حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی...

زیرِ نظر مصرعے میں واو کا اسقاط ذوقِ سلیم پر گراں گزرتا ہے۔ ۔ ابنِ رضا اور راحیل فاروق درست کہہ رہے ہیں۔
جناب مزمل شیخ بسمل کا مؤقف بھی یہی ہے کہ سالم اور محذوف ایک دوجے کے مقابل نہیں لائے جا سکتے۔

بہ این ہمہ شعر آپ کا ہے، اختیار بھی آپ کا ہے۔ خوش رہئے۔ مجھے یہی عرض کرنا تھا۔
بہت شکریہ سر ! میں مبتدئین میں شمار ہوتی ہوں ۔ ابھی اس قابل نہیں کہ عروضی پیچیدگیوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کر سکوں ۔ :)
اس لیے مصرع میں مناسب تبدیلی لانی ہی پڑےگی ۔ :)
 
تینوں حروف علت میں سے اگر کوئی لفظ کے آخر میں آ رہا ہے تو اس کا وزن گرایا جا سکتا ہے ۔
مصرعے میں حشو کے ارکان یعنی درمیانی ارکان یا پہلے رکن کی حد تک آپ کی بات صد فی صد درست ہے۔ لیکن آخری رکن کے لیے قاعدہ کچھ مختلف ہے۔
سادہ لفظوں میں یوں سمجھیے کہ رکن فعولان کا تقاضا یہ ہے کہ آخری حرف خواہ حرفِ علت ہو یا صحیح، موقوف ہو۔ نونِ کلمہ کے مقابل۔
موقوف وہ حرف ہے جس سے پہلے بھی کم از کم ایک حرف ساکن ہو۔ یعنی وہ حرف جو مسلسل دوسرا یا تیسرا ساکن ہو۔ مثلاً گوشت میں گاف متحرک ہے، واؤ ساکن ہے، اور شین اور تے موقوف ہیں۔ آم میں پہلا الف متحرک ہے، دوسرا ساکن اور میم موقوف ہے۔ نرم میں نون متحرک، رے ساکن، میم موقوف۔ قس علیٰ ہٰذا۔
اردو میں ایک قاعدہ اور ہے۔ واؤ اور یے جب فعل کی مختلف گردانوں کے آخر میں آتے ہیں تو بعض اوقات ان کی پوری آواز کا اعتبار کیا جاتا ہے (اسے اصطلاح میں اشباع کہتے ہیں)۔ اور بعض اوقات انھیں فقط ایک حرف قیاس کیا جاتا ہے۔
پہلی صورت کی مثال یہ ہے:
تم زمانے کی راہ سے آئے
تم زمانے: فاعلاتن
کِراہسے: مفاعلن
آئے: فعلن
اس میں آئے "دنیا، چلتے، مصدر" وغیرہ کے وزن پر آیا ہے۔ یعنی یے کا اشباع کیا گیا ہے یا بالفاظِ دیگر یے کو ہمزہ اور یے کے مرکب کے طور پر لیا گیا ہے۔
دوسری صورت کی مثال دیکھیے:
اس در پہ نہیں بار تو کعبے ہی کو ہو آئے
اس در پَ: مفعول
نہی بار: مفاعیل
تُکعبے ہِ: مفاعیل
کُہو آے: مفاعیل
"آئے" کو اس مصرعے میں غالبؔ نے آے یعنی "خیر، آپ، درد" وغیرہ کے وزن پہ باندھا ہے۔ یا یوں کہیے کہ ہمزہ کا اعتبار نہیں کیا گیا بلکہ فقط یے کو شامل کیا گیا ہے۔ اب یے سے پہلے چونکہ الف ممدودہ ہے یعنی دو الف تو یے کی حیثیت یہاں تیسرا حرف ہونے کے ناتے حرفِ موقوف کی ہے۔
(دوسری صورت میں املا میں عموماً واؤ اور یے پر ہمزہ نہیں لگایا جاتا تا کہ واضح ہو جائے کہ یہاں ان کی حیثیت حرفِ موقوف کی ہے۔)
پس طے ہوا کہ حرفِ موقوف کے طور پہ اگر یے یا واؤ آئے تو وہ تسبیغ میں شمار ہو گا۔ ساکن پہ قاعدے کی رو سے تسبیغ لاگو ہی نہیں ہوتی۔ رہی بات تیسرے حرفِ علت الف کی، تو وہ موقوف ہوتا ہی نہیں۔ یا متحرک ہو گا یا ساکن۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
و کا اسقاط کیا میں نے
چاہوں میں واؤ ساکن ہے۔ اس سے بالکل پچھلا حرف یعنی ہ (ہِے) متحرک ہے۔ محولہ بالا قاعدے کی رو سے آپ واؤ کو ساقط تبھی کر سکتی ہیں جب اس کے اور پچھلے حرفِ متحرک کے درمیان ایک اور ساکن موجود ہو۔ یعنی صرف تب جب واؤ موقوف ہو۔ :):):)
 
