حب الوطنی

ظفری

لائبریرین
بہت ہی منفرد اور حقائق سے قریب تر تحریر ہے ۔ اندازِ فکر وہی ہے جو حقائق کو سامنے رکھ کر وجود میں آتا ہے ۔ ہم مطالعہِ پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کے زیرِاثر لکھی جانے والی تحاریر اورکتابیں ایک طرف رکھیں تو پاکستان کے قیام کے حقائق کچھ اور ہی نظر آئیں گے ۔ پاکستان کا قیام حادثاتی نہ سہی مگر ایک بین القوامی انقلاب کے تسلسل میں ضرور وجود میں آیا ۔ اس حقیقت کو جاننےکے لیئے تاریخ کی ان کتابوں سے جو اجرت لیکر لکھیں گئیں ۔ ان سے استفادہ کرنے کے بجائے پاکستان اور ہندوستان کے اس وقت کے زیرک سیاستدانوں کی کتابوں اور تحاریر کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حقائق کچھ اور ہی ہیں ۔ نہ صرف پاکستان بننے سے پہلے بلکہ بعد میں کس طرح حقائق مسخ کیئے گئے ۔ قوم کو کوئی اور ہی تاریخ پڑھائی گئی ۔ پاکستان تو بن گیا بعد میں ہم نے کیا کیا ۔ فوراَ پاکستان بننے کے بعد کس نے قبائلیوں کو کشمیر میں داخل کیا ،اور لوٹ مار کی مثال قائم کی کہ راجہ کو انڈیا سے مدد لینے پڑ گئی ۔ ہم نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی ماری ۔ اور آج کشمیر کا واویلا مچاتے ہیں ۔ 1965 میں کون کہتا ہے کہ انڈیا نے پہلے حملہ کیا تھا ۔ سب سے پہلے اپنی فوجیں خود ہی سرحد کے اس پار پہنچائیں ۔کارگل میں کیا ہوا ۔۔۔۔۔ یہ سب بیکار کی باتیں ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ۔ قائداعظم آخری وقت تک کوشش میں تھے کہ ہندوستان تقسیم نہ ہو ۔ مگر نہرو کی ہٹ دھرمی نے ایسا ہونے نہیں دیا ۔ اس میٹنگ کے بعد قائداعظم جیسے آدمی کے آنکھوں میں آنسو تھے کہ " نہرو نے کوئی راستہ نہیں چھوڑا " ۔۔۔۔۔۔ دوسری جنگ ِعظیم کے بعد دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوچکا تھا ۔ گریٹ برطانیہ سکڑ رہا تھا ۔ جہاں پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا وہیں بے تحاشہ ملک بھی اپنا جھنڈا بنانے میں کامیاب ہوئے ۔ اس وقت کی مشہور مذہبی جماعت پاکستان کے قیام کے وقت تو ساتھ نہیں تھی ۔ اور پاکستان کو اسلام کے نام ضم کردیا گیا ۔ مولانا آزاد جیسے جید عالم اور سیاستدان اس تقسیم کے ساتھ نہیں تھے ۔
میں اس تحریر اور اندازِ فکر پر @محمدامین کو سیلوٹ کرتا ہوں ۔ اور مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میرے ملک کےنوجوان حقائق کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیونکہ جب تک ہم حقائق نہیں جانیں گے یقین مانیئے پاکستان کی حالت کبھی سدھر نہیں سکتی کہ ایک چین ری سائیکل کے جو 1939 سے چلا آرہا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے موجودہ حکمران ہیں ۔ ذرا غور سے دیکھئے کہ یہ کیا چال چل رہے ہیں ۔ اور 65 سالوں سے کیا چالیں چلیں جاتیں رہیں ہیں ۔
 

محمد امین

لائبریرین
آپ نے بیشمار سوالات لکھ دئیے ہیں، لیکن بنیادی طور پر ان سب کے پیچھے ایک ہی الجھن ہے۔ وہ یہ کہ :
"پاکستان بنانے والوں کے ذہن میں اسلام کے نام پر ایک الگ وطن بنانے سے کیا مراد تھی؟۔۔۔ کیونکہ اگر مراد یہ تھی جو ہمیں نظریہ پاکستان کے بعض علمبرداروں کے اقوال و افکار میں دکھائی دیتی ہے(یعنی آفیشل نظریہ پاکستان)، تو پھر تو روز اوّل سے ہی پاکستان کی بنیاد قول و فعل کے تضاد پر قائم ہے، اور اگر وہ مراد نہیں تھی، تو آخر کیا تھا انکے ذہن میں؟"
کیا میں درست سمجھا ہوں؟

محمود بھائی میں تو نظریۂ پاکستان ہی بھول گیا ہوں کہ کیا تھا۔۔۔

جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اگتے ہیں تہِ سایۂ گل خار غضب کے
یہ ملک ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے

یقین جانیے بچپن اور لڑکپن کے وہ سارے ایگزوٹک رنگ، خواب اور جذبات جو اس وطن کے بارے میں تھے سب کھو گئے ہیں۔ میں بہت کم ہی اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں، مگر کوشش کرتا ہوں کہ جب بھی اپنے وطن اور مذہب کے بارے میں کچھ کہوں تو CASH نہ کروں۔۔ حقائق کے تحت بات کروں۔۔ حقائق وہ نہیں کہ جو کتابوں میں دیمک کی غذا بن رہے ہیں۔ بلکہ وہ جو محمد امین کی شکل میں سڑکوں پر مٹر گشت کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں وہ دیکھ سکتا ہوں جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے، بس میرا زاویۂ نگہ تھوڑا مختلف ہے۔ تھوڑا نہ سہی، زیادہ ہی کہہ لیں۔ میں اگر منفی سوچ رکھتا ہوں تو اس میں نظریۂ پاکستان کا قصور نہیں ہے۔۔۔ پاکستان کا قصور ہے۔۔ کیوں کہ جغرافیہ خود سے پاکستان نہیں بن سکتا جب تک اس میں افراد نہ ہوں۔

میں خدانخواستہ پاکستان سے بددل یا ناراض نہیں ہوں۔ میں پاکستان کو برا بھلا نہیں کہہ رہا اور نہ ہی میں حسن نثار سے کلی طور پر متاثر ہوں۔ میں جانتا ہوں یہاں بردبار، تعلیم یافتہ اور انقلابی لوگ بھی بستے ہیں۔ میں بس یہ جاننا چاہتا ہوں کہ نظریے کی بنیاد پر جغرافیے کی تبدیلی کو تقدیس سے متصف کیوں کیا جاتا ہے؟ مثال کے طور پر جونا گڑھ اور انڈیا کے وہ سب مقامات جو اس انقلابی اور نظریاتی اسلامی مملکت کا حصہ نہیں بن سکے وہ مقدس کیوں نہیں ہیں؟ وہ ہمارے لیے لائقِ تعظیم کیوں نہیں ہیں؟ کیا اس لیے کہ ہندو نے ہمیں وہ خطے نہیں دیے؟ پاکستان کے بالائی علاقوں میں جہاں ایک دوسرے مذہب کے لوگ بستے ہیں تو وہ خطہ مقدس کیسے ہے؟ وہ خطہ الہامی کیسے ہے پھر؟ بنگلہ دیش الگ ہوگیا تو وہ الہامی خطہ نہ رہا؟ وہ غدار تھے جو وہ تقدیس کے دائرے سے نکل گئے؟

ابھی فیس بک پر ایک جید پروفیسر صاحب فرما رہے تھے کہ پاکستان کا قومی ترانہ الہامی ہے اور اس کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی؟؟؟ میں سمجھ نہیں سکتا یہ باتیں۔۔۔ کیا ان صاحبان کو کوئی خفیہ مینیو اسکرپٹس ملے ہیں جن کی رو سے ایک کمیٹی کا منظور شدہ ترانہ الہامی اور مقدس اور لائقِ تعظیم قرار پاتا ہے؟

