حاملہ ہونے کے باوجود محسن عباس نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، اہلیہ کا الزام

جاسم محمد

محفلین
حاملہ ہونے کے باوجود محسن عباس نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، اہلیہ کا الزام
ویب ڈیسک اتوار 21 جولائ 2019
1751641-mohsiinfatima-1563689031-674-640x480.jpg

شوہر نے نہ صرف جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ذہنی ٹارچر بھی کیا ، اہلیہ محسن عباس حیدر : فوٹو فیس بک

کراچی: فلم ’’نامعلوم افراد‘‘ سے شہرت حاصل کرنے والے اداکار محسن عباس حیدر کی اہلیہ فاطمہ نے الزام عائد کیا ہے کہ محسن نے انہیں بدترین جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

اداکاروگلوکار محسن عباس حیدر فلموں کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی کافی سرگرم رہتے ہیں اور اپنی زندگی سے جڑی خوشیاں اور غم اپنے چاہنے والوں کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ڈپریشن سے گزررہے ہیں۔ تاہم اپنی زندگی کے تمام معاملات لوگوں سے شیئر کرنے والے اداکار محسن عباس کی اہلیہ نے ان کا بالکل منفرد روپ لوگوں کو بتایا ہے جس سے آج تک کوئی واقف نہیں تھا۔

محسن عباس حیدر کی اہلیہ فاطمہ سہیل نے فیس بک پر طویل پوسٹ میں اپنے شوہر کے ظلم کی داستان بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے شوہر نے نہ صرف انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ذہنی ٹارچر بھی کیا اوراب وہ یہ ظلم برداشت کرتے کرتے تھک گئی ہیں۔

فاطمہ نے لکھا ’’ظلم برداشت کرنا بھی گناہ ہے‘‘، میں فاطمہ ہوں محسن عباس حیدر کی بیوی۔ 26 نومبر 2018 کو مجھے پتہ چلا کہ میرا شوہر مجھے دھوکا دے رہا ہے اور جب میں نے اس بارے میں اس سے بات کی تو بجائے شرمندہ ہونے کے اس نے مجھے مارنا شروع کردیا۔

فاطمہ نے لکھا محسن نے اس بات کا بھی احساس نہیں کیا کہ میں اس وقت حاملہ تھی اورمجھے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، اس نے میرے بال کھینچے، مجھے فرش پر گرادیا، مجھے لاتیں ماریں اور میرے چہرے پر گھونسے بھی مارے اس کے بعد مجھے دیوار میں دے مارا۔ تاہم میں اپنے گھر والوں کے بجائے اپنی دوست کے ساتھ اسپتال گئی کیونکہ میں بہت پریشان تھی۔

0-m-1563688873.jpg


ڈاکٹر نے بھی میرا چیک اپ کرنے سے انکار کردیا کیونکہ یہ پولیس کیس تھا لیکن میں نے پولیس میں شکایت درج نہیں کرائی کیونکہ مجھے یہ سب ہضم کرنے کے لیے تھوڑا وقت چاہئیے تھا، الٹراساؤنڈ کے بعد جب مجھے پتہ چلا کہ میرا بچہ محفوظ ہے تو مجھے سکون ملا اور اپنے بچے کے لیے میں نے اس شادی کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا۔

20 مئی 2019 کو جب میں نے بیٹے کولاہورمیں جنم دیا اس وقت میرا شوہر کراچی میں اپنی گرل فرینڈ نازش جہانگیر کے ساتھ رنگ رلیاں منارہاتھا، بچے کے دنیا میں آنے کے دو دن بعد محسن صرف تصاویر لینے کے لیے آیا تاکہ پبلسٹی حاصل کرسکے، بعد میں اس نے ڈپریشن والی پوسٹ کی تاکہ لوگوں کی توجہ حاصل کرسکے۔ یہاں تک کہ اس نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ اس کا بیٹا کیسا ہے اور تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا ڈراما رچایا صرف پبلسٹی حاصل کرنے کے لیے۔

17 جولائی کو جب میں نے اس سے ہمارے بیٹے کی ذمہ داری لینے کے لیے کہا تو اس نے ایک بار پھر مجھے مارنا شروع کردیا لیکن اب بس! میں یہ پوسٹ کررہی ہوں ان تمام لڑکیوں کے لیے جو اس طرح کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں آپ کے لیے کوئی نہیں آئے گا آپ کو اپنے لیے خود آگے آنا ہوگا۔