آخری تدوین:
مصرعے میں حشو کے ارکان یعنی درمیانی ارکان یا پہلے رکن کی حد تک آپ کی بات صد فی صد درست ہے۔ لیکن آخری رکن کے لیے قاعدہ کچھ مختلف ہے۔
سادہ لفظوں میں یوں سمجھیے کہ رکن فعولان کا تقاضا یہ ہے کہ آخری حرف خواہ حرفِ علت ہو یا صحیح، موقوف ہو۔ نونِ کلمہ کے مقابل۔
موقوف وہ حرف ہے جس سے پہلے بھی کم از کم ایک حرف ساکن ہو۔ یعنی وہ حرف جو مسلسل دوسرا یا تیسرا ساکن ہو۔ مثلاً گوشت میں گاف متحرک ہے، واؤ ساکن ہے، اور شین اور تے موقوف ہیں۔ آم میں پہلا الف متحرک ہے، دوسرا ساکن اور میم موقوف ہے۔ نرم میں نون متحرک، رے ساکن، میم موقوف۔ قس علیٰ ہٰذا۔
اردو میں ایک قاعدہ اور ہے۔ واؤ اور یے جب فعل کی مختلف گردانوں کے آخر میں آتے ہیں تو بعض اوقات ان کی پوری آواز کا اعتبار کیا جاتا ہے (اسے اصطلاح میں اشباع کہتے ہیں)۔ اور بعض اوقات انھیں فقط ایک حرف قیاس کیا جاتا ہے۔
پہلی صورت کی مثال یہ ہے:
تم زمانے کی راہ سے آئے
تم زمانے: فاعلاتن
کِراہسے: مفاعلن
آئے: فعلن
اس میں آئے "دنیا، چلتے، مصدر" وغیرہ کے وزن پر آیا ہے۔ یعنی یے کا اشباع کیا گیا ہے یا بالفاظِ دیگر یے کو ہمزہ اور یے کے مرکب کے طور پر لیا گیا ہے۔
دوسری صورت کی مثال دیکھیے:
اس در پہ نہیں بار تو کعبے ہی کو ہو آئے
اس در پَ: مفعول
نہی بار: مفاعیل
تُکعبے ہِ: مفاعیل
کُہو آے: مفاعیل
"آئے" کو اس مصرعے میں غالبؔ نے آے یعنی "خیر، آپ، درد" وغیرہ کے وزن پہ باندھا ہے۔ یا یوں کہیے کہ ہمزہ کا اعتبار نہیں کیا گیا بلکہ فقط یے کو شامل کیا گیا ہے۔ اب یے سے پہلے چونکہ الف ممدودہ ہے یعنی دو الف تو یے کی حیثیت یہاں تیسرا حرف ہونے کے ناتے حرفِ موقوف کی ہے۔
(دوسری صورت میں املا میں عموماً واؤ اور یے پر ہمزہ نہیں لگایا جاتا تا کہ واضح ہو جائے کہ یہاں ان کی حیثیت حرفِ موقوف کی ہے۔)
پس طے ہوا کہ حرفِ موقوف کے طور پہ اگر یے یا واؤ آئے تو وہ تسبیغ میں شمار ہو گا۔ ساکن پہ قاعدے کی رو سے تسبیغ لاگو ہی نہیں ہوتی۔ رہی بات تیسرے حرفِ علت الف کی، تو وہ موقوف ہوتا ہی نہیں۔ یا متحرک ہو گا یا ساکن۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

