جہاں گڑ ہو گا، وہاں چیونٹے تو آئیں گے۔

جہاں گڑ ہو گا، وہاں چیونٹے تو آئیں گے۔

روزنامہ نوائے وقت میں آج کل الطاف گوہر ایک کالم لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ کراچی کے ایک پوش محلے کی مسجد میں جہاں صاحب حیثیت اور پرہے لکھے لوگ رہتے ہیں، انہیں مولوی صاحب کا خطبہ سننے کا اتفاق ہوا۔

مولوی صاحب کے خطبے کا موضوع تھا کہ مسلمان نمازی پر لازم ہےکہ وہ اپنی شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھے ورنہ اس کی نماز فسق ہو جائے گی۔ الطاف گوہر مولوی صاحب کی جسارت پر حیرت زدہ تھے کہ وہ پڑہے لکھے لوگوں کے سامنے ایسے فروعی موضوع پر خطبہ دے رہے تھےاور اتنے جوش اورجذبے سے بات کر رہے تھے جیسے سامعین پر ایک نئے انوکھے ترین موضوع کا انکشاف کر رہے ہوں، اور اسلام کے ایک اہم بلکہ بنیادی مسئلے پر روشنی ڈال رہے ہوں۔

خطبہ:

مجھے بھی مولوی صاحب کا ایسا خطبہ سننے کا اتفاق ہوا تھا۔ سردیوں کا موسم تھا۔ اسلامآباد میں آب پارہ کی لال مسجد کا ملحقہ میدان کھچا کھچ نمازیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اجتماع میں زیادہ تر سرکاری افسر تھعے۔ ڈپٹی سیکرٹری، سیکشن افسر، سیکریٹیریٹ کا پرسنل اسٹاف اور دو ایک سیکریٹری بھی موجود تھے۔ مولوی صاحب خطبہ دینے کے لیے اٹھے تو اتفاق سے ان کی نگاہ ایک صاحب پر پڑی جس نے جرابیں پہن رکھی تھیں۔ مولوی صاحب کے خطبے کے لیے ایک موضوع مل گیا۔ انہوں نے مجمع کو ڈانٹنا شروع کردیا کہ پڑھے لکھے ہو کر بھی آپ ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور نماز میں بھی سنت کو ملحوظ خاطر نہیںرکھتے ہیں، آپ کو علم ہونا چاہیے کہ نماز میں جراب پہننا ممنوع ہے، جو شخص جراب پہن کر نماز پڑہتا ہے اس کی نماز فسق ہو جاتی ہے۔

مجمع میں سے کوئی چلا کر بولا "مولانا اسکیمو لینڈ کے مسلمان کیا کرتے ہونگے؟"
مولانا غصے میں چلائے "ہم اسکیمو لینڈ کی بات نہیں کررہے ہیں ہم پاکستان کی بات کر رہے ہیں اور صاحبو! جان لو کہ خطبے کے دوران حجت کرنا شیطانی فعل ہے"۔

مجمع پر سکوت چھا گیا۔

مجھے مولوی صاحب کی جسارت پر حیرت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ پڑھے لکھے اور اسلام کے باخبر لوگوں کے سامنے ایسی باتیں کر رہے تھے۔ اس جذبے اور جوش سے بات کر رہے تھے جیسے وہ جانتے ہوں اور ان جانوں کو سمجھانے کا مقدس فریضہ ادا کر رہے ہوں۔ مجھے تو اس بات پر حیرت ہو رہی تھی کہ پڑہے لکھے باخبر لوگ مولوی صاحب کی فروعی باتوں کو بیٹھے خاموشی سے سن رہے تھے۔ کسی کے دل میں احتجاج پیدا نہیں ہو رہا تھا ۔

میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ مولوی صاحب سے کہوں "جناب والا ! خطبے میں کسی اسلامی مسئلے پر روشنی ڈالیے" میں اٹھا بیٹھا ، دو ایک بار کوشش کی لیکن ہمت نہ ہوئی۔ میں نے سوچا چلو احتجاجا واک آؤٹ کر لو۔ مجھے مجمع سے باہر نکلتے دیکھ کر مولوی صاحب نے ایک دم پینترا بدلا، کہنے لگے "خطبہ سننا لازم ہے چونکہ یہ نماز کا ایک لازمی حصہ ہے، خطبہ نہ سنو تو نماز فسق ہو جاتی ہے"۔