میں معذرت چاہتا ہوں کہ تلخی در آتی ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں اپنے انداز کو حتیٰ الامکان غیر جانبدار رکھوں۔ میں معاشرے کے افراد کے اذہان کا تجزیہ کر رہا ہوں۔۔


سر آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ٹیگ کیا میں آپ سے متفق ہوں زبردست کی ریٹنگ بھی کردی - سر آپ کی خدمات ملک کے لیے
بیشمار ہیں میں آپ کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں - سر میں تو بیرون ملک مقیم ہوں تعلیم کے غرض سے تو سر میں پاکستان کے حق میں
یا اُس کی محبت میں کوئی بات کروں تو کچھ عظیم لوگ ناراض ہوتے ہیں کہ ڈرامے بازی ہے مکرہے فریب ہے تو سر میں اس پر کچھ ّعرض
کرنے سے قاصر ہوں- تنقید کرنا کیڑے نکلانا اور تھوتھو کرنا پاکستان پر یہ میں سیکھ نہیں سکا سر اور میں نے پاکستان کے لیے کچھ نہیں کیا اگرکچھ زرمبادلہ بھیجتا ہوں تو مجبوری ہے کہ قبر میں تو نہیں لے جاسکتا ناں
سر اگر آپ نے مجھے شرمندہ کرنے کی خاطر ٹیگ کیا تو آپ کو پورا حق حاصل ہے آپ پاکستان کی اور میری ایسی تیسی کیجئے کہ آپ
کی خدمات ملک کے لیے لاتعداد ہیں آپ کو پورا حق حاصل ہے-
سر میں ان شاءاللہ پاکستان آیا تو آپ کی جوتیا ں سیدھی کرکے آپ سے فیض حاصل کروں گا - میں سر غیرملکی ایجنٹ کہلاؤں گا
کہ باہر سے آکرملک میں مثبت سوچ کا زہر گھول رہا ہے تو سر مجھے آپ کے عظیم افکار اور خیالات اور رہنمائی کی ضرورت ہوگی
میرے کچھ دوست ہیں پاکستان میں وہ ماحولیات کے حوالے سے کام کررہے ہیں اور میں ان کی کچھ مدد کرتا رہتا ہوں میں اس سے بھی
توبہ کرتا ہوں اور اُن کو بھی منع کروں گا-
سراگرآپ کو میری کسی بات میں گستاخی کا شائبہ گذرے تو اس بدبخت کو معاف کردیجئیے گا-

زحال بھائی آپ کو میری تحریر سے کوئی ٹھیس پہنچی یا دل آزاری ہوئی تو دست بستہ معافی چاہتا ہوں۔ میں اس حب الوطنی کی وجہ سے شدید ترین ذہنی اذیت کا شکار ہوں۔۔۔ میں اس کا تجزیہ کرنا چاہتا ہوں بس۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ حب الوطنی اپنی خالص حالت میں کیسی ہوتی ہے۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم امین بھائی
"حب الوطنی اپنی خالص حالت میں کیسی ہوتی ہے ۔ ؟
یہ اپنی خالص حالت میں ایسے ہی ہوتی ہے جیسے اک بچہ اپنی ماں سے محبت رکھتا ہے ۔
ماں کی ممتا اور بچے کا لگاؤ
بچہ کتنا بھی کمزور کیوں نہ ہو کوئی اس کی ماں پر زبان دراز کرے
تو بچہ اپنی کمزوری بھول زبان دراز کرنے والے کی زبان کھینچ لینے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔
پاکستان کی نوجوان نسل کو بدقسمتی سے اس " حب الوطنی " کی جو تشریح دی گئی ہے ۔
وہ مفاد پرستوں کی جانب سے اپنے مفاد کی تکمیل کے لیئے ہے ۔
اور اسی باعث آج کا نوجوان " دو قومی نظریئے " کی بنیاد سے انجان ہے ۔
نوجوان ہی کیا مجھ جیسا زندگی کی شام پر کھڑا انسان بھی اس نظریئے سے اپنے آپ کو انجان پاتا ہے ۔
"حب الوطنی " کا راگ الاپتا ہے ۔ اور اس راگ سے اپنی جیب بھرتا ہے ۔
پاکستان کا قیام غلط نہ تھا ۔ پاکستانیوں کے ساتھ جو پیش آیا ۔
وہ پاکستان کی سیاست میں " کھوٹے سکوں " کے چلنے سے آیا ۔
کبھی " ہند دشمنی " کبھی " آزادی کشمیر " کبھی " فرقہ پرستی " کبھی " بھوکا بنگالی " اور آج کل " جہاد "
یہ کھوٹے سکے ان نعروں کو اپنے مفاد کے لیئے خریدتے بیچتے رہے ۔
اور " حب الوطنی " کہیں دور کھڑی آنسو بہاتی رہی ۔
یہ آنسو کچھ اس تواتر سے بہے کہ " نظریہ پاکستان " کی تحریر دھل دھلا گئی ۔
اور میرے ہم وطن اس " حب الوطنی " کی قیمت چکاتے کھوکھلے ہو گئے ۔
سو سال مدت دی گئی تھی پاکستان کے قائم رہنے کی ۔
پینسٹھ سال گزر چکے ۔ پینتیس باقی ہیں ۔ اور نوجوانان پاکستان سے یہ امید وابستہ ہے کہ
ان شاءاللہ وہ اس سوہنی دھرتی کو سدھارتے تاقیامت اس کے قائم رہنے میں مددگار ہوں گے ۔
ان شاءاللہ
 

یوسف-2

محفلین
وطن پرستی اور حب ا لوطنی دو بلکل مختلف چیزیں ہیں۔ حب الوطنی (وطن سے محبت) ایک فطری جذبہ ہے لیکن وطن پرستی کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان حق و ناحق کا معیار خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنے وطن کو بنالے۔ یہ شرک کی ایک شکل ہے اور اسلام اس کی بھی اسی طرح بیخ کنی مخالفت کرتا ہے جس طرح شرک کی باقی تمام شکلوں کی۔۔۔

میں وطن پرست نہیں محب وطن ہوں اے اللہ پاکستان کو محبت امن اور اسلام کا گہوارا بنا دے اور اسلام کا قلعہ بنا دے اور امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بنا دے

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ھے
جو پیرھن اس کا ھے وہ ملت کا کفن ھے
(بزم سُخن ،فیس بک )
زبردست اور بہت ہی اعلیٰ !
وطن پرستی اور حب ا لوطنی دو بلکل مختلف چیزیں ہیں ۔ ۔ ۔ وطن پرستی کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان حق و ناحق کا معیار خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنے وطن کو بنالے۔ یہ شرک کی ایک شکل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ میں وطن پرست نہیں محب وطن ہوں ۔ ۔ ۔ اے اللہ پاکستان کو محبت امن اور اسلام کا گہوارا بنا دے۔ ۔ ۔ اور اسلام کا قلعہ بنا دے اور امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بنا دے۔ ۔ ۔
آمین ثم آمین ۔ تیری آواز مکے اور مدینے ع
 