چاہوں میں واؤ ساکن ہے۔ اس سے بالکل پچھلا حرف یعنی ہ (ہِے) متحرک ہے۔ محولہ بالا قاعدے کی رو سے آپ واؤ کو ساقط تبھی کر سکتی ہیں جب اس کے اور پچھلے حرفِ متحرک کے درمیان ایک اور ساکن موجود ہو۔ یعنی صرف تب جب واؤ موقوف ہو۔ :):):)
بہت خوب ۔ بےحد شکریہ ۔ میں اس بات سے مکمل طور پہ ناواقف تھی ۔
:)
مصرع میں مناسب تبدیلی کر کے تدوین کر دیتی ہوں ۔
 
محترمی راحیل فاروق اور محترمہ نوشین فاطمہ عبدالحق ۔ باریکیوں میں جائے بغیر ایک موٹی سی بات!
ہم شعر ہی کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ اچھا لگے، اور اچھا لگے، اور بھی اچھا لگے؛ لطف پیدا کرنے کے لئے: یعنی جمالیاتی عنصر! جمالیات میں شاعر اور قاری دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ایک شعر جو ایک خوش ذوق قاری میں جمالیاتی بے چینی پیدا کرے، اس کو نکھار لینا بہتر! شعر کو لطف انگیز تو ہونا چاہئے نا۔ جہاں اتنی محنت کی ہے تھوڑی سی اور سہی!
کیا خیال ہے؟
:rainbow: :rose: :chicken2: :drink:
 
آخری تدوین:
محترمی راحیل فاروق اور محترمہ نوشین فاطمہ عبدالحق ۔ باریکیوں میں جائے بغیر ایک موٹی سی بات!
ہم شعر ہی کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ اچھا لگے، اور اچھا اگے، اور بھی اچھا لگے؛ لطف پیدا کرنے کے لئے: یعنی جمالیاتی عنصر! جمالیات میں شاعر اور قاری دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ایک شعر جو ایک خوش ذوق قاری میں جمالیاتی بے چینی پیدا کرے، اس کو نکھار لینا بہتر! شعر کو لطف انگیز تو ہونا چاہئے نا۔ جہاں اتنی محنت کی ہے تھوڑی سی اور سہی!
کیا خیال ہے؟
:rainbow: :rose: :chicken2: :drink:
:)
ایں خیال خوب است ۔
نوٹ :
فارسی سے نابلد ہوں فقط تکا لگایا ہے ۔
 
ہم چاہتے رہے ہمیں مل جائیں چاہتیں
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
ہم چاہتوں کی چاہ میں تڑپا کئے لئیقؔ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
؟؟؟؟؟؟؟ کیا خیال ہے؟ ایک اور خیال بھی ہے ۔۔
ہم چاہتوں کے چاہ سے باہر نہ آ سکے
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
 
ہم چاہتوں کی چاہ میں تڑپا کئے لئیقؔ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
؟؟؟؟؟؟؟ کیا خیال ہے؟ ایک اور خیال بھی ہے ۔۔
ہم چاہتوں کے چاہ سے باہر نہ آ سکے
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
خیال تو دونوں ہی کمال ہیں۔ لیکن ان خیالات کی آمد کے لئے آپ جیسا زبردست زہن اور شگفتہ دل کی ضرورت ہے۔
 
ایک دل چسپ واقعہ سنئے۔ ایک دوست نے اغماض کو اغماز لکھ دیا۔ بات ہوئی، وہ نہیں مانے۔ میں نے بہ تکلف ایک شعر کہا (سچی بات ہے کہ بہ تکلف کہا)

غمزے کو روا ہے کہ ہو اغماض پہ ناخوش
فرمائے تو کیا ہے جو نہ فرمائے تو کیا ہے

اپنا نسخہ چل گیا۔ ہے نا مزے کی بات!
 
Top