جہاد کی حج پرافضلیت کا بیان

تیسرا باب
جہاد کی حج پرافضلیت کا بیان
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیاکہ سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ۔ پوچھا گیا اس کے بعد کونسا [عمل افضل ہے ] آپ نے فرمایا : جہاد فی سبیل اللہ [پھر ] پوچھا گیا کہ اس کے بعد کونسا [عمل افضل ہے ؟]آپ نے ارشاد فرمایا :حج مبرور۔ (بخاری ۔مسلم )

اسی طرح پہلے باب میں حضرت ماعزرضی اللہ عنہ والی روایت بھی بیان ہو چکی ہے ان دونوں روایات میں اس بات کی واضح تصریح ہے کہ جہاد کا رتبہ حج سے بڑھ کر ہے ۔ (و اللہ اعلم)

٭ آدم بن علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے فرمایا اللہ کے راستے [جہاد ] کا ایک سفر پچاس حج کرنے سے افضل ہے ۔(کتاب الجہاد لابن مبارک)

اس موقوف روایت کی سند [امام بخاری کی شرائط کے مطابق] صحیح ہے او ر اس طرح کی فضیلت کوئی صحابی اپنی طرف سے بیان نہیں فرماسکتے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں تم لوگ حج کیا کرو کیونکہ وہ نیک عمل ہے [اور ] اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور جہاداس سے بھی افضل ہے ۔ یہ روایت بھی موقوف ہے ۔ (مصنف ا بن ابی شیبہ ۔ کتاب الجہاد لابن مبارک )

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کو گھر بیٹھے شخص سے ستر گنازیادہ اجر ملتا ہے ۔ جبکہ حاجی کو مجاہد سے آدھا اور عمرہ کرنے والے کو حاجی سے آدھا اجر ملتا ہے ۔ (شفاالصدور )
ان تما م روایت سے معلوم ہوا کہ عام طور پر جہاد حج سے افضل عمل ہے لیکن اگر جہاد فرض کفایہ ہو تو اس صورت میں فرض حج جہاد سے افضل ہو گا لیکن اگر جہاد فرض عین ہو چکا ہو تو وہ فرض حج سے افضل ہے [یاد رہے کہ اگر کسی شخص کو حج کرنے کی استطاعت نصیب ہو تو زندگی میں ایک بار حج کرنا اس پر فرض ہوتا ہے یہی فرض حج کہلاتا ہے جن احادیث میں حج کو جہاد سے افضل بتایا گیا ہے ان میں فرض حج مراد ہے اور جہاد سے مراد فرض کفایہ جہاد ہے ]
٭ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے حج[ فرض ] اداء نہ کیا ہو اس کا ایک حج کرنا [جہاد کی ] دس جنگوں میں حصہ لینے سے افضل ہے اور جس نے حج [فرض] اداء کر لیا ہو اس کا ایک لڑائی میں حصہ لینا دس حج کر نے سے افضل ہے ۔(اطبرانی ۔المستدرک صحیح علی شرط البخاری)
٭ حضرت مکحول رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کے لئے اجازت مانگنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص حج کر چکا ہو اس کا ایک بار جہاد میں حصہ لینا چالیس حج کرنے سے افضل ہے ۔

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : فرض حج اداء کرنے کے بعد اللہ کے راستے کی ایک جنگ میں حصہ لینا ہزار حج کرنے سے افضل ہے ۔ (ابن عساکر )
مصنف فرماتے ہیں کہ احادیث میں اجر کے بارے میں جو اختلاف نظر آرہا ہے تو دو طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے ۔ پہلا یہ کہ جو حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہو اسی کا اعتبار کیا جائے ۔
اور دوسرا یہ کہ مجاہدین کو ان کی نیت اور حسن عمل کے اعتبار سے اجر ملتا ہے ۔ چنانچہ کسی کا ایک بار جہاد کرنا دس حج کرنے سے افضل ہے تو کسی کا جہاد چالیس حج کرنے سے افضل ہے ۔
[علی ہذالقیاس ]
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حالات کے اعتبار سے اجر میں کمی یا زیادتی ہوتی ہے یعنی جن حالات میں جہاد کی ضرورت بڑھ جاتی ہے ان میں اس کا اجر بھی بڑھ جاتا ہے
 
