حاظر و ناظر

حاضر و ناظر قرآن و حدیث کی روشنی میں
بد قسمتی سے مسلمانوں میں ذرا ذرا سی بات پر مذہب و مسلک تیار ہو جاتے ہیں، اختلافات کی بنیاد پڑ جاتی ہے اور یہ اختلافات بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں، ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے، اگر تھوڑا سا خوف خدا و شرم رسول کا احساس ہو تو ایسے کئی اختلافات جو عدم تدبر، عدم رواداری اور احساس ذمہ داری کے فقدان سے پیدا ہوتے ہیں مٹ جائیں اور نسل نو ذہنی پراگندگی سے محفوظ ہو جائے۔ زیرغور مسئلہ حاضر و ناظر کو ہی لیجئے، ’’حاضر و ناظر‘‘ کی لفظی ترکیب قرآن میں ہے نہ کسی حدیث میں۔ قرآن و سنت میں یہ اﷲ کا نام بتلایا گیا ہے نہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور نہ ہی کسی اور نبی کا اﷲ تعالیٰ کے تمام اسمائے گرامی توقیفی ہیں کہ قرآن و سنت سے ثابت ہوتے ہیں، اس لئے اسماء الحسنیٰ کی فہرست میں اس شکل ترکیبی میں کہیں نہ پائیں گے۔ ہاں قرآن و سنت میں اس مفہوم کے لئے لفظ شاہد، شہید وغیرہ کا استعمال ہوا ہے، اگر حاضر و ناظر کو شاہد و شہید کا مترادف مانیں تو اس مفہوم کی مناسبت سے اﷲ پر اس کا بولنا صحیح ہو گا‘
كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًاo
(الفتح، 48 : 28)
اسی معنی میں آیا ہے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ لفظ ’’حاضر و ناظر‘‘ قرآن و سنت میں کہیں بھی اﷲ تعالیٰ کے لئے استعمال نہیں ہوا بلکہ شاہد و شہید کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو اب گزارش یہ ہے کہ یہ الفاظ جیسے قرآن و سنت میں اﷲ تعالیٰ کے لئے آئے ہیں اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی استعمال ہوئے ہیں مثلاً
وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَ۔ؤُلاَءِ شَهِيدًاo
النسائ، 4 : 41
’’اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔‘‘
إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ
المزمل، 73 : 15
’’بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)بھیجا ہے جو تم پر (اَحوال کا مشاہدہ فرما کر) گواہی دینے والا ہے۔‘‘
تو اگر اﷲ تعالیٰ کے لئے لفظ حاضر و ناظر شاہد و شہید کے معنی کے طور پر بولا جاتا ہے تو اسی دلیل سے یہ لفظ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی بولنا صحیح ہو گا بالکل اسی طرح جس طرح قرآن میں اﷲ تعالیٰ کے لئے سمیع بصیر کے کلمات استعمال ہوئے اور ہر انسان کے لئے بھی یہی کلمات استعمال ہوئے۔
فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًاo
(الدهر، 76 : 2)
ہم نے انسان کو سمیع و بصیر بنایا۔ اﷲ تعالیٰ کے لئے رؤف و رحیم کے وصف بیان ہوئے پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی یہی الفاظ استعمال ہوئے۔ دیکھو سورہ توبہ آخری حصہ، پھر یہی شاہد و شہید کا لفظ مسلمانوں کے لئے استعمال ہوا۔
وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ
البقره، 2 : 282
’’اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو۔‘‘
وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا
يوسف، 12 : 26