0-m-1563688814.jpg


مجھے نہیں معلوم میں اکیلے اپنے بچے کی پرورش کیسے کروں گی لیکن مجھے معلوم ہے اللہ میرے ساتھ ہے۔ میں جسمانی اور زبانی تشدد اور طلاق کی دھمکیوں سے تنگ آچکی ہوں۔ اس کے بعد فاطمہ نے محسن کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا مسٹر محسن میں تمہیں عدالت میں ملوں گی۔

واضح رہے کہ محسن عباس حیدر’’نامعلوم افراد‘‘، ’’نامعلوم افراد2‘‘،’’لوڈویڈنگ‘‘ جیسی فلموں میں کام کرچکے ہیں جب کہ ان کی حال ہی میں فلم’’باجی‘‘ریلیز ہوئی ہے۔
 

La Alma

لائبریرین
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت ڈومیسٹک وائلنس سے اس قدر immune ہو چکی ہے کہ ایسے واقعات کو میاں بیوی کا ذاتی معاملہ گردان کر نظر انداز کر دیتی ہے۔
ممکن ہے محسن عباس کی بیوی وقتی طور پر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ لیکن اس لب کشائی کی قیمت اسے بہرحال چکانی پڑے گی۔
اس نام نہاد اسلامی معاشرے میں cheating on wife کو باآسانی اسلامائز کیا جا سکتا ہے۔ موصوف بیان بھی دے چکے ہیں کہ ان کی اپنی بیوی کے ساتھ compatibility نہیں، اور ہو سکتا ہے وہ دوسری شادی کر لیں۔ ظاہر ہے اگر اس کی جگہ کوئی نیک اور دیندار بیوی ہوتی تو شوہر کے اس شرعی حق کا مکمل احترام کرتی تو اس تشدد کی نوبت ہی نہ آتی۔ ویسے بھی ایک مذہبی مکتبہ فکر کے نزدیک نافرمان بیوی پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے، صرف اس بات کا خیال رہے کہ ضرب اتنی شدید نہ ہو جس سے ہڈی پسلی ٹوٹ جائے۔ ایسے حالات میں ایک عورت کا اپنی ذات کے لیے دفاع تو انتہائی کمزور ہو گا۔
 

La Alma

لائبریرین
یہ تو واقعی بہت تشویش کی بات ہے۔ جسمانی تشدد کا جواز مذہب سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کی روک تھام ضروری ہے۔
اس بات کا دھیان رہے کہ یہاں بات اسلام کی نہیں، بلکہ ان شقی القلب افراد کی ہو رہی ہے جو مذہب کی من پسند تشریحات کرنے اور ظلم اور زیادتی کو بھی مذہبی لبادہ پہنانے سے نہیں چوکتے۔
 