ایک ایمان افروز واقعہ

ضرار بن عمر ورحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک بارمیں طویل عرصے تک جہاد کرتا رہا[اور محاذوں پر مقیم رہا ] اچانک میرے دل میں حج اور بیت اللہ میں قیام کا شوق ابھرا تو میں نے حج کے ارادے سے سامان وغیرہ باندھ لیا اور اپنے مجاہد ساتھیوں کے پاس الوداعی ملاقات کے لئے آیا جب میں اسحاق بن ابی فروہ رحمہ اللہ سے ملنے لگا تو انہوں نے پوچھا کہ اے ضرار کہاں کا ارادہ ہے ۔؟ میں نے کہا حج کا ۔ انہوں نے فرمایا کیا جہاد کے بارے میں تمہارا جذبہ ٹھنڈا ہو گیا ہے ؟ میں نے کہا ہرگز نہیں ۔ لیکن میں طویل عرصے سے محاذ پر ہوں اور اب میرے دل میں حج کی محبت پیدا ہوئی ہے تو میں نے ارادہ کیا کہ میں بیت اللہ شریف کے پاس قیام کروں ۔ یہ سن کر انہوں نے کہا اے ضرار تم یہ نہ دیکھو کہ تمہیں کس عمل سے محبت ہے بلکہ یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کس چیز سے محبت فرماتا ہے ۔ اے ضرار کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا حج صرف ایک بار فرمایا مگر آپ زندگی کے آخر ی سانس تک جہاد میں لگے رہے اے ضرار بن عمرو اگر تم نے حج کر بھی لیا تو تمہیں صرف اپنے حج اور عمرے کا اجر ملے گا لیکن اگر تم اسلامی سرحدوں کی حفاظت ، مسلمانوں کے تحفظ کے لئے جہاد اور پہرے داری میں لگے رہے تو تمہیں ان لاکھوں لوگوں کے حج اور عمرے کا اجر ملے گا جو [امن کے ساتھ ] حج اور عمرہ اداء کریں گے ۔اور تمہیں حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے مسلمان مردوں اور عورتوں کی تعداد میں اجر ملے گا ۔ کیونکہ جس نے بعد میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کی مددو نصرت کی اسے پہلے اور بعد والے تمام مسلمانوں کی مددونصرت کا اجر ملے گا۔ اور تجھے دینا کے آغاز سے قیامت تک پیدا ہونے والے مشرکوں کی تعداد میں بھی اجر ملے گا کیونکہ جس نے بعد والے مشرکوں سے جہاد کیا اسے پہلے اور بعد والے تمام مشرکوں کی تعداد میں بھی اجر ملے گا اور تجھے تورات ، انجیل ،زبور اور قرآن مجید کے ایک ایک حرف کی تعداد میں نیکیاں ملیں گی کیونکہ تم اللہ تعالیٰ کے نور کے محافظ ہو اور اس لئے جہاد کرتے ہو تاکہ کوئی بھی اس نور کو نہ بجھا سکے ۔

اے ضرار بن عمرو ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ علماء اور مجاہدین سے بڑھ کر کوئی بھی درجہ نبوت کے قریب نہیں ہے ضرار بن عمرو فرماتے ہیں میں نے پوچھا اے اسحق اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا علماء کرام تو اس لئے [درجہ نبوت کے زیادہ قریب ہیں ]کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان احکام کو جو حضرات انبیاء علیھم السلام لے کر آئے ہیں اللہ کے بندوں پر اور اللہ کی زمین پر نافذ کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا راستہ بتاتے ہیں اور مجاہدین اس لئے [درجہ نبوت کے زیادہ قریب ہیں ] کہ وہ اس عقیدہ توحید کو جو انبیاء علیھم السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں بجھنے نہیں دیتے اور اللہ کے کلمے کو بلند کرنے اور کفر کو ذلیل وخوار کرنے کے لئے جہاد کرتے ہیں ۔ حضرت ضراررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ [یہ موثر بیان سن کر ] میں نے حج کا ارادہ منسوخ کردیا اور محاذوں پر ڈٹا رہا اور وہیں حضرت ضراررحمہ اللہ خالق حقیقی سے جا ملے ۔
 
