واجدحسین
معطل
پانچواں باب
جہاد کی طرف سبقت کی فضیلت کا بیان
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ۔
( 1 ) [arabic]سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالأرْضِ[/arabic] (الحدید 21)
لپکو بندو اپنے پرودگار کی بخشش کی طرف اور جنت کی (طرف) جس کا عرض آسمان اور زمین کاسا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
( 2 ) [arabic]وَالسَّابِقُونَ الأوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [/arabic](التوبۃ۔ 100)
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے )پہلے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنھوں نے نیکوں کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اﷲ تعالیٰ ان سے خوش ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور ) ہمیشہ ان میں رہیں گے ۔ یہ بڑی کامیابی ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
( 3 ) [arabic]وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ [/arabic]۔(الواقعہ ۔ 10 ، 11 ، 12 )
اور جو آگے بڑھنے والے ہیں (ان کا کیا کہنا)وہ آگے ہی بڑھنے والے ہیں وہی(اﷲ تعالیٰ کے) مقرب ہیں نعمت کی بہشتوں میں۔
٭ عثمان ابن ابو سودہ ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ السّٰابِقُوْنَ السّٰابِقُوْن سے مرادوہ لوگ ہیں جو دوسروں سے پہلے جہاد اور نماز کے لئے نکلتے ہیں ۔(مصنف عبدرزاق رجالہ رجال الصحیح)
عثمان ا بن سودہ رحمہ اللہ حضرات تابعین کے آئمہ اور مجاہدین میں سے ہیں اور ان کایہ مقولہ مشہور ہے کہ میں میں ایک لاکھ [سونے کے ]دیناروں کے عوض بھی ایک سال جہاد سے ناغہ کو پسند نہیں کرتا ۔ ( تہذیب الکمال)
٭ حضرت ابو ہریرہ رضٰی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت مجاہدین کو ایک دستے کو روانگی کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم رات ہی کو نکلیں یا صبح تک ٹھہرنے کی اجازت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم پسند نہیں کرتے کہ تم جنت کے باغات میں رات گزارو ۔ ( المستدرک السنن لکبریٰ بیہقی )
٭ حسن بن ابوالحسن سے روایت ہے کہ حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اس میں حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ بھی تھے سارا لشکر صبح کے وقت اروانہ ہو گیا حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے رک گئے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا جاو اپنے لشکر میں شامل ہو جاؤ تمہارے ساتھی تم سے جنت جانے میں ایک ماہ کی سبقت لے گئے ۔ حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا اے اﷲ کے رسول ! میرا ااردہ تو یہ تھا کہ میں آپ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھوں گا اور آپ سے دعائیں لوں گا اسطرح سے میں اپنے ساتھیوں پر [اجر وفضیلت میں ] سبقت لے جاوں گا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ تیرے ساتھی تجھ سے سبقت لے گئے جاؤ ان کے ساتھ شامل ہو جاؤ ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شام اﷲ کے راستے میں لگا دینا دینا اور دینا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور اسی طرح ایک صبح اﷲ کے راستے میں لگا دینا دینا اور دینا کی تمام چیزوں سے افضل ہے ۔ (السنن لسعید بن منصور )
٭ مسند احمد میں یہ روایت اس طرح سے ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذرضی اﷲ عنہ سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے ساتھی تم سے کتنا آگے نکل گئے انہوں نے عرض کیا وہ مجھ سے ایک صبح کی سبقت لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مشرق ومغرب کے درمیان جتنا فاصلہ ہے اس سے بھی زیادہ فضیلت انہوں نے تجھ پر پا لی ہے ۔ (مسند احمد)
٭ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضوور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲبن رواحہ کو جہاد کے لئے ایک لشکر میں روانہ فرمایا یہ روانگی جمعہ کے دن تھی چنانچہ لشکر روانہ ہو گیا ۔ حضرت عبداﷲ بن رواحہ نے سوچا کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جمعہ کی نماز پڑھ کر اپنے لشکر سے جا ملوں گا چنانچہ وہ رک گئے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز سے فارغ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہں دیکھا تو ارشاد فرمایا اگر تم زمین کے تمام خزانے خرچ کر ڈالو تب بھی اپنے ساتھیوں کی ایک صبح کی فضیلت کو نہیں پا سکتے ۔ (ترمذی )
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جلد بازی نہ کرنا ہر چیز میں بہتر ہے سوائے تین چیزوں کے [کہ ان میں جلدی بہتر ہے ]( 1 )جب جہاد کے لئے پکارا جائے تو تم سب سے پہلے نکلنے والے بنو ( 2 )جب نماز کے لئے اذان دی جائے تو تم سب سے پہلے نکلو (۳)جب جنازہ آجائے تو اس میں جلدی کرو ۔
ان تین کے علاوہ باقی کاموں میں جلد بازی نہ کر نا بہتر ہے ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دھرائی ۔ (شفاء الصدور)