اس روز میرا موڈ بہت آف رہا۔

شام کو میرے گھر "چھڈ یار" کی میٹنگ تھی۔

"چھڈ یار" ہماری ایک تنظیم ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ چھوڑو۔ سیاسی صورت حال کو چھوڑو، دفتر کی پالیٹکس چھوڑو، گھریلو چخ چخ کو چھوڑو، اپنے اندر کا بچہ باہر نکالو، اسے اپنے کاندھے پر بٹھاؤ اور پھر باہر نکل جاؤ۔ آٹھ دس سن کسی کھوہ میں، جنگل میں، وادی میں، پہاڑی پر جاکر تیاگی بن جاؤ۔

چھڈ یار کے چھ رکن ہیں جو "میں" سے یوں بھرے ہوئے ہیں جیسے بھڑ "بھوں بھوں" سے بھرے ہوتے ہیں۔

جھولا اور نمرود:

سب سے پہلے عماد آیا۔ عماد ذات کا انجینئر ہے جو عبادات میں یوں بھیگا ہوا ہے جیسے جلیبی شیرے میں بھیگی ہوتی ہے۔ کہنے لگا "آج موڈ آف نظر آتاہے، کیا ہوا؟" میں نے مولوی صاحب کے خطبے کی بات سنا ئی۔ اس پر عماد ہنسنے لگا "مفتی جی ! خطبے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ جراب والی بات تو بڑی معصوم ہے۔ ہم نے وہ خطبہ سنا ہے کہ الامان ۔ مثلا ہمارا گاؤں بڑے پر فضا مقام پر واقع تھا۔ جب برسات کا موسم آتا تو سبزے کا مخملی فرش بچھ جاتا۔ درختوں کی شاخیں دھنا دھن جھولتیں۔ طرح طرح کے پرندے اپنی اپنی بولیاں بولتے۔ ایک سماں بندھ جاتا۔ بچے ضد کرتے تو بڑے رسوں کے جھولے بنا دیتے جن پر بیٹھ کر بچے جھولتے۔

اس پر ہمارے گاؤں کی مسجد کے مولوی صاحب نے جمعے کی نماز کے دوران خطبے میں ہم سب کو خبردار کیا کہ جھولا جھولنا ایک غیر اسلامی بلکہ شیطانی فعل ہے۔

مولوی صاحب کی بات سن کر ہم سب بہت حیران ہوئے۔

اعظمی نے کہا "مولوی صاحب سے پوچھتے تو کہ شیطانی فعل کیسے ہے؟ "۔ ۔

عماد مسکرایا، کہنے لگا " أپ گاؤں کے مولوی صاحب کو نہیں جانتے، دیہات میں وہ اسلام پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے بحث نہیں کی جا سکتی ہے۔ مولوی صاحب نے خود ہی جھولے کے مسئلے پر روشنی ڈالی ۔ کہنے لگے "نمرود نے ہی جھولا ایجاد کیا تھا۔ قصہ ہوں ہے کہ جب حضرت ابراہیم۴ کو آگ میں ڈالنے کے لیے ایک بہت بڑا بھانبھر لگایا گیا تو وہ اس قدر بڑا ہو گیا کہ قریب جانا مشکل ہو گیا۔ کوئی شخص حضرت ابراہیم۴ کو اس الاؤ میں دھکیلنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس وقت نمرود کو سوجھی۔ اس نے رسے کااایک جھولا درخت سے باندھا۔ جھولے کا رخ آگ کے الاؤکی طرف کر دیا ۔ نمرود نے کہا، حضرت ابراہیم۴ کو جھولے پر بٹھا کر دھکا دو۔ جب جھولا الاؤکے اوپر جائے گا تو رسہ جل جائے گا اور ابراہیم۴ گر پڑیں گے۔

مولوی صاحب نے کہا "جو جھولا لگاتے ہیں وہ نمرود کے پیرو کار ہیں لوگو خبردار! کہ اس بدعت میں نہ پڑو"۔