جان

محفلین
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت ڈومیسٹک وائلنس سے اس قدر immune ہو چکی ہے کہ ایسے واقعات کو میاں بیوی کا ذاتی معاملہ گردان کر نظر انداز کر دیتی ہے۔
ممکن ہے محسن عباس کی بیوی وقتی طور پر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ لیکن اس لب کشائی کی قیمت اسے بہرحال چکانی پڑے گی۔
اس نام نہاد اسلامی معاشرے میں cheating on wife کو باآسانی اسلامائز کیا جا سکتا ہے۔ موصوف بیان بھی دے چکے ہیں کہ ان کی اپنی بیوی کے ساتھ compatibility نہیں، اور ہو سکتا ہے وہ دوسری شادی کر لیں۔ ظاہر ہے اگر اس کی جگہ کوئی نیک اور دیندار بیوی ہوتی تو شوہر کے اس شرعی حق کا مکمل احترام کرتی تو اس تشدد کی نوبت ہی نہ آتی۔ ویسے بھی ایک مذہبی مکتبہ فکر کے نزدیک نافرمان بیوی پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے، صرف اس بات کا خیال رہے کہ ضرب اتنی شدید نہ ہو جس سے ہڈی پسلی ٹوٹ جائے۔ ایسے حالات میں ایک عورت کا اپنی ذات کے لیے دفاع تو انتہائی کمزور ہو گا۔
گو کہ موجودہ اسلامی معاشرے میں عورت کو وہ مقام حاصل نہیں جو اسے قران پاک نے دیا ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ درحقیقت غلطی پر کون ہے۔ دونوں ہی معاشرتی رجحان سے فائدہ اٹھانے میں ملوث ہو سکتے ہیں یعنی عورت معاشرے میں رائج عورت کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بنیاد بنا کر اپنا کیس مضبوط کرنا چاہتی ہو یا پھر مرد معاشرے میں عورت کے ساتھ رائج رویہ سے فائدہ اٹھا کر حقیقت میں زیادتی کا نشانہ بناتا ہو۔ دونوں پہلوؤں کو باریک بینی سے دیکھے بغیر الزام الزام ہی رہے گا اور مسئلے کا کوئی حل نہ نکل پائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس بات کا دھیان رہے کہ یہاں بات اسلام کی نہیں، بلکہ ان شقی القلب افراد کی ہو رہی ہے جو مذہب کی من پسند تشریحات کرنے اور ظلم اور زیادتی کو بھی مذہبی لبادہ پہنانے سے نہیں چوکتے۔
آپ کا موقف درست ہے۔ مذہب نے نافرمان بیوی پر تشدد کرنے سے قبل بہت سی شرائط لاگو کی ہیں جن کو یکسر نظر اندا ز کر دیا جاتا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت ڈومیسٹک وائلنس سے اس قدر immune ہو چکی ہے کہ ایسے واقعات کو میاں بیوی کا ذاتی معاملہ گردان کر نظر انداز کر دیتی ہے۔
ممکن ہے محسن عباس کی بیوی وقتی طور پر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ لیکن اس لب کشائی کی قیمت اسے بہرحال چکانی پڑے گی۔
اس نام نہاد اسلامی معاشرے میں cheating on wife کو باآسانی اسلامائز کیا جا سکتا ہے۔ موصوف بیان بھی دے چکے ہیں کہ ان کی اپنی بیوی کے ساتھ compatibility نہیں، اور ہو سکتا ہے وہ دوسری شادی کر لیں۔ ظاہر ہے اگر اس کی جگہ کوئی نیک اور دیندار بیوی ہوتی تو شوہر کے اس شرعی حق کا مکمل احترام کرتی تو اس تشدد کی نوبت ہی نہ آتی۔ ویسے بھی ایک مذہبی مکتبہ فکر کے نزدیک نافرمان بیوی پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے، صرف اس بات کا خیال رہے کہ ضرب اتنی شدید نہ ہو جس سے ہڈی پسلی ٹوٹ جائے۔ ایسے حالات میں ایک عورت کا اپنی ذات کے لیے دفاع تو انتہائی کمزور ہو گا۔
افسوس...
اسلام کو بدنام کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آگیا...
شوبزنس کے ایک جوڑے جن کی بظاہر اسلام سے کوئی وابستگی نظر نہیں آتی، اس کے اپنے ذاتی مکروہ فعل کو اسلام سے بغض و عناد کی وجہ سے ایسا پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جیسے کسی بہت بڑے مذہبی آدمی نے اسلام کے نام پر اپنی بیوی کو مارا ہو...
بھانڈ میراثیوں کے ذاتی کرتوتوں پر حسب سابق زبردستی اسلام کو بدنام کرنے کے لیے گھسیٹ کر لایا ہی گیا ہے تو لازم یے کہ تمام شرعی دلائل کے ساتھ واضح کیا جائے کہ کیا اسلام بیوی کے ساتھ اس قسم کے سلوک کی ترغیب یا اجازت دیتا ہے یا یہ متنفرین اسلام کے من پسند منورنجن فراہم کرنے والے بھانڈ میراثیوں کے ذاتی کرتوت ہیں!!!
 

