جہاد کی طرف سبقت کی فضیلت کا بیان

پانچواں باب
جہاد کی طرف سبقت کی فضیلت کا بیان
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ۔

( 1 ) [arabic]سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالأرْضِ[/arabic] (الحدید 21)
لپکو بندو اپنے پرودگار کی بخشش کی طرف اور جنت کی (طرف) جس کا عرض آسمان اور زمین کاسا ہے ۔

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
( 2 ) [arabic]وَالسَّابِقُونَ الأوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [/arabic](التوبۃ۔ 100)
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے )پہلے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنھوں نے نیکوں کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اﷲ تعالیٰ ان سے خوش ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور ) ہمیشہ ان میں رہیں گے ۔ یہ بڑی کامیابی ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
( 3 ) [arabic]وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ [/arabic]۔(الواقعہ ۔ 10 ، 11 ، 12 )
اور جو آگے بڑھنے والے ہیں (ان کا کیا کہنا)وہ آگے ہی بڑھنے والے ہیں وہی(اﷲ تعالیٰ کے) مقرب ہیں نعمت کی بہشتوں میں۔

٭ عثمان ابن ابو سودہ ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ السّٰابِقُوْنَ السّٰابِقُوْن سے مرادوہ لوگ ہیں جو دوسروں سے پہلے جہاد اور نماز کے لئے نکلتے ہیں ۔(مصنف عبدرزاق رجالہ رجال الصحیح)

عثمان ا بن سودہ رحمہ اللہ حضرات تابعین کے آئمہ اور مجاہدین میں سے ہیں اور ان کایہ مقولہ مشہور ہے کہ میں میں ایک لاکھ [سونے کے ]دیناروں کے عوض بھی ایک سال جہاد سے ناغہ کو پسند نہیں کرتا ۔ ( تہذیب الکمال)
٭ حضرت ابو ہریرہ رضٰی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت مجاہدین کو ایک دستے کو روانگی کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم رات ہی کو نکلیں یا صبح تک ٹھہرنے کی اجازت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم پسند نہیں کرتے کہ تم جنت کے باغات میں رات گزارو ۔ ( المستدرک السنن لکبریٰ بیہقی )

٭ حسن بن ابوالحسن سے روایت ہے کہ حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اس میں حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ بھی تھے سارا لشکر صبح کے وقت اروانہ ہو گیا حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے رک گئے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا جاو اپنے لشکر میں شامل ہو جاؤ تمہارے ساتھی تم سے جنت جانے میں ایک ماہ کی سبقت لے گئے ۔ حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا اے اﷲ کے رسول ! میرا ااردہ تو یہ تھا کہ میں آپ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھوں گا اور آپ سے دعائیں لوں گا اسطرح سے میں اپنے ساتھیوں پر [اجر وفضیلت میں ] سبقت لے جاوں گا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ تیرے ساتھی تجھ سے سبقت لے گئے جاؤ ان کے ساتھ شامل ہو جاؤ ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شام اﷲ کے راستے میں لگا دینا دینا اور دینا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور اسی طرح ایک صبح اﷲ کے راستے میں لگا دینا دینا اور دینا کی تمام چیزوں سے افضل ہے ۔ (السنن لسعید بن منصور )

٭ مسند احمد میں یہ روایت اس طرح سے ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذرضی اﷲ عنہ سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے ساتھی تم سے کتنا آگے نکل گئے انہوں نے عرض کیا وہ مجھ سے ایک صبح کی سبقت لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مشرق ومغرب کے درمیان جتنا فاصلہ ہے اس سے بھی زیادہ فضیلت انہوں نے تجھ پر پا لی ہے ۔ (مسند احمد)

٭ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضوور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲبن رواحہ کو جہاد کے لئے ایک لشکر میں روانہ فرمایا یہ روانگی جمعہ کے دن تھی چنانچہ لشکر روانہ ہو گیا ۔ حضرت عبداﷲ بن رواحہ نے سوچا کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جمعہ کی نماز پڑھ کر اپنے لشکر سے جا ملوں گا چنانچہ وہ رک گئے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز سے فارغ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہں دیکھا تو ارشاد فرمایا اگر تم زمین کے تمام خزانے خرچ کر ڈالو تب بھی اپنے ساتھیوں کی ایک صبح کی فضیلت کو نہیں پا سکتے ۔ (ترمذی )

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جلد بازی نہ کرنا ہر چیز میں بہتر ہے سوائے تین چیزوں کے [کہ ان میں جلدی بہتر ہے ]( 1 )جب جہاد کے لئے پکارا جائے تو تم سب سے پہلے نکلنے والے بنو ( 2 )جب نماز کے لئے اذان دی جائے تو تم سب سے پہلے نکلو (۳)جب جنازہ آجائے تو اس میں جلدی کرو ۔
ان تین کے علاوہ باقی کاموں میں جلد بازی نہ کر نا بہتر ہے ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دھرائی ۔ (شفاء الصدور)

[ اﷲ تعالیٰ ہم سب کوجہاد کا ایسا جذبہ اور ولولہ عطا فرمائے کہ ہمارے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جہاد میں نکلنا بلکہ سبقت کرنا آسان ہوجائے آمین ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے لئے سب کچھ چھوڑنا آسان ہو گیا تھا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی ا نہیں گوارہ نہیں تھی کیونکہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر سب کچھ قربان کردیا اور انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر سچا عشق تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلائے جانے والے تیروں کو اپنے سینے اور ہاتھوں سے رو کتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے مگر جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو انہیں جہاد کی خاطر آپ کی جدائی بھی سہنی پڑی ۔ بہت ممکن تھاکہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے لئے یہ بہت مشکل ثابت ہوتا کیونکہ وہ تو ،رات کے وقت جب آقا سے جدا ہوتے تھے انہیں صرف صبح کا انتظار ہوتا تھا کہ کب صبح ہو اور ہم حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کرنظروں اور دلوں کی پیاس بجھائیں مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کے سامنے جہاد کی حقیقت اور اہمیت بیان فرمائی تو ان کے لئے یہ امتحان بھی آسان ہوگیا اور انہوں نے جہاد کی خاطر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کو بھی برداشت کیا ۔ ایک بار نہیں باربار انہیں یہ برداشت کرنا پڑا س دوران اگر کوئی صحابی عشق و محبت سے مغلوب ہو کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے چند لمحے مزید حاصل کرنے کے لئے پیچھے رہ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تنبہیہ فرماتے ۔
مذکورہ بالا واقعات میں حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ عنہ کا واقعہ بھی ہے انہیں موتہ کی طرف روانگی سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اس لڑائی میں شہید ہوجائیں گے چنانچہ وہ اپنی زندگی کا آخری جمعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اداء کرنے کے لئے لشکر سے پیچھے رہ گئے اور ان کا ارادہ تھاکہ وہ اپنی تیز رفتار سواری پر اپنے لشکر سے جا ملیں گے مگر پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبہیہ فرمائی اور صبح روانہ ہونے والے لشکر کی فضیلت بیان فرمائی ۔ آنحضرت کی انہی تعلیمات اور ترغیب کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے جہاد کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور جہاد سے بڑھ کر کوئی چیز انہیں مرغوب و محبوب نہیں تھی ۔
آج بھی اگر مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو پڑھیں ، سمجھیں اور ان پر یقین کریں تو وہ بھی جذبہ جہاد کی نعمت سے سر شار ہو سکتے ہیں ۔]
 
چھٹا باب
جہاد میں ایک صبح اور ایک شام لگانے کی فضیلت کا بیان

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
( 1 ) [arabic]وَلا يُنْفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً وَلا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [/arabic]۔(التوبہ۔ 121)
اور جو کچھ بھی وہ چھوٹا بڑا خرچ کرتے ہیںاور جتنے میدان وہ طے کرتے ہیں یہ سب بھی ان کے نام (نیکیوں میں )لکھ دیا جاتا ہے تاکہ اﷲ تعالیٰ ان کو ان کے کاموں کا بہتر بدلہ دے ۔

٭حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ کے راستے میں صبح کے وقت یا شام کے وقت نکلنا دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور جنت میں تم میں سے کسی ایک کی کمان کی مقدار یا اس کی چابک کی مقدار کی جگہ دنیا ومافیھاسے بہتر ہے اور اگر جنت کی ایک عورت زمین والوں پر جھانک کر دیکھ لے جنت اور زمین کے درمیان کو روشنی اور اپنی خوشبو سے بھر دے اور اس کا دوپٹہ دنیا اور اس کے اندر کی سب چیزوں سے بہتر ہے ۔(بخاری)

[مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں ]لغدوۃ کا معنی ایک بار جانا اور لروحۃ کا معنی ایک بار لوٹنا ۔ علامہ نوی رحمہ اللہ شرح مسلم فرماتے ہیں کہ صبح سے زوال تک چلنے کو غدوہ اور زوال سے آخردن تک چلنے کو روحہ کہتے ہیں ۔

مطلب یہ ہوا جو شخص اتنی دیر جہاد میں رہا اسے یہ ثواب ملے گا اور اسے دوران جہادگزرنے والی ہر صبح ہر شام کایہی اجر ملے گا حتیٰ کہ راستے میں گزرنے والی صبح شام کا بھی یہی اجر ہے ۔
حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی انسان ساری دنیا اور اس کی تمام نعمتوں کا مالک بن جائے تب بھی مجاہد کی ایک صبح یا شام کا اجر و ثواب اس سے بہتر ہے کیونکہ دینا کی نعمتیں تو بہرحال فانی ہیں ۔
قاضی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو دنیا کاتمام مال واسباب دے دیا جائے اور وہ یہ سارا مال اﷲ کی اطاعت میں خرچ کردے تب بھی وہ مجاہد کی ایک صبح یا شام جیسا اجر وثواب نہیں پاسکتا ۔(شرح نوی علی مسلم )
[مجاہد کی صبح اور شام کی فضلیت کے بارے میں احادیث بخاری ،مسلم اور دوسری کتب میں بکثرت موجود ہیں ]۔

٭ حضرت سہیل بن سعد رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان اﷲ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے یا حج میں تلبیہ پڑھتے ہوئے شام کرتا ہے تو سورج اس کے گناہ سمیت غروب ہوتا ہے ۔ [یعنی اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ](الطبرانی ،مجمع الزوائد)

٭حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اس شخص کے لئے ذمہ دار ہوں جو میرے راستے میں مجھ پر ایمان لاتے ہوئے اور میرے رسولوں کی تصدیق کرتے ہوئے جہاد کے لئے نکلے کہ میں یا تو اسے جنت میں داخل کروں گا یا اسے اپنے گھر اجر یا غنیمت کے ساتھ لوٹاؤں گا [حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ]قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کی جان ہے کہ جو شخص اﷲ کے راستے میں زخمی ہو گا وہ قیامت کے دن اسی طرح زخمی حالت میں حاضر ہوگا کہ اس کے خون کا رنگ خون جیسا اور خوشبو مشک جیسی ہو گی اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کی جان ہے اگرکچھ مسلمانوں پر شاق نہ گزرتا تو میں کبھی بھی کسی سریہ سے پیچھے نہ رہتا [بلکہ ہر بار خود جہاد کے لئے نکلتا]لیکن میں[ غریب]مسلمانوں کے لئے سواری نہیں پاتا [کہ انہیں ہر بار ساتھ لے جا سکوں ] اور وہ خود بھی اس کی وسعت نہیں رکھتے اور انہیں میرے [جہاد میں جانے کے بعد ]پیچھے رہ جانا بہت گراں گزرتا ہے [اس لئے ان کی خاطر کبھی کبھار میں خود رک جاتا ہوں اور لشکر روانہ کر دیتا ہوں ] قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد[ صلی اللہ علیہ وسلم ] کی جان ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اﷲ کے راستے میں لڑتے ہوئے شہید کردیا جاؤں پھر [دوبارہ زندگی پاکر ]لڑوں پھر شہید کیا جاؤں پھر لڑوں پھر شہید کیا جاؤں ۔ (مسلم)

٭بخاری شریف میں حدیث کے آخر ی الفاظ اس طرح ہیں میں چاہتا ہوں کہ میں اﷲ کے راستے میں شہید کیا جاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے پھر شہید کیا جاؤں ۔ پھر زندہ کیا جاؤں ۔ پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں ۔ (بخاری)

٭حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب مجاہد اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے گناہ اس کے گھر کے دروازے پر پل کی طرح بنا دیئے جاتے ہیں جب وہ اس پل کو پار کر لیتا ہے [یعنی گھر کے دروازے سے نکل جاتا ہے ]تو اس کے گناہ مٹ جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ مچھر کے پر کے برابر بھی باقی نہیںرہتے اور اﷲ تعالیٰ اس کے لئے چار چیزوں کی ذمہ داری لے لیتا ہے ۔
( 1 ) وہ [یعنی اﷲ تعالیٰ )اس کے پیچھے اس کے گھر اور مال کی دیکھ بھال فرمائے گا ۔
( 2 ) اسے جس طرح سے بھی موت آئے گی اﷲ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔
( 3 )اگراسے واپس لوٹایا تو اجر یا غنیمت کے ساتھ صحیح سالم لوٹائے گا ۔
( 4 ) سورج کے غروب ہوتے ہی اس کے گناہ بھی بخشے جائیں گے ۔ ( الطبرانی ، مجمع الزوائد )

٭ حضرت عبداﷲ بن رواحہ کا واقعہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : قسم اس ذات کی جس کہ قبضے میں میری جان ہے اگر تم زمین کا سارا مال واسباب خرچ کر ڈالو تب بھی اپنے [صبح روانہ ہو نے والے ]ساتھیوں کی ایک صبح جتنا اجر نہیں پاسکتے ۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک)

اس روایت سے بھی مجاہد کی فضیلت معلوم ہوتی ہے ۔

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ایک صبح یا ایک شام اﷲ کے راستے میں لگا دینا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے اور تم میں سے کسی کا میدان جنگ کی صف میں کھڑا ہو نا کسی شخص کی ساٹھ سالہ عبادت سے بہترہے ۔(مصنف عبدالرزاق)
٭ حضرت عبداﷲ بن بسر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک صبح یا ایک شام اﷲ کے راستے میں گزارنا اپنے گھر میں ستر سال کی عبادت سے افضل ہے ۔ (کتاب الترغیب لحافظ ابی حفص وابن عساکر )

٭ ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا اے اﷲ میں آپ سے جنت کے اونچے درجات کا سوال کرتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : دعاء کرنے والا کہاں ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا میں یہاں ہوں ۔ اے اﷲ کے رسول ۔ آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ [جنت کے اونچے درجات ]کس کے لئے ہیں ۔ اس نے کہا نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ ان کے لئے ہیں جو اپنی صبح یا شام اﷲ کے راستے میں گزارتے ہیں ۔ (شفاء الصدور حدیث مرسل )

٭ حضرت عبداﷲ بن عمر ورضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جہاد سے لوٹنا جہا دمیں جانے کی طرح ہے ۔ (ابوداؤد ۔حاکم )
حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ مجاہد سفر جہاد سے واپسی پر بھی روانگی جیسااجر ملتا ہے

٭ حضرت علی رضی اﷲعنروایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جہاد کے دوران مجاہد جس قدراپنے گھر والوں سے دور ہوتا جاتاہے اسی قدر وہ اﷲ تعالیٰ کے قریب ہو تاجاتا ہے ۔ (الشفاء الصدور )

٭ اس روایت کی تائید ابن عساکر کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں ابو فوزہ بیان فرماتے ہیں کہ موسم گرما کا لشکر جہاد کے لئے روانہ ہوا تو حضرت کعب رضی اﷲ عنہ بھی باوجود بیماری کے لشکر کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے کہ حرستا [نامی مقام ] میں مرنا میرے نزدیک دمشق میں مرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور دومہ [نامی مقام ] میں مرنا مجھے حرستا میں مرنے سے زیادہ محبوب ہے اسی طرح سفر جہاد میں جس قدر آگے بڑھ کر اور اپنے وطن سے دور جا کر مروں [وہ مجھے زیادہ محبوب ہے ] یہ لشکر اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ جب حمص [نامی مقام ] پر پہنچا تو حضرت کعب انتقال فرماگئے ہم نے انہیں حمص ہی میں زیتون کے درختوں کے درمیان دفن کردیا مگر لشکر [جہاد کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا اور تب واپس لوٹاجب حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ شہید کردیئے گئے۔

٭ ایساہی واقعہ عبداﷲ بن محریز اپنے والد حضرت محریز [ابن جنادہ بن وہب الجمعی]کا نقل فرماتے ہیں کہ وہ لشکر میں بیمار ہو گئے تو مجھے فرمانے لگے اے بیٹے مجھے اٹھا کر کسی نہ کسی طرح رومیوں کی سر زمین تک لے چلو کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے وہیں پر موت آئے ۔ چنانچہ میں انہیں اٹھا کر چلتا رہا یہاں تک کہ حمص میں ان کا انتقال ہوا ۔ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ عبداﷲ فرماتے ہیں کہ جب ان کا انتقال ہو گیا تو مجھے فکر ہوئی کہ جنازہ کون پڑھے گا اچانک میں نے صفوں کی صفیں ان کا جنازہ پڑھتے دیکھیں جنہیںمیں پہچانتا تک نہیں تھا ۔

٭ عون بن عبداﷲ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قادسیہ کی لڑائی کے دن ایک مجاہد کی آنتیں [کٹ کر ] بکھری پڑی تھیں ایک اور مجاہد ان کے پاس سے گزرے تو زخمی مجاہد نے کہا مجھے اپنے ساتھ چمٹا لو شاید میں اﷲ کے راستے میں ایک دو نیزوں کی مقدار اور آگے بڑھ سکوں ۔ چنانچہ پھر وہ ان کے ساتھ چمٹ کر ایک نیزے کی مقدار آگے بڑھنے میں کامیاب ہو گئے (کتاب الجہاد ابن مبارکؒ)
٭ ابو طبیان الکوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قسطنطنیہ کی لڑائی سے واپس آنے والے مجھے بتایا کہ جب ہم جنگ ختم کر چکے تھے اور دشمن ہمیں دیکھ رہا تھا اس وقت حضرت ابوایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کا آخری وقت آ پہنچا ۔ انہوں نے لشکروالوں سے فرمایا جب میرا انتقال ہو جائے تو تم دشمن کی طرف سوار ہو کر بڑھنا پھر جہاں تمہیں دشمن روک دے اور آگے نہ بڑھنے دے تو وہاں قبر کھود کر مجھے دفن کر دینا اور آدمی دوڑا کر قبر کو برابر کر دینا تاکہ وہ پہچانی نہ جاسکے۔(سیراعلام النبلاء)

٭ سعید بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ حضرت ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ روم کی سر زمین میں (دوران جہاد )بسر نامی گرم پانی کے چشمے پر انتقال فرماگئے ۔ یہ واقعہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے زمانہ خلافت میں پیش آیا ۔ انہوں نے انتقال سے پہلے (امیر لشکر )بسر بن ارطاۃ سے فرمایا کہ آپ کے ساتھ اس لشکر میں جتنے مسلمانوں کا انتقال ہوا ہے آپ مجھے ان کا امیر بنادیجئے اور مجھے ایک جھنڈا بھی دے دیجئے اور مجھے دشمن کے دور دراز علاقے میں دفن کیجئے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن ان [شہداء]کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا۔(ابن عساکر)

[سبحاناﷲان حضرات کے کیا عظیم جذبات تھے ۔دراصل یہ حضرات جہاد کی عظمت اور حقیقت کو پہچانتے تھے اور ان کے پیش نظرصرف آخرت کی زندگی تھی اور وہ جانتے تھے کہ آخرت کی زندگی میں جہاد کے صبح شام کس قدر فائدہ دینے والے ہیں ۔ چنانچہ وہ جہادمیں گزاری ہوئی ہزاروں صبح اور شام اپنے ساتھ لے کر اس دنیاسے چلے گئے اور کامیاب ہو گئے ۔
آج ہمیں بھی غور کرنا چاہیے کہ ہمارے دامن میں کتنی صبحیں اور کتنی شامیں ایسی ہیں جو ہم نے جہاد میں گزاری ہیں اﷲ تعالیٰ ہم سب کو جہاد کی قدرو قیمت پہچاننے کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین یا رب العالمین]
 

ملک عاصم

محفلین
ماشاءاللہ، اللّھم زدفزد،
رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے۔من مات ولم یغزو ولم یحدث بہ نفسہ مات علٰی شعبۃ من نفاق
جو شخص مر گیا اس حال میں کہ نہ اس نے جھاد کیا اور نہ جھاد کرنے کا ارادہ کیا تو وہ نفاق کے ایک حصے پر مرا ہے۔
 

میاں شاہد

محفلین

ماشا اللہ، سبحان اللہ
88365730ak2.gif

آپ نے بہت عمدہ اور بہترین باتیں پیش کی ہیں
اللہ پاک ہمیں دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین
آپ کا بہت بہت شکریہ
 
Top