نیلم
محفلین
وہ سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی تھی- سیاہ چادر میں خود کو لپیٹے وہ اپنے بازوؤں میں چہرہ چھپائے ہوئے تھی- حدید اس کے پاس چلا گیا تھا- قدموں کی چاپ پر اس نے سر اٹھایا تھا- حدید نے اس کے چہرے پر ایک خیر مقدمی مسکراہٹ دیکھی تھی- وہ اس سے کچھ فاصلے پر سیڑھیوں پر بیٹھ گیا تھا-
"تم نے زندگی میں خدا کو کتنی بار پکارا ہے؟" چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے حدید سے پوچھا تھا-
"بہت دفعہ-"
اب وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا- "اور الله کو؟"
حدید اس کے سوال پر حیران ہوا تھا- "کیا؟"
"تم نے الله کو کتنی بار پکارا ہے؟" بڑے پرسکون اور نرم انداز میں سوال دہرایا گیا تھا-
"کیا خدا اور الله میں فرق ہوتا ہے؟" وہ کچھ الجھ گیا تھا-
"الله خدا کا ذاتی نام ہے- اس نام سے اسے پکاریں تو وہ زیادہ قریب محسوس ہوتا ہے- دوست لگتا ہے-"
حدید نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لی تھیں-
"حدید! کل تم کہ رہے تھے نا کہ تم نے جب بھی الله کو پکارا ہے اس نے تمہاری مدد نہیں کی جب بھی اپنے پیغمبر سے مدد مانگی ہے انھوں نے تمہارا ہاتھ جھٹک دیا ہے- ساری بات عشق کی ہے- جب آپ کو کسی سے عشق ہو اور پھر آپ اسے پکاریں تو یہ ممکن نہیں کہ وہ آپ کی بات نہ سنے مگر تمہیں عشق نہیں تھا- تمہیں ضرورت تھی اور تمہارا ہاتھ جھٹک دیا گیا-
مجھے دیکھو- اس دن تمہیں دیکھا تھا- پارک میں اور مجھے تم سے عشق ہو گیا- عجیب بات ہے نا، پہلی بار دیکھنے پر محبّت نہیں عشق ہو گیا اور پھر میں تم سے بات کرنے کے لیے تمھارے پیچھے بھاگی، جیسے پاگل بھاگتے ہیں- میرے پاؤں میں جوتا تک نہیں تھا مگر مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی کیونکہ مجھے تم سے بات کرنا تھی- تمہاری تلاش تھی- تم نہیں ملے- میرے پاؤں میں کسی کیڑے نے کاٹ لیا- ایک ہفتہ تک میں ٹھیک سے چل نہیں سکی، میرا پاؤں بینڈیج میں جکڑا رہا مگر مجھے درد نہیں ہوا- صرف تکلیف ہوئی تو اس بات کی کہ مجھے تم نہیں ملے- تم میرا عشق تھے، ضرورت نہیں- تم تک پہنچنے کے لیے اگر دوبارہ مجھے اسی تکلیف میں سے گزرنا پڑتا تو بھی میں گزرتی، مگر تم دیکھو مجھے الله سے محبّت تھی تو الله نے مجھے تم تک پہنچایا- اس نے مجھے تکلیف دی، آزمائش میں ڈالا مگر تم تک پہنچایا- میری دعا قبول ہوئی، میری بات مانی گئی-
تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ تمہیں جو تکلیفیں دی گئیں، جن آزمائشوں میں ڈالا گیا، ان کے بعد دوبارہ تمہاری کبھی کوئی دعا قبول نہیں کی جائے گی؟"
حدید اسے بے یقینی سے دیکھ رہا تھا-
"مذہب بدلنے سے تمہاری زندگی میں کیا بدل جائے گا؟
تمہارا پاپا واپس آ جائیں گے؟
تمہاری ممی واپس آ جائیں گی؟
وہ دونوں اکھٹے رہنے لگیں گے؟
جو بدنامی تمھارے خاندان کے حصّے میں آئی- وہ ختم ہو جائے گی؟
ٹینا مل جائے گی تمہیں؟
کیا مذہب بدلنے سے یہ سب ہو جائے گا؟
تو پھر تو پورے ویسٹ کو اپنا مذہب بدل کر مسلم ہو جانا چاہیے- کیونکہ گھر تو سب سے زیادہ وہاں ٹوٹتے ہیں، ڈائی وورس وہاں زیادہ ہے- وہاں تو ہر روز کوئی نہ کوئی ٹینا کسی نہ کسی حدید کو چھوڑ دیتی ہے اور وہ سب کرسچن ہیں پھر ان کے پاس سکون کیوں نہیں ہے؟
یہ مان لو حدید! جو چیزیں تمھارے مقدر میں تھیں اور ہیں وہ تم نہیں بدل سکتے، وہ ہو کر رہیں گی چاہے تم مسلم ہو، کرسچن ہو یا کچھ اور-
مذہب سر پر پڑی ہوئی چادر نہیں ہے کہ چادر میں سے دھوپ آنے لگی تو دوسری چادر اوڑھ لی- تمھارے ساتھ زندگی میں جو کچھ ہوا وہ تمہارا قصور نہیں تھا- تمہارا مقدر تھا اور مقدر کو قبول کر لینا چاہیے- مگر یہ ضرور یاد رکھو کہ کچھ دوسرے لوگوں کی غلطیاں تمہارا مقدر بنیں اور تمہیں زندگی میں وہ غلطیاں نہیں کرنی جو کسی دوسرے کا مقدر بن جائیں-"