یوسف-2

محفلین
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب تحریکِ پاکستان شروع ہوئی تو ایک جوش اور ولولہ تھا جس نے ہر مسلمان کو ایک الگ وطن کے لئے متحد کر دیا تھا
تقریباً سب ہی مسلمان امیر غریب ایک نکتے پر متحد ہوگئے تھے، اور وہ تھا کہ ایک الگ مسلم ریاست کا قیام ناگزیر ہے
یہ اتحاد بدنیت، فسادی ، مفاد پرست اور منافق ٹولہ کی نظر میں کھٹکنے لگا
پھر وہ ٹولہ بھی تحریکِ پاکستان میں شامل ہوگیا
صرف اپنے مفاد کے لئے۔۔۔ ۔۔۔ ۔
مخلص ، بے غرض اور بے لوث لوگوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے لئے۔۔۔ ۔۔۔ ۔
پاکستان بننے کے بعد اس میں شروع دن ہی سے اپنے پنجے گاڑنے کے لئے۔۔۔ ۔۔۔
نومسلم ریاست کو ہر سطح پر ناکام ریاست بنانے کے لئے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
یہاں کسی صورت بھی اسلامی نظام کے نفاذ کو ناممکن بنانے کے لئے۔۔۔ ۔۔۔
پاکستان میں اعلیٰ عہدوں کو اپنے قبضے میں کرنے کے لئے۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اور پاکستان کی مخلص قیادت پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

اور کیا کیا گنواؤں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ہمیں غیروں نے نہیں منافقوں نے اپنا بن کر لوٹا ہے

ہمیں ہندوؤں اور انگریزوں نے نہیں بلکہ ایک ایسے ٹولے نے لوٹا ہے جو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے
لیکن انہی بے ضمیر لوگوں نے اپنا ایمان بیچ کھایا
اور یہاں وہ سب حربے آزمائے گئے کہ یہ ملک مسلم اسٹیٹ کبھی نہ بن سکے اور ضمیر فروش اپنی تجوریاں بھرتے رہیں

اور پھر انکا پہلا شکار ایک باصول و باکردار رہنما بنے

جن کی ایمان داری اور اعلیٰ کردار کو غیر مسلم بھی تسلیم کرتے تھے

قائدِ اعظم رحمۃاللہ علیہ

دوسرا شکار قائدِ ملت لیاقت علی خان

جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد مہاجرین کی آبادکاری کے لئے بہت بے لوث کام کیا

دو بڑے کانٹے نکلنے کے بعد ان کا کام بہت آسان ہوگیا اور آہستہ آہستہ ایک سازش کے تحت ہم کو اپنے مذہب سے بہت دور کردیا گیا
اور اب یہ تباہی و بربادی اسی لئے ہے ک ہم نے اپنے مذہب کی اعلیٰ اقدار کو چھوڑ دیا ہے
تو بے ترتیبی تو زندگی میں ہوگی جب مذہب سے دور ہوجائیں گے

ماشا اللہ ۔ حسب معمول بہت ہی اعلیٰ خیالات اور اعلیٰ “جوابات“
لیکن میری پیاری بہن! اگرگہرائی اور گیرائی سے دیکھا جائے تو اوپر اٹھائے گئے ”سوالات“ نے عملاً آپ ہی کی کوکھ سے جنم لیا ہے، اس بات کا مجھ سے زیادہ یقیناً آپ کو رنج و غم ہوگا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بقول یوسفی: بچے بہت اچھے ہوتے ہیں، لیکن ان میں ایک ”خرابی“ یہ ہوتی ہے کہ وہھ بہت جلد ”بڑے“ ہوجاتے ہیں۔ یہ وقت دعا ہے۔ دعا کیجئے کہ ہم سے بچوں کی تربیت میں اگرکچھ کمی رہ گئی ہو،تو اللہ اس سے در گذر فرمائے اور ہمارے بچوں کو سیدھی راہ دکھلائے کہ بے شک وہی قلوب کو بدلنے پر قادر ہے۔ منتشر خیالات، منتشر ذہن کسی بھی وقت انسان کو ابدی خسارے میں مبتلا کرسکتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک محمد امین کو اُم امین کی طرح حق کی جانب یکسو اور امانت دار بنادے آمین ثم آمین
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت بہت اچھا لکھا امین۔ صرف آپ نہیں، بہت سے نوجوانوں کے ذہن میں ایسی ہی سوچیں ابھرتی ہیں۔
میرا تبصرہ۔ :)

ہممم ۔۔۔ کہاں سے بات شروع کروں۔ ۔۔۔

حب الوطنی۔۔۔


ترانے اب بھی میری روح میں سرشاری گھول دیتے ہیں۔۔۔

اب بھی میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ جاتی ہے، جب میں وطن کی محبت سے بھرپور نغمات، منظومات اور تقاریر سنتا ہوں۔۔

کچھ ہے۔۔۔ جو خون میں شامل ہے۔۔ کچھ ہے جو خون میں گرمی کا باعث ہے۔۔

کچھ۔۔۔ ہے۔۔

جس کی وجہ سے جذبات کا پرسکون سمندر ٹھاٹھیں مارنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔۔۔

کیا یہی حب الوطنی ہے؟

کیا مجھے وطن سے محبت ہے؟

کیا وطن سے محبت کرنا جائز ہے؟

جغرافیہ۔۔۔ کیا ہوتا ہے؟ جغرافیے کا قوم پرستی سے کیا تعلق ہے؟

پاکستان کا نقشہ میرے لیے مقدس کیوں ہے؟

کچھ لوگوں کی طرف سے میرے اوپر مسلط کردہ جھنڈا مقدس کیوں ہے؟

اگر یہ جھنڈا لال ہوتا تو کیا ہوتا؟؟ ہرا ہے تو کیا ہوگیا؟ اگر یہ لال ہوتا تو کیا مجھے اس جھنڈے سے پیار نہ ہوتا؟

قومی ترانہ حفیظ نے لکھ ڈالا تو کیا ہوا؟؟

اگر جگن ناتھ کا لکھا ہوا ترانہ قومی ترانہ قرار پاتا تو کیا ہوتا؟؟؟ کیا قوم کو اس سے محبت نہ ہوتی۔۔۔ بجائے ایک عدد مفرس (بلکہ فارسی) ترانے کے۔۔۔

اگر پاکستان کے نقشے میں افغانستان بھی شامل ہوتا، ایرانی بلوچستان بھی شامل ہوتا تو کیا ہوتا؟؟؟

ان تمام سوالوں کا جواب آپ نے خود ہی دے دیا ہے۔
مگر۔۔۔ مجھے اپنی مٹی سے محبت ہے۔۔۔ میری مٹی پر اگر آج بھی انگریز کی حکومت ہوتی۔۔۔ تو بھی مجھے اس سے محبت ہوتی۔۔۔

کہ۔۔

چلچلاتی دھوپ میں سر پہ اک چادر تو ہے
لاکھ دیواریں شکستہ ہوں پر اپنا گھر تو ہے
اور یہی وطن سے محبت ہے۔ اور اپنے گھر سے لگاؤ فطری بات ہے۔ مجھے تو چرند پرند میں بھی حب الوطنی کا جذبہ محسوس ہوتا ہے۔

پاکستان کا نام پاکستان کے بجائے کچھ اور ہوتا تو؟؟
تو بھی میری، آپکی اور ہم سب کی محبت اپنے گھر کے لئے اتنی ہی ہوتی جتنی اس نام کے ساتھ ہے۔

کیا قوم پرستی ایک صحیح الدماغ شخص کا کام ہے؟
ہر گز نہیں۔ پھر جواب آپ نےنیچے خود ہی دے دیا۔

میں نے دیکھا۔۔ ایک جگہ لکھا ہوا تھا۔۔۔ کہ پاکستان "مدینۂ ثانی" ہے۔۔۔
ایک جگہ لکھا دیکھا کہ "پاکستان" کا عربی میں ترجمہ "مدینہ طیبہ" ہے۔۔۔
میں نے اللہ کی بارگاہ میں استغفار کی۔۔۔