[ اس یمان افروز واقعے پر غور فرمایئے ااور اس کے ایک ایک لفظ کو بار بار پڑھئے اس میں تو ایک مجاہد کے وقتی طور پر جہاد سے رخصت ہو کر حج پر جانے (کا ارادہ کرنے )کا ذکر ہے جبکہ آج کتنے مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے زندگی کا ایک لمحہ بھی جہاد میں نہیں گزارا اور نہ انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے کی مٹی کے چند ذرات نصیب ہوئے ہیں مگر انہوں نے چھوٹے چھوٹے سطحی کاموں کو دین سمجھ رکھا ہے اور وہ اپنی ساری زندگی اسی میں کھپادیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ دین کے سارے کام اہم ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے چھوڑنے کی ترغیب یا دعوت دی جا سکے مگر ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ جہاد میں بھی شرکت کی جا سکتی ہے جو کہ پورے دین کا محافظ اور پورے دین کا خلاصہ ہے آج اگر مسلمان اپنے وقت کو قیمتی بنائیں اور سال میں کم از کم چار مہینے جہاد کے لئے وقف کر دیں تو پوری دنیا کا نقشہ بدلا جا سکتا ہے اور کافروں سے اپنے خون کا حساب چکایا جا سکتا ہے ۔ اگر چار مہینے جہاد کے لئے فارغ کرنا مشکل ہو توکم از کم دو مہینے کا عرصہ جہاد کی محنت کے لئے ضرور دینا چاہئے ۔ اگر مسلمانوں نے یہ ترتیب بنا لی تو اپنی زندگیوں میں اور اپنے معاشرے میں عجیب وغریب تبدیلی محسوس کریں گے ۔ اور ان کے دوسرے دینی کاموں میں بھی بے حد برکت ہوگی اور ان کی صحتیں قابل رشک اور دل بادشاہوں سے زیادہ غنی ہو جائیں گے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاد کی بدولت ایمان کی حلاوت نصیب ہو گی اور گناہوں سے جان چھوٹ جائے گی ۔
اسوقت چونکہ عالمی سطح پر جہاد شروع ہوچکا ہے اس لئے جہاد کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کے لئے کثیر تعداد میں مجاہدین کی ضرورت ہے اور اس عظیم عالمی تحریک میں ہر طرح کی دینی اور دنیوی صلاحیت رکھنے والے شخص کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرے چونکہ آج ہم چاروں طرف سے گھر چکے ہیں اور ہمارا ہر فرد کافروں کے نشانے پر ہے اس لئے مسلمانوں پر فرض عین ہو چکا ہے کہ وہ کافروں کی طاقت کو توڑیں تاکہ اسلامی مقدسات اور مسلمانوں کا ہر فرد کافروں سے محفوظ ہو جائے ۔
یاد رکھئے ! جہاد کے فضائل کی ان احادیث میں یہ واضح پیغام موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ مجاہدین سے بے انتہا محبت فرماتا ہے اسی لئے تو ان کی ایک ایک لڑائی پر سو سو حج کرنے کا اجر عطاء فرماتا ہے۔ اب آپ خود سوچئے کہ کیا اللہ تعالیٰ ان پیارے مجاہدین کو میدان جہاد میں اکیلا چھوڑ دے گا ہر گز نہیں بلکہ اللہ تعالٰی ان مجاہدین کی مدد کے لئے کائنات کی ہر چیز کو مسخر فرمادیتا ہے چنانچہ مجاہدین کے سامنے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں کمزور اور بے بس نظر آتی ہیں کیونکہ آج تک دنیا میں کوئی بھی ایسی طاقت وجود میں نہیں آئی جو اللہ تعالیٰ کا مقابلہ کر سکے اور میدان جنگ میں تو اللہ تعالیٰ خود کافروں کو شکست دیتا ہے ۔
اے عظمت رفتہ کے متلاشیو!آج کافروں نے اپنی طاقت کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹ دیا ہے کہ نعوذبا اللہ کئی مسلمان بھی امریکہ اور دوسری نام نہاد طاقتوں کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگ گئے ہیں اور کئی مسلمان یہ بھی سوچتے ہیں کہ اب قیامت تک ان کا مقابلہ کرنا مسلمانوں کے بس میں نہیں ہے ۔
اللہ کے بندو! ایسی باتوں کا وہم اور خیال اپنے دل میں نہ آنے دو بلکہ جب دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ان کافر ملکوں کی طاقت کا شور مچائیں تو تم اللہ کی عظمت اور قوت مسلمانوں کو بتایا کرو اور مجاہدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے وعدوں کو یاد کیا کرو اللہ کی قسم ! کافروں کی یہ ساری طاقت مکڑی کے جالے سے زیادہ مضبوط نہیں ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم ایمان اور یقین کے ساتھ ڈٹے رہے تو غلبہ تمہارا ہوگا اور فتح تمہارے قدم چومے گی ]۔
 
Top