La Alma

لائبریرین
گو کہ موجودہ اسلامی معاشرے میں عورت کو وہ مقام حاصل نہیں جو اسے قران پاک نے دیا ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ درحقیقت غلطی پر کون ہے۔ دونوں ہی معاشرتی رجحان سے فائدہ اٹھانے میں ملوث ہو سکتے ہیں یعنی عورت معاشرے میں رائج عورت کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بنیاد بنا کر اپنا کیس مضبوط کرنا چاہتی ہو یا پھر مرد معاشرے میں عورت کے ساتھ رائج رویہ سے فائدہ اٹھا کر حقیقت میں زیادتی کا نشانہ بناتا ہو۔ دونوں پہلوؤں کو باریک بینی سے دیکھے بغیر الزام الزام ہی رہے گا اور مسئلے کا کوئی حل نہ نکل پائے گا۔
اس بات سے کلی اتفاق ہے کہ بعض خواتین بھی وومن کارڈ کھیلتی ہیں اور اس کو بنیاد بنا کر کسی شریف النفس انسان کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دیتی ہیں۔ برے بھلے لوگ تو ہر دو جنس میں پائے جاتے ہیں۔
ان صاحب کے دیے گئے کچھ انٹرویوز اور قریبی دوستوں کے بیانات سے تو یہی لگتا ہے کہ ان کی بیوی نے جو الزامات عائد کیے ہیں وہ کافی حد تک درست ہیں۔
ویسے تو ایسے موضوعات پر بات کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔ لیکن آج کل جس بے رحمی سے شریعت کے نام پر ظلم کا دفاع کیا جاتا ہے، وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ زیادہ تکلیف دہ امر معاشرے کی مجموعی بے حسی ہے۔ آخر اسلام نے کوئی تو ضابطہ اخلاق دیا ہو گا۔ یہاں اگر کوئی اس موضوع پر بات کرے تو اسے مذہب پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔
 

La Alma

لائبریرین
آپ کا موقف درست ہے۔ مذہب نے نافرمان بیوی پر تشدد کرنے سے قبل بہت سی شرائط لاگو کی ہیں جن کو یکسر نظر اندا ز کر دیا جاتا ہے۔
تشدد تو خیر کسی صورت جائز نہیں۔
میرے خیال سے آپ جس مرحلہ وار اصلاح کا ذکر کر رہے ہیں وہ قرآن کی اس آیت میں ہے۔ جہاں وَاضْرِبُوهُنَّ کا ترجمہ " مارو " کیا جاتا ہے۔
وَاللَّاتِی تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْهِنَّ سَبِیلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ کَانَ عَلِیًا کَبِیرًا
ترجمہ: جن عورتوں کی سرکشی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور اُنہیں مارو پھر اگر وہ سرکشی ترک کر دیں تو اُن پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو بے شک اللہ سب سے بلند اور جلیل القدر ہے۔

قرآن کریم میں "ضرب" باز آ جانا،
چھوڑ دینا، نظر انداز کر دینا ، یا منہ پھیر لینا کے معنوں میں بھی آیا ہے۔
أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً أَنْ كُنْتُمْ قَوْماً مُسْرِفِينَ
بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے۔

کیا مارنے سے اصلاح ہوتی ہے یا بات مزید بگڑتی ہے۔ اگر اولاد کی تربیت کے حوالے سے والدین کو حکم ہوتا تو بات سمجھ میں بھی آتی_ چہ جائیکہ ایک عاقل اور بالغ عورت کو مار کر سمجھایا جائے۔
اگر ضرب کا ترجمہ، سرزنش کے طور پر ہلکا سا مارنا بھی تصور کیا جائے تو یہ اختیار صرف خواص تک ہی محدود رہے گا۔ کیونکہ ہر کوئی اتنا تحمل مزاج یا معاملہ شناس نہیں ہو سکتا۔ Anger Management ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کچھ لوگ تو اس کی باقاعدہ تربیت بھی لیتے ہیں۔
وضاحت کے طور پر عرض کرتی چلوں کہ قرآنِ حکیم میں محکم (مفہوم کے اعتبار سے واضح) آیات کے ساتھ ساتھ متشابہ(کثیر المعانی یا جن کا مطلب بجز خدا کوئی نہ جانتا ہو،جیسا کہ حروف مقطعات وغیرہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے) آیات بھی ہیں۔ ان متشابہات میں انسان کے لیے کڑا امتحان ہے۔ خدا نے ایسی آیات کی تشریح کا ایک بنیادی اصول یہ بیان کیا ہے کہ اس سے نقصِ امن یا کسی قسم کے فساد کا احتمال نہیں ہوتا۔ اب یہ تدبر کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ موقع و محل، زمینی اور زمانی حقائق کی مناسبت سے ایسی آیات کے کس لفظ کے کونسے معانی کو دوسرے معانی پر ترجیح دیتا ہے جس سے فساد پیدا نہ ہو۔ بیشک ہر بات کا صحیح علم تو خدا کو ہی حاصل ہے۔

