حاصل گھاٹ

آج کل ایک کولیگ سے لے کر یہ کتاب پڑھ رہا ہوں اور بیرونِ وطن پاکستانیوں کے جذبات کی بہت عمدگی سے تشریح کی گئی ہے اور مختلف مقامات پر سوچ کے در وا کیے ہیں۔ ابھی آدھی بھی نہیں پڑھی اس لیے مکمل تبصرہ نہیں کرسکتا
 
جواب

اچھا ناول ہے۔ مشرق اور مغرب کے درمیان غیر جانبدارانہ نظر سے تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ لیکن میرے خیال میں ناول پر کہیں کہیں اشفاق احمد کی چھاپ صاف دکھائی دیتی ہے۔میرے خیال میں یہ ناول راجہ گدھ کے پائے کا ناول نہیں۔
 

زبیر مرزا

محفلین
یہ بھی حسیات سے تعلق رکھنے والی غیر مرئی خوبیوں میں سے ایک کیفیت ہے، جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن سمجھنے پر آئیں تو سمجھ نہیں سکتے۔ ماں کی محبت کے تعلق کو مامتا کہہ کر واضع نہیں کر سکتے۔ ڈکشنری میں یا لٹریچر سے اس کی وضاحتیں ملتی ہیں، مامتا نہیں ملتی۔ جہاد پر جان سے گزر جانے والے بہادر کے جذبے کو اس وقت تک سمجھا نہیں جا سکتا، جب تک آپ خود ایسی بہادری کا حصہ نہ بن جائیں۔ تعلق، زندگی سے نبرد آزما ہونے کے لیے صبر کی مانند ایک ڈھال ہے۔ جب کبھی جہاں بھی سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے، وہاں قناعت، راحت اور وسعت خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔ آپ کو اندر ہی اندر یہ یقین محکم رہتا ہے کہ "آپ کی آگ" میں سلگنے والا کوئی دوسرا بھی موجود ہے، دہرا وزن آدھا رہ جاتا ہے۔

بانو قدسیہ کے ناول، حاصل گھاٹ سے اقتباس
 

زبیر مرزا

محفلین
آپاکالکھاہرلفظ ہرجملہ تجربات, احساسات اور عرفان وآگہی سے بھرپورہے
الله کریم ان کو صحت وشفاعطافرمائے
 
Top