جیسے مر گیا میں۔۔۔۔۔۔۔۔برائے اصلاح

شیرازخان

محفلین
دیکھ کر اک آہ ٹھنڈی بھر گیا میں
اے زمانے تجھ سے شاید ڈر گیا میں

لوگ سب اک لاش کو گھیرئے ہوئے تھے
یو ں لگا مجھ کو کہ جیسے مر گیا میں

میں بھی پہلے کانچ کا پیکر ہی تھا پر
رہ کے ان پتھروں میں بن پتھر گیا میں

ایک چادر بھی نہیں اب پاس میرے
خود سری کی سردیوں میں ٹھر گیا میں

کوئی دستاویز مجھ کو مل نہ پائی
جب کبھی بھی عمر کےدفترگیا میں

حوصلوں کی شہ پہ نکلا تھا سفر پر
اور تماشہ بن کے سیدھا گھر گیا میں

سامنے سے اس لیئے گزرا اُٹھا کر
آئینہ تیرے بھی آگے کر گیا میں

خود پسندی کی لَے میں شیراز اکثر
چاہتا تو میں نہیں تھا پرَ گیا میں

الف عین
 
Top