جیو انٹرٹینمنٹ اور اے آر وائی نیوز کے لائسنس معطل

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کا لائسنس 15 روز جبکہ جیو انٹرٹینمنٹ کا لائسنس 30 روز کے لیے معطل کرنے کے علاوہ دونوں چینلوں پر ایک، ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا ہے۔

یہ پابندی جیو انٹرٹینمنٹ پر توہین مذہب پر مبنی پروگرام اور اے آر وائی پر عدلیہ مخالف پروگرام نشر کرنے پر لگائی گئی ہے۔

پیمرا کی طرف سے جمعے کی رات کو جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز کے مطابق یہ فیصلے پیمرا کے 79ویں اجلاس میں کیے گئے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ اتھارٹی کے تمام قوانین کا جائزہ لینے کے بعد جیو انٹرٹینمنٹ اور اے آر وائی نیوز کی جانب سے خلاف روزیوں کا نوٹس لیا گیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اے آر وائی کی جانب سے قوانین کی پامالی پر پیمرا نے متفقہ طور پر اے آر وائی کا لائسنس 15 دن کے لیے معطل کرنے اور اس پر ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

ادارے نے چینل کے پروگرام ’کھرا سچ‘ اور اس کے میزبان مبشر لقمان پر بھی پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس پروگرام میں عدلیہ کی تضحیک کی مذموم مہم مسلسل جاری تھی۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کی گیارہ تاریخ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف پروگرام پر مبشر لقمان کو پروگرام کرنے سے تاحکم ثانی روک دیا تھا تاہم ان کی اپیل پر سپریم کورٹ نے یہ پابندی ہٹا دی تھی۔

بیان کے مطابق اتھارٹی نے اے آر وائی کے علاوہ جیو گروپ کے انٹرٹینمنٹ چینل کا لائسنس بھی 30 دن کے لیے معطل کرنے اور اس پر بھی ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ چینل کے پروگرام ’اٹھو جاگو پاکستان‘ اور اس کی میزبان شائستہ لودھی سمیت تمام ٹیم پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔

پیمرا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پروگرام کی متنازع قسط کو کسی بھی دوسرے چینل پر نشر کرنے پر بھی پابندی ہوگی۔

یاد رہے کہ جیو انٹرٹینمنٹ کے 14 مئی کو نشر ہونے والے اس مارننگ شو میں اداکارہ وینا ملک اور ان کے شوہرکی شادی سے متعلق ایک پروگرام کے دوران ایک قوالی پیش کی گئی جس کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے اس بات پر شدید اعتراض کیا گیا کہ برگزیدہ ہستیوں سے منسوب قوالی کو جس طرح شادی سے متعلق پروگرام میں پیش کیا گیا وہ انتہائی غیر مناسب تھا۔

اس کے بعد 18 مئی کو جیو ٹی وی چینل کے مالک جنگ گروپ نے اس تنازعے پر معافی مانگی تھی اور اپنے اخبارات میں ’ہم معذرت خواہ ہیں‘ کے نام سے معافی نامہ شائع کیا تھا۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/06/140620_ary_geo_licence_suspended_rk.shtml
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
ہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
واہ رے " شریفو"
لگتا ہے سچ میں بوکھلا گئے ہیں ۔۔۔۔۔
لگتا ہے اک بار پھر مولوی مشتاق والی عدلیہ اور وہی ظلمت کا حامل دور لوٹ آیا ہے ۔
اللہ پاکستان اور عوام پاکستان کو محفوظ رکھے ۔۔ آمین
منظر نامےپر طوفان دکھائی دے رہے ہیں ۔
 
اے آر وائی نیوز چینل بے حد جانبدارانہ رپورٹنگ کرتا ہے۔ اور کئی دفعہ اس بات کا بھی لحاظ نہیں کرتا کہ ایسی رپورٹنگ سے اس کی جانبداری بے نقاب ہوجائے گی۔ بہت دفعہ میں نے نوٹ کیا کہ ایم کیو ایم کی یوں رپورٹنگ کی جاتی ہے جیسے یہ ایم کیو ایم کا ترجمان چینل ہے۔
پیمرا کو بھی ہوش اس وقت آتی ہے جب ان پر ڈنڈا چلتا ہے چاہے حکومت کا ہو یا عدلیہ کا۔ موجودہ حکومت نے بھی پیمرا کو فعال کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
جیو کو ریاستی ادارے کے ڈنڈے کی وجہ سے بند کیا گیا اور اے آر وائی کو عدلیہ کے۔
 