تحریر: عمیرہ احمد
اقتباس: حاصل
"تم نے زندگی میں خدا کو کتنی بار پکارا ہے؟" چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے حدید سے پوچھا تھا-
"بہت دفعہ-"
اب وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا- "اور الله کو؟"
حدید اس کے سوال پر حیران ہوا تھا- "کیا؟"
"تم نے الله کو کتنی بار پکارا ہے؟" بڑے پرسکون اور نرم انداز میں سوال دہرایا گیا تھا-
"کیا خدا اور الله میں فرق ہوتا ہے؟" وہ کچھ الجھ گیا تھا-
"الله خدا کا ذاتی نام ہے- اس نام سے اسے پکاریں تو وہ زیادہ قریب محسوس ہوتا ہے- دوست لگتا ہے-"
حدید نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لی تھیں-
"حدید! کل تم کہ رہے تھے نا کہ تم نے جب بھی الله کو پکارا ہے اس نے تمہاری مدد نہیں کی جب بھی اپنے پیغمبر سے مدد مانگی ہے انھوں نے تمہارا ہاتھ جھٹک دیا ہے- ساری بات عشق کی ہے- جب آپ کو کسی سے عشق ہو اور پھر آپ اسے پکاریں تو یہ ممکن نہیں کہ وہ آپ کی بات نہ سنے مگر تمہیں عشق نہیں تھا- تمہیں ضرورت تھی اور تمہارا ہاتھ جھٹک دیا گیا-
مجھے دیکھو- اس دن تمہیں دیکھا تھا- پارک میں اور مجھے تم سے عشق ہو گیا- عجیب بات ہے نا، پہلی بار دیکھنے پر محبّت نہیں عشق ہو گیا اور پھر میں تم سے بات کرنے کے لیے تمھارے پیچھے بھاگی، جیسے پاگل بھاگتے ہیں- میرے پاؤں میں جوتا تک نہیں تھا مگر مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی کیونکہ مجھے تم سے بات کرنا تھی- تمہاری تلاش تھی- تم نہیں ملے- میرے پاؤں میں کسی کیڑے نے کاٹ لیا- ایک ہفتہ تک میں ٹھیک سے چل نہیں سکی، میرا پاؤں بینڈیج میں جکڑا رہا مگر مجھے درد نہیں ہوا- صرف تکلیف ہوئی تو اس بات کی کہ مجھے تم نہیں ملے- تم میرا عشق تھے، ضرورت نہیں- تم تک پہنچنے کے لیے اگر دوبارہ مجھے اسی تکلیف میں سے گزرنا پڑتا تو بھی میں گزرتی، مگر تم دیکھو مجھے الله سے محبّت تھی تو الله نے مجھے تم تک پہنچایا- اس نے مجھے تکلیف دی، آزمائش میں ڈالا مگر تم تک پہنچایا- میری دعا قبول ہوئی، میری بات مانی گئی-
تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ تمہیں جو تکلیفیں دی گئیں، جن آزمائشوں میں ڈالا گیا، ان کے بعد دوبارہ تمہاری کبھی کوئی دعا قبول نہیں کی جائے گی؟"
حدید اسے بے یقینی سے دیکھ رہا تھا-
"مذہب بدلنے سے تمہاری زندگی میں کیا بدل جائے گا؟
تمہارا پاپا واپس آ جائیں گے؟
تمہاری ممی واپس آ جائیں گی؟
وہ دونوں اکھٹے رہنے لگیں گے؟
جو بدنامی تمھارے خاندان کے حصّے میں آئی- وہ ختم ہو جائے گی؟
ٹینا مل جائے گی تمہیں؟
کیا مذہب بدلنے سے یہ سب ہو جائے گا؟
تو پھر تو پورے ویسٹ کو اپنا مذہب بدل کر مسلم ہو جانا چاہیے- کیونکہ گھر تو سب سے زیادہ وہاں ٹوٹتے ہیں، ڈائی وورس وہاں زیادہ ہے- وہاں تو ہر روز کوئی نہ کوئی ٹینا کسی نہ کسی حدید کو چھوڑ دیتی ہے اور وہ سب کرسچن ہیں پھر ان کے پاس سکون کیوں نہیں ہے؟
یہ مان لو حدید! جو چیزیں تمھارے مقدر میں تھیں اور ہیں وہ تم نہیں بدل سکتے، وہ ہو کر رہیں گی چاہے تم مسلم ہو، کرسچن ہو یا کچھ اور-
مذہب سر پر پڑی ہوئی چادر نہیں ہے کہ چادر میں سے دھوپ آنے لگی تو دوسری چادر اوڑھ لی- تمھارے ساتھ زندگی میں جو کچھ ہوا وہ تمہارا قصور نہیں تھا- تمہارا مقدر تھا اور مقدر کو قبول کر لینا چاہیے- مگر یہ ضرور یاد رکھو کہ کچھ دوسرے لوگوں کی غلطیاں تمہارا مقدر بنیں اور تمہیں زندگی میں وہ غلطیاں نہیں کرنی جو کسی دوسرے کا مقدر بن جائیں-"
تحریر: عمیرہ احمد
اقتباس: حاصل