حافظ شیرازی کا ایک شعر --- معین نظامی

الف نظامی

لائبریرین
حافظ شیرازی کا ایک شعر
(یہ تحریر اپنے والدِ مرحوم کی نذر کرتا ہوں جن سے زیادہ حافظ کا سچا ارادت مند مَیں نے نہیں دیکھا)​

خواجۂ شیراز کی ایک دل نشیں غزل کا ایک بہت عمدہ، پر مغز اور مقبول شعر یوں مشہور ہے اور دیوانِ حافظ کے بیشتر قدیم قلمی نسخوں اور معتبر اشاعتوں میں اسی طرح لکھا ہوا ہے:
بر بساطِ نکتہ دانان خود فروشی شرط نیست
یا سخن دانستہ گو، ای مردِ عاقل، یا خموش

اہلِ نظر کی محفل میں خود نمائی کوئی اچھی بات نہیں ہے، اے دانا آدمی، بات سوچ سمجھ کر کرو یا پھر چپ رہو.​

مشرق کے عرفانی، اخلاقی اور تربیتی ادب میں یہ موضوع بہت اہم اور نمایاں ہے اور متعدد زبانوں کی نثر اور نظم میں بہ کثرت ملتا ہے. فارسی میں حکیم سنائی غزنوی، عطار نیشاپوری، خاقانی شروانی، نظامی گنجوی، سعدی شیرازی، امیر خسرو، جلال الدین رومی، مولانا جامی، میرزا بیدل دہلوی، علامہ اقبال اور بہت سے دوسرے شاعروں کے ہاں اس موضوع پر بہت اعلیٰ اشعار ملتے ہیں. اقبال نے تو اردو میں بھی اس سے خوب اعتنا کیا ہے:
فیضِ نظر کے لیے ضبطِ سخن چاہیے
حرفِ پریشاں نہ کہہ اہلِ نظر کے حضور

حافظ کے مذکورہ شعر کے تعلق سے مختلف نسخوں کے جزوی متنی اختلاف کی بنیاد پر اہلِ ذوق و تحقیق میں عموماً دو نکات زیرِ بحث رہتے تھے:

پہلے مصرعے میں بر بساط مناسب ہے یا در بساط؟
اور دوسرے مصرعے میں عربی لفظ عاقل موزوں تر ہے یا اس کا فارسی متبادل بخرد؟

چند سنجیدہ لوگوں کی رائے تھی کہ در بساط زیادہ مناسب ہے اور بخرد. ان کے پاس اپنے قانع کنندہ دلائل تھے. ذوقِ عام نے مگر اس شعر کو یوں ہی رائج رکھا جیسا اوپر درج کیا گیا ہے.

سال ۲۰۰۱ء میں تہران، ایران سے دیوانِ حافظ کی ایک نئی اشاعت ہوئی جس کی تدوین سید صادق سجادی اور علی بہرامیان نے مل کر کی. اس اشاعت کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں تدوینِ متن کے لیے دیوانِ حافظ کے سب سے قدیم معلومہ نسخے کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے جو حافظ کی وفات کے صرف گیارہ سال بعد برہان بن غیاث کرمانی نام کے ایک ذمہ دار کاتب نے کتابت کیا ہے اور وہ تاشکند کی ابو ریحان البیرونی لائبریری میں محفوظ ہے.
اس نسخے کی روشنی میں اندازہ ہوا کہ حافظ کے متعدد اشعار کی قدیم ترین روایت قدرے مختلف ہے اور بیشتر مقامات پر لفظی و معنوی اعتبار سے زیادہ موزوں بھی لگتی ہے. اس نسخے میں درجِ بالا شعر میں جہاں بر بساط کی جگہ در بساط اور بخرد کی جگہ عاقل کو بہ جا طور پر ترجیح دی گئی ہے، وہیں ایک نیا اور بہت اہم نکتہ بھی سامنے آیا ہے کہ دوسرے مصرعے میں دانستہ کی جگہ سر بستہ لکھا ہوا ہے.

بات سمجھ میں بھی آتی ہے. ہم ہر مردِ عاقل سے یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ سوچی سمجھی، جچی تلی اورسنجیدہ بات ہی کرے گا. کسی دانا آدمی سے سوچی سمجھی بات کا تقاضا کرنا تحصیلِ حاصل اور بے مزہ ہے. پھر تو یہ عام سا شعر ہوا. اس میں کیا خاص بات ہوئی؟ حافظ جیسے شاعرسے ہم کسی روایتی رسمی شعر کی ہرگز توقع نہیں رکھتے. حقیقت یہ ہے کہ یہاں مقام ہی سر بستہ کا ہے، دانستہ کا نہیں.
اب اس شعر کی قرائت یوں ہو گی:
در بساطِ نکتہ دانان خود فروشی شرط نیست
یا سخن سر بستہ گو، ای مردِ عاقل، یا خموش

اور اس کا مفہوم یہ ہو گا:
اہلِ نظر کی محفل میں خود نمائی کوئی اچھی بات نہیں ہے، اے دانا آدمی، بات اشارے کنائے میں کرو یا پھر چپ رہو.​

یہ روایت قبول کرتے ہوئے الکنایۃ ابلغ من التصریح اور العاقل تکفیہ الاشارہ جیسے اقوال کو بھی ذہن میں رہنا چاہیے.
معین نظامی۹- جنوری ۲۰۲۴ء
 
Top