’’اس کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے (جو شیر خوار بچہ تھا) گواہی دی۔‘‘
پس لفظ شاہد و شہید جس طرح اﷲ کے لئے آیا ہے اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عام مسلمانوں کے لئے بھی قرآن و سنت میں استعمال ہوا۔ یونہی سمیع، بصیر، علیم، حلیم، عالم، خبیر، رقیب وغیرہ کلمات تینوں کے لئے استعمال ہوئے ہیں لہٰذا لفظی اشتراک عقلاً و شرعاً منع نہیں۔ حاضر و ناظر میں بھی اشتراک لفظی ہے۔ ہاں اس حقیقت کو ایک لمحہ کے لئے بھی نظرانداز نہ کیا جائے کہ اشتراک لفظی کے باوجود خالق و خلق میں یہ صفات الگ الگ معنی و حیثیت سے پائی جاتی ہیں۔ اﷲ، اﷲ ہے، بندہ، بندہ ہے۔ خالق کی ہر صفت ذاتی، غیر متبدل، قدیم اور واجب جبکہ مخلوق کی ذات بھی اس کے بنانے سے ہے اور صفات بھی، کسی کی اپنے آپ نہ ذات نہ صفات، سب عطا و فیضان ہے اور عکس جمیل ہے ذات و صفات باری تعالیٰ کا۔
مخلوق کی ہر صفت اﷲ کی دی ہوئی ہے، ذاتی نہیں جبکہ خالق کی جملہ صفات ذاتی ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا مفہوم
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حاضر و ناظر ہونا جب قرآن و سنت سے ثابت ہو گیا تو اب اس کی نوعیت بھی سمجھ لیں۔ یہ حاضر و ناظر ہونا جسمانی نہیں۔ علمی، نظری اور روحانی ہے کہ ساری کائنات پر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر ہے۔ سب کچھ اس طرح دیکھ رہا ہے جیسے ہتھیلی پر رائی کا دانہ اور یہ سب کچھ عطائے خداوندی سے ہے اور ساری کائنات پر گواہی کی یہی شان ہو سکتی ہے۔
مسجد میں امامت کا مسئلہ روحانی نہیں، جسمانی ہے۔ نماز پڑھنے کے لئے روح کافی نہیں، جسم درکار ہے۔ رکوع، سجود، قیام، قومہ، قعدہ جسمانی افعال ہیں۔ ان عبادات میں امامت مشروعہ کے لئے جسم کے ساتھ امام کا حاضر و ناظر ہونا ضروری ہے۔ محض روحانی طور پر کوئی امام ہو سکتا ہے نہ مقتدی، نہ اکیلا پڑھ سکتا ہے اگر مسئلہ حاضر و ناظر کو صحیح طور پر سمجھ لیا جائے تو ایسے سوالات ذہن میں آ ہی نہیں سکتے۔ یہ اس طرح کا استدلال ہو گا، کوئی قرآن سے پہلے یہ ثابت کرے کہ اﷲ سب سے بڑا حاکم ہے، سب سے بڑا عادل ہے، اس کی گواہی کافی ہے۔ پھر کہے ایسے حاکم، عادل اور گواہ کے ہوتے ہوئے کسی اور حاکم و گواہ کو کیوں مانا جائے؟ اﷲ کے رب ہوتے ہوئے کسی اور کو مربی کیوں مانا جائے؟ اﷲ کے ولی ہوتے ہوئے کسی اور کو ولی بلکہ اﷲ کے مومن ہوتے ہوئے کسی اور کو مومن کیوں مانا جائے؟ سورہ حشر میں ہے المومن اﷲ مومن ہے۔ قرآن و سنت کے کچھ حصہ پر سرسری نظر ڈال کر بڑے بڑے مسائل پر گوہر فشانی کرنا، قرآن سے ناانصافی ہے اگر کسی مسئلہ پر اظہار رائے سے پہلے اس سے مکمل واقفیت ضروری ہے تو قرآن کے لئے بھی یہی حق تسلیم کریں کہ اس پر ہر کس و ناکس کو ’’ماہرانہ‘‘ رائے زنی سے پہلے اس کے مبادیات سے واقف ہونا ضروری ہے ورنہ گمراہی کا اندیشہ ہے، بقول علامہ اقبال مرحوم
ہر کسے دانائے قرآن و خبر
در شریعت کم سواد و کم نظر