عمر ہنسنے لگا، ہولا "یہ خطبہ تو پرانا ہے۔ آج بسنت کے خلاف خطبے دیئے جا رہے ہیں کہ بسنت منانا کفر کے مترادف ہے۔ یہ موسمی تہوار نہیں بلکہ ہندوانہ تہوار ہے۔ اسلام میں صرف مذہبی تہوار ہوتے ہیں۔"

سکہ وہ جو رائج الوقت ہے۔

"ان خطبوں میں اسلام کے متعلق کتنی ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے" اعظمی نے کہا ۔ "اسلام کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے "۔۔۔۔۔

اس دوران مسعود بھی آگیا۔ ۔ مسعود نے آتے ہی شور مچا دیا ، کہنے لگا "یار تم سب کتنے احمق ہو، جسے تم مسخ کہتے ہو، یہی اسلام ہے جسے تم ڈس انفارمیشن کہتے ہو، یہی اسلام ہے۔"

"تیرا دماغ تو نہیں چل گیا ؟ " عمر غصے میں غرایا۔ ۔

"میرا نہیں تمہار دماغ چل گیا ہے "۔ ۔ ۔ تم سمجھتے ہو کہ اسلام وہ ہے جو کتاب میں درج ہے یا وہ ہے جو پڑہے لکھے عقل مند باخبر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ ۔ نہیں میرے پیارو ! اسلام وہ ہے جو سکہ رائج الوقت ہے۔ اسلام وہ ہے جو مسجدوں میں خطبوں کے ذریعے پھیلایا گیا ہے، پھیلایا جا رہا ہے ۔"

اس پر سب احتجاجا چینخنے لگے۔ ۔ ۔

مسعود نے کہا،"اچھا یہ بتاؤ پاکستان میں کل کتنی مسجدیں ہونگی ۔ ہر اڈے پر ہے، ہر شاہراہ پر ہے، شہروں میں ہر محلے میں ہے، مل ملا کر دس لاکھ تو ہونگی۔"۔ ۔ ۔

"ہاں شاید" عماد نے کہا۔ ۔

"تو جان لو دوستو!" مسعود بولا "کہ ہر جمعے کو ہر تہوار کے دن دس لاکھ مسجدوں میں ایسے خطبے دیئے جاتے ہیں۔ دیہات کے اسی فیصد لوگ تو ان خطبوں کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ شہر کے عام لوگ ان خطبوں کو ڈھل مل یقین سے سنتے ہیں۔ پڑہے لکھے باخبر لوگ ان خطبوں کو سنتے ہیں، بولتے نہیں۔ ۔ پھر ریڈیو پر، ٹی وی پر، اخباروں میں ایسے خطبے تقاریر اور مضامین کی صورت میں نشر ہوتے رہتے ہیں"۔ ۔ ۔

اس روز مسعود کی بات نے میری آنکھیں کھول دیں ۔ میں سمجھتا تھا کہ اسلام وہ ہے جو کتاب میں ہے۔ جو صاحبان غور و فکر کے ذہن میں ہے یا جس کا پرچار بزرگان دین، اولیائے کرام یا صوفیائے کرام نے کیا ہے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار اس حقیقت کو جانا کہ اسلام وہ ہے جو رائج الوقت ہے۔ جسے ملا نے رائج کیا ہے اور یہ ملا پاکستان میں دس لاکھ نشر گاھوں پر قابض ہیں۔ وہ اسلام کے صرف ان پہلوؤں کو بوسٹ کرتے ہیں جن سے ان کی ذات کو اہمیت ملے، ان خطبات کو اہمیت ملے، ان کے توہمات کا پرچار ہو۔ ۔ ۔

اجارہ داری

صاحبو ! یہ کوئی نئی بات نہیں، یہ سلسلہ تو روز اول سے چل رہا ہے۔ جب بھی کوئی نیا مذہب آیا تو ساتھ ہی اس کے اجارہ دار پیدا ہو گئے۔

ہندو ازم آیا تو برہمن پیدا ہوگئے۔ ۔

عیسائیت آئی تو راہبانیت کا سلسلہ چل پڑا اور پادری اس قدر طاقت ور ہو گئے کہ بادشاہوں سے ٹکر لینے سے گریز نہ کیا۔ ۔