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ( 7 ) آل عمران
ترجمہ: وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
 

La Alma

لائبریرین
افسوس...
اسلام کو بدنام کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آگیا...
شوبزنس کے ایک جوڑے جن کی بظاہر اسلام سے کوئی وابستگی نظر نہیں آتی، اس کے اپنے ذاتی مکروہ فعل کو اسلام سے بغض و عناد کی وجہ سے ایسا پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جیسے کسی بہت بڑے مذہبی آدمی نے اسلام کے نام پر اپنی بیوی کو مارا ہو...
بھانڈ میراثیوں کے ذاتی کرتوتوں پر حسب سابق زبردستی اسلام کو بدنام کرنے کے لیے گھسیٹ کر لایا ہی گیا ہے تو لازم یے کہ تمام شرعی دلائل کے ساتھ واضح کیا جائے کہ کیا اسلام بیوی کے ساتھ اس قسم کے سلوک کی ترغیب یا اجازت دیتا ہے یا یہ متنفرین اسلام کے من پسند منورنجن فراہم کرنے والے بھانڈ میراثیوں کے ذاتی کرتوت ہیں!!!
حسنِ ظن سے کام لیا کریں۔
کیا اسلام کی بنیاد اتنی کھوکھلی ہے کہ مسلمانوں کے غلط رویوں اور ان میں رائج گمراہ کن عقائد پر بات بھی کرنے سے اس کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی۔
شو بز سے وابستہ لوگ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمارے جیسے ہی انسان ہیں۔ میرے نزدیک تو ہر کلمہ گو، چاہے وہ (بقول آپکے) بھانڈ میراثی ہو یا منبر پر بیٹھا مولوی، مسلمان ہی کہلائے گا۔ ایمان کی اصل کیفیت تو بس خدا کو ہی معلوم ہے۔
اور آپ فکر نہ کریں کسی کے اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوششوں سے اسلام ہرگز بدنام نہیں ہو گا۔ دین کی حفاظت کا ذمہ خدا نے اپنے سر لے رکھا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
حسنِ ظن سے کام لیا کریں۔
کیا اسلام کی بنیاد اتنی کھوکھلی ہے کہ مسلمانوں کے غلط رویوں اور ان میں رائج گمراہ کن عقائد پر بات بھی کرنے سے اس کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی۔
شو بز سے وابستہ لوگ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمارے جیسے ہی انسان ہیں۔ میرے نزدیک تو ہر کلمہ گو، چاہے وہ (بقول آپکے) بھانڈ میراثی ہو یا منبر پر بیٹھا مولوی، مسلمان ہی کہلائے گا۔ ایمان کی اصل کیفیت تو بس خدا کو ہی معلوم ہے۔
اور آپ فکر نہ کریں کسی کے اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوششوں سے اسلام ہرگز بدنام نہیں ہو گا۔ دین کی حفاظت کا ذمہ خدا نے اپنے سر لے رکھا ہے۔
اسلام بدنام ہوتا ہے یا نہیں لیکن ہمارے اس اشکال کا حل نہیں ہوا کہ میاں بیوی کے آپس کے اختلاف کی خبر میں زبردستی ناپسندیدگی کے اسلام کا تذکرہ کرنے کی خاص ضرورت کیا پیش آگئی تھی؟؟؟
بقول فیض:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
 

سید عمران

محفلین
تشدد تو خیر کسی صورت جائز نہیں۔
میرے خیال سے آپ جس مرحلہ وار اصلاح کا ذکر کر رہے ہیں وہ قرآن کی اس آیت میں ہے۔ جہاں وَاضْرِبُوهُنَّ کا ترجمہ " مارو " کیا جاتا ہے۔
وَاللَّاتِی تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْهِنَّ سَبِیلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ کَانَ عَلِیًا کَبِیرًا
ترجمہ: جن عورتوں کی سرکشی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور اُنہیں مارو پھر اگر وہ سرکشی ترک کر دیں تو اُن پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو بے شک اللہ سب سے بلند اور جلیل القدر ہے۔