امامت نماز کا تعلق امام کے جسم سے ہے۔ امام کا مقتدیوں کے آگے اپنے جسم کے ساتھ ہونا، نماز باجماعت کی صحت کے لئے شرط ہے جبکہ حاضر و ناظر کا تعلق روح و نور کے ساتھ ہے، بصیرت نبوت کے ساتھ ہے، علم کے ساتھ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز باجماعت اس لئے پڑھائی کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم اقدس علیل تھا۔ آج یا پہلے جو امام نماز پڑھاتے ہیں وہ اس لئے امامت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک حاضر نہیں۔ جسم کے احکام اور ہیں، روح کے احکام اور۔ دیکھنے، سننے اور علم کا تعلق روح سے ہے لہٰذا وہ سب کچھ دیکھتے سنتے ہیں۔ ان کا دیکھنا، سننا، اعضاء و جوارح کا محتاج نہیں۔ ان کی حیات عام حیات سے اور ان کے محسوسات عام محسوسات سے بلند و بالا ہیں۔
حاضر و ناظر پر اعتراضات کا رد
حاضر و ناظر کا لفظ نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں لہٰذا اس شخص کا اس بنا پر مسلمانوں کو مشرک کہنا خود مشرک بننا ہے کہ اﷲ کے مقابلہ میں خود شرک و کفر کی مشین چلاتا ہے۔ اس سے مطالبہ کریں کہ وہ یہ الفاظ قرآن و حدیث میں سے ثابت کرے ورنہ وہ سخت جھوٹا اور مستحق لعنت ہے، مفتری ہے۔ قرآن و سنت میں اس مفہوم کے لئے لفظ شاہد، شہید، اور اولی وغیرہ آئے ہیں اور یہ کلمات جس طرح اﷲ تعالیٰ نے اپنے لئے استعمال کئے اسی طرح اپنے نبی کے لئے بھی استعمال کئے ہیں جیسے سمیع، بصیر، علیم، حلیم کے الفاظ قرآن میں اﷲ تعالیٰ کے لئے بھی استعمال ہوئے، بندے کے لئے بھی اس جاہل سے پوچھو جو الفاظ قرآن میں موجود ہیں اور اﷲ کی صفات ہیں، جب وہ الفاظ خود اﷲ نے اپنے بندوں کے لئے بھی استعمال کئے ہیں اور تو روزانہ قرآن پڑھ سکتے ہو، جب یہ شرک نہیں تو جو لفظ قرآن و حدیث میں اﷲ کے لئے استعمال ہی نہیں ہوا اس کا استعمال نبی کے لئے کیسے شرک ہو گیا۔ یہ اسلام، قرآن اور اﷲ و رسول سب پر افتراء ہے، بہتان ہے اگر سچا ہے تو اس مطالبہ کو پورا کرے اور قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت پیش کرے۔ سچ، جھوٹ واضح ہو جائے گا ورنہ لعنۃ اﷲ علی الکاذبین پڑھ کر اس پر پھونک دیں۔ یا رسول اﷲ قرآن، حدیث اور تمام صحابہ اور پوری امت کا وظیفہ رہا ہے۔ اس کو شرک قرار دینے والا خود ہی زمرہ اہل ایمان سے نکل گیا۔ اس سے پوچھو قرآن میں يا ايها النبیُّ، يا ايها الرسول، يا ايها المزمل، يا ايها المدثر، نماز میں ایہا النبیُّ جو آیا ہے اس میں اور یا رسول اﷲ کے معنی میں کیا فرق ہے کہ یہ سب جائز اور یا رسول اﷲ ناجائز؟ کیا اﷲ نے قرآن میں، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث میں، کسی صحابی، کسی امام، چودہ سو سال میں کسی عالم، محدث، مفسر نے یا رسول اﷲ کو شرک کہا؟ اگر کہا تو ثبوت پیش کرے ورنہ ان کی علمیت یا جاہلیت اور گمراہی کا خود پتہ چل جائے گا۔ تمام صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بھی اور بعد از وفات بھی یا رسول اﷲ کہتے رہے۔ یہ نیا گمراہ فرقہ یہود و نصاریٰ کی پیداوار ہے۔ تحقیق کے لئے دیکھو ’’مسٹرہمفرے کے اعتراضات‘‘ ’’تاریخ نجد و حجاز‘‘ وغیرہ۔ یہ شخص جاہل، متعصب اور خارجی ہے۔ اس سے ہر مسلمان کو کلی طور پر پرہیز کرنا چاہئے۔ یہ پوری تحریک ہے بیرونی سرمایہ پر سامراج کے مقاصد پورے کر رہی ہے نام مختلف پر کام ایک ہے۔اہل علم کی گفتگو وہ کروائے جو فتنہ ختم کرنا چاہے، جس کا مشن ہی مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا ہو وہ کیوں مناظرہ کرے گا؟ سچائی کی تشہیر ہوتی ہے، گندگی کی تشہیر نہیں ہوتی، چور کبھی تشہیر نہیں کرتے آپ بھولے ہیں۔ یہ لوگ ایک مخصوص سانچے میں ڈھل چکے ہیں ان سے آپ کا مطالبہ بھول پن ہے۔ اپنے ایمان کی حفاظت کریں، اپنی مساجد کی حفاظت کریں، اپنی آنے والی نسلوں کے ایمان کی فکر کریں۔ منافق نہ پہلے ختم ہوئے نہ آئندہ ختم ہوں گے۔ وہ گندگی پھیلانے کی رات دن جدوجہد کر رہے ہیں۔ آپ اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کی فکر کریں۔ علماء حق سے رابطہ کریں ان موضوعات پر جاہلانہ گفتگو کی نہیں، عالمانہ گفتگو کی ضرورت ہے۔ پیار و محبت سے اور جذبہ جہاد کے تحت عوام کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کریں۔ اﷲ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین
عقیدہ حاضر و ناظر شرک نہیں
یا رسول اﷲ کہنا قرآن کے مطابق، حدیث کے مطابق، صحابہ، تابعین اور آج تک کے تمام اہل ایمان کی سنت اور محبت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمایا علامت ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : يا ايها الرسول، يا ايها النبي، يا ايهاالمزمل، يا ايها المدثر یا رسول اﷲ کے دشمنوں کو لفظ رسول اﷲ سے تو اختلاف و انکار نہیں صرف ’’یا‘‘ حرف ندا سے چڑ ہے اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام نامی کے ساتھ ہم ’’یا‘‘ ’’حرف ندا‘‘ قرآن سے بتا دیا۔ اگر ان میں شرم ہو تو ڈوب مریں لیکن ان میں شرم کہاں؟ ہوتی تو ایسی بے حیائی کی باتیں ہی نہ کرتے۔ جو صحابی خدمت اقدس میں حاضر ہوتا وہ یارسول اﷲ! کہہ کر ہی سلام عرض کرتا ۔ نہ کسی نے سرکار کی حیات دنیوی میں اس کے جواز میں شبہ کیا نہ وفات کے بعد۔ ان جھوٹوں سے پوچھو کسی صحابی یا تابعی یا امام نے کسی دور میں یارسول اﷲ کہنے سے روکا ہے؟ یا اسے ناجائز بتایا ہے؟ حوالہ صاف ہو۔ اگر ہماری کسی بات کو قرآن و سنت سے غلط ثابت نہ کرسکے (اور انشاء اﷲ نہ کر سکے گا) تو اس سے پوچھوں تمہیں شرک کی مشین کس نے بنا دیا ہے؟ جسے چاہو مشرک کہتے رہو۔
یہودیت و عیسائیت کا راستہ یارسول کہنا نہیں، اگر کسی میں ہمت ہے تو اس کا ثبوت پیش کرے۔ یہودیت و عیسائیت کا راستہ یہ ہے کہ
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّهِ وَقَالَتِ
التوبه، 9 : 30
’’اور یہود نے کہا : عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا : مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔۔‘‘
منافقوں اور کافروں نے کبھی یارسول اﷲ نہیں کہا۔ وہ تو ہر دور میں نبیوں کو اپنی مثل بشر کہا کرتے تھے۔
قَالُوا مَا أَنتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا
يسن، 36 : 15
’’(بستی والوں نے) کہا : تم تو محض ہماری طرح بشر ہو ۔‘‘
نبی کے غلاموں کا راستہ، محبت، اطاعت، ادب اور احترام کا راستہ ہے جبکہ منافقین کا راستہ نبی کے بغض، بے ادبی، گستاخی اور نبی سے بے ادبی کا راستہ ہے۔ قرآن نے نبیوں کے دشمنوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں فرمایا :
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَo
الفاتحه، 1 : 7
’’ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا‘‘
