حامد میر کا دلچسپی سے بھرپور کالم- میرا سلطان اور مشرف پر ترکی ڈرامہ

پاکستان میں رہنے والے لوگ بہت سی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ پاکستانیوں کی ا کثریت بڑی محنتی، ذہین اور بہادر ہے۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد امیر نہ ہونے کے باوجود اپنی بساط سے بڑھ کا حاجت مندوں کی مدد بھی کرتی ہے۔ یہ دنیا کی فیاض ترین قوموں میں سے ایک ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس قوم میں کئی خامیاں بھی ہیں۔ سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ پاکستانیوں کی بڑی اکثریت سازش پسند ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف سازش کرنا اکثر پاکستانیوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ ہمیں نہ صرف سازشیں کرنے بلکہ سازشی کہانیاں سننے اور انہیں دیکھنے کا بھی بہت شوق ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حب الوطنی کے نام پر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ قرار دینے والوں کو میری باتیں اچھی نہ لگیں لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کچے مکان کی ٹپکتی چھت کے نیچے رہنے والی ساس اور بہو سے لے کر ایوان صدر، وزیر اعظم ہائوس، گورنر ہائوس اور وزیر اعلیٰ ہائوس تک ہر طرف سازشیں ہی سازشیں نظر آتی ہیں۔ ہمیں محلاتی سازشیں اتنی اچھی لگتی ہیں کہ ترکی ڈرامہ سیریل’’میرا سلطان‘‘ نے پاکستان میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کردئیے ہیں۔ یہ ڈرامہ سیریل ترکی کے ایک مشہور بادشاہ سلطان سلیمان کے محل کے اندر ہونے والی سازشوں کے گرد گھومتی ہے۔ یہ وہ بادشاہ تھا جس نے اپنے چھیالیس سالہ دور حکومت میں ترک سلطنت کو تین براعظموں تک پھیلا دیا تھا لیکن’’میرا سلطان‘‘ میں بادشاہ سلامت تمام وقت کنیزوں کے باہمی جھگڑے سلجھاتے اور اپنی دوسری بیو ی خرم سلطان کے ہاتھوں پتلی کی طرح ناچتے نظر آتے ہیں۔ پاکستانی ناظرین کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ڈرامہ سیریل ’’میرا سلطان‘‘ بھی دراصل ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ کچھ سال پہلے ترکی میں مصطفیٰ کمال پاشا کے بارے میں ایک فلم بنائی گئی جس میں پہلی دفعہ یہ دکھایا گیا کہ کمال اتاترک ایک عیاش شرابی تھا جو اپنے قریبی ساتھیوں کے خلاف بھی سازشیں کیا کرتا تھا۔’’مصطفیٰ‘‘ کے نام سے بننے والی فلم پر ترکی میں بڑا ہنگامہ ہوا کیونکہ اس فلم سے وزیر اعظم طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی مقبولیت کو چار چاند لگ گئے۔ دوسری طرف ترکی کے سیکولر سیاستدانوں نے کچھ اسلام مخالف دانشوروں کے ساتھ مل کر اس فلم کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔
ترک زبان میں پلے بوائے میگزین شائع کرنے والی ایک اداکارہ میرل اوکائے کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ ترک تاریخ کے سب سے مضبوط مسلمان حکمران سلطان سلیمان کی زندگی پر ایک اسکرپٹ تیار کرے گی۔ سلطان سلیمان سے قبل ترک بادشاہ اپنی کنیزوں سے شادی نہیں کرتے تھے لیکن سلیمان نے نہ صرف اپنی کنیز خرم سلطان سے شادی کی بلکہ دیگر کنیزوں کے ساتھ تعلقات بھی ختم کردئیے۔ یقیناً خرم سلطان ایک سازشی عورت تھی۔ اس نے اپنے خاوند کو وزیر اعظم ابراہیم پاشا اور ولی عہد شہزادہ مصطفیٰ کے خلاف بھڑکایا کیونکہ مصطفیٰ نے شاہ دوراں کے بطن سے جنم لیا تھا۔ خرم سلطان نے اپنے داماد رستم پاشا کے ساتھ مل کر ولی عہد مصطفیٰ کو بادشاہ کے ہاتھوں قتل کرادیا اور آخر کار خرم سلطان کے بیٹے بھی ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ کر ختم ہوگئے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ بھی اسی قسم کی محلاتی سازشوں سے بھری پڑی ہے لیکن’’میرا سلطان‘‘ میں ترکی کی تاریخ کے ایک بہادر اور جنگجو بادشاہ کو’’زن مرید‘‘ ثابت کرکے طیب اردگان کو اتنا زچ کردیا گیا کہ وہ ’’میرا سلطان‘‘ پر پابندی کے لئے پارلیمنٹ سے قرار داد منظور کرانا چاہتےتھے لیکن ایسا نہ کرسکے کیونکہ انہیں بدستور ترک فوج اور عدلیہ کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ پچھلے سال نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ترک صحافیوں کے ساتھ’’میرا سلطان‘‘ پر لمبی گفتگو کے دوران ہمیں بتایا گیا کہ ترکی میں سیکولر ازم کے حامیوں نے اس ڈرامے کو اسلام پسندوں کے لئے ایک طعنہ بنادیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اکثر اسلام پسند سلطان سلیمان کی طرح سازشی اور منافق ہوتے ہیں کیونکہ ان کی عورتیں بھی سارا سارا دن سازشیں کرتی ہیں جبکہ اسلام پسند جواب میں فلم ’’مصطفیٰ‘‘ کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ کمال اتاترک کی طرح ہر سیکولر شخص شرابی اور عیاش ہوتا ہے۔
’’میرا سلطان‘‘ کے متعلق یہ لمبی تمہید باندھنے کے بعد میں آپ کو یہ خبر دینا چاہتا ہوں کہ ترکی کی ایک کمپنی پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کی زندگی پر ڈرامہ سیریل بنانا چاہتی ہے۔ اس ڈرامے کےا سکرپٹ پر کئی ماہ سے کام ہورہا ہے اور ایک ریسرچ ٹیم پاکستان کا دورہ بھی کرچکی ہے۔ اس ریسرچ ٹیم نے کچھ دن پہلے ایوان صدر اسلام آباد کے کچھ ملازمین سے رابطے کرنے کی کوشش کی تاکہ سابق صدر کے ایک اداکارہ کے ساتھ تعلقات کی تفصیلات حاصل کی جاسکیں جو خرم سلطان بننے کی کوشش کرتی رہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق ابتداء میں اس ڈرامے کے تمام کرداروں کے نام بدل دئیے گئے تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اس ڈرامے کے تمام کرداروں کے نام اصلی ہوں گے اور تمام واقعات بھی اصلی ہوں گے۔ مشرف کو ڈرامہ سیریل کا موضوع بنانے کی وجہ یہ ہے کہ جب انہوں نے 1999ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تو کچھ ہی دنوں کے بعد اپنی گود میں کتا اٹھا کر انہوں نے یہ بیان دیا کہ کمال اتاترک ان کا پسندیدہ ہیرو ہے اور وہ ترک زبان بھی بول سکتے ہیں۔ ڈرامے کا سکرپٹ تیار کرنے والوں کی طرف سے مشرف کے ٹرائل میں بھی دلچسپی لی جارہی ہے۔ شاید وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فوجی ڈکٹیٹر اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی فوج کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں اور فوج اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود سیاست میں مداخلت سے باز نہیں آتی۔ کم از کم آرمڈفورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرف سے مشرف کے حق میں تیار کی گئی حالیہ میڈیکل رپورٹ تو یہی بتارہی ہے کہ چار فوجی ڈاکٹروں نے مشرف کی خاطر اپنے ادارے کی ساکھ کو دائو پر لگادیا جس ملک کے ادارے ایک آئین شکن جرنیل کو عدالتی کارروائی سے بچانے کے لئے اپنی ساکھ دائو پر لگادیں وہ ادارے قانون شکن دہشت گردوں کا کیسے مقابلہ کریں گے؟ امید ہے کہ حکومت اور فوج بہت جلد اس سوال کا جواب دے دیں گے لیکن ان دنوں پاکستان میں سازشیں عروج پر ہیں۔ سازشی عناصر نے پہلے طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی کوششوں کو سبوتاژ کیا اور اب پرویز مشرف کو ٹرائل سے بچا کر پاکستان سے بھگانے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ مشرف پاکستان سے چلا گیا تو پاکستان میں صرف نواز شریف کی حکومت نہیں بلکہ آئین و قانون کا جنازہ بھی اٹھ جائے گا۔ ہمارے ترک دوست مشرف کو کچھ زیادہ اہمیت دے رہے ہیں وہ نہ تو کمال اتاترک ہے نہ سلطان سلیمان ہے۔ ترک دوست اپنے جرنیلوں پر غصہ مشرف کے نام کے نکالنے کے درپے ہیں۔ سب جرنیل مشرف جیسے نہیں ہوتے، اکثر جرنیلوں کے دل پاکستانی ہوتے ہیں اور وہ پاکستانی ڈاکٹروں سے انجیو گرافی کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے، اس لئے ترک دوست مشرف پر ڈرامہ سیریل بنا کر پاکستان کو مزید بدنام کرنے گریز کریں۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=167161
 
Top