کم از کم انڈین کونٹینٹ پر پابندی لگادینی چاہیے
ہندوستانی مواد بارے میری رائے یہ ہے کہ تفریح کے نام پر پیش کیے جانے والے پروگراموں کو پرائم ٹائم سے ہٹا دینا چاہیے۔
دوسرا تمام غیر ملکی تفریحی مواد کو حکومت اور چینلز کی ایک مشترکہ سنسر ٹیم کے معائنے اور مناسب حد تک کی گئی فلٹرنگ کے بعد آن ائیر جانے دیا جائے۔
 
آخری تدوین:
اے آر وائی نیوز چینل بے حد جانبدارانہ رپورٹنگ کرتا ہے۔ اور کئی دفعہ اس بات کا بھی لحاظ نہیں کرتا کہ ایسی رپورٹنگ سے اس کی جانبداری بے نقاب ہوجائے گی۔ بہت دفعہ میں نے نوٹ کیا کہ ایم کیو ایم کی یوں رپورٹنگ کی جاتی ہے جیسے یہ ایم کیو ایم کا ترجمان چینل ہے۔
پیمرا کو بھی ہوش اس وقت آتی ہے جب ان پر ڈنڈا چلتا ہے چاہے حکومت کا ہو یا عدلیہ کا۔ موجودہ حکومت نے بھی پیمرا کو فعال کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
جیو کو ریاستی ادارے کے ڈنڈے کی وجہ سے بند کیا گیا اور اے آر وائی کو عدلیہ کے۔
پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں جو دھڑے بندی کی سیاست ہوتی ہے،اگر آپ اس کو سمجھتے ہیں تو آپ کو تمام چینلز کی جانبدارنہ رپورٹنگ کی سمجھ آ جائے گی۔ ;)
 

محمداحمد

لائبریرین

محمداحمد

لائبریرین
کم از کم انڈین کونٹینٹ پر پابندی لگادینی چاہیے

کاش ایسا ہو سکے۔ لیکن پاکستان میں فی الحال ایسا ہونا بعید از قیاس و خواب و خیال ہے۔

شریفوں کے دور میں تو ایسا ہونا اور بھی مشکل نظر آتا ہے۔ ان سے پہلے والے شرفاء بھی اسی فہرست میں شمار کئے جائیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہندوستانی مواد بارے میری رائے یہ ہے کہ تفریح کے نام پر پیش کیے جانے والے پروگراموں کو پرائم ٹائم سے ہٹا دینا چاہیے۔
دوسرا تمام غیر ملکی تفریحی مواد کو حکومت اور چینلز کی ایک مشترکہ سنسر ٹیم کے معائنے اور مناسب حد تک کی گئی فلٹرنگ کے بعد آن ائیر جانے دیا جائے۔

ان سب سستے پروگراموں سے مقامی انڈسٹری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ پاکستانی اشتہاری صنعت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ بے حیائی کو فروغ مل رہا ہے۔ اور بھی نہ جانے کیا کیا۔

اگر غیر ملکی پروگراموں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو تو تو پھر بھی قابلِ قبول ہے، تاہم نمک میں آٹا ملانے کو کسی طرح نہیں سراہا جا سکتا۔
 
ان سب سستے پروگراموں سے مقامی انڈسٹری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ پاکستانی اشتہاری صنعت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ بے حیائی کو فروغ مل رہا ہے۔ اور بھی نہ جانے کیا کیا۔

اگر غیر ملکی پروگراموں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو تو تو پھر بھی قابلِ قبول ہے، تاہم نمک میں آٹا ملانے کو کسی طرح نہیں سراہا جا سکتا۔
متفق۔
موجودہ صورت حال میں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بعض عناصر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہماری سماجی اور ثقافتی روایات پر حملہ آور ہو گئے ہیں۔ نجی میڈیا کے چند حلقوں میں منافع خوری اور ریٹنگ کی ہوس اِس قدر بڑھ چکی ہے کہ مسلسل ہماری سماجی اقدار کو روندا جا رہا ہے۔ ان چند لوگوں کی منافع خوری کی خاطر قوم کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا۔