بدھ ازم وہ واحد مذہب تھا جس نے خدا کے بارے اقرار کیا نہ انکار کیا۔ جس نے کوئی فلاسفی نہیں دی تھی۔ صرف نروان کی بات کی تھی۔ ۔ اجارہ داروں نے بدھا ازم میں بھی رہبانیت کی رسم چلا دی اور خود اتھارٹی بن گئے۔ بدھ بھکشو برہمن بن گئے۔ ۔

اسلام میں رہبانیت کا کوئی مقام نہیں ہے، اسلام نے مکمل طور پر مساوات دی ہے، لیکن اسلام میں اجارہ دار آ پہنچے ہیں، سیانے کہتے ہیں۔ جہاں گڑ ہوگا، وہاں چیونٹے آ پہنچیں گے۔ اسلام جیسے سادہ اور صاف مذہب کو اجارہ داروں نے اپنے مفاد کے لئے اپنی برتری قائم کرنے کے لئے ۔ Ritual۔ میں بدل دیا


اسلام کی سادگی کی بات پر مجھی محمد فاضل یاد آگیا۔ محمد فاضل جہلم کے کسی گاؤں کا رہنے والا ایک ان پڑھ مسلمان تھا۔ قسمت آزمائی کے لیے وہ کسی نا کسی طور یورپ میں جا پہنچا۔ پیرس میں کئی سال رہا۔ سارا دن ہوٹل میں برتن دھوتا، باورچی خانے میں جھاڑو دیتا، رات کو کسی فٹ پاتھ پر جا کر پڑ رہتا۔

آٹھ دس سال کے بعد پتہ چلا کہ محمد فاضل پیرس کے سب سے پوش ہوٹل کا چیف شیف بن گیا ہے، شیف باورچی کو کہتے ہیں، ہوٹل میں تمام کھانے پکانےکی ذمہ داری شیف پر ہوتی ہے۔ شیف کی تنخواہ ہوٹل کے چیف منیجر کے برابر ہوتی ہے۔

میں فاضل کو جانتا تھا۔ یہ خبر سن کر کہ وہ پیرس کے ایک ہوٹل کا شیف بن گیا ہے۔ مجھے یقین نہ آیا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک جہلمی ان پڑھ جو ان چند سالوں میں اتنے اونچے مقام پر پہنچ جائے۔

میں نے اپنے فارن آفس کے دوست سے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ان پڑھ شخص ہوٹل کا شیف بن جائے۔

میرا دوست ہنسا، کہنے لگا "مفتی ! پاکستانی عجیب قوم ہے۔ یہاں سست الوجود ہوتے ہیں، جذباتی ہوتے ہیں، منافقت اور کرپشن میں لت پت ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک میں جا کر پتا نہیں کیا ہو جاتا ہے، جن بن جاتے ہیں۔ ہمارے ایک رشتہ دار گئے تھے۔ چار سال وہاں رل رل کر جئے اور اب دو ہوٹلوں کے مالک ہیں۔ سندھ کی ایک مٹیار کسی صاحب حیثیت کی میڈ کی حیثیت سے گئی تھی اب وہ اک کڑوڑپتی لارڈ کی بیگم ہے، اس کے لیے تازہ پان کراچی سے جاتے ہیں، کتھا ہندوستان سے جاتا ہے، آم پاکستان سے جاتے ہیں ۔ پاپڑ بھارت سے جاتے ہیں۔ محل میں رہتی ہے چار نوکر ہیں ، سفر کے لیے اپنا ہیلی کاپٹر ہے"۔ ۔ ۔

وہ ہنسنے لگا ، بولا "یہ پاکستانی قوم عجیب مخلوق ہے بیک وقت بالشتے بھی ہیں، نو گزے بھی ہیں۔ ۔ ۔"

کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ فاضل چھٹی پر آیا ہوا ہے میں اس سے ملنے کاؤں گیا۔ بڑے تپاک سے ملا باتوں کے دوران میں نے پوچھا "فاضل واقعی تو ہوٹل میں شیف ہے"