پاکستان دوسرے ممالک سے زیادہ فوقیت رکھتا ہے کیا؟؟

کیا باقی اقوام اللہ کی مخلوق نہیں ہیں؟؟

کیا باقی ممالک اللہ کے بنائے ہوئے نہیں ہیں؟؟

یعنی باقی دنیا سے اللہ ناراض تھا کہ جو اس نے باقی دنیا کو پاکستان سے کم حسن دیا؟؟
ان سوالوں کے جواب اثبات میں دیے جائیں تو یہ قوم پرستی ہے۔

کیا پاکستان سے زیادہ خوبصورت ملک دنیا میں کوئی نہیں؟؟
خوبصورتی دیکھنے والی آنکھ میں ہوتی ہے۔ ہر ماں کو اپنا بچہ دنیا کا خوبصورت ترین بچہ محسوس ہوتا ہے اور ہر بچے کو اپنی ماں سب سے پیاری لگتی ہے۔ تو مجھے پاکستان اس لئے خوبصورت لگتا ہے کہ یہ میرا گھر ہے۔ لیکن یہ توقع کرنا کہ دوسروں کو بھی میرا گھر دنیا کا سب سے خوبصورت جگہ لگے، ایک بے وقوفی ہے۔
 
امین صاحب بات اصل میں یہ ہے کہ یہ سب ہمارے اندازِ نظر کا کھیل ہے۔ بصارت اور بصیرت میں جو فرق ہے وہ بسا اوقات الف اور یاء کی طرح دو انتہاؤں پر ہوتا ہے۔ پاکستان کو تو چھوڑئیے، یہاں تو اس پوری کائنات کو بھی ایسے ہی تشکیک آمیز انداز سے دیکھا گیا ہے، جنکے پاس محض بصارت ہے، بصیرت نہیں، وہ تو اس کائنات کے وجود کو بھی ایک اتفاقی حادثہ سمجھتے ہیں، حیات کو ایک اتفاقی نتیجہ قرار دیتے ہیں اور اس میں سے معنی اور مقصد تلاش کرنے والوں کو اپنی اپنی تمناؤں اور روایات کے اسیر قرار دیتے ہیں۔ لیکن جو صاحبانِ بصیرت ہیں، انکے نزدیک کوئی بھی شئے اتفاقی ، عبث اور بے مقصد نہیں ہے۔۔۔یہ بصیرت ہی ہے جو زندگی کو ایک مفہوم اور مقصد واضح کرتی ہے، اسباب کے پیچھے ایک مسبّب کو دیکھتی ہے۔
جو سمجھ سکو تو آنسو، نہ سمجھ سکو تو پانی
پاکستان کا وجود میں آنا، محض اس دور کے چند لوگوں کی سوچ کا اور جدوجہد کا نتیجہ نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہم اس کے قیام کو مھض اس دور کے عالمی حالات کے تناظر میں ایک منطقی نتیجہ قرار دے سکتے ہیں۔۔اسکے علاوہ بھی بہت کچھ تھا، لیکن یہ جاننے کیلئے ہمیں اپنے موجودہ شعور کی حالت سے بلند ہونا پرے گا۔ اسکے لئے ایک برتر شعور کی ضرورت ہے۔ اگر اسکو کسی انالوجی سے واضح کرنا چاہیں تو ایک دانے اور بیج کی مثال موجود ہے۔ بقول میاں محمد بخش:
مالی دا کم پانی لانا، بھر بھر مشکاں پاوے۔۔۔
مالک دا کم پھل پُھل لانا، لاوے یا نہ لاوے
کھیت میں دانے بکھیرنے والے کی نظر میں صرف بیج ہوتا ہے، اس بیج سے پھوٹنے والے درخت اور اسکے پھل کی ایک ممکنہ اجمالی صورت ہوتی ہے، اور کچھ نہیں۔۔۔یہ صرف مالک بہتر جانتا ہے کہ کونسا بیج کس انداز کی نشو ونما پائے گا اور کس انجام کو پہنچے گا۔ بیج کے بودینے سے لیکر ایک مکمل قدآور اور بھرپور پھلدار درخت تک بیشمار مراحل ہیں، ایک مسلسل تدریجی عمل ہے، بیشمار خزاں کے موسم اور بہار کے موسم ہیں جو اس پر گذرتے ہیں۔۔۔پاکستان کو بھی اسی انداز سے لیجئے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آگیا تھا۔۔ پاکستان ہر آن ہر لمحے وجود میں آرہا ہے۔ یہ کوئی تاریخ کا ایک فکسڈ اور منجمد لمحہ نہیں ہے، بلکہ ایک مسلسل دتدریجی عمل ہے جو موسموں کے اتار چڑھاؤ سے گذر رہا ہے۔ یہ نازک سا بیج جن نامساعد حالات میں بویا گیا اور جن بے رحم موسموں اور طوفانی ہواؤں کے رحم و کرم پر رہا، اسکے باوجود سینہ ِ زمین سے اسکا ابھرنا، اور ابھی تک برقرار رہنا بذاتِ خود ایک معجزہ ہے۔
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرارِ حیات
یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہوا۔۔
ابھی اتنی جلدی کوئی نتیجہ مت اخذ کیجئے، ابھی پاکستان نے اپنے اصل خدّوخال اختیار نہیں کئیےجنکے لئیے خالق نے اسکی تخم ریزی کی تھی۔، ابھی سے اسکے اوپر کوئی حکم لگانا ناعاقبت اندیشہ ہوگی۔ قومیں ایک یا دو دن میں نہیں بنتیں ، انکے ارتقاء کیلئے سو پچاس سال کوئی زیادہ بڑا عرصہ نہیں ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔۔۔
 

نیلم

محفلین
بہت شکریہ
زبردست اور بہت ہی اعلیٰ !
وطن پرستی اور حب ا لوطنی دو بلکل مختلف چیزیں ہیں ۔ ۔ ۔ وطن پرستی کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان حق و ناحق کا معیار خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنے وطن کو بنالے۔ یہ شرک کی ایک شکل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ میں وطن پرست نہیں محب وطن ہوں ۔ ۔ ۔ اے اللہ پاکستان کو محبت امن اور اسلام کا گہوارا بنا دے۔ ۔ ۔ اور اسلام کا قلعہ بنا دے اور امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بنا دے۔ ۔ ۔
آمین ثم آمین ۔ تیری آواز مکے اور مدینے ع
 

محمد امین

لائبریرین
جو لوگ میری اس تحریر کو میری بد دیانتی اور پاکستان سے نفرت اور میرے والدین کی تربیت میں کمی پر محمول کر رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ منہ دھو کر آئیں اور میری تحریر کو دوبارہ پڑھیں :) :) :) :)