یارسول اﷲ اور یا علی کہنے والے مشرک نہیں ’’یا امریکہ ‘‘ کہنے والا مشرک ہے ’’یا گاندھی‘‘کہنے والا مشرک ہے۔
اﷲ تعالیٰ جہلاء سے محفوظ فرمائے۔ آمین
اصطلاح حاضر و ناظر بدعت حسنہ ہے
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روضہ اقدس میں اپنی حقیقی زندگی کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ تمام کائنات سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہے۔ جہاں جو ہوتا ہے آپ کے سامنے ہوتا ہے۔ کبھی توجہ خالق کی طرف زیادہ ہو جائے تو اس طرف سے عدم توجہ ہو سکتی ہے مگر یہ عد توجہ ہی ہے عدم علم نہیں۔ حاضر و ناظر جسمانی لحاظ سے نہیں روحانی و نورانی لحاظ سے ہے۔ یہ شان آپ کو خدا نے عطا فرمائی ہے۔ آپ کو شاہد و شہید کا مقام حاصل ہے اور قرآن و سنت اس پر شاہد و عادل ہیں۔
اﷲ تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور حکم میں یکتا ہے۔ نہ اس کی ذات کی طرح کوئی ذات ہے نہ صفات کی طرح کسی کی صفت، نہ اس کے حکم کی طرح کسی کا حکم، یہی توحید ہے اور اسی کے خلاف عقیدہ رکھنا شرک ہے۔ یہی خلاصہ ہے اس سوال کے جواب کا۔
سنت و بدعت
قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق جو قول و فعل ہے جائز اور جو اس کے خلاف بدعت سیئہ ہے یعنی بری بدعت جس کی مذمت حدیث پاک میں یوں فرمائی گئی ہے۔
من ابتدع بدعه ضلاله لا يرضاها اﷲ ورسوله کان عليه من الاثم مثل اثام من عمل بها لا ينقص ذلک من اوزارهم شيئا.
مشکوٰة، 30، ترمذی، السنن، کتاب العلم، باب ماجاء فی الاخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 / 44، الرقم : 2677
’’جس نے گمراہ کن بدعت نکالی جسے اﷲ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جتنا (مجموعی) گناہ ہو گا اور اس کا گناہ ان کے گناہوں میں کچھ بھی کمی نہ کریں گے۔‘‘
قال رسول اﷲ صلى الله عليه وآله وسلم ما احدث قوم بدعةً الارفع مثلها من السنه فتمسک بسنة خيرٌ من احدٰث بدعه.
مسند احمد بن حنبل، 4 / 105، الرقم : 17011
’’جب بھی کسی قوم نے کوئی بدعت نکالی اس کے برابر سنت ختم ہوئی سو سنت پر عمل پیرا ہونا بدعت پیدا کرنے سے بہتر ہے۔‘‘
بری بدعت کی علامت
حضرت حسان سے روایت ہے فرمایا :
ما ابتدع قوم بدعةً فی دينهم الا نزع اﷲ من سنتهم مثلها ثم لا يعيدها اليهم الی يوم القيامة.
دارمی، السنن، باب اتباع السنة، 1 / 58، الرقم : 98
’’جب بھی کسی قوم نے اپنے دین میں بدعت نکالی اﷲ ان کی سنت میں سے اتنی سنت ختم کر دیتا ہے۔ پھر قیامت تک اﷲ اس سنت کو نہیں لوٹائے گا۔‘‘
یہ اور ان جیسے متعدد دوسرے ارشادات نبوت اس حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہیں کہ مذموم بدعت وہ جو سنت یعنی اسلامی ہدایت کے خلاف ہو۔ جو اﷲ ورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناپسندیدہ ہو۔ ہر بدعت یعنی نئی چیز شرعاً ممنوع نہیں ہوتی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔
من سن فی الاسلام سنةً حسنةً فَلَه اجرُها واجرُ من عمِل بها من بعده من غير ان ينقص من اجورهم شيئی ومن سن فی الاسلام سنةً سيئةً کان عليه وزرها وزر من عمل بها من بعد من غير ان ينْقصَ مِن اوزارهم شئیٌ.