وہ ہنسا اور بولا "ہاں شیف تھا چار سال شیف کا کام کیا اب میں نے ہوٹل خرید لیا ہے"

میں نے پوچھا "یہ بتا کہ تو کون کون سے کھانے پکانا جانتا ہے"؟

بولا "انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی، چینی، روسی، عربی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کھانے ۔ ۔ ۔ ہر ملک کی ڈش پکانا جانتا ہوں"

میں نی کہا "یہ بتا کہ سب سے عمدہ ڈش کون سی ہے"؟

ایک منٹ کے توقف سے بولا "سچی بات پوچھتے ہو تو دنیا کی کوئی ڈش ہماری بانڈی روٹی کا مقابلہ نہیں کر سکتی"

بانڈی روٹی کا کیا مطلب ہے ؟ میں نے پوچھا

بولا "یہی ہانڈی روٹی جو ہم پکاتے ہیں"

حیرت سے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

کہنے لگا ۔ ۔ ۔" مفتی جی! ذرا سوچو وہ کتنا بڑا آدمی تھا جس نے ہانڈی رائج کی۔ آج صدیوں بعد یورپ والوں کو احساس ہوا ہے کہ ہمیں بیلینسڈ فوڈ کھانی چاہئیے۔ ہانڈی کے موجد نے صدیاں پہلے اس بات کو جان کر ہانڈی ایجاد کی تھی، جو بیلینسڈ فوڈ کی بہترین شکل ہے، ہانڈی میں شوربہ ہوتا ہے، گوشت ہوتا ہے، سبزی ہوتی ہے، جرحے سائیڈل ہوتے ہیں، مرچ ہوتی ہے، ہلدی ہوتی ہے، ادرک ہوتی ہے، پیاز ہوتی ہے، ٹانکس ہوتی ہے، ہمیں آج پتہ چلا ہے کہ لہسن دل کے لیے کتنی بڑی ٹانک ہے۔ ہانڈی کے موجد کو یہ راز صدیاں پہلے معلوم ہوگیا تھا۔ پھر مصالحے میں بڑی الائچی، چھوٹی الائچی ، دار چینی، کالی مرچ ۔ ۔ ابھی تک ہمیں علم نہیں کہ ان چیزوں کے کیا خواص ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے جسم کے لیے کس قدر مفید ہیں " ۔ ۔ ۔ وہ رک گیا۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر بولا " بھائی جی! ہانڈی صرف بیلینسڈ فوڈ ہی نہیں ، اس میں جو ذائقہ ہے، چٹخارہ ہے اس کا جواب نہیں ہے، مغرب والے پھیکی بے سواد ڈشیں کھاتے ہیں، انہیں کھانے کی تمیز نہیں"

پھر ایک بات اور جس میں ہانڈی کا جواب نہیں"۔۔۔۔ یہ کہ کر وہ ہنسنے لگا ۔ ۔ بولا "جب میں شیف تھا تو ایک روز میں ہوٹل کے مالک سے بولا ۔ صاحب جی! باورچی خانے میں پکیرے کے لیے برتن چاہیئیں۔ ۔ وہ حیران ہوا ۔ بولا "پاورچی خانے میں پکیرے کے لیے برتی تو سب نئے ہیں۔ ۔ ہر برتن کے چار چار سیٹ ہیں، کسی برتن کی کمی نہیں۔ "

"ہاں کسی برتن کی کمی نہیں ہے " میں نے کہا

"پھر تم کون سا برتن مانگتے ہو" اس نے پوچھا

میں نے کہا "صاحب جی !میں ایسا برتن مانگتا ہوں جن میں پکائے ہوئے کھانوں میں چار گنا لذت بڑھ جائے گی" اس نے میری بات سمجھی نہیں لیکن مان لی ۔ چونکہ یہ مغرب والے ہیں، یہ کھانے میں پیوریٹی کو مانتے ہیں ، نفاست کو مانتے ہیں، انہیں لذت کا شعور نہیں ہے، خیر جب میں نے اسے بتایا کہ صاحب جی! مجھے ایسے برتن چا ہیئیں جو مٹی کے بنے ہوئے ہوں تو اس کا ذہن فیوز ہوگیا"۔،

میں فاضل کی بات سن کر خود حیران ہوا، میں نے پوچھا "تو کیا تم نے وہاں مٹی کے برتن بنوائے"


فاضل بولا "بھائی ! جو لذت مٹی کے برتن کے پکیرے میں ہوتی ہے، وہ کسی اور برتن میں نہیں ہوتی، مٹی کی ہانڈی میں کھروڑے ڈال دو، نیچے ہلکی آنچ جلا دو، ساری رات پکنے دو۔ صبح اس میں جو لذت پیدا ہوتی ہے اس کا جواب نہیں۔ پتا نہیں مٹی کنٹرلڈ ہیٹ پیدا کرتی ہے یا کیا؟ ۔ بس لذت ہی لذت ہو جاتی ہے۔ صرف گوشت ہی نہیں، ثابت ماش پکالو، حلیم پکا لو، چنے پکالو، اوجھری پکالو۔"

"مٹی کے برتنوں کی وجہ سے کیا فرق پڑا"؟ میں نے پوچھا

بولا "میں نے لوگوں کو لذت کی لت ڈال دی۔ وہ ہانڈیاں پکائیں کہ گوروں کے منہ میں رال چل پڑی۔ بس جی! میں نے ایک بات سیکھی ہے کہ کھانوں میں ہانڈی اور مذہبوں میں اسلام ، دونوں کا جواب نہیں"

"ارے!" میں حیرت سے چلایا "ہانڈی اور اسلام کا کیا جوڑ ہے "

وہ بولا ۔ ۔ ۔"بھائی صاحب ! ہانڈی بیلینسڈ فوڈ ہے اور اسلام بیلینسڈ مذہب ہے۔ اسلام میں ہانڈی کی سب خوبیاں ہیں، دنیا بھی ہے، اللہ بھی ہے، اس کی مخلوق بھی ہے، خدمت بھی ہے، مخدومی بھی ہے، محبت بھی ہے، جہاد بھی ہے، انتقام بھی ہے، رحم بھی ہے، معافی بھی ہے، سزا بھی ہے، ۔ ۔ ۔ کیا بیلینسڈ مذہب ہے بھائی جی! دنیا سے بھی تعلق قائم رہے، اللہ سے بھی تعلق قائم رہے، کماؤ کماؤ دولت کے ڈھیر لگا دو ، مگر پھر بانٹ کر کھاؤ۔ اپنے لیے بنگلہ بناؤ تو کسی غریب کے لیے ایک جھونپڑا بنا دو، اپنے ریشمی سوٹ بناؤ تو کسی حاجت مند کے لیے کھدر کا جوڑا بنوا دو۔ اپنے بیٹے کی فیس دو تو کسی غریب طالب علم کی فیس بھی ادا کردو۔۔۔۔۔۔۔۔

فاضل جذباتی ہوگیا کہنے لگا۔ ۔ ۔"اسلام بھی کیا مذہب ہے! بے شک دولت کی ریل پیل ہو لیکن ایک جگہ ڈھیر نہ ہو، چلتی پھرتی رہے۔ بانٹنا سیکھ لو تو سرمایہ دارانہ نظام قائم نہیں ہوتا"۔ ۔ ۔

فاضل سے ملکر میں واپس آرہا تھا تو میرے ذہن میں کھتر پھتر ہو رہیں تھی فاضل کے ذہن میں اسلام کی تصویر کتنی سادہ لیکن ہمارے راہبروں نے خوامخواہ پیچیدگیاں پیدا کر رکھی ہیں۔ ۔ ۔

واپسی پر میری ملاقات پروفیسر جدون سے ہو گئی۔ ۔ ۔ فاضل سے ملاقات کی بات چلی تو پروفیسر جدون بولا "کہ اگر اللہ پر سچے دل سے ایمان لے آؤ تو تم پچاس فیصد بیماریوں سے محفوظ ہو جاتے ہو۔ اور اگر اللہ سے تعلق پیدا کر لو تو پھر تم میں اتنی رززٹنس پیدا ہو جاتی ہےکہ بیماری حملہ کرے بھی تو تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ۔ ۔ پروفیشن میں آنے کے بعد بڑے راز کھل جاتے ہیں۔ ہم بڑے احمق ہیں جو ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ جسم بیماری جنریٹ کرتا ہے، یہ سراسر غلط ہے۔ ۔ ۔ جسم نہیں ، ذہن بیماری جنریٹ کرتا ہے، ہم صرف ظاہری اعضا کو اہمیت دیتے ہیں۔ ۔ ۔ دل ، جگر ، پھیپھڑے ، گردے وہ اعضا جو ذہنی خیالات اور جذبات سے ایکٹیو ہوتے ہیں وہ ڈھکے چھپے ہیں مثلا، غدود ، جھلیاں ہیں، نسیں ہیں ان سے عجیب و غریب قسم کی رطوبتیں نکلتی ہیں جو ہماری صحت پر اثر رکھتی ہیں۔ ۔ ۔ جدید سائنس کے مطابق اب یہ بات طے شدہ ہے کہ انسانی جذبات میں سب سے زیادہ اثر کرنے والا بنیادی جذبہ خوف ہے پھر خوف کے بچونگڑے ہیں، جس طرح شیطان کے شتونگڑے ہوتے ہیں، مثلا، کشمکش ، انگزائٹی ، وہم، فکر، تذبذب ہیں۔ ۔ یہ سب جذبات انسان کے معدے پر اثر رکھتے ہیں، تیزابیت پیدا کرتے ہیں۔ السر بناتے ہیں، اگر اللہ پر یقین کامل ہو، اگر دل میں یہ یقین ہو کہ نہیں کوئی خوف اور نہیں کوئی قوت ماسوائے اللہ کے، تو انسان ان خوف سے نجات پا جاتا ہے۔۔ ۔ ۔ ۔

اللہ ایک سرہانہ ہے جس پر سر رکھ دو تہ تم ان پریشانیوں اور ڈب جھلکوں سے آزاد ہو جاتے ہو اور اسلام کیا ہے؟ اسلام انسان کو منفی خیالات سے محفوظ رکھتا ہے۔ شر سے بچاتا ہے۔ نفرت ، غصہ ، دشمنی، انتقام، حسد جیسے منفی جذبات سے محفوظ رکھتا ہے۔ منفی جذبات ہمارے جسم کے غدودوں سے زہریلی رطوبات خارج کرتے ہیں اس کے برعکس محبت، خدمت، ہمدردی ایسے مثبت جذبات صحت مند رطوبات پیدا کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

پروفیسر جدون کی باتیں سن کر میں سوچ میں پڑ گیا ۔ ۔ ۔

پتہ نہیں کیوں ہمارے رہبر ہم میں خوف کا جذبہ کیوں پیدا کرتے ہیں، کیوں منفی باتوں پر زور دیتے ہیں انہوں نے کبھی اس بے پایاں حسن کی بات نہیں کی جو دنیا میں ہمارے گرد چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ اس خیر کے جذبے کی بات نہیں کرتے جو انسان کے دل میں جا گزیں ہے ۔ اس رحمت کی ، کرم اور ان نعمتوں کی بات نہیں کرتے جو اللہ نے ہیں عطا کر رکھی ہیں۔ اس شرف کی بات نہیں کرتے جو باری تعالی نے انسانوں کو عطا کر رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صاحبو ! قرآن کے متعلق صاحب نظر بزرگ کہتے ہیں کہ وہ گلاب کے پھول کے مصداق ہے۔ اوپرکی پتی اٹھاؤ تو نیچے سے ایک اور پتی نکل آتی ہے، نچلی اٹھاؤ تو اس کے نیچے سے ایک اور پتی نکل آتی ہے۔ پتی کے نیچے پتی ۔ پتی کے نیچے پتی ۔ ۔ ۔ ایسے قرآن پاک میں مفہوم در مفہوم ہیں جتنا غور کرو اتنا گہرا مفہوم۔ ۔ ۔ لیکن ہمارے راہبر صرف اوپر کے مفہوم کو آخری مفہوم سمجھتے ہیں اور اسکا ڈنکا بجاتے رہتے ہیں۔ ۔ ۔

قرآن میں اللہ تعالی بار بار فرماتے ہیں کہ ہماری کائنات کو دیکھو ، سر سری طور پر نہیں، غور سے دیکھو ، خالی دیکھو نہیں، فکر کرو، سمجھو۔ ۔ پھر دیکھو اور سوچو۔ ۔ ۔ قرآن کو پڑھو، سرسری طور پر نہیں، غور وفکر سے پڑھو اور سمجھو۔ پھر پڑھو اور سمجھو۔ پھر وہ لمحہ آئے گا کہ تم قراآن کے اشارات کے حوالے سے کائنات کے راز پا لوگے۔ ۔ ۔ ۔

ہمارے راہبروں میں کائنات پر غور و فکر کرنے اور کائنات کےراز پانے کی خواہش نہیں ہے۔ انہیں قرآن کو سمجھنے کی خواہش نہیں ہے۔ وہ تو صرف قرآن کی تلاوت کرنے کے خواہش مند ہیں، صرف اس لیے کہ ثواب کمائیں۔ بہشت کے حقدار ہو جائیں،۔ دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں۔ پھلدار درختوں کی ٹہنیاں اشارے سے نیچے ہوجائیں اور پھر خوبصورت حوریں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


ممتاز مفتی "تلاش"۔۔۔۔۔۔
 

تعبیر

محفلین
میں انشاءاللہ بعد میں پڑھوں گی۔ پڑھنے کے بعد کچھ کہوں گی تب تک بے شک آگے نہ لکھیں
 
میں انشاءاللہ بعد میں پڑھوں گی۔ پڑھنے کے بعد کچھ کہوں گی تب تک بے شک آگے نہ لکھیں

جی ضرور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوشش میری یہ ہوتی ہے کہ تھوڑی یا زیادہ گہرائی جو تحریر کا خاصہ ہوتی ہے وہ قاری تک پہنچے۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا مقصد بحث برائے بحث نہیں ہوتا ہے۔۔۔۔ جو عموما ذاتیات پر ختم ہوتی ہے
 

تعبیر

محفلین
جی ضرور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوشش میری یہ ہوتی ہے کہ تھوڑی یا زیادہ گہرائی جو تحریر کا خاصہ ہوتی ہے وہ قاری تک پہنچے۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا مقصد بحث برائے بحث نہیں ہوتا ہے۔۔۔۔ جو عموما ذاتیات پر ختم ہوتی ہے

بہت بہت شکریہ اتنی اچھی تحریر شیئر کرنے کا۔ باقی کا انتطار رہے گا۔آپ غلط سمجھے میرا بھی مقصد بحث برائے بحث نہیں تھا کہ میرا مطالعہ اور علم اتنا وسیع نہیں ہے۔بس جہاں کچھ سمجھ نہیں آتا وہی پوچھنا ہوتا ہے۔
ویسے دین کا علم رکھنے والے، خودکو دیندار کہنے والے اتنے سخت کیوں ھوتے ہیں؟وہ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں ک خود نبی پر سورت عبس نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے تو کچھ کہا بھی نہیں تھا صرف ناگواری کا اظہار کیا تھا۔
 
بہت بہت شکریہ اتنی اچھی تحریر شیئر کرنے کا۔ باقی کا انتطار رہے گا۔آپ غلط سمجھے میرا بھی مقصد بحث برائے بحث نہیں تھا کہ میرا مطالعہ اور علم اتنا وسیع نہیں ہے۔بس جہاں کچھ سمجھ نہیں آتا وہی پوچھنا ہوتا ہے۔
ویسے دین کا علم رکھنے والے، خودکو دیندار کہنے والے اتنے سخت کیوں ھوتے ہیں؟وہ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں ک خود نبی پر سورت عبس نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے تو کچھ کہا بھی نہیں تھا صرف ناگواری کا اظہار کیا تھا۔

میرا مطلب اتنا تھا کہ میری ہر پوسٹ کا انجام کچھ ایسی بحث پر ہوتا ہے جو لا یعنی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ سو اب ڈر لگتا ہے کچھ کہتے ہوئے یا لکھتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو محتاط رہتا ہوں:)

بہرحال شکریہ
 
Top