محترم امین بھائی
"حب الوطنی اپنی خالص حالت میں کیسی ہوتی ہے ۔ ؟
یہ اپنی خالص حالت میں ایسے ہی ہوتی ہے جیسے اک بچہ اپنی ماں سے محبت رکھتا ہے ۔
ماں کی ممتا اور بچے کا لگاؤ
بچہ کتنا بھی کمزور کیوں نہ ہو کوئی اس کی ماں پر زبان دراز کرے
تو بچہ اپنی کمزوری بھول زبان دراز کرنے والے کی زبان کھینچ لینے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔
پاکستان کی نوجوان نسل کو بدقسمتی سے اس " حب الوطنی " کی جو تشریح دی گئی ہے ۔
وہ مفاد پرستوں کی جانب سے اپنے مفاد کی تکمیل کے لیئے ہے ۔
اور اسی باعث آج کا نوجوان " دو قومی نظریئے " کی بنیاد سے انجان ہے ۔
نوجوان ہی کیا مجھ جیسا زندگی کی شام پر کھڑا انسان بھی اس نظریئے سے اپنے آپ کو انجان پاتا ہے ۔
"حب الوطنی " کا راگ الاپتا ہے ۔ اور اس راگ سے اپنی جیب بھرتا ہے ۔
پاکستان کا قیام غلط نہ تھا ۔ پاکستانیوں کے ساتھ جو پیش آیا ۔
وہ پاکستان کی سیاست میں " کھوٹے سکوں " کے چلنے سے آیا ۔
کبھی " ہند دشمنی " کبھی " آزادی کشمیر " کبھی " فرقہ پرستی " کبھی " بھوکا بنگالی " اور آج کل " جہاد "
یہ کھوٹے سکے ان نعروں کو اپنے مفاد کے لیئے خریدتے بیچتے رہے ۔
اور " حب الوطنی " کہیں دور کھڑی آنسو بہاتی رہی ۔
یہ آنسو کچھ اس تواتر سے بہے کہ " نظریہ پاکستان " کی تحریر دھل دھلا گئی ۔
اور میرے ہم وطن اس " حب الوطنی " کی قیمت چکاتے کھوکھلے ہو گئے ۔
سو سال مدت دی گئی تھی پاکستان کے قائم رہنے کی ۔
پینسٹھ سال گزر چکے ۔ پینتیس باقی ہیں ۔ اور نوجوانان پاکستان سے یہ امید وابستہ ہے کہ
ان شاءاللہ وہ اس سوہنی دھرتی کو سدھارتے تاقیامت اس کے قائم رہنے میں مددگار ہوں گے ۔
ان شاءاللہ

بہت شکریہ نایاب بھائی۔ آج کا نوجوان دو قومی نظریے سے اس لیے انجان ہے کہ دو قومی نظریے کو ہم نے گہری نیند سلا کر کئی قومی نظریے ایجاد کر لیے ہیں (یہ بھی پرانا راگ ہے مگر کیا کروں سچ ہے)۔۔

ماشا اللہ ۔ حسب معمول بہت ہی اعلیٰ خیالات اور اعلیٰ “جوابات“
لیکن میری پیاری بہن! اگرگہرائی اور گیرائی سے دیکھا جائے تو اوپر اٹھائے گئے ”سوالات“ نے عملاً آپ ہی کی کوکھ سے جنم لیا ہے، اس بات کا مجھ سے زیادہ یقیناً آپ کو رنج و غم ہوگا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بقول یوسفی: بچے بہت اچھے ہوتے ہیں، لیکن ان میں ایک ”خرابی“ یہ ہوتی ہے کہ وہھ بہت جلد ”بڑے“ ہوجاتے ہیں۔ یہ وقت دعا ہے۔ دعا کیجئے کہ ہم سے بچوں کی تربیت میں اگرکچھ کمی رہ گئی ہو،تو اللہ اس سے در گذر فرمائے اور ہمارے بچوں کو سیدھی راہ دکھلائے کہ بے شک وہی قلوب کو بدلنے پر قادر ہے۔ منتشر خیالات، منتشر ذہن کسی بھی وقت انسان کو ابدی خسارے میں مبتلا کرسکتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک محمد امین کو اُم امین کی طرح حق کی جانب یکسو اور امانت دار بنادے آمین ثم آمین

بہت شکریہ آپ کے نادر خیالات کا بھیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ چونکہ بات میری ذات پر ہے اس لیے کچھ عرض نہیں کروں گا۔

بہت بہت اچھا لکھا امین۔ صرف آپ نہیں، بہت سے نوجوانوں کے ذہن میں ایسی ہی سوچیں ابھرتی ہیں۔
میرا تبصرہ۔ :)

ان تمام سوالوں کا جواب آپ نے خود ہی دے دیا ہے۔

اور یہی وطن سے محبت ہے۔ اور اپنے گھر سے لگاؤ فطری بات ہے۔ مجھے تو چرند پرند میں بھی حب الوطنی کا جذبہ محسوس ہوتا ہے۔

تو بھی میری، آپکی اور ہم سب کی محبت اپنے گھر کے لئے اتنی ہی ہوتی جتنی اس نام کے ساتھ ہے۔

ہر گز نہیں۔ پھر جواب آپ نےنیچے خود ہی دے دیا۔

ان سوالوں کے جواب اثبات میں دیے جائیں تو یہ قوم پرستی ہے۔

خوبصورتی دیکھنے والی آنکھ میں ہوتی ہے۔ ہر ماں کو اپنا بچہ دنیا کا خوبصورت ترین بچہ محسوس ہوتا ہے اور ہر بچے کو اپنی ماں سب سے پیاری لگتی ہے۔ تو مجھے پاکستان اس لئے خوبصورت لگتا ہے کہ یہ میرا گھر ہے۔ لیکن یہ توقع کرنا کہ دوسروں کو بھی میرا گھر دنیا کا سب سے خوبصورت جگہ لگے، ایک بے وقوفی ہے۔

بہت زبردست آپی۔ کم سے کم آپ نے تو میری بات سمجھی :) :) ۔۔۔

امین صاحب بات اصل میں یہ ہے کہیہ سب ہمارے اندازِ نظر کا کھیل ہے۔ بصارت اور بصیرت میں جو فرق ہے وہ بسا اوقات الف اور یاء کی طرح دو انتہاؤں پر ہوتا ہے۔ پاکستان کو تو چھوڑئیے، یہاں تو اس پوری کائنات کو بھی ایسے ہی تشکیک آمیز انداز سے دیکھا گیا ہے، جنکے پاس محض بصارت ہے، بصیرت نہیں، وہ تو اس کائنات کے وجود کو بھی ایک اتفاقی حادثہ سمجھتے ہیں، حیات کو ایک اتفاقی نتیجہ قرار دیتے ہیں اور اس میں سے معنی اور مقصد تلاش کرنے والوں کو اپنی اپنی تمناؤں اور روایات کے اسیر قرار دیتے ہیں۔ لیکن جو صاحبانِ بصیرت ہیں، انکے نزدیک کوئی بھی شئے اتفاقی ، عبث اور بے مقصد نہیں ہے۔۔۔ یہ بصیرت ہی ہے جو زندگی کو ایک مفہوم اور مقصد واضح کرتی ہے، اسباب کے پیچھے ایک مسبّب کو دیکھتی ہے۔
جو سمجھ سکو تو آنسو، نہ سمجھ سکو تو پانی
پاکستان کا وجود میں آنا، محض اس دور کے چند لوگوں کی سوچ کا اور جدوجہد کا نتیجہ نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہم اس کے قیام کو مھض اس دور کے عالمی حالات کے تناظر میں ایک منطقی نتیجہ قرار دے سکتے ہیں۔۔اسکے علاوہ بھی بہت کچھ تھا، لیکن یہ جاننے کیلئے ہمیں اپنے موجودہ شعور کی حالت سے بلند ہونا پرے گا۔ اسکے لئے ایک برتر شعور کی ضرورت ہے۔ اگر اسکو کسی انالوجی سے واضح کرنا چاہیں تو ایک دانے اور بیج کی مثال موجود ہے۔ بقول میاں محمد بخش:
مالی دا کم پانی لانا، بھر بھر مشکاں پاوے۔۔۔
مالک دا کم پھل پُھل لانا، لاوے یا نہ لاوے
کھیت میں دانے بکھیرنے والے کی نظر میں صرف بیج ہوتا ہے، اس بیج سے پھوٹنے والے درخت اور اسکے پھل کی ایک ممکنہ اجمالی صورت ہوتی ہے، اور کچھ نہیں۔۔۔ یہ صرف مالک بہتر جانتا ہے کہ کونسا بیج کس انداز کی نشو ونما پائے گا اور کس انجام کو پہنچے گا۔ بیج کے بودینے سے لیکر ایک مکمل قدآور اور بھرپور پھلدار درخت تک بیشمار مراحل ہیں، ایک مسلسل تدریجی عمل ہے، بیشمار خزاں کے موسم اور بہار کے موسم ہیں جو اس پر گذرتے ہیں۔۔۔ پاکستان کو بھی اسی انداز سے لیجئے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آگیا تھا۔۔ پاکستان ہر آن ہر لمحے وجود میں آرہا ہے۔ یہ کوئی تاریخ کا ایک فکسڈ اور منجمد لمحہ نہیں ہے، بلکہ ایک مسلسل دتدریجی عمل ہے جو موسموں کے اتار چڑھاؤ سے گذر رہا ہے۔ یہ نازک سا بیج جن نامساعد حالات میں بویا گیا اور جن بے رحم موسموں اور طوفانی ہواؤں کے رحم و کرم پر رہا، اسکے باوجود سینہ ِ زمین سے اسکا ابھرنا، اور ابھی تک برقرار رہنا بذاتِ خود ایک معجزہ ہے۔
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرارِ حیات
یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہوا۔۔
ابھی اتنی جلدی کوئی نتیجہ مت اخذ کیجئے، ابھی پاکستان نے اپنے اصل خدّوخال اختیار نہیں کئیےجنکے لئیے خالق نے اسکی تخم ریزی کی تھی۔، ابھی سے اسکے اوپر کوئی حکم لگانا ناعاقبت اندیشہ ہوگی۔ قومیں ایک یا دو دن میں نہیں بنتیں ، انکے ارتقاء کیلئے سو پچاس سال کوئی زیادہ بڑا عرصہ نہیں ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔۔۔

