی ہے۔
السلام علیکم فرخ بھائی آپ نے بالکل درست فرمایا شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق ہے میں نے چاہا تھا کہ بریکٹس میں اپنی عبارت کی توضیح کردوں مگر پھر سوچا کہ اسی فورم پر میری شادی شدہ زانی کی سزا رجم پر بحث ہوچکی ہے سو احباب کو اچھی طرح سے میرا مؤقف معلوم ہے سو ضرورت نہ سمجھی مگر اب جبکہ آپ نے ضرورت محسوس کی تو میں بھی اپنی عبارت میں توضحیی ترمیم کرلیتا ہوں ۔۔شکریہ ۔ ۔ ۔والسلام
 
ایک فورم پر یہ پوسٹ دیکھی اس موضوع کے حوالے سے۔۔۔۔

During the time of the Prophet (saw) punishment was inflicted on the rapist on the solitary evidence of the woman who was raped by him. Wa'il ibn Hujr reports of an incident when a woman was raped. Later, when some people came by, she identified and accused the man of raping her. They seized him and brought him to Allah's messenger, who said to the woman, "Go away, for Allâh has forgiven you," but of the man who had raped her, he said, "Stone him to death." (Tirmidhi and Abu Dawud)
During the time when Umar (raa) was the Khalifah, a woman accused his son Abu Shahmah of raping her; she brought the infant borne of this incident with her to the mosque and publicly spoke about what had happened. Umar (raa) asked his son who acknowledged committing the crime and was duly punished right there and then. There was no punishment given to the woman. (Rauf)
Islamic legal scholars interpret rape as a crime in the category of Hiraba. In ‘Fiqh-us-Sunnah’, hiraba is described as: ‘a single person or group of people causing public disruption, killing, forcibly taking property or money, attacking or raping women (hatk al ‘arad), killing cattle, or disrupting agriculture.’
The famous jurist, Ibn Hazm, had the widest definition of hiraba, defining a hiraba offender as: ‘One who puts people in fear on the road, whether or not with a weapon, at night or day, in urban areas or in open spaces, in the palace of a caliph or a mosque, with or without accomplices, in the desert or in the village, in a large or small city, with one or more people… making people fear that they’ll be killed, or have money taken, or be raped (hatk al ‘arad)… whether the attackers are one or many."
Al-Dasuqi held that if a person forced a woman to have sex, his actions would be deemed as committing hiraba. In addition, the Maliki judge Ibn ‘Arabi, relates a story in which a group was attacked and a woman in their party was raped. Responding to the argument that the crime did not constitute hiraba because no money was taken and no weapons used, Ibn ‘Arabi replied indignantly that "hiraba with the private parts" is much worse than hiraba involving the taking of money, and that anyone would rather be subjected to the latter than the former.
The crime of rape is classified not as a subcategory of ‘zina’ (consensual adultery), but rather as a separate crime of violence under hiraba. This classification is logical, as the "taking" is of the victim’s property (the rape victim’s sexual autonomy) by force. In Islam, sexual autonomy and pleasure is a fundamental right for both women and men (Ghazâlî); taking by force someone’s right to control the sexual activity of one’s body is thus a form of hiraba.
Rape as hiraba is a violent crime that uses sexual intercourse as a weapon. The focus in a hiraba prosecution is the accused rapist and his intent and physical actions, and not second-guessing the consent of the rape victim. Hiraba does not require four witnesses to prove the offense, circumstantial evidence, medical data and expert testimony form the evidence used to prosecute such crimes.
Islamic legal responses to rape are not limited to a criminal prosecution for hiraba. Islamic jurisprudence also provides an avenue for civil redress for a rape survivor in its law of "jirah" (wounds). Islamic law designates ownership rights to each part of one’s body, and a right to corresponding compensation for any harm done unlawfully to any of those parts. Islamic law calls this the ‘law of jirah’ (wounds). Harm to a sexual organ, therefore, entitles the person harmed to appropriate financial compensation under classical Islamic jirah jurisprudence. Each school of Islamic law has held that where a woman is harmed through sexual intercourse (some include marital intercourse), she is entitled to financial compensation for the harm. Further, where this intercourse was without the consent of the woman, the perpetrator must pay the woman both the basic compensation for the harm, as well as an additional amount based on the ‘diyya’ (financial compensation for murder, akin to a wrongful death payment).
Islamic law, with its radical introduction of a woman’s right to own property as a fundamental right, employs a gender-egalitarian attitude in this area of jurisprudence. In fact, there is a hadith specifically directed to transforming the early Muslim population out of this patriarchal attitude of male financial compensation for female sexual activity. During the time of Prophet Muhammad, a young man committed zina with his employer’s wife. The father of the young man gave one hundred goats and a maid as compensation to the employer, who accepted it. When the case was reported to the Prophet, he ordered the return of the goats and the maid to the young man’s father and prosecuted the adulterer for zina (Abu Daud 1990, 3: Bk. 33, No. 4430; Bukhâri 1985, 8:Bk. 81, Nos. 815, 821, 826).