قرآن کریم میں "ضرب" باز آ جانا،
چھوڑ دینا، نظر انداز کر دینا ، یا منہ پھیر لینا کے معنوں میں بھی آیا ہے۔
أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً أَنْ كُنْتُمْ قَوْماً مُسْرِفِينَ
بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے۔

کیا مارنے سے اصلاح ہوتی ہے یا بات مزید بگڑتی ہے۔ اگر اولاد کی تربیت کے حوالے سے والدین کو حکم ہوتا تو بات سمجھ میں بھی آتی_ چہ جائیکہ ایک عاقل اور بالغ عورت کو مار کر سمجھایا جائے۔
اگر ضرب کا ترجمہ، سرزنش کے طور پر ہلکا سا مارنا بھی تصور کیا جائے تو یہ اختیار صرف خواص تک ہی محدود رہے گا۔ کیونکہ ہر کوئی اتنا تحمل مزاج یا معاملہ شناس نہیں ہو سکتا۔ Anger Management ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کچھ لوگ تو اس کی باقاعدہ تربیت بھی لیتے ہیں۔
وضاحت کے طور پر عرض کرتی چلوں کہ قرآنِ حکیم میں محکم (مفہوم کے اعتبار سے واضح) آیات کے ساتھ ساتھ متشابہ(کثیر المعانی یا جن کا مطلب بجز خدا کوئی نہ جانتا ہو،جیسا کہ حروف مقطعات وغیرہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے) آیات بھی ہیں۔ ان متشابہات میں انسان کے لیے کڑا امتحان ہے۔ خدا نے ایسی آیات کی تشریح کا ایک بنیادی اصول یہ بیان کیا ہے کہ اس سے نقصِ امن یا کسی قسم کے فساد کا احتمال نہیں ہوتا۔ اب یہ تدبر کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ موقع و محل، زمینی اور زمانی حقائق کی مناسبت سے ایسی آیات کے کس لفظ کے کونسے معانی کو دوسرے معانی پر ترجیح دیتا ہے جس سے فساد پیدا نہ ہو۔ بیشک ہر بات کا صحیح علم تو خدا کو ہی حاصل ہے۔

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ( 7 ) آل عمران
ترجمہ: وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
محترمہ ابھی آپ نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے...
ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر فلسفہ بگھارنے سے معاشرے میں کیا ہورہا ہے اس کی گرد تک کو نہیں پہنچا جا سکتا...
اسی رمضان سے پہلے ایک صاحب اپنے سالے کے ساتھ گردن سہلاتے آئے. معلوم ہوا بیوی اتنی تیز مزاج کی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر شوہر پر ہاتھ اٹھاتی ہے باقاعدہ دھینگا مشتی کرتی ہے اور رات تو حد ہی ہوگئی شوہر کے سینے پر سوار ہوکر اس کی گردن اتنی زور سے مروڑی کہ گردن کےمہرے ہل گئے...
شوہر صاحب صرف بچی کی وجہ سے سب کچھ برداشت کرتے رہے...
لیکن یہ معاملہ حد سے بڑھ گیا تھا گردن کی ہڈی ٹوٹنے پر موت بھی واقع ہوسکتی تھی...
پھر اس عورت کے بھائی نے آکر اسے خوب اچھی طرح دھنا. بقول بھائی دیر تک پسلیاں سہلاتی رہی ساتھ ہی بھائی نے دھمکی بھی دی کہ اگر شوہر سے لڑ کر اس کے گھر سے نکلیں تو ہمارے گھر آنے کی کوئی ضرورت نہیں. اس کے علاوہ جہاں چاہے چلی جانا...
وہ دن ہے اور آج کا دن بالکل سیدھی ہوگئی لڑائی جھگڑا تک نہیں کرتی ہاتھ اٹھانا تو دور کی بات...
طلاق دے کر معاملہ ختم کرنا سب سے آخری مرحلہ ہے...
اس سے پہلے جہاں تک ممکن ہوسکے طلاق تک نوبت آنے سے بچنا چاہیے...
مسائل پر بحث کرنا ہر کسی کو زیبا نہیں دیتا...
اللہ کے دین کے احکام کو سیاست یا شوبز پر محمول نہ کریں کہ جو دل چاہا اپنی طبیعت سے بول کر دل ہلکا کرلیا...
لاتوں کے بھوتوں کو باتوں سے بات سمجھ میں نہ آئے تو ان کی زبان میں سمجھانی پڑتی ہے...
اسلام کو انسانیت کا درس دینے کی کوئی ضرورت نہیں وہ ان مسائل پر سیر حاصل کامل بحث مکمل کرچکا ہے...
جو جس فن کا ماہر ہو اسی میدان میں زور آزمائی کرے...
ایک مستری کو زیب نہیں دیتا کہ وہ مکمل علم حاصل کیے بغیر میڈیکل سرجری کی چراگاہ میں منہ مارے!!!
 