شکریہ محمود بھائی بہت خوب فرمایا آپ نے۔ مگر نہ جانے کیوں لوگ میری باتوں پر یہ کیوں سمجھ رہے ہیں گویا میں نے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر چوٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔

شاید اسی کا نام حب الوطنی ہے کہ کسی کی بات سمجھے بغیر ۔۔۔ بین السطور پڑھے بغیر کسی کی تربیت میں کمی پر محمول کرنا۔۔۔ انا للہ۔۔۔۔
 

مہ جبین

محفلین
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم "بڑے" حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنے چھوٹوں کی بات کو سمجھ نہیں پاتے

اور ان کی طرف سے کسی بھی فکر انگیز سوچ کو یکلخت وطن سے نفرت اور غداری قرار دے دیتے ہیں

اور ان سے بد ظن ہوجاتے ہیں

شاید مجھ سے اور دوسرے معزز اراکینِ محفل سے امین کا نقطہء نظر سمجھنے میں تھوڑی سی غلطی ہوگئی ہے

امین کے ذہن میں جو سوالات اٹھے انکا محرک ہمارے معاشرے کے شدت پسندوں کے شدت پسندانہ خیالات و افکار تھے

وہ جو ملک کی محبت میں مبالغے سے کام لیتے ہیں اور کسی دوسرے کی کوئی بات سننے ، سمجھنے اور پرکھنے پر تیار نہیں ہوتے

وہ جو اپنے سوا سب کو ہمیشہ غلط سمجھتے ہیں

وہ جو اپنے نقطہء نظر سے اختلاف کرنے والوں کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں

وہ جو پاکستان کے جغرافیہ کو الہامی سمجھ کر اسے ایک مقدس خطہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں

وہ جو پاکستان کے ترانے کو الہامی ترانہ کہتے ہیں

بس ایسے ہی لوگوں کو اس نے مخاطب کرکے بات کی تو ہم سمجھے کہ وہ ملک کے خلاف تقریر کر رہا ہے

خود میں بھی اس مغالطہ میں تھی اور ایک طرح سے اس سے ناراض ہوگئی تھی

لیکن پھر اس نے مجھے دلائل دے کر اپنی بات سمجھائی جو مجھے سمجھ آگئی

امید ہے کہ میرے معزز و محتر م اراکینِ محفل میری اور امین کی بات کو سمجھ گئے ہونگے

اللہ ہمارا اور اس ملک کا حامی و ناصر ہو آمین
 

مہ جبین

محفلین
میری تربیت میں ہوسکتا ہے کہ کہیں کوئی کسر رہ گئی ہو کیونکہ مکمل تو کوئی شخص ہو نہیں سکتا

یقیناً غلطی کی گنجائش تو ہوتی ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے

لیکن مجھے اپنے بیٹے کی حب الوطنی پر ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہیں ہے

بلکہ مجھے تو فخر ہے کہ میرا بیٹا ماشاءاللہ بہت ذہین وفطین ہے

بصیرت اور فہم و فراست میں ماشاءاللہ بہت آگے ہے

اللہ امین کو بہت برکتیں عطا فرمائے آمین
 

یوسف-2

محفلین
سب سے پہلے تو عزیزم امین سے معذرت کے اُنہیں میرے الفاظ سے ذہنی اذیت پہنچی۔ آپ کے ”بے ربط مراسلہ“ سے میرے علاوہ خود آپ کی امی جان اور کئی دیگر محفلین نے بھی وہی ” قابل اعتراض پیغام“ وصول کیا ، جس نے ہمیں تنقیدی مراسلہ لکھنے پر مجبور کیا۔ اب پتہ چلا ہے کہ آپ کی تحریر کا وہ ”مطلب“ نہیں تھا، جو ہم نے سمجھا۔ اور ہم نے ”بین السطور کے پیغام“ پر توجہ نہیں دی، اور”سطور کے پیغام“ پر ہی تنقید کر ڈالی۔ میرا ماننا ہے کہ اپنی کسی بھی تحریر کی ”تشریح و وضاحت اور مطالب “ بیان کرنے کا مستند حق، خود لکھنے والے کا ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ کی ”وضاحت“ کے بعد آپ پر کی گئی تنقید کا ”جواز“ ختم ہوجاتا ہے۔ معذرت قبول کیجئے۔
 