Source
http://www.muslimaccess.com/articles/Women/rape_in_islam.asp
 

فرخ منظور

لائبریرین
اگر کسی نے حدود آرڈیننس کا مطالعہ کیا ہے تو اس میں واضح درج ہے کہ چار گواہ ہوں جنہوں نے عملِ دخول دیکھا ہو۔ ظاہر ہے وہ چار گواہ کبھی بھی دستیاب نہیں ہو سکتے۔ اسی لئے مولانا ٹھیک فرما رہے ہیں کہ عورت کو یہ مسئلہ پبلک نہیں کرنا چاہیے۔ میرا نہیں خیال کہ اس میں کوئی اتنی لمبی چوڑی بحث کی ضرورت تھی۔

اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری!

آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے
کھویا گیا کس طرح ترا جوہرِ ادراک!
کس طرح ہوا کند ترا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک
مہر و مہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں
کیوں تری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک
اب تک ہے رواں گرچہ لہو تیری رگوں میں
نے گرمئ افکار، نہ اندیشۂ بے باک
روشن تو وہ ہوتی ہے، جہاں بِیں نہیں ہوتی
جس آنکھ کے پردوں میں نہیں ہے نگۂ پاک
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری!
(ارمغان حجاز)
 
السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاتہ
موصوفہ کے دل و دماغ میں ملا کی جو بھی تعبیر ہو لیکن رسول کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کسی بھی طور لفظ "ملا" کا استعمال مناسب نہیں، اور نہ ہی یہ لفظ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایان شان ہے

بصد احترام اس موضوع پر ميرا موقف پچھلے مراسلات ميں واضح ہے۔ مزيد وضاحت بے كار ہے۔

ارے بھائی میں نے کب یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں کوئی مفتی یا عالمِ دین ہوں۔۔۔سیدھی سیدھی بات عرض کردی ہے کہ ایسے فقہی سوالات کیلئے علمائے کرام سے پوچھنا چاہئیے، میں کیوں وہ بات کہوں جس بات کا مجھے علم نہیں ہے۔۔۔اور نہ ہی دعویٰ ہے۔

اصل توہین رسول اكرم صلى اللہ عليہ وسلم كيا ہے ؟ يہ موضوع كافى ہے۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showt...-اس-کی-آیات-کا-مذاق-اڑانا&p=738929#post738929
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بہن جی
سب سے بہترین بات تو یہ ہے کہ سب پہلے تحفظِ حقوقِ نسواں بِل کا مطالعہ کریں۔

وعليكم السلام ورحمة اللہ وبركاتہ
بہت شكريہ بھائى ، اس ايكٹ پر مجھ جيسى طالبہ علم كو كمنٹ كرنے كى اس ليے ضرورت نہیں کہ وفاقى شرعى عدالت اپنے فيصلے ميں اس كى بعض شقوں كو خلاف اسلام قرار دے چكى ہے۔ اب يہ شقيں خود بخود كالعدم ہو چکی ہيں اور بلاشبہ يہ ايكٹ تب سے شديد متنازعہ ہے جب يہ صرف بل تھا ۔
ملاحظہ فرمائيے :
Text of FSC decision on Women Protection Act
http://ftpapp.app.com.pk/en_/index.php?option=com_content&task=view&id=143895&Itemid=2
The Federal Shariat Court has declared as unconstitutional and un-Islamic three sections of the Protection of Women Act 2006, holding that these take away the overriding effects of the Hudood Ordinance 1979.
http://www.dawn.com/2010/12/23/shariat-court-knocks-out-3-sections-of-women’s-protection-act.html


يہ مضحكہ خيز نام والا بل ( تحفظ حقوق نسواں بِل ) خودتعليم يافتہ خواتين كی جانب سے رد كيا جا چكا ہے۔

والسلام
 
Top