جان

محفلین
افسوس...
اسلام کو بدنام کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آگیا...
شوبزنس کے ایک جوڑے جن کی بظاہر اسلام سے کوئی وابستگی نظر نہیں آتی، اس کے اپنے ذاتی مکروہ فعل کو اسلام سے بغض و عناد کی وجہ سے ایسا پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جیسے کسی بہت بڑے مذہبی آدمی نے اسلام کے نام پر اپنی بیوی کو مارا ہو...
بھانڈ میراثیوں کے ذاتی کرتوتوں پر حسب سابق زبردستی اسلام کو بدنام کرنے کے لیے گھسیٹ کر لایا ہی گیا ہے تو لازم یے کہ تمام شرعی دلائل کے ساتھ واضح کیا جائے کہ کیا اسلام بیوی کے ساتھ اس قسم کے سلوک کی ترغیب یا اجازت دیتا ہے یا یہ متنفرین اسلام کے من پسند منورنجن فراہم کرنے والے بھانڈ میراثیوں کے ذاتی کرتوت ہیں!!!
ویسے تو اکثر مسلمانوں کو ہر وقت یہی شبہ رہتا ہے کہ ہر شخص اسلام کو بدنام کرنے پہ تلا ہے لیکن عرضِ حال یہ ہے کہ خدا صرف کسی خاص فرقے کا خدا نہیں، خدا زندگی کے ہر شعبہ میں کام کرنے والوں کا خدا ہوتا ہے چاہے ان شخصیات کا تعلق کسی مدرسے سے ہو یا شوبز سے۔ ایمان کا معیار محض عبادات نہیں، شوبز کے لوگ بھی خدا سے اتنے وابستہ ہو سکتے ہیں جس طرح ایک عام مسلمان۔ خدا سے خدائی کا رشتہ قائم کرنے کا حق کسی بھی خاص مذہبی طبقے کو نہ ہے۔ اگر کوئی فرد جو اسلام کی تعلیمات سے کوسوں دور ہے تب بھی آپ اس سے خدا کا رشتہ نہیں توڑ سکتے اور اسے اپنی فریاد میں خدا کا یا اس کے احکامات کا حوالہ دینے میں پورا حق حاصل ہے چاہے وہ "بھانڈ میراثی" ہے یا کٹر اسلامی بھائی، یہ حق کسی خاص مذہبی طبقے کو قطعی نہیں بخشا گیا۔ ایمان کا معیار چاہے جتنا بھی کمزور ہو اس بنا پر کوئی بھی انسان، انسان سے انسانیت کا حق نہیں چھین سکتا۔ دوم جب آپ کسی پہ تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اپنے ذاتی مکروہ فعل" کے سبب ایسا ہوا ہے تو بعینہ اس کے مخالف سمت بھی ایسا ہی ہوتا ہے یعنی اگر اسلامی بھائی یا مولوی صاحب اگر بیوی پہ کوئی ظلم و زبردستی کرتا ہے تو وہ بھی یقیناً اس کا "ذاتی مکروہ فعل" ہوتا ہے اور تنقید بھی اس کے ذاتی مکروہ فعل پہ ہوتی ہے لیکن اس وقت ہمارا کنڈیشنڈ معیارِ انصاف ہچکولے کھانا شروع کر دیتا ہے اور فوراً سے پیشتر اسے اسلام پر حملہ تصور کیا جاتا ہے حالانکہ دونوں ہی صورتیں شخصیات سے وابستہ ہیں اور اس میں اسلام کا کوئی کردار نہیں۔ سوم"بھانڈ میراثیوں" جیسی اصطلاح استعمال کرنا تو یقیناً عین شرعی فعل ہے اور "شدت پسند مولوی" جیسی اصطلاح استعمال کرنا عین اسلام پہ حملہ کرنے کے مترادف ہے، تصویر کے دونوں رخ دیکھیں، کیا ہمارا یہی معیارِ تنقید ہے؟ یاد رہے کہ محض جذباتی تنقید سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اپنی تنقید میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
 