یوسف-2

محفلین
جب یہ دھاگہ مقفل تھا تو میں نے اپنا نکتہ نظر بہن مہ جبین (اُم امین) کے نام اپنے ذاتی مکتوب میں یوں کیا تھا۔ یہ ذاتی مکتوب بہن کی اجازت سے یہاں پیش ہے:
مکتوب۔1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سب سے پہلے تو برخوردار امین کے مراسلہ کے جواب میں ”ناگوار باتیں“ تحریر کرنے پر دلی معذرت اور پھر ان باتوں کو آپ کی جانب سے ”مفید“ قرار دینے کا شکریہ۔ امین کا ”اظہار ناپسندیدگی“ والا جواب بھی ادب، لحاظ اور مروت کے دائرے کے اندرتھا جس کے لئے آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یقیناً اس کا” کریڈٹ“ بھی آپ ہی کو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ میں اسی دھاگہ میں بھی لکھنا چاہ رہا تھا، لیکن وہ دھاگہ ہی مقفل ہوگیا۔
میرے ساتھ ایک ”مسئلہ“ ہے اور وہ یہ کہ میں ”اظہار منافقت“ نہیں کرسکتا۔ جس کسی کی بھی کوئی بات ”پسند“ آتی ہے، دل کھول کر داد دیتا ہوں۔ اور جس کسی کی بات بھی ”ناپسند“ آتی ہے، بالخصوص اگر وہ ناپسندیدہ بات، اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہو تو ایسی بات پر بھی دھڑلے سے تنقید بھی کرتا ہوں۔ میں ایسا سوچ سمجھ کر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کے تحت کرتا ہوں کہ غلط اور غیر اسلامی باتوں کو کم از کم زبان و قلم سے تو روکنے کی کوشش کی جائے۔ اور ایسا کرتے ہوئے میں کبھی بھی اس شخصیت کے بارے میں کوئی دلی نفرت، کدورت وغیرہ نہیں رکھتا۔ یہ وجہ ہے کہ ایک ہی فرد کی اچھی باتوں کی جہاں مَیں داد دیتا ہوں، وہیں اسی کی ”قابل اعتراض“ باتوں پر ”بے داد“ بھی۔ لیکن ہمارے مواشرے کا ”المیہ“ یہ ہے کہ لوگ بالعموم ”اختلاف رائے، تنقید برائے اصلاح اور ”بے داد“ کو ”مخالفت، دشمنی، نفرت و کدورت“ وغیرہ سمجھنے لگتے ہیں۔ صد شکر کہ آپ کا شمار ایسے لوگوں میں نہیں ہے۔ لیکن ”مسئلہ“ یہ ہے کہ آپ جیسے لوگ ہیں ہی کتنے؟
لہٰذا میری جانب سے دلی معذرت اور دلی شکریہ دونوں بیک وقت قبول کیجئے۔ اور میرے لئے دعا کیجئے کہ میں تا دم آخر اسی طرح ”غیر منافقانہ“ رویہ کو جاری رکھتے ہوئے ہر محفل میں ”حق“ بات کی حمایت اور ”ناحق باتوں“ پر تنقید جاری رکھوں، خواہ سارے لوگ ہی مجھ سے ”نالاں“ کیوں نہ ہوجائیں ۔ دوسری دعا یہ کیجئے کہ ایسی تمام صورتحال میں اللہ مجھے صبر کرنے کی توفیق دے۔ تاکہ میں ”اُخروی ناکامی“ سے بچ سکوں، جس کی قسم اللہ نے سورۃ العصر میں اس طرح کھائی ہے کہ (مفہوم): قسم ہے زمانے کی کہ انسان خسارے میں ہے، مگر وہ لوگ جو ان چار باتوں پر عمل پیرا رہے۔ ۔ ۔
  1. جو ایمان لائے (اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم، یوم حساب، یوم آخرت، جنت دوزخ وغیرہ پر)
  2. جنہوں نے نیک اعمال کئے (نماز، روزہ، حج،زکوٰۃ، سمیت جملہ فرائض و مستحبات پر عمل اور جملہ” کارِ حرام“ سے اجتناب کیا)
  3. ”حق باتوں“ کی تلقین کرتے رہے
  4. اور حق باتو ں کی تلقین کرتے رہنےکی وجہ سے پیش آنے والے ”مصائب“ پر صبر کرتے رہے
اُخروی نجات کا دارومدار اس ”چار نکاتی ایجنڈہ“ کو اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھا کر بیان کیا ہے، اور ایک حدیث کے مطابق زمانہ خود اللہ تعالیٰ ہے، گویا یہاں اللہ نے خود اپنی قسم کھائی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر ”نیک و پارسا لوگ“ محض اول الذکر دوباتوں پر عمل کرنے کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔ اور یہ نہیں ”جانتے“ کہ ہم جب تک ان چاروں لازمی ” امتحانی پرچوں“ کو حل کرکے ہر ایک میں ”پاسنگ مارکس“ حاصل نہیں کرتے، اس سورۃ کی رو سے آخرت میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ الا یہ کہ اللہ اپنے ”خصوصی اختیارات“ کو استعمال کرتے ہوئے، جسے چاہے، کامیاب کردے کہ وہ قادر مطلق ہے۔
پس نوشت: اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس مراسلہ کو برخوردار امین کو بھی فارورڈ کردیں،شکریہ
طالبِ دعا ،
آپ کا بھائی یوسف
مکتوب۔2:​
مہ جبین بہنا! میرے دل میں بھانجے امین کی طرف سے کوئی مَیل ہے ہی نہیں،جسے صاف کرنے کی کوشش کی جائے۔:D امین کی اِس بے ربط اور کنفیوزڈ قسم کی تحریر نے مجھے، آپ کو اور کئی دیگر لوگوں کو بھی فوری طور پر ایک ”غلط پیغام“ دیا، جس کی ہم سب نے ”مذمت“ کی۔ اب اُس کی وضاحت کے بعد نہ اُس کا ”پیغام“ غلط رہا، نہ اِن ”مذمتوں“ میں کوئی دَم باقی رہا، لہٰذا معاملہ رفع دفع ہی سمجھیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے نام ارسال کردہ مکتوب، وہاں بھی نقل کردوں۔ آپ کی اجازت اس لئے ضروری ہے کہ یہ آپ کے نام میرا ذاتی پیغام ہے، جسے ”نشر“ کرنے کے لئے آپ کی اجازت ضروری ہے۔ اور یہ اتنا ضروری بھی نہیں ہے، اگر آپ نہ چاہیں تو۔

والسلام
آپ کا بھائی​
 
کم از کم میں اپنے بارے میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے امیں صاحب کی تحریرسے ایسےکوئی مطالب ا خذ نہیں کیےتھا جو غداری، محب الوطنی کی کمی،غلط تربیت یا گستاخانہ خیالات کی ذیل میں آتے ہوں :)۔۔۔بلکہ مجھے انکی یہ تحریر اس پہلو سے پسند آئی کہ انہوں نے نیک نیتی اور دیانتداری بلکہ معصومیت کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ کنفیوژن سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہوتا ہے کہ اس کنفیوژن کے وجود کو کھلے دل سے تسلیم کرکے، اسکا اظہار مناسب الفاظ میں کردیا جائے اور دل و دماغ کی کھڑکیوں کو کھلا رہنے دیا جائے کہ شاید کبھی تاذہ ہوا کے اسے جھونکے آئیں جو کنفیوژن کی اس حبس جیسی کیفیت کا خاتمہ کرسکیں ۔۔۔ چنانچہ میں نے امین صاحب کو اپنے تئیں کنفیوژ سمجھا، اور اسی لئے اس دھاگے میں اظہارِ خیال کیا۔۔۔اگر میں انکو ان خیالات کی بند گلی کا اسیر سمجھتا تو شائد اس دھاگے میں حصہ نہ لیتا کیونکہ یہ محض بحث برائے بحث ہی ہوتی۔
والسلام :)
 

محمد امین

لائبریرین
کم از کم میں اپنے بارے میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے امیں صاحب کی تحریرسے ایسےکوئی مطالب ا خذ نہیں کیےتھا جو غداری، محب الوطنی کی کمی،غلط تربیت یا گستاخانہ خیالات کی ذیل میں آتے ہوں :)۔۔۔ بلکہ مجھے انکی یہ تحریر اس پہلو سے پسند آئی کہ انہوں نے نیک نیتی اور دیانتداری بلکہ معصومیت کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ کنفیوژن سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہوتا ہے کہ اس کنفیوژن کے وجود کو کھلے دل سے تسلیم کرکے، اسکا اظہار مناسب الفاظ میں کردیا جائے اور دل و دماغ کی کھڑکیوں کو کھلا رہنے دیا جائے کہ شاید کبھی تاذہ ہوا کے اسے جھونکے آئیں جو کنفیوژن کی اس حبس جیسی کیفیت کا خاتمہ کرسکیں ۔۔۔ چنانچہ میں نے امین صاحب کو اپنے تئیں کنفیوژ سمجھا، اور اسی لئے اس دھاگے میں اظہارِ خیال کیا۔۔۔ اگر میں انکو ان خیالات کی بند گلی کا اسیر سمجھتا تو شائد اس دھاگے میں حصہ نہ لیتا کیونکہ یہ محض بحث برائے بحث ہی ہوتی۔
والسلام :)