مسلم، الصحیح، کتاب العلم، باب من سن سنةً حسنةً اوسیئةً ومن دعا الی ھدی او ضلالۃ، 6 / 2059، الرقم : 1017
’’اسلام میں جس نے کوئی اچھا طریقہ نکالا اور اس کے لئے اس کا اجر بھی ہے اور اس کے بعد جو کوئی اس پر عمل کرے اس کا بھی، عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی کئے بغیر اور جس نے اسلام میںکوئی بری رسم ایجاد کی اس پر اس کا گناہ بھی ہو گا اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل پیرا کریں گے انکے گناہ میں کمی کئے بغیر۔‘‘
نمازِ تراویح
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت سے پہلے پورے رمضان المبارک میں مسجد میں باجماعت نمازِ تراویح کا انتظام نہیں تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری کہتے ہیں کہ ایک رات حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہمرا مسجد میں گیا۔ لوگ الگ الگ ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہے اور کسی کے ہمراہ پوری جماعت نماز (تراویح) ادا کر رہی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں ان لوگوں وک ایک قاری کے ساتھ جمع کردوں تو بہتر ہو گا۔ پھر آپنے تمام لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع فرمایا۔ پھر میں ایک رات آپ کے ہمراہ مسجد میں گیا تما م لوگ قاری کی اقتداء میں نمازِ تراویح ادا کر رہے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
مالک، المؤطا، کتاب الصلوٰة فی رمضان، باب ماجاء فی قيام رمضان، 1 / 114، الرقم : 250
’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔‘‘
فقہائے کرام فرماتے ہیں بدعت کی پانچ قسمیں ہیں :
وهی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعانده بل نبنوع شبهه … الخ
درالمختار مع رد المختار للشامی، 1 : 60
’’1۔ حرام : جو طریقہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشہور و معروف ہے کسی ضد سے نہیں بلکہ کسی قسم کے شک و شبہ کی بناء پر اس کے خلاف عقیدہ رکھنا۔
(2) واجبہ، جیسے گمراہ فرقوں کے رد میں دلائل پیش کرنا۔ علم نحو وغیرہ پڑھنا،
(3) مستحبہ جیسے (جہاد کے لئے گھوڑوں وغیرہ کے) اصطبل، تعلیمی ادارے قائم کرنا اور ہر وہ اچھا کام جو صدر اول میں نہ تھا۔
(4) مکروہہ، جیسے مساجد کا رنگ و روغن
(5) مباحہ، جیسے نئے نئے لذیز مشروب و کھانے، عمدہ لباس۔‘‘
ہر جگہ حاضر و ناظر
’’حاضر و ناظر‘‘ کی ترکیب قرآن وحدیث میں نہ اﷲتعالیٰ کے لئے استعمال ہوئی نہ کسی اور کے لئے، لہٰذا اس ترکیب پر لڑائی کرنا حماقت ہے۔ ہاں قرآن و حدیث میں لفظ شاہد، شہید وغیرہ استعمال ہوئے ہیں۔ اﷲتعالیٰ کے لئے بھی اس کی شان کے مطاقب، رسول اﷲ کے لہے بھی آپ کی شان کے مطابق اہل ایمان کے لئے بھی ان کی شان کے مطابق۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام کائنات سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہوں میں ہے۔ آپ روئے زمین کو اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے ہاتھ کی ہتھیلی، چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ان اﷲ زوی لی الارض فرايتُ مشارِقَها ومغاربَها وان امتی سيبلغ ملکها مازوی لی منها واعطيت الکنزين الاحمر والابيض.
المسلم، الصحيح، کتاب الفتن واشراط الساعة، باب هلاک هذه الامة، بعضهم لبعضٍ، 6 / 2215، الرقم : 2889
’’بے شک اﷲتعالیٰ نے میرے لئے زمین سمیٹ دی، سو میں نے اس کی مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا اور جتنی زمین میرے لئے سمیٹی گئی میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی اور مجھے دونوں خزانے دیدیئے گئے۔ سرخ (کسریٰ، ایران کے دینار) اور سفید (قیصر روم کے درہم)۔‘‘
یہ مشاہدہ قرآن و حدیث کے متعدد نصوص سے ثابت ہے۔ جسم اقدس اپنے مقام پر رہتا ہے۔ کہیں آنے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ مشاہدہ نورانی و روحانی ہے اور آپ کی شان کے لائق ہے۔ اس میں شان اقدس کی کمی نہیں۔ حقیقت اور شان رسالت کے عین مطابق۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
 
Top