حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر

ام اویس

محفلین
کراماً کاتبین کی ریکارڈنگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی کھوئی ہوئی چیز کو تلاش کرتے ہوئے کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم معمول سے ہٹ کر اپنے گھر کے کسی دراز یا الماری کو کھولتے ہیں تو تصاویر سے بھری کوئی پرانی البم وہاں پڑی ہمیں دکھائی دے جاتی ہے، اور پھر جیسے ہی ایک ایک کر کے ہم اُن تصاویر کو دیکھنے لگتے ہیں تو پرنٹنگ پیپر پر منتقل ہوئی یہ عکسبندی ماضی میں گزرے ایک ایک منظر کو پوری طرح ہماری یاداشت میں دوبارہ زندہ کرنے لگتی ہے۔ چنانچہ ماضی اور حال کے لمحوں کے درمیان موجود برس ہا برس کا فاصلہ یک دم سمٹتا ہے اور یاد کی انگلی تھام کر ان تصاویر کو دیکھتے ہوئے ہم بچپن کی معصومیت، شرارتوں، اور خوشیوں کی کیفیات کو اپنے اندر ہی اندر ان موجودہ لمحات میں پھر سے جینے لگتے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ یہاں تک کہ کسی تلخ یاد سے وابستہ چہرے کی کوئی تصویر ہمارے اندر کے بجھ چکے کسی پرانے غیض و غضب کو بھی پھر سے یوں ہوا دیتی ہے کہ نہ چاہتے بھی بری یاد کی کوئی منحوس تلخی اچھل کر اپنا آپ ہمارے چہرے پر پھیلانے لگتی ہے۔ جس کے بعد کرب کی پرانی لہروں کو بھی ہم دل میں اذیت کی نئی ہلچل مچاتے ہوئے محسوس کرنے لگتے ہیں۔

لیکن ٹھہریں! کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک دن اس سے بڑھ کر بھی ہمارے ساتھ ایسا ہوگا!

جب ہمارے ہاتھ میں زندگی میں کیے اعمال کے تصاویر کی پوری البم ہو گی۔۔۔ تب خالقِ حقیقی کے سامنے ان تصاویر میں دکھائی دیتے ہمارے ہر عمل کا عکس ہم پر کیا کیا کیفیات لائے گا؟
یقیناً جیسے ہر اچھا عمل ہمارے مرتبے کو پروردگار کی نظر میں بڑھائے گا۔ اسی طرح زبان سے نکلے جھوٹ اور ایسی چغلیاں، غیبتیں جنہوں نے رشتوں میں زہر گھولا۔۔۔ ایسی ہیرا پھیریاں، ملاوٹیں، چوریاں اور جرم اور گناہ جنہیں کوئی یہاں تو شاید نہ دیکھ سکا مگر ایک سی سی ٹی وی (cctv) کیمرہ فوٹیج کی طرح بننے والا یہ ڈیٹا کراماً کاتبین کی سٹورج ڈیوایس میں محفوظ ہے جسے بروزِ قیامت اب ہمارے سامنے پلے کیا جا چکا ہے۔

لہٰذا ہر برا عمل اور کسی دوسرے کے لیے بری بات کہنے سے پہلے اتنا ضرور سوچ لیں کہ آپ میں اپنے اللہ کے سامنے اس منظر کی ریکارڈنگ کو دیکھتے ہوئے شرمندہ ہونے کی کتنی ہمت ہے؟؟؟

محمد اویس حیدر
 

ام اویس

محفلین
. سپر ہیومینز

آپ گوگل سے کوئی سوال کرتے ہیں. وہ سوال کے جواب سے پہلے آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے سوال کے دوکروڑ پانچ لاکھ بیس ہزار جواب صفر اعشاریہ چھ پانچ سیکنڈز میں حاضر ہیں. اس وقت کو جو گوگل جواب کی تلاش میں استعمال کرتا ہے سرور رسپانس ٹائم کہتے ہیں. گوگل دنیا کے جدید ترین زی اون سرور اور جدید ترین لینکس ویب سرور آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتا ہے. اس سسٹم نے صرف موجود معلومات کو جواب کی مناسبت سے میچ کرکے آپ کیلئے لائن اپ کرنا ہوتا ہے. اور وہ اس کام کیلئے آدھے سیکنڈ سے ایک سیکنڈ کا وقت استعمال کرتا ہے اور بڑے فخر سے جواب سے پہلے آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے لیے میں نے یہ جواب چھ سو پچاس ملی سیکنڈز میں تلاش کیا ہے.

کمپیوٹر کی سکرین سے کرکٹ کے میدان میں چلتے ہیں. شعیب اختر یا برٹ لی باؤلنگ کروا رہے ہیں. گیند ایک سو پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکی گئی ہے. وکٹ کی لمبائی بیس اعشاریہ ایک دو میٹر ہے. ایک اینڈ سے دوسرے اینڈ تک پہنچنے میں بال کو چار سو اسی ملی سیکنڈز لگیں گے. جبکہ جہاں بیٹسمین کھڑا ہے انیس میٹر کے فاصلے پر،چار سو پچاس ملی سیکنڈز لگتے ہیں. اب فرض کریں کہ گنید شارٹ آف لینگتھ ہے تو وکٹ کے نصف کے قریب ٹپہ دیا گیا ہے. جب بیٹسمین کو احساس ہوتا ہے کہ یہ باؤنسر ہے اور بیٹھ جاتا ہے تاکہ باؤنسر سر کے اوپر سے گذر جائے. اس وقت اس کے پاس صرف دوسو پچیس ملی سیکنڈز یعنی ایک سیکنڈ کا قریب ایک چوتھائی وقت بچتا ہے.

اس ایک چوتھائی سیکنڈ سے بھی کم وقت میں انسانی جسم کیا کیا افعال سرانجام دیتا ہے، ہلکا سا اندازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں. سب سے پہلے آنکھ نے ابھرتے ہوئے گیند کی پردہ بصارت پر شبیہ بنائی جو کہ الٹی ہے یعنی آپ سائیڈ ڈاون. دماغ نے سب سے پہلے اس شبیہ کو سیدھا کرکے سمجھا کہ باؤنسر آرہا ہے. پھر اس نے فیصلہ کیا کہ اس باؤنسر کی سمت شاٹ لگانے کیلئے درست نہیں لہذا مجھے بیٹھ جانا چاہیے. اس فیصلے کے بعد دماغ کے چھیاسی ارب نیورونز میں سے ایک حصے میں موجود لاکھوں نیورونز نے اپر موٹر نیورونز کو پروپریوسیپشن کا حکم دیا. پروپریوسیپشن وہ عمل ہے جس میں انسانی ذہن جسم کے عضلات کو حرکت دینے سے پہلے ان کی درست جگہ کا تعین کرتا ہے کہ کونسا مسل کس پوزیشن پر اور کتنے کھچاؤ میں ہے.

جسم کے ساڑھے چھ سو مسلز کے کروڑوں مسل فائبر ز کی درست جگہ اور کھچاؤ کی معلومات دماغ کو پہنچادی گئیں. تب اس نے ساڑھے چار سو کے قریب عضلات کی لاکھوں مسل فائبر کو اپنے جگہ سے سکڑنے یا پھیلنے کیلئے کروڑوں سگنلز اپر موٹر نیورونز نے یہ سارے سگنلز حرام مغز کو پہنچادیے. حرام مغز نے لوئر موٹر نیورونز کے ذریعے ساڑھے چار سو مسلز کے لاکھوں مسل فائبرز کو علیحدہ علیحدہ ھدایت جاری کیں جو سارے سسٹم سے ہوتے ہوئے آخری سرے ایکسون پر پہنچی جس نے ایک کیمکل acetylcholine. ایسی ٹو کولین پیدا کیا. جس نے مسل نیورونز جنکشن پر عمل کرکے مسلز کو مطلوب کھچاؤ فراہم کردیا. یاد رہے کہ لاکھوں میں سے ہر مسل فائبر کے مسل نیورونز جنکشن پر ایسی ٹو کولین کی مقدار طلب کے حساب سے مختلف پیدا کی گئی.

ایک بار کے سگنلز کے بعد دوبارہ "سینسری فیڈ بیک" لی گئی کہ جسم غیر متوازن ہو کر گر نہ جائے. پھر اس فیڈ بیک کی روشنی میں نئے سرے سے "پاسچورل ایڈجسٹمنٹ" کی گئی اس سارے عمل کو جانے کتنی بار دہرایا گیا جب بیٹسمین بیٹنگ پوزیشن سے بیٹھی ہوئی حالت میں پہنچا. اور یہ سارے کروڑوں نہیں اربوں عوامل ایک سیکنڈ کے ایک چوتھائی سے بھی کم عرصے میں بخیر انجام پائے.

خدائے بزرگ وبرتر کی قسم آپ خود کو ٹھیک سے نہیں جانتے. آپ ہیومن نہیں سپر ہیومینز ہیں. اس کائنات کے سب سے ارفع خالق کی سب سے احسن تقویم…. اپنی صلاحیتوں کا درست ادراک کیجیے… اٹھیے اپنی توانائیوں کو درست سمت میں استعمال کرتے ہوئے اپنی محرومیاں مٹا دیجئے. اپنے حصے کی خوشحالی چھین لیجیے. خدا کی قسم آپ کر سکتے ہیں.

(ابن فاضل)
 

شمشاد

لائبریرین
سبحان اللہ

اور ایسی تخلیق صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے۔

اُم اویس مندرجہ بالا دونوں تحریریں لاجواب ہیں۔ ماشاء اللہ
 

ام اویس

محفلین
توبہ اور ہمارا رویہ: غور و فکر کا ایک پہلو:
**************************
ہم انسان ہیں اورانسان کو سمجھتے کیا ہیں؟ یہ ہمیں پتا نہیں۔ ہمارے اپنے پیمانے ہیں۔ کسی کو چاہیں تو پلکوں پہ بٹھائیں اورکسی کو پاؤں میں بھی جگہ دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ کسی کی تعریف میں ہم رطب اللسان رہتے ہیں۔ جو منظورِ نظر نہ ہو، جس سے بنتی نہ ہو، جو دل کو بھاتانہ ہو، اس کا تنکابھی پہاڑ نظر آتا ہے۔ من چاہے اگرپہاڑ جتنی بڑی غلطی بھی کر بیٹھیں، وہ آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔
کیا یہ معلوم نہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دواختیاردیے ہیں۔ وہ گناہ بھی کرے گااورنیکی بھی۔ وہ سیدھی راہ پر بھی چلے گااورکبھی کبھی راہ سے لڑکھڑائے گااوربھٹکے گا بھی ۔ وہ اگر نیکیوں کے انبار لگائے گاتو برائیوں کا مر تکب بھی ہوگا۔ وہ اچھائیوں پر اگر قادرہے تو برائیوں سے عاجز بھی نہیں۔ وہ کوئی فرشتہ صفت نہیں کہ برائی اس کے اندر جھانک بھی نہ سکے۔ نہ ہی وہ شیطان ایساگمراہ کہ گمراہی و بد راہی ہمیشہ کے لیے اس کا مقدر ٹھہری ہو۔
غلطی اورگناہ تو انسان کی سرشت میں ہے۔ اسی لیے تو اسے اس دنیا میں بھیجاگیا۔ وہ اگر فرشتہ ہوتا تو آسمانوں پر اللہ کی عبادت میں تا قیامت سر جھکائے رکھتا۔ معصومیت تو صرف انبیاء کے ساتھ خاص ہے۔ کامل ہیں تو صرف انبیاء۔ محفوظ ہیں تو ان کے رفقاء۔ باقی تو سب کو خطرات لاحق ہیں کہ جانے کب وہ غلطی کربیٹھیں۔پھر وہ توبہ بھی کرسکیں یا نہیں!
پھر ایساکیوں ہے کہ ہم توبہ کرنے والوں کے لتے لینے لگتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم توفرمارہے ہیں: ’’ہرابن آدم سے خطاسرزد ہوتی ہے، لیکن بہترین خطارکاروہ ہیں جو گناہ کے ارتکاب کے بعد اللہ تعالیٰ کے دروازۂ مغفرت پر اپنی جبین ندامت ٹیک دیں اور توبہ کرلیں۔‘‘
گناہ کے بعدجب انسان نادم ہوجائے، جب اس کے ہاتھ اللہ تعالیٰ کے دربارمیں کپکپانے لگیں، جب اس کے ہونٹ اللہ کے حضور لرزنے لگیں، جب اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جائے، جب آنکھ سے آنسو بہتے چلے جائیں، جب اس کا اضطراب اوربے چینی بڑھتی چلی جائے، جب اس کا ضمیر اسے گناہ کے ارتکاب پر کچوکے لگائے تو اللہ تعالیٰ ضرور اسے معاف کردیتے ہیں۔
اس کے باوجو اگر ہم اس مسلمان کو طعن و تشنیع کے تیروں سے زخمی کردیں۔ تیزوتند باتوں سے اس کا دل چھلنی کردیں۔ اس کی توبہ اوراحساس ندامت پر شک کی پرچھائی ڈال دیں تو کیاہماری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان متوجہ نہ ہوگا’’ہَلَّا شَقَقْتَ قَلْبَہ؟......کہ تونے اس کے دل کو چیر کر اندر سے جھانک کر کیوں نہ دیکھ لیا؟‘‘
یا پھر یہ سمجھا جائے کہ اب اللہ تعالیٰ کی رحمت’’ موسمی رحمت‘‘ ہے جو موسم کے اعتبار سے گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ کیا یہ سمجھاجائے کہ کسی کی توبہ پہ عدم قبولیت کی مہر لگاکے توبہ کے خدائی قانون کو ہم اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں؟ کیا یہ گمان کرلیا جائے کہ اب’’کراماً کاتبین‘‘ کے اختیارات یا ان کے رجسٹر ہمیں تھمادیے گئے کہ گناہ کے بعد جو توبہ کرے اس کے گناہ کو مٹانا، نہ مٹانا ہمارے اختیارمیں ہوگا؟
یہ ایک نئی روش ہے جو ہمارے معاشرے میں سراٹھارہی ہے۔ یہاں کسی ایک فرد کی بات نہیں ہورہی، نہ ہی کسی کی طرف داری کہ ہر کوئی اپنے کیے کا بھگتے گا۔لیکن بحیثیت قوم ہمیں سوچنا چاہیے اور اپنے اس رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے، کیونکہ دودھ کے دھلے تو ہم خود بھی نہیں، غلطی تو ہم سے بھی ہوسکتی ہے۔توبہ کے قبول یا عدم قبول کامعیار ہم نہیں طے کرسکتے۔یہ تو اسی پاک ذات کے اختیارمیں ہے، جس کی چاہے توبہ قبول کرے، جس کی چاہے رد کرے، لیکن میرا ایمان ہے کہ سچے دل سے کی گئی توبہ ضرور قبول ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر:ماجد عارفیؔ
 

ام اویس

محفلین
"کسی کیلئے ڈسٹ بن نہ بنیں"

معروف عرب مفکر ڈاکٹر علی طنطاوی صاحب لکھتے ہیں:
" ایک دن میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ جا رہا تھا،ہم سڑک پر اپنی لائن پر جا رہے تھے کہ اچانک کار پارکنگ سے ایک شخص انتہائی سرعت کے ساتھ گاڑی لیکر روڑ پر چڑھا قریب تھا کہ ان کی گاڑی ہماری ٹیکسی سے ٹکرائے لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے لمحوں میں بریک لگائی اور ہم کسی بڑے حادثے سے بچ گیے، ہم ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ خلاف توقع وہ گاڑی والا الٹا ہم پر چیخنے چلانے لگ گیا اور ٹیکسی ڈرائیور کو خوب کوسا،ٹیکسی ڈرائیور نے اپنا غصہ روک کر اس سے معذرت کرلی اور مسکرا کر چل دیا
مجھے ٹیکسی ڈرائیور کے اس عمل پر حیرت ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ غلطی اس کی تھی اور غلطی بھی ایسی کہ کسی بڑے حادثے سے دو چار ہوسکتے تھے پھر آپ نے ان سے معافی کیوں مانگی؟
ٹیکسی ڈرائیور کا جواب میرے لیے ایک سبق تھا وہ کہنے لگے کہ کچھ لوگ کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں،وہ گندگی اور کچرا لادے گھوم رہے ہوتے ہیں،وہ غصہ،مایوسی ،ناکامی اور طرح طرح کے داخلی مسائل سے بھرے پڑے ہوتے ہیں،انہیں اپنے اندر جمع اس کچرے کو خالی کرنا ہوتا ہے،وہ جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں،جہاں جگہ ملی یہ اپنے اندر جمع سب گندگی کو انڈیل دیتے ہیں لہذا ہم ان کے لئے ڈسٹ بِن اور کچرا دان کیوں بنیں؟
اس قبیل کے کسی فرد سے زندگی میں کبھی واسطہ پڑ جائے تو ان کے منہ نہ لگیں بلکہ مسکرا کر گزر جائیں اور اللہ تعالی سے ان کی ہدایت کے لئے دعا کریں۔"
 

ام اویس

محفلین
کسی نے بہت عمدہ بات بتائی ہے۔۔۔
راز کی بات:
کبھی تم نے دیکھا کہ مضمون کیا چیز ہے؟چند پیراگراف،متعدد جملوں،بہت سے الفاظ اور ڈھیروں سارے حروف کا مجموعہ۔یہ بظاہر چار چیزیں ہیں۔اب تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پہلی دو چیزیں بذات خود کوئی چیز نہیں ۔یہ تو آخری دو سے ملکر بنتی ہے۔گویا کہ مضمون حروف اورالفاظ دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہے۔بس اتنی سی بات ہے۔اس میں کسی کو شک نہیں کہ تمہارے پاس حروف اور الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے۔بس تم اس ذخیرے میں اضافہ کرتے رہو اور اس کو ترتیب دے کر سلیقے سے جوڑنا سیکھ جاؤ تو تم بھی اچھے مضمون نگار بن سکتے ہو؟
کہیں تم یہ تو نہیں سوچنے لگ گئے کہ میں ایک مشکل چیز کو انتہائی آسان بتا کر اصل راز چھپانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ نہیں میرے عزیز نہیں! ایسا کیوں کر ممکن ہے؟ ہمارے فقیری مسلک میں پہلی شرط اخلاص ہے اور اخلاص کا اولین تقاضا ہے کہ خیر کی کوئی بات کیسی کو معلوم ہے تو وہ اس سے بغل میں دبی چادر میں نہ چھپائے بلکہ صدقہ جاریہ کے ڈول بھر بھر کرخلقِ خدا کی تشنگی دور کرنے کی کوشش کرے۔اس سے دنیا میں بھی برکت اور توفیق ملتی ہے اور آخرت میں بھی نجات اور مغفرت کی امید بندھتی ہے پھر میں تو تمہارا طالب علم بھائی ہو ایک بھائی دوسرے بھائی سے کنجوسی کرکے چھپائی گئی چیز کتنے دن برت لے گا اور کس منہ سے بر تے گا؟میں تمہیں سچ بتا رہا ہوں کہ قلم کاری ان دو چیزوں پر عبور حاصل کرنے کا نام ہے انہی دو کے ملانے سے جملہ بنتا ہے اور چند جملے مل کر جو پیرے گراف بناتے ہیں،ان سے مضمون وجود پا جاتا ہے۔راز کی بات بس اتنی ہے کہ کس نے کتنے سلیقے اور کتنی خوبصورتی سے ان اینٹوں کو جوڑ کر سائبان کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔
تم سمجھو کہ میں نے ،،انیٹیں،، کہا ہے روڑے نہیں اور سائبان کہا ہے، اصطبل نہیں۔بس ساری بات اتنی سی بات سمجھنے میں ہے اگر موتی نہیں پرو سکتے تو روڑے بھی اکٹھے نہ کرو اینٹوں سے کام چلا لو محل نہیں تعمیر کر سکتے تو سائبان پر گزارا کر لوں مگر اصطبل کے معمار یا باڑے کی مستری ہرگز نہ بنو۔
میری طرف استفہامیہ نظروں سے کیا دیکھ رہے ہو؟؟ میری بات بالکل واضح ہے حروف اور الفاظ کی پہچان، ان کی قسما قسم اقسام میں سے درست انتخاب اور ان منتخبات کو لڑی میں پرونا ہی سب کچھ ہے امید ہے راز کی بات سمجھ گئے ہو گے۔
 
Top