جی میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ خاموش رہنے سے بہتر اظہارِ خیال ہے۔ یہ تو شاید میں نے کچھ بھی نہیں لکھا۔ جامعہ میں ہمارا ایک انٹیلیکچوال گروپ ہوا کرتا تھا جہ کہ اب بھی برقرار ہے۔ اور ہمارا کام ہی تنقید کرنا ہوتا تھا۔ اس تنقید سے ہم نے خود بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ تنقید برائے تنقید محض گمراہی ہے۔ تنقید کر کے اصلاح کے راستے کھولنا ہی فلاح ہے۔ تنقید نہ ہو تو معاشرہ بے سمت ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ جس کسی نے بھی خود کو مکمل یا ہدایت یافتہ سمجھ لیا، دراصل وہی گمراہ ہے۔ اسی لیے میں ان بنیادی سوالات کو اپنی تمام تر جہالت کے ساتھ پیش کرتا رہتا ہوں اکثر کہ سوال اگر عالمانہ انداز میں کیا جائے تو اس کا جواب شاید مشکل ہی سے ملے۔
 

محمد امین

لائبریرین
میں یہ سمجھتا ہوں کہ نئی نسل پاکستان کو ایک پلے گراؤنڈ سمجھتی ہے۔ ایسا پلے گراؤنڈ کہ جس پر کوئی گروپ قبضہ کر کے آبادی بنا لے تو اس نئی نسل کو غصہ آجائے۔ یہ میں نے اس معاشرے کے ساتھ رہ کر اور اپنے ہم عمروں کے ساتھ رہ رہ کر محسوس کیا ہے۔

اور اس پلے گراؤنڈ کی خاطر ہم نے اپنے اندر ایک طرح کا "بغضِ معاویہ" پال رکھا ہے۔ تمام تر سیاسی باتوں سے قطعِ نظر، یہ ترانے، یہ جھنڈے، یہ ملی نغمے اور یہ حب الوطنی کی باتیں اس وقت تک بیکار ہیں کہ جب تک مجھ جیسے نوجوانوں کو اس ملک میں تعمیر کے مواقع نہیں ملیں گے۔ معیاری تعلیمی ادارے، معیاری ترقیاتی ادارے، معیاری صنعتیں، یہ بنیادی اجزاء ہیں کسی بھی "ملک" کو "قوم" بنانے میں۔ گھر، گاڑی، نوکری اور پرسکون زندگی جن کے پاس ہے ان کے لیے تو پاکستان سب کچھ ہے۔ جن بیچاروں کے لہو کو نچوڑ نچوڑ کر پیاسی زمین کی آبیاری کی جا رہی ہے ان سے پوچھا جائے ملت کیا ہے، قوم کیا ہے تو وہ شاید ان کے لغوی معنیٰ بھی نہ بتا سکیں۔ "پیاسی زمین کو تو ایک جرعۂ خون ہے بہت۔۔۔میرا لہو نچوڑ کر پیاس بجھا دیا کرو"۔۔۔

مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا ہم نے سمجھ رکھا ہے۔ 65 سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا۔ چین افیون پیتے پیتے مائیکرو پروسیسر چپس بنانے لگا ہے۔ جاپان ایٹم بم کے حملے سے سنبھل کر روبوٹس کی دنیا میں انقلاب برپا کرچکاہے۔ خطۂ سندھ ساگر کی تاریخ 65 سال کی نہیں ہے۔ ہزار ہا سالوں پر محیط تاریخ ہے۔ نہ ہی ہم افیون پیتے تھے اور نہ ہی ہمارے اوپر کوئی ایٹم بم گرایا گیا۔ فقط چند جنگیں ہیں ہمارے توشہ خانے میں 1947 کے بعد۔ جب کہ یورپ کو دیکھیے، عالمی جنگ میں کیا حال ہوا تھا اور آج کیا حال ہے۔ مجھے فلسفیانہ موشگافیاں کرنی نہیں آتیں۔ میں جو دیکھتا ہوں اسی سے اخذ کرتا ہوں۔ اللہ نے کسی بھی قوم کو کم زیادہ عقل نہیں دی۔ جس نے اس عقل کو استعمال کیا وہ ترقی پر ہے اور دنیا پر راج کرتا ہے۔ ہم تو آج اپنے ہی ملک پر راج نہیں کرسکتے۔ لوگوں کو سبز باغ دکھانا، سہانے سپنے دکھانا اور پاکستان کی طاقت، قوت اور "الہامیت" کا سبق پڑھانا خود پاکستان سے ہی دشمنی ہے اور یقیناً یہ ہمیں مہنگی پڑ رہی ہے۔

کالے کو سفید قرار دے کر میں اپنے ملک سے دشمنی کا مرتکب نہیں ہوسکتا تو جب تک مجھے کالا نظر آتا رہے گا میں اس کا اظہار بھی کرتا رہوں گا۔ اس پر چاہے مجھے کوئی غدار کہے یا کافر۔

اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
 
اچھی پوسٹ کی ہے محمد امین ۔

بہت سے سوالات کا جواب کئی لوگ دے چکے ہیں ، فرحت نے کئی اہم سوالات کا عمدگی سے جواب دیا ہے اورمیں بھی ان سے متفق ہوں۔

ایک چیز کی تشریح کر دوں کہ پاکستان اب کیا ہے ، کس طرف جا رہا ہے ، اس پر کیسے حکمران ہیں ، اس کے عوام کا کیا طرز عمل ہے یہ اس کی پیدائش اور وجود کے حقائق کی تشریح نہیں ہے ۔ ملکوں اور قوموں کی تاریخ میں بہت سے تغیرات اور تبدیلیاں آتی ہیں اور ایک عرصہ بعد تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ماضی سے بالکل متضاد سمت میں سفر شروع ہو گیا ہے۔

پاکستان ایک نظریاتی اساس پر قائم ہوا ، اس کے سوا کوئی اور جواز تھا ہی نہیں پاکستان کے قیام کے لیے۔

پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کی سمت کس نے طے کی اور کس طرف ہو گئی ، یہ اتنی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔

اب پاکستان کی ابتدا کو فراموش بھی کر دیں اور بھی بھول جائیں کہ اس کا مقصد کیا تھا اور یہ کس لیے بنایا گیا تو بھی یہ سوال تو اپنی جگہ قائم ہی ہے اور رہے گا کہ اب کیا کرنا ہے اور کس طرف آگے بڑھنا ہے ۔

کوئی بھی شخص اب بھی چاہے وہ کسی بھی طرز فکر سے تعلق رکھتا ہو اس بات پر تو متفق نہ ہوگا کہ پاکستان کو کرپشن کی راہ پر ہی گامزن رہنا چاہیے یا پاکستان میں تطہیر کا عمل شروع نہیں ہونا چاہیے یا پاکستان میں امن امان ، تعلیم ، صحت جیسی بنیادی سہولیات کے حصول کے لیے کام نہیں کرنا چاہیے۔

کچھ چیزیں آج کے دور میں بہت ہی غیر حقیقی اور افسانوی لگ رہی ہیں مگر ہر دور میں ایسی نہیں تھیں اور مستقبل میں بھی ان کے حقیقی اور قابل عمل ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ جب ملک کے حکمران بحیثیت مجموعی بدعنوان ہوں اور اسے پھیلانے پر گامزن ہو جائیں تو گراوٹ اور تنزلی کا صدیوں پر مبنی سفر سالوں میں طے ہونے لگتا ہے۔ اس کے لیے کسی مثال یا فلسفہ کی ضرورت نہیں ، موجودہ حکمران بہترین طریقے سے یہ کام کر رہے ہیں اور بہت سے قابل عمل اور حقیقی نظریات اب افسانوی اور تخیلاتی لگنے لگے ہیں۔

جو کچھ میں پڑھا کرتا تھا وہ اس قدر غیر حقیقی اور افسانوی نہیں لگا کرتا تھا جو آج کے دور میں پچھلے دور کا موازنہ کرکے خود مجھے بھی محسوس ہوتا ہے۔
 
Top