[ اﷲ تعالیٰ ہم سب کوجہاد کا ایسا جذبہ اور ولولہ عطا فرمائے کہ ہمارے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جہاد میں نکلنا بلکہ سبقت کرنا آسان ہوجائے آمین ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے لئے سب کچھ چھوڑنا آسان ہو گیا تھا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی ا نہیں گوارہ نہیں تھی کیونکہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر سب کچھ قربان کردیا اور انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر سچا عشق تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلائے جانے والے تیروں کو اپنے سینے اور ہاتھوں سے رو کتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے مگر جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو انہیں جہاد کی خاطر آپ کی جدائی بھی سہنی پڑی ۔ بہت ممکن تھاکہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے لئے یہ بہت مشکل ثابت ہوتا کیونکہ وہ تو ،رات کے وقت جب آقا سے جدا ہوتے تھے انہیں صرف صبح کا انتظار ہوتا تھا کہ کب صبح ہو اور ہم حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کرنظروں اور دلوں کی پیاس بجھائیں مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کے سامنے جہاد کی حقیقت اور اہمیت بیان فرمائی تو ان کے لئے یہ امتحان بھی آسان ہوگیا اور انہوں نے جہاد کی خاطر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کو بھی برداشت کیا ۔ ایک بار نہیں باربار انہیں یہ برداشت کرنا پڑا س دوران اگر کوئی صحابی عشق و محبت سے مغلوب ہو کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے چند لمحے مزید حاصل کرنے کے لئے پیچھے رہ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تنبہیہ فرماتے ۔
مذکورہ بالا واقعات میں حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ عنہ کا واقعہ بھی ہے انہیں موتہ کی طرف روانگی سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اس لڑائی میں شہید ہوجائیں گے چنانچہ وہ اپنی زندگی کا آخری جمعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اداء کرنے کے لئے لشکر سے پیچھے رہ گئے اور ان کا ارادہ تھاکہ وہ اپنی تیز رفتار سواری پر اپنے لشکر سے جا ملیں گے مگر پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبہیہ فرمائی اور صبح روانہ ہونے والے لشکر کی فضیلت بیان فرمائی ۔ آنحضرت کی انہی تعلیمات اور ترغیب کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے جہاد کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور جہاد سے بڑھ کر کوئی چیز انہیں مرغوب و محبوب نہیں تھی ۔
آج بھی اگر مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو پڑھیں ، سمجھیں اور ان پر یقین کریں تو وہ بھی جذبہ جہاد کی نعمت سے سر شار ہو سکتے ہیں ۔]
جہاد کی طرف سبقت کی فضیلت کا بیان
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ۔
( 1 ) [arabic]سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالأرْضِ[/arabic] (الحدید 21)
لپکو بندو اپنے پرودگار کی بخشش کی طرف اور جنت کی (طرف) جس کا عرض آسمان اور زمین کاسا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
( 2 ) [arabic]وَالسَّابِقُونَ الأوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [/arabic](التوبۃ۔ 100)
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے )پہلے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنھوں نے نیکوں کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اﷲ تعالیٰ ان سے خوش ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور ) ہمیشہ ان میں رہیں گے ۔ یہ بڑی کامیابی ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
( 3 ) [arabic]وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ [/arabic]۔(الواقعہ ۔ 10 ، 11 ، 12 )
اور جو آگے بڑھنے والے ہیں (ان کا کیا کہنا)وہ آگے ہی بڑھنے والے ہیں وہی(اﷲ تعالیٰ کے) مقرب ہیں نعمت کی بہشتوں میں۔
٭ عثمان ابن ابو سودہ ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ السّٰابِقُوْنَ السّٰابِقُوْن سے مرادوہ لوگ ہیں جو دوسروں سے پہلے جہاد اور نماز کے لئے نکلتے ہیں ۔(مصنف عبدرزاق رجالہ رجال الصحیح)
عثمان ا بن سودہ رحمہ اللہ حضرات تابعین کے آئمہ اور مجاہدین میں سے ہیں اور ان کایہ مقولہ مشہور ہے کہ میں میں ایک لاکھ [سونے کے ]دیناروں کے عوض بھی ایک سال جہاد سے ناغہ کو پسند نہیں کرتا ۔ ( تہذیب الکمال)
٭ حضرت ابو ہریرہ رضٰی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت مجاہدین کو ایک دستے کو روانگی کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم رات ہی کو نکلیں یا صبح تک ٹھہرنے کی اجازت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم پسند نہیں کرتے کہ تم جنت کے باغات میں رات گزارو ۔ ( المستدرک السنن لکبریٰ بیہقی )
٭ حسن بن ابوالحسن سے روایت ہے کہ حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اس میں حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ بھی تھے سارا لشکر صبح کے وقت اروانہ ہو گیا حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے رک گئے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا جاو اپنے لشکر میں شامل ہو جاؤ تمہارے ساتھی تم سے جنت جانے میں ایک ماہ کی سبقت لے گئے ۔ حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا اے اﷲ کے رسول ! میرا ااردہ تو یہ تھا کہ میں آپ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھوں گا اور آپ سے دعائیں لوں گا اسطرح سے میں اپنے ساتھیوں پر [اجر وفضیلت میں ] سبقت لے جاوں گا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ تیرے ساتھی تجھ سے سبقت لے گئے جاؤ ان کے ساتھ شامل ہو جاؤ ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شام اﷲ کے راستے میں لگا دینا دینا اور دینا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور اسی طرح ایک صبح اﷲ کے راستے میں لگا دینا دینا اور دینا کی تمام چیزوں سے افضل ہے ۔ (السنن لسعید بن منصور )
٭ مسند احمد میں یہ روایت اس طرح سے ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذرضی اﷲ عنہ سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے ساتھی تم سے کتنا آگے نکل گئے انہوں نے عرض کیا وہ مجھ سے ایک صبح کی سبقت لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مشرق ومغرب کے درمیان جتنا فاصلہ ہے اس سے بھی زیادہ فضیلت انہوں نے تجھ پر پا لی ہے ۔ (مسند احمد)
٭ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضوور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲبن رواحہ کو جہاد کے لئے ایک لشکر میں روانہ فرمایا یہ روانگی جمعہ کے دن تھی چنانچہ لشکر روانہ ہو گیا ۔ حضرت عبداﷲ بن رواحہ نے سوچا کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جمعہ کی نماز پڑھ کر اپنے لشکر سے جا ملوں گا چنانچہ وہ رک گئے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز سے فارغ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہں دیکھا تو ارشاد فرمایا اگر تم زمین کے تمام خزانے خرچ کر ڈالو تب بھی اپنے ساتھیوں کی ایک صبح کی فضیلت کو نہیں پا سکتے ۔ (ترمذی )
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جلد بازی نہ کرنا ہر چیز میں بہتر ہے سوائے تین چیزوں کے [کہ ان میں جلدی بہتر ہے ]( 1 )جب جہاد کے لئے پکارا جائے تو تم سب سے پہلے نکلنے والے بنو ( 2 )جب نماز کے لئے اذان دی جائے تو تم سب سے پہلے نکلو (۳)جب جنازہ آجائے تو اس میں جلدی کرو ۔
ان تین کے علاوہ باقی کاموں میں جلد بازی نہ کر نا بہتر ہے ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دھرائی ۔ (شفاء الصدور)
[ اﷲ تعالیٰ ہم سب کوجہاد کا ایسا جذبہ اور ولولہ عطا فرمائے کہ ہمارے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جہاد میں نکلنا بلکہ سبقت کرنا آسان ہوجائے آمین ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے لئے سب کچھ چھوڑنا آسان ہو گیا تھا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی ا نہیں گوارہ نہیں تھی کیونکہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر سب کچھ قربان کردیا اور انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر سچا عشق تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلائے جانے والے تیروں کو اپنے سینے اور ہاتھوں سے رو کتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے مگر جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو انہیں جہاد کی خاطر آپ کی جدائی بھی سہنی پڑی ۔ بہت ممکن تھاکہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے لئے یہ بہت مشکل ثابت ہوتا کیونکہ وہ تو ،رات کے وقت جب آقا سے جدا ہوتے تھے انہیں صرف صبح کا انتظار ہوتا تھا کہ کب صبح ہو اور ہم حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کرنظروں اور دلوں کی پیاس بجھائیں مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کے سامنے جہاد کی حقیقت اور اہمیت بیان فرمائی تو ان کے لئے یہ امتحان بھی آسان ہوگیا اور انہوں نے جہاد کی خاطر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کو بھی برداشت کیا ۔ ایک بار نہیں باربار انہیں یہ برداشت کرنا پڑا س دوران اگر کوئی صحابی عشق و محبت سے مغلوب ہو کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے چند لمحے مزید حاصل کرنے کے لئے پیچھے رہ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تنبہیہ فرماتے ۔
مذکورہ بالا واقعات میں حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ عنہ کا واقعہ بھی ہے انہیں موتہ کی طرف روانگی سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اس لڑائی میں شہید ہوجائیں گے چنانچہ وہ اپنی زندگی کا آخری جمعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اداء کرنے کے لئے لشکر سے پیچھے رہ گئے اور ان کا ارادہ تھاکہ وہ اپنی تیز رفتار سواری پر اپنے لشکر سے جا ملیں گے مگر پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبہیہ فرمائی اور صبح روانہ ہونے والے لشکر کی فضیلت بیان فرمائی ۔ آنحضرت کی انہی تعلیمات اور ترغیب کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے جہاد کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور جہاد سے بڑھ کر کوئی چیز انہیں مرغوب و محبوب نہیں تھی ۔
آج بھی اگر مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو پڑھیں ، سمجھیں اور ان پر یقین کریں تو وہ بھی جذبہ جہاد کی نعمت سے سر شار ہو سکتے ہیں ۔]