آصف اثر

معطل
اصل مقدمہ یہ ہے کہ اداکاروں/ میراثیوں / شوبز کے فنکاروں کے گھریلوں مسئلے میں مذہب یا کسی ”خاص مذہبی طبقے“ کی بات کہاں سے نکل آئی؟
یہاں میرے خیال میں نہ کوئی کسی سے مذہب کا رشتہ چھین رہا ہے، نہ اسلام کا اور نہ خدا کا۔ زبردستی اس طرح اپنی باتوں کو باوزن بنانے کی حرکتیں معیوب ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
ویسے تو اکثر مسلمانوں کو ہر وقت یہی شبہ رہتا ہے کہ ہر شخص اسلام کو بدنام کرنے پہ تلا ہے لیکن عرضِ حال یہ ہے کہ خدا صرف کسی خاص فرقے کا خدا نہیں، خدا زندگی کے ہر شعبہ میں کام کرنے والوں کا خدا ہوتا ہے چاہے ان شخصیات کا تعلق کسی مدرسے سے ہو یا شوبز سے۔ ایمان کا معیار محض عبادات نہیں، شوبز کے لوگ بھی خدا سے اتنے وابستہ ہو سکتے ہیں جس طرح ایک عام مسلمان۔ خدا سے خدائی کا رشتہ قائم کرنے کا حق کسی بھی خاص مذہبی طبقے کو نہ ہے۔ اگر کوئی فرد جو اسلام کی تعلیمات سے کوسوں دور ہے تب بھی آپ اس سے خدا کا رشتہ نہیں توڑ سکتے اور اسے اپنی فریاد میں خدا کا یا اس کے احکامات کا حوالہ دینے میں پورا حق حاصل ہے چاہے وہ "بھانڈ میراثی" ہے یا کٹر اسلامی بھائی، یہ حق کسی خاص مذہبی طبقے کو قطعی نہیں بخشا گیا۔ ایمان کا معیار چاہے جتنا بھی کمزور ہو اس بنا پر کوئی بھی انسان، انسان سے انسانیت کا حق نہیں چھین سکتا۔ دوم جب آپ کسی پہ تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اپنے ذاتی مکروہ فعل" کے سبب ایسا ہوا ہے تو بعینہ اس کے مخالف سمت بھی ایسا ہی ہوتا ہے یعنی اگر اسلامی بھائی یا مولوی صاحب اگر بیوی پہ کوئی ظلم و زبردستی کرتا ہے تو وہ بھی یقیناً اس کا "ذاتی مکروہ فعل" ہوتا ہے اور تنقید بھی اس کے ذاتی مکروہ فعل پہ ہوتی ہے لیکن اس وقت ہمارا کنڈیشنڈ معیارِ انصاف ہچکولے کھانا شروع کر دیتا ہے اور فوراً سے پیشتر اسے اسلام پر حملہ تصور کیا جاتا ہے حالانکہ دونوں ہی صورتیں شخصیات سے وابستہ ہیں اور اس میں اسلام کا کوئی کردار نہیں۔ سوم"بھانڈ میراثیوں" جیسی اصطلاح استعمال کرنا تو یقیناً عین شرعی فعل ہے اور "شدت پسند مولوی" جیسی اصطلاح استعمال کرنا عین اسلام پہ حملہ کرنے کے مترادف ہے، تصویر کے دونوں رخ دیکھیں، کیا ہمارا یہی معیارِ تنقید ہے؟ یاد رہے کہ محض جذباتی تنقید سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اپنی تنقید میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
مسلمانوں میں جذبات نہ ہوں تو دفاعی حملے کرنا تک محال ہوجائے۔ یہ جذبات قابل شرمندگی نہیں نہایت اہم ہیں۔۔۔
آپ نے ناحق اتنا کچھ لکھ دیا۔۔۔
ہمارا مدعا صرف یہ تھا کہ بھانڈ میراثی آپس میں اسلام کے نام پر نہیں لڑ مر رہے ہیں نہ ہی اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں۔۔۔
پھر بیچ میں اسلام کو کیوں لایا گیا ہے؟؟؟
یہ کس سوچ کی عکاسی ہے؟؟؟
 
Top