اس وقت اشد ضرورت ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کی نشریات کے حوالے سے ضابطہ اخلاق وضع کیا جا ئے۔ اِس ضابطہ اخلاق میں جہاں ملکی و غیر ملکی تفریحی نشریات کی حدیں مقرر ہوں وہیں کرائم، دہشت گردی اور ریاستی اداروں سے متعلق معاملات کی کوریج کے لئے بھی اصول بیان کئے جانے چاہئیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
متفق۔
موجودہ صورت حال میں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بعض عناصر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہماری سماجی اور ثقافتی روایات پر حملہ آور ہو گئے ہیں۔ نجی میڈیا کے چند حلقوں میں منافع خوری اور ریٹنگ کی ہوس اِس قدر بڑھ چکی ہے کہ مسلسل ہماری سماجی اقدار کو روندا جا رہا ہے۔ ان چند لوگوں کی منافع خوری کی خاطر قوم کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا۔

اس وقت اشد ضرورت ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کی نشریات کے حوالے سے ضابطہ اخلاق وضع کیا جا ئے۔ اِس ضابطہ اخلاق میں جہاں ملکی و غیر ملکی تفریحی نشریات کی حدیں مقرر ہوں وہیں کرائم، دہشت گردی اور ریاستی اداروں سے متعلق معاملات کی کوریج کے لئے بھی اصول بیان کئے جانے چاہئیں۔

دارصل یہ کام حکومتی ادارہ برائے ضابطہ داری ء الیکٹرانک میڈیا کے کرنے کے ہیں۔ لیکن حکومت کے باقی اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی صرف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
نجی میڈیا کے چند حلقوں میں منافع خوری اور ریٹنگ کی ہوس اِس قدر بڑھ چکی ہے کہ مسلسل ہماری سماجی اقدار کو روندا جا رہا ہے۔ ان چند لوگوں کی منافع خوری کی خاطر قوم کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا۔

یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ غیر ملکی پروگراموں کے ساتھ ساتھ ملکی چینلز کے پروگرام بھی باقاعدہ مانیٹر کئے جائیں کہ یہاں بھی حالات دن بدن ابتر ہوئے جار رہے ہیں اور قیمت کو قدروں پر ترجیح دی جارہی ہے۔

لیکن سوال پھر وہی ہے کہ ایسا کون کرے۔

ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے​
 
یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ غیر ملکی پروگراموں کے ساتھ ساتھ ملکی چینلز کے پروگرام بھی باقاعدہ مانیٹر کئے جائیں کہ یہاں بھی حالات دن بدن ابتر ہوئے جار رہے ہیں اور قیمت کو قدروں پر ترجیح دی جارہی ہے۔

لیکن سوال پھر وہی ہے کہ ایسا کون کرے۔

ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے​
مجھے ایک پاکستانی فلمی اور ٹی وی اداکارہ کے الفاظ یاد آ رہے ہیں۔ بقول اس کے پاکستان کے 70 سے 80 فیصد گھروں میں ہم لوگوں کی اداکاری، رقص اور شوز وغیرہ کو پورا خاندان اکٹھے بیٹھ کر بڑے اہتمام اور شوق سے دیکھتا اور اگلے 2-4 دن اس پر دوستوں وغیرہ کے ساتھ محافل میں رائے بھی دیتا ہے اور وہیں ہمارے بارے ہی کہا جاتا ہے کہ یہ تو 'کنجر' ہیں۔
بیک وقت دو طرح کے خوائشات لیے ہم پوری قوم اسی طرح کی دوغلیت کا شکار ہیں۔شاید ہم میں سے ایک بہت بڑی تعداد اندر سے یہ سب کچھ دیکھنا بھی چاہتی ہے اور دوسروں کے لیے اپنے آپ کو راسخ العقیدہ مسلمان بھی ثابت کرنا چاہتی ہے۔
۔۔۔
2-3 سال قبل مرحوم قاضی حسین احمد نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس کے بعد کافی سارے غیر ملکی چینلز کو بند کر دیا گیا تھا۔ لیکن ہمارا میڈیا بھی بنی اسرائیل کی ہفتے کو مچھلیاں نہ پکڑنے والے حکم کی طرح رد عمل کرتے ہوئے اب انھی بند شدہ چینلز کے پروگراموں کو اپنے چینلز پردیکھا رہا ہے۔ اگر بالغ نظری سے جائزہ لیا جائے تو یہ کام ہم عوام کا ہے، جو براہ راست متاثرین ہیں، کہ وہ ریاستی اداروں اور حکومت وقت کو اتنا مجبور کریں کہ وہ کوئی سخت فیصلہ لیں اور قیمتوں کو اقدار پر تر جیح دینے والوں کی مناسب گو شمالی اور بیخ کنی کرے۔
۔۔۔۔۔
ویسے ہم سب ریاست پر گرفت رکھتی سیاسی جماعتوں میں سے کسی نہ کسی کو پسندیدہ مانتے اور اس کے منشور کے حامی ہوتے ہیں، کچھ دھرنے، مظاہرے، جلسے جلوس اس لیے بھی ہونے نہیں چاہیے۔ ;)
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھی شاعری، خوش گلو لوگوں کی آواز میں سننے کا اپنا لطف ہے۔ ہلکی پھلکی موسیقی بھی اچھی لگتی ہے۔

رہی بات لوگوں کے طرزِ زندگی کی تو بگاڑ ہمیشہ غیر محسوس طریقے سے ہی آتا ہے۔ آج کے دور میں جہاں کچھ گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں (ہر طرح ) کی ہندوستانی فلمیں سارا گھر بیٹھ کر دیکھتا ہے وہیں کچھ گھرانوں میں ہندوستانی ڈرامے تک نہیں دیکھے جاتے۔ آپ اپنے آپ کو جتنی ڈھیل دیں گے آپ کا دائرہ اُتنا ہی وسیع ہوتا جائے گا۔

پاکستان ہندستان تو ہے نہیں کہ جہاں گانا بجانا عبادت کے زمرے میں بھی لیا جائے۔ یہاں تو گانا بجانا مذہب کی رو سے ممنوع ہے، سو اگر کوئی ان سب چیزوں کی طرف راغب بھی ہوتا ہے تب بھی اُس کا دل اُسے ملامت کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ملامت کے درجے اپنے اپنے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
2-3 سال قبل مرحوم قاضی حسین احمد نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی
تھی جس کے بعد کافی سارے غیر ملکی چینلز کو بند کر دیا گیا تھا۔ لیکن ہمارا میڈیا بھی بنی اسرائیل کی ہفتے کو مچھلیاں نہ پکڑنے والے حکم کی طرح رد عمل کرتے ہوئے اب انھی بند شدہ چینلز کے پروگراموں کو اپنے چینلز پردیکھا رہا ہے۔

مثال خوب دی ہے آپ نے۔ :)

اگر بالغ نظری سے جائزہ لیا جائے تو یہ کام ہم عوام کا ہے، جو براہ راست متاثرین ہیں، کہ وہ ریاستی اداروں اور حکومت وقت کو اتنا مجبور کریں کہ وہ کوئی سخت فیصلہ لیں اور قیمتوں کو اقدار پر تر جیح دینے والوں کی مناسب گو شمالی اور بیخ کنی کرے۔

مجبور عوام حکومت کو کیسے مجبور کرسکتی ہے بھلا ! :p

اور اگر کر سکتی تو یقیناً لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے کرتی۔ :)

ویسے ہم سب ریاست پر گرفت رکھتی سیاسی جماعتوں میں سے کسی نہ کسی کو پسندیدہ مانتے اور اس کے منشور کے حامی ہوتے ہیں، کچھ دھرنے، مظاہرے، جلسے جلوس اس لیے بھی ہونے نہیں چاہیے۔ ;)

اگر دھرنے اور احتجاج سیاسی مقاصد کے بجائے عوامی مسائل کے لئے ہونے لگے تو پھر سیاسی لوگ کہاں جائیں گے۔